حضرت محمد اسماعیل صاحب ولد مکرم مولوی جمال الدین صاحب سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور، محمد اکبر صاحب ولد اخوند رحیم بخش صاحب قوم پٹھان اور کزئی سکنہ ڈیرہ غازی خان ، حضرت نظام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں اللہ دتہ صاحب سکنہ وچھو کی تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ کی روایات
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر ایک روایت حضرت محمد اسماعیل صاحب ولد مکرم مولوی جمال الدین صاحب سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور کی ہے، جنہوں نے 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی۔ پیدائشی احمدی تھے۔ کہتے ہیں مَیں قریباً بیس سال کا تھا کہ گورداسپور میں کرم دین جہلمی جودر اصل بھیں ضلع جہلم کا تھا، کے مقدمہ کا حکم سنایا جانا تھا۔ مَیں ایک دن پہلے اپنے گاؤں سے وہاں پہنچ گیا۔ وہاں پر ایک کوٹھی میں حضور علیہ السلام بھی اترے ہوئے تھے (یعنی وہاں ٹھہرے ہوئے تھے)۔ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ادھر کے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں پر میرے والد صاحب میاں جمال الدین صاحب، میاں امام دین صاحب سیکھوانی اور چودھری عبدالعزیز صاحب بھی موجود تھے۔ مَیں نے جا کر حضور کو پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔ حضور نے میری طرف دیکھا اور میرے والد میاں جمال الدین صاحب کی طرف اشارہ کر کے مسکرا کر فرمایا کہ میاں اسماعیل نے بھی آ کر ثواب میں سے حصہ لے لیا ہے۔ حضور کا معمولی اور ادنیٰ خدمت سے خوش ہو جانا اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو طبیعت میں سرور پیدا ہوتا ہے۔
(رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر4 روایت حضرت محمد اسماعیل صاحب صفحہ نمبر150 غیر مطبوعہ)
محمد اکبر صاحب ولد اخوند رحیم بخش صاحب قوم پٹھان اور کزئی سکنہ ڈیرہ غازی خان لکھتے ہیں کہ خاکسار کے والد صاحب کے چچا اخوند امیر بخش خان ضلع مظفر گڑھ میں سَب انسپکٹر پولیس تھے۔ خاکسار کے احمدی ہو جانے کے بعد وہ پنشن پا کر اپنے گھر ڈیرہ غازی خان آ گئے۔ اُن دنوں جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خان کے سرکردہ مولوی عزیز بخش صاحب بی۔ اے تھے جو مولوی محمد علی صاحب (جوبعد میں پیغامیوں کے امیر بنے تھے) کے بڑے بھائی تھے۔ وہ مولوی عزیز بخش صاحب اس وقت ڈیرہ غازی خان میں سرکاری ملازم تھے۔ جس محلے میں وہ رہتے تھے وہاں ایک مسجد تھی جو ویران پڑی رہتی تھی۔ جماعت احمدیہ نے اُسے مرمت وغیرہ کر کے آباد کیا اور اُس میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ ایک غیر احمدی مولوی فضل الحق نامی نے اس محلے میں آ کر کرایہ کے مکان میں رہائش اختیار کی اور محلے کے لوگوں کو اُکسایا (اُس وقت بھی وہی کام ہوتا تھا آج بھی وہی کام ہورہا ہے) کہ احمدیوں کو اس مسجد سے نکالنا چاہئے اور اس مسجد میں چند طلباء جمع کر کے اُن کو پڑھانا شروع کر دیا۔ (مدرسے کایہ جو نظریہ ہے اور مدرسے کے لڑکوں کے ذریعے جلوس نکالنا اور توڑ پھوڑ کرنا، یہ آج بھی اُسی طرح جاری ہے)۔ کہتے ہیں کہ طلباء کو جمع کر کے اُن کو پڑھانا شروع کر دیا اور نماز کے وقت وہ اپنی جماعت علیحدہ کرانے لگا اور مسجد میں وعظوں کا بھی سلسلہ شروع کر دیا۔ خاکسار کے رشتے کے چچا اخوند امیر بخش خان مذکور نے شہر ڈیرہ غازی خان کے سب انسپکٹر پولیس کو اُکسایا کہ وہ رپورٹ کرے کہ اس محلہ میں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں فساد کا اندیشہ ہے، فریقین کے سرکردوں سے ضمانت لی جانی چاہئے۔ (پہلے تو یہاں مسجد ویران پڑی تھی کوئی آتا نہیں تھاجب احمدیوں نے ٹھیک کر کے، مرمت کر کے آباد کرلی تو سارا فساد شروع ہو گیا)۔ کہتے ہیں کہ خاکسار نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور ایک عریضہ لکھا جس میں اپنے رشتے کے دادا صاحب مذکور کی مخالفت کا ذکر کیا اور لکھا کہ اس کو اس قدر عناد ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو خاکسار کو قتل کر دے۔ اور جماعت کے متعلق پولیس سے جو اس نے رپورٹ کرائی تھی اُس کا بھی ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضور نے ازراہِ ذرہ نوازی کمال شفقت سے خود اپنے مبارک ہاتھ سے اس عاجز کے عریضے کی پشت پر جواب رقم فرما کر وہ خط خاکسار کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیا۔ حضور کے جواب کا مفہوم یہ تھا (اصل الفاظ نہیں)۔ مفہوم یہ تھا کہ ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے اور پھر دعا فرمائی کہ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کا جلدنیک نتیجہ ظاہر ہو گا اور جماعت کو چاہئے کہ ضمانت ہرگز نہ دیوے۔ (اس مسجد کے لئے کسی قسم کی ضمانت نہیں دینی یا پارٹی بن کے ضمانت نہیں دینی)۔ اگر مسجد چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دی جاوے اور کسی احمدی کے مکان پر باجماعت نماز کا انتظام کر لیا جاوے۔ مگر جماعت کے کسی فرد کو ضمانت ہرگز نہیں دینی چاہئے۔ لکھتے ہیں کہ یہ خط خاکسار کے پاس محفوظ تھا۔ غالباً مولوی عزیز بخش صاحب نے خاکسار سے لے لیا تھا اور واپس نہ کیا اس لئے سامنے نہیں۔ (مفہوم انہوں نے یہ بیان کیا)۔ پھر کہتے ہیں کہ حضور کے اس جواب کے آنے کے تھوڑے دنوں کے بعد اس عاجز کے دادا مذکور بیمار ہو گئے اور چند دن بیمار رہ کر وہ فوت ہو گئے۔ جو رپورٹ سب انسپکٹر پولیس نے کی تھی وہ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس بمراد انتظام مناسب بھیج دی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ایک مسلمان ای۔ اے۔ سی کو مقرر فرمایا کہ وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مصالحت کرا دے۔ چنانچہ وہ کئی ماہ مسلسل کوشش کرتا رہا کہ مصالحت ہو جائے مگر کامیابی نہ ہوئی۔ (ان لوگوں سے تو فیصلہ نہیں ہوا لیکن خدا تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا وہ بھی عجیب ہے)۔ آخر دریائے سندھ کی طغیانی سے وہ حصہ شہر کا غرق ہو گیا۔ (دریائے سندھ میں سیلاب آیا اور شہر کا وہ حصہ ہی غرق ہو گیا جس میں مسجد تھی) اور مسجد گر گئی اور بعد ازاں سارا شہر ہی دریا بُرد ہو گیا اور نیا شہر آباد کیا گیا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنی نئی مسجد تعمیر کرائی اور جہاں تک خاکسار کا خیال ہے نئے شہر میں سب سے پہلے جو مسجد تعمیر کی گئی وہ احمدیوں کی تھی۔
(رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر3 روایت حضرت محمد اکبر صاحب صفحہ نمبر126تا128غیر مطبوعہ)
حضرت نظام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں اللہ دتہ صاحب سکنہ وچھو کی تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ لکھتے ہیں کہ نومبر 1904ء کا واقعہ ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیالکوٹ تشریف لائے تھے۔ بندہ بھی حضور ؑکی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ غالباً نمازِ ظہر کے بعد مسجد حکیم حسام الدین صاحب مرحوم میں حضرت نے مندرجہ ذیل نصیحت احبابِ جماعت کو فرمائی تھی۔ فرمایا کہ لوگ تمہیں جوش دلانے کے لئے مجھے گالیاں دیتے ہیں مگر تمہیں چاہئے کہ گالیاں سُن کر ہرگز جوش میں نہ آؤ اور جواباً گالیاں نہ دو۔ اگر تم اُنہیں جواباً گالیاں دو گے تو وہ پھر مجھے گالیاں دیں گے اور یہ گالیاں اُن کی طرف سے نہیں ہوں گی بلکہ تمہاری طرف سے ہوں گی۔ بلکہ تمہیں چاہئے کہ گالیاں سُن کر اُن کو دعائیں دو اور اُن سے محبت اور سلوک کرو تا کہ وہ تمہارے زیادہ نزدیک ہوں۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ذکر فرمایا کہ جب کفار اُن کو گالیاں نکالتے تھے اور طرح طرح کی تکالیف دیتے تھے تو وہ اس کے عوض اُن سے نیکی اور ہمدردی کا سلوک کرتے تھے۔ ایسا کرنے سے بہت سے کفار اُن کے حسنِ سلوک کو دیکھ کر اسلام میں داخل ہوئے۔ پس تمہیں بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنا چاہئے۔ کہتے ہیں یہ الفاظ جو مَیں نے بیان کئے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل الفاظ نہیں ہیں۔ مفہوم یہی ہے۔ انہوں نے اپنے الفاظ میں اُس کا خلاصہ یہ بیان کیا ہے۔
(ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3روایت حضرت نظام الدین صاحب صفحہ نمبر 162 غیر مطبوعہ) (خطبہ جمعہ 8؍ اپریل 2011ء)