تھا خلافت کے وفاداروں میں اک ایسی نظیر۔ آئے گا تاریخ کے اوراق میں جسکا بیاں
مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ۔ ایک عہد ساز شخصیت
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 4
مکرم چوہدری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید کی پہاڑ جیسی شخصیت کی سیرت کا بیان یقیناً دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ثواب کے حصول اور آپکی بیحد شفقتوں کے شکریہ کے اظہار کےلئے نیز دعا کی غرض سے چند سطور لکھنے کی طرف توجہ مائل ہوئی ہے۔ بچپن سے ہی شعور کی آنکھ کھولتے آپکا نام جماعت کی خدمت کے حوالہ سے ذہن پر نقش ہو گیا تھا۔ ربوہ کے ایک ہی محلہ دارالصدر جنوبی میں رہتے ہوئے آپکو اکثر دیکھنے کا موقع ملتا رہتا۔ ہمیشہ آپکو عاجزی اور سادگی مگر متانت کیساتھ خدمت کے جذبہ سے سرشار دیکھا اورہمیشہ خلافت احمدیہ کا سلطان نصیر پایا ۔ چونکہ خاموشی کیساتھ کام کرتے رہتےاورکم گو بھی تھے اس لئے شروع میں آپکی سنجیدہ طبع شخصیت سے یہ تاثر ملتاتھا کہ گویا آ پ بہت سخت طبیعت کے مالک ہیں لیکن جوں جوں انکو قریب سے دیکھنے اور انکے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو پہلا تاثر ختم ہوتا گیا اور آپکو حقیقت میں بہت شفیق ،مہربان، ہمدرد، خلافت کا عاشق اور سلطان نصیر اور جماعت کا سچا درد رکھنے والا وجود پایا ۔ جماعت کے ہر شعبہ میں ہی آپکی انمٹ خدمات احمدیت کی تاریخ کا یادگار حصہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شغف ،باقاعدگی اور جدوجہد آپکی سیرت کا نمایاں پہلو ہے جسے بچپن سے دیکھا اور محسوس کیا۔ نہ صرف خود بلکہ اکثر دوسروں کو بھی یہ پاک نصیحت کرتے ۔جائزہ بھی لیتے اور دلجوئی بھی فرماتے اسکی ایک مثال اپنے مشاہدہ کی روشنی میں بیان کرتا ہوں۔ یہ دسمبر 2017ء کی بات ہے جب خاکسار اپنے بیٹے عزیزم ندیم احمد طاہر کی شادی کے سلسلہ میں ربوہ گیا۔ تحریک جدید کے دفاتر میں ایک کوارٹر (مہمان خانہ) میں رہائش تھی ۔مکرم چوہدری صاحب کو نمازوں کی ادائیگی کے لئے بہت اہتمام کرتے دیکھا۔ فجر کی نماز کے وقت شدید سردی اور بعض اوقات دھند بھی ہوتی لیکن چوہدری صاحب بڑی باقاعدگی کیساتھ وقت پرآتے۔ بیٹے کی شادی میں شرکت کے لئے سرگودھا گئے تووہاں کافی رات ہو گئی۔ آپ قدرے پہلے ربوہ واپس آگئے اور فرمایا کہ جب ربوہ پہنچیں تو گھر آئیں (بہو انکی عزیزہ ہیں) ہمیں آتے آتے دیر ہوگئی۔ ڈیڑھ بجے کے قریب پہنچے تو انتظار فرمارہے تھے آپ نے اور آپکی اہلیہ نے بہت پیار دیا۔ سلامی بھی دی۔ اتنی رات گئے ضیافت کا بھی انتظام کیا ہوا تھا اور خود پیش کر رہے تھے۔ کیا سعادت تھی جسکا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انکے لئے جنت الفردوس میں اعلیٰ ضیافت کا انتظام کرے۔ رات گئے آپکی دعائیں اور شفقتیں سمیٹتے ہوئے اپنی رہائیش گاہ واپس آگئے۔ اس ادھیڑعمر میں رات گئے سفر کی تھکان کے باوجود فجر کی نماز میں موجود تھے اور جب انہوں نے بیٹے کو بھی مسجد میں دیکھا تو بیحد خوش ہوئے اور اپنے عزیزان سے بھی ذکر کیا کہ شادی والی رات اور دیر سے واپسی کے باوجود اس نوجوان نے نماز کی پابندی کا خیال رکھا ہے۔ اس واقعہ سے جہاں آپکی عبادت سے بے انتہاء رغبت کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دوسروں کی عبادت پر آپ کس قدر خوش ہوتے تھے اور پھر جو آپکی کمال شفقت اور محبت ہے وہ تو عیاں ہے ہی۔ 5 دسمبر کی رات کو ہماری برازیل کے لئے واپسی تھی۔ باوجود سخت سردی اور رات کوتاخیر سےروانگی کے آپ بڑی ہی محبت سے اپنے گھر سے باہر تشریف لائے۔کافی دیر کھڑے رہے اور پھر محبت بھری پرسوز دعائوں کیساتھ رخصت کیا اور جب تک ہماری گاڑی روانہ نہیں ہو گئی انتظار کرتے رہے۔ کیا خبر تھی کہ یہ بزرگانہ رفاقت پھر نصیب نہ ہوگی ۔
