• 30 اپریل, 2024

روایات حضرت منشی عبداللہ صاحب احمدی محلہ اسلام آباد، شہر سیالکوٹ۔ حضرت محمد یحيٰ صاحب ولد مولوی انوار حسین صاحب ساکن شاہ آباد ضلع ہردوئی:

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر حضرت منشی عبداللہ صاحب احمدی محلہ اسلام آباد، شہر سیالکوٹ۔ ان کی بیعت 4؍نومبر 1902ء کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لائے تھے تو انہوں نے بیعت کی تھی۔ تیرہ سال کی عمر تھی۔ اور ایک خواب کے ذریعے انہوں نے بیعت کی۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی سے انہوں نے تعلیم بھی حاصل کی۔ یہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں اپنا دعویٰ کرنے کے بعد 4؍نومبر 1902ء کو واپس قادیان تشریف لے گئے تو حضور نے ان لوگوں کے نام طلب فرمائے جنہوں نے سیالکوٹ کے احمدیوں کو تکالیف دی تھیں۔ جب نام تحریر کئے گئے تو اُس کے چند دن بعد سیالکوٹ میں بہت غلیظ طاعون پھوٹ پڑی تو خدا تعالیٰ قادر و قہار نے چُن چُن کر اُن لوگوں کے خاندانوں کو تباہ کر دیا۔ فَاعْتَبِرُوْا یَاُولِی الْاَبْصَار۔

پھر ان ہی ایام میں طاعون کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مخالف تھا جب اس کو طاعون ہوئی تو اس نے حکیم حسام الدین صاحب کو بلایا۔ آپ نے آ کر اُس کو صرف اتنا کہا کہ یہ کالا ناگ ہے اس کے نزدیک مت جاؤ۔ جب وہ قریب المرگ ہوا تو بیوی بوجہ محبت اُس سے چمٹ گئی۔ اور درحقیقت وہ عورت موت کو مول لے رہی تھی۔ اسی طرح اُس کی بچی نے کیا اور اس طرح سے اُس کے خاندان کے اُنیس افراد ہلاک ہو گئے۔

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضور سے دریافت کیا کہ حضور کیا کبھی آپ کو بھی ریا پیدا ہوا ہے، (دکھاوا، ریا پیدا ہوا ہے) حضور نے جواب دیا کہ اگر ایک آدمی جنگل میں مویشیوں کے درمیان نماز پڑھ رہا ہو تو کیا اُس کے دل میں کبھی ریا پیدا ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا میرا تو یہ حال ہے۔

(رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر3 روایت حضرت منشی عبد اللہ صاحب صفحہ نمبر154تا155غیر مطبوعہ)

حضرت محمد یحيٰ صاحب ولد مولوی انوار حسین صاحب ساکن شاہ آباد ضلع ہردوئی۔ ان کی پیدائش 1894ء کی ہے۔ 1904ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب مرحوم مولوی انوار حسین خان صاحب سکنہ شاہ آباد ضلع ہردوئی، یوپی نے 1889ء میں لدھیانہ آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور اس سے کچھ عرصہ قبل سے ان کی خط و کتابت تھی اور وہ بیعت کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لینے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو قادیان آنے سے روکا ہوا تھا۔ جب حضور لدھیانہ اس غرض سے تشریف لے چلے تو والدصاحب کو اطلاع کر دی اور والد صاحب مرحوم اس کی تعمیل میں لدھیانہ آ کر فیض یاب ہوئے۔ والد صاحب دیوبند کے دستار بند مولوی تھے۔ (باقاعدہ دیوبند کے سرٹیفائیڈ مولوی تھے)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کا یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے کہ مَیں پہلی مرتبہ قادیان دارالامان 1892ء میں آیا تھا اور اس وقت مہمان گول کمرے میں ٹھہرا کرتے تھے۔ مَیں بھی وہیں ٹھہرا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہمارے ساتھ ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور کھانا کھاتے کھاتے اُٹھ کر اندر تشریف لے جاتے اور کبھی چٹنی کبھی اچار لے کر آتے کہ آپ کو مرغوب ہو گا۔ غرضیکہ کھانا خود بہت کم کھاتے اور مہمانوں کی خاطر زیادہ کیا کرتے تھے۔ مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کی کثرت دیکھ کر ایک مرتبہ والد صاحب مرحوم فرمانے لگے (یہ بعد کی بات ہے جب ان کے والد قادیان آئے اور دیکھا کہ مسجد اقصیٰ نمازیوں سے بھری ہوئی ہے تو کہتے ہیں) کہ پہلی مرتبہ جب مَیں قادیان آیا تھا تو جمعہ کے دن نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ تشریف لے چلے۔ رستے میں مولوی شادی کشمیری ملا۔ اُس کو نماز پڑھنے کے لئے ساتھ لے لیا اور میاں جان محمد صاحب کو ساتھ لے لیا۔ آگے چل کے کسی بچے کی میّت مل گئی تو آپ نے جان محمد کو نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے فرمایا اور خود اُن کے پیچھے نماز ادا فرمائی۔ جب مسجد اقصیٰ پہنچے اور نماز جمعہ پڑھی تو اُس وقت کل چھ نفوس تھے اور لکھتے ہیں کہ اب باوجود مسجد اتنی وسیع ہوجانے کے ارد گرد کی چھتیں بھری ہوتی ہیں۔ میرے لئے یہ بھی معجزہ ہے۔

پھر بچوں پہ شفقت کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کسی کام کی ضرورت پیش آئی تو ہم چھوٹے بچے بورڈنگ تعلیم الاسلام کے جو اُن دنوں مدرسہ احمدیہ میں ہوا کرتے تھے، کام کرنے کی خاطر شوق سے آ جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم بچوں کے متعلق دریافت فرماتے کہ یہ کون ہے اور وہ کون ہے؟ خاکسار کے متعلق ایک مرتبہ دریافت فرمایا تو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ انوار حسین صاحب آموں والے کے لڑکے ہیں۔ فرمانے لگے اسے کہو یہ بیٹھ جائے، کام نہ کرے۔ یہ ابھی چھوٹا ہے۔ مجھے بٹھا دیا اور دوسرے لڑکے کام کرتے رہے۔ ایک مرتبہ سخت سردی پڑی جس سے ڈھاب کا پانی بھی جمنے لگا۔ (جو وہاں ڈھاب ہے اُس کا پانی ان ایام میں جم گیا۔) کہتے ہیں کہ مَیں گرم علاقے کا رہنے والا ہونے کی وجہ سے بہت سردی محسوس کرتا تھا۔ (وہاں کے رہنے والے بھی محسوس کرتے تھے اور جو گرم علاقے سے آئے ہوں تو وہ انہیں بہت زیادہ لگتی ہے)۔ اور بورڈنگ میں قریباً سب لڑکوں سے عمر میں بھی بہت چھوٹا تھا تو فجر کی نماز کے لئے جانے میں سردی محسوس کرتا تھا۔ ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔ اے سابق مہر سنگھ صاحب نے حضور سے ذکر کیا ہو گا۔ تو آ کر مجھے کہا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ اس چھوٹے بچے کو سردی میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ نمازِ فجر کے لئے مسجدنہ لے جایا کرو۔ اُس دن سے مجھے فجر کی نماز تمام سردی بورڈنگ میں ادا کرنے کا حکم مل گیا۔

یہ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم حضور کے ہمراہ نہر تک گئے۔ رمضان کا مہینہ تھا پیاس لگی ہوئی تھی، حضور کو معلوم ہو گیا کہ بعض چھوٹے بچوں کا روزہ ہے تو حضور نے فرمایا ان کا روزہ تڑوا دو۔ بچوں کا روزہ نہیں ہوتا۔ اس حکم پر ہم نے نہر سے خوب پانی پی کر پیاس بجھائی اور حضور سے رخصت ہو کر قادیان واپس چلے آئے۔

مہمانوں کے جذبات کا احساس۔ باہر سے اکثر احباب تشریف لاتے تھے اور خوردہ کے خواہشمند ہوتے تھے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستر خوان کا جوبچا ہوا کھانا ہوتا تھا اس کے خواہشمند ہوتے تھے) چونکہ بورڈران میں سے مَیں چھوٹا تھا اور اندر جایا کرتا تھا۔ احباب کے ذکر کرنے پر خوردہ لانے پر تیار ہو جایا کرتا تھا۔ کھانے کا وقت ہوا تو ام المومنینؓ سے عرض کرنے پر خوردہ مل گیا۔ (اکثر یہ ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت ہوا تو مَیں جا کے حضرت اماں جان سے عرض کرتا تھا تو وہ دے دیا کرتی تھیں)۔ اور کھانے کا وقت نہیں ہوتا تھا تو تب بھی میں جا کے لوگوں کی خواہش