اسلامی معاشرے کی تکمیل میں باہمی میل اور ملاقات، ہمدردی و اخوت کو بہت بڑا دخل ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
اِنَّمَا الۡمُوْمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ
(سورۃ الحجرات:11)
کہ تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اور رُحَمَآ ءُ بَیۡنَھُمۡ کی صفت کے مطابق وہ آپس میں رحم کا پیکر ہوتے ہیں۔ پس انہیں آپس میں ایسے روابط رکھنے چاہیں جن سے برائیوں کا سدِّ باب ہو سکے اور نیکی کی اشاعت ہو۔ اور ایک دوسرے کو نفع پہنچایا جا سکے۔
پس اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کے رسول ﷺ کا خادم اور مومنون کا خیر خواہ بننے کے لیےضروری ہے کہ اسلام نے تمدنی زندگی گزارنے کے لیے جو اعلیٰ درجہ کی ہدایات دی ہیں ان پر عمل پیرا ہو کر آپس میں پیار و محبت کی فضا قا ئم کی جائےاور روحانی اور معاشرتی برائیوں سے بچا جائے۔اس حوالہ سے چند امور درج ذیل ہیں:
1۔ملاقات کی ابتداء السلام علیکم کے الفاظ سے کی جانی چاہئے۔ نیز سلام کرنے میں سبقت اختیار کرنی چاہئے۔
2۔ آپس میں خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرنی چاہئے کیونکہ انسانی جذبات ایک دوسرے پر نہایت تیزی سے اثر اندازہوتے ہیں۔ اس لئے بشاش صورت دیکھ کر خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے۔ کشادہ چہرے کے ساتھ پیش آنا نیکی ہے۔
3۔ حضرت ابوذر ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: لَا تَحۡقِرَنَّ مِنَ الْمَعۡرُوفِ شَیۡئاً وَ لَوْ اَنۡ تَلۡقٰی اَخَاکَ بِوَجۡہٍ طَلِیۡقٍ (مسلم)
کہ تم معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی نیکی ہے۔ حضرت علی ؓ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق فرماتے تھے کہ آپﷺ خندہ جبیں ،نرم خُو اور مہربان طبع تھے۔
(شمائل ترمذی)
4۔خدا تعالیٰ کی محبت اور رضا حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے ملاقات کرنی چاہئے اور انس و محبت سے پیش آنا چاہئےکیونکہ خدا تعالیٰ ایسے اشخاص کو اپنا دوست رکھتا ہے جو اس کے جلال و محبت کی خاطر آپس میں میل جول رکھتے ہیں۔
5۔ملاقات کے لئے ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
آنحضرتﷺحسنِ اخلاق کی معراج پر تھے۔ آپﷺ کے حسنِ اخلاق کی گواہی قرآن مجید میں ان الفاظ سے دی گئی ہے:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ
(سورۃ القلم:5)
یعنی آپ ﷺ اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر فائز ہیں۔ آپ ﷺ خود فرماتے تھے۔
بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَاِرمَ الۡأخۡلَاقِ یعنی میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں۔
خوش خلقی سے پیش آنا بہت بڑی نیکی ہےاور جنت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ حضور ﷺ فرماتے تھےکہ ’’میں جنت کی بلندی میں اس شخص کے لئے ایک گھر کا ذمہ لیتا ہوں جوا پنے خُلق کو خوش نما بنائے۔‘‘
(ابوداؤد)
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا کہ ’’مومن خوش خلقی سے روز ہ دار، قیام کرنے والے کا درجہ حاصل کر لیتا۔‘‘
(ابوداؤد)
آنحضرت ﷺملتے وقت ہمیشہ پہلےخود سلام کیا کرتے۔ آپﷺ نہایت خوش اخلاق تھے۔اگر کوئی شخص جھک کرآپؐ کے کان میں کچھ بات کہتا تو اس وقت تک اس کی طرف سے رُخ نہ پھیرتے جب تک وہ خود منہ نہ ہٹا لے۔
(ابو داؤد)
حضرت جریر بن عبد اللہؓ وہ خوش نصیب صحابی تھے جن کو دیکھ کر آپؐ محبت سے مسکرا دیا کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہوا ہوں اور آپﷺ نے مسکرا نہ دیا ہو۔
(صحیح مسلم مناقب جریر بن عبد اللہ)
5۔ ملاقات کے وقت مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی سنت نبویﷺ ہے۔
حضور اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ جب کسی سے ہاتھ ملاتے تو جب تک وہ خود نہ چھوڑ دے اس کا ہاتھ نہ چھوڑتے تھے۔
(ابو داؤد، ترمذی)
حضرت ابن مسعود ؓنے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے تشہد سکھایا اور میرا ہاتھ آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔ اور حضرت کعب بن مالکؓ نے کہا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول کریم ﷺ تشریف فرما ہیں۔ طلحہ بن عبید اللہؓ میری طرف جلدی سےاٹھ کر آئے یہاں تک کہ مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اہل یمن آئے تو آنحضرت ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا کہ تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مصافحہ کو رواج دیا تھا۔
(ابو داؤد کتاب الادب باب فی المصافحہ)
ایک دفعہ حضوراکرمﷺ نے حضرت ابو ذرؓ صحابی کو بلا بھیجا۔وہ گھر نہ ملے۔تھوڑی دیرکے بعدوہ حاضر ہوئے تو آپﷺ لیٹے ہوئے تھے۔ان کو دیکھ کر آپﷺاُٹھ کھڑے ہوئے اوراپنے سینہ سے لگا لیا۔
(ابو داؤد کتاب الادب باب المعانقہ)
حضرت جعفر ؓ جب حبشہ سے واپس آئے تو آپ ﷺنے ان کو گلے لگایا اوران کی پیشانی کو بوسہ دیا۔
(ابو داؤد)
6۔ بزرگوں کی ملاقات کے لئےجائیں تو ادب کے ساتھ ان کو سلام کریں ۔اور ان کی گفتگو کا بھی ادب کے ساتھ جواب دیں۔
7۔ ناراضگی کی وجہ سے تین دن سے زیادہ ترک کلام و ملاقات نہیں کرنی چاہیئے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہےکہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن رات سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔لیکن نافرمانی کرنے والے شخص سے ملاقات ترک کرنا جائز ہے۔
میل ملاقات انسانی معاشرہ کی ایک شاخ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ افراد کا تعلق ا ٓپس میں قائم رہنے سے ہی اس معاشرہ کی سالمیت برقرار رہ سکتی ہے۔پس ہمیں چاہیئے کہ حضرت ابن مسعود ؓ کے اس قول کے مطابق عمل کریں جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھا کرو کہ تمہارا دین مجروح نہ ہونے پائے۔
(صحیح بخاری جلد سوم صفحہ401)
اپنے روز مرّہ کے میل جول میں ملاقات کے ان آداب کو ہمیشہ مدِّ نظر رکھیں اور اسلامی تعلیم پر عمل کریں۔ اور خدا کی خوشنودی کی خاطر آپس میں ملاقات کریں تا خدا تعالیٰ کی دائمی محبت کے وارث ٹھہریں۔(آمین)