جماعتی رقوم خرچ کرنے کے ضمن میں جہاں آپ بہت محتاط تھے وہاں اپنے وسیع تجربہ اور فراست کیساتھ جہاں ضرورت ہوتی وہاں فراخدل بھی تھے۔ اسکا اندازہ مجھے اس بات سے ہوا کہ آپ صد سالہ خلافت جوبلی کے صدر تھے۔ خاکسار نے بجٹ بنایا۔ آپ لندن میں تھے۔ خاکسار بھی گیا ہوا تھا تو انکو خود پیش کرنے کا موقع مل گیا تو ایک دو مدات میں خود اضافہ کر دیا کہ آپکی جماعت چھوٹی ہے اورزیادہ وسائل نہیں آپکو ضرورت ہوگی۔
جماعتی قواعد تو آپکو ازبر یاد رہتے۔ خود بھی ان پر عمل کرتے اور دوسروں کو بھی کرواتے۔ گویا اس میدان میں آپ ایک سند کا مقام رکھتے تھے ۔ دینی علم کیساتھ ساتھ کئی دوسرے علوم پر بھی دسترس حاصل تھی جن میں تاریخ اور جغرافیہ آپ کےپسندیدہ مضامین تھے۔ ملاقاتوں کے دوران اس کا بخوبی اندازہ ہوتا رہا ۔آ پ ملکوں کا ہی نہیں بلکہ مختلف شہروں کا بھی حدود اربعہ پوچھتے اور پھر اپنے دفتر میں رکھے ہوئے نقشے دکھا کر بھی سمجھاتے۔ پھر ہر ملک کےمقامی لوگوں کے رہن سہن اورعادات بھی دریافت کرتے جن میں بیشتر باتوں کا انکو پہلے سے ہی علم ہوتا تھا گو یا آپکی ذات دینی و دنیاوی علوم کا سمندر تھی جسکا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے ۔
؎سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
جلسہ سالانہ کے شعبہ کو مستحکم کرنے میں بھی آپکا کلیدی رول رہا۔ سالہا سال تک آپ افسر جلسہ سالانہ کے فرائض بڑی ہی خوش اسلوبی کیساتھ انجام دیتے رہے بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے ارشاد پر قادیان اور لندن کے جلسوں میں بھی جاکروہاں اس نظام کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش اور ارشادات کی روشنی میں مستحکم بنیادوں پر قائم کیا ۔ آپکو جماعت میں بڑے بڑے عہدوں پر کام کرنے کا موقع ملا لیکن تکبر اور غرور کوقریب تک بھی پھٹکنے نہ دیا۔ بڑی ہی سادگی کی زندگی گزاری۔ مکرم چوہدری وقار خانصاحب ایڈوکیٹ سے بات ہو رہی تھی۔ کہنے لگےکہ پھوپھا جان کے پاس ابھی تک بھی کئی زیر استعمال چیزیں شادی کے وقت کی تھیں۔
وقف کی روح میں ڈھلی آپکی مثالی زندگی کے مشاہدات و واقعات کا سلسلہ ایک بحر بیکراں ہے جسکی جھلکیاں ہمیں مضامین میں نظر آتی رہیں گی ۔ اللہ تعالیٰ آپ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ آپکے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ اپنے پیاروں میں جگہ دے اور آپکے جانے سے جو ایک بڑا خلاء پیدا ہوا ہے اسکو اپنے فضل سے جلد پر کر دے اور ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے ان جیسے سلطان نصیر پیدا فرماتا رہے۔ مکرم مبارک احمد ظفر صاحب نے آپکی وفات پر اپنے منظوم کلام میں سب کی ترجمانی میں جذبات اور احساسات کو کیا ہی خوبصورتی کے ساتھ پرویا ہے۔ یہ کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں بلکہ بالکل حقیقت کا عکس ہے ۔ چنانچہ انہی کے اشعار پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں
قاعدوں کا تھا محافظ ضابطوں کا پاسباں
تھا لب خاموش لیکن ایک بحر بیکراں
دین کی خدمت میں اپنی زندگی کر کے بسر
ایک خدمت گار دیرینہ گیا اگلے جہاں
سلسلے کا تھا وہ اک جرنیل بندہ حمید یاد
رکھی جائے گی خدمت کی اسکی داستاں
ذات میں اپنی وہ خود اک آپ ہی تاریخ تھا
ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں اسکی خدمت کے نشاں
تھا خلافت کے وفاداروں میں اک ایسی نظیر
آئے گا تاریخ کے اوراق میں جسکا بیاں
اس کے اوصاف حمیدہ اور بھی تو ہیں بہت
ذات میں اسکی چمکتے ہیں مثال کہکشاں
اے حمید اللہ گزاری خوب تو نے زندگی ہر
کسی کو اس قدر توفیق ملتی ہے کہاں
جنت الفردوس میں اعلیٰ مراتب ہوں نصیب
تجھ سے راضی ہو تیرا پیارا خدائے مہرباں
ڈھانپ لینا مغفرت کی خاص چادر میں اسے
عرض کرتا ہے ظفر تجھ سے خدائے کل جہاں
(وسیم احمد ظفر مبلغ انچارج جماعت احمدیہ ۔نمائندہ روزنامہ الفضل لندن آن لائن ۔ برازیل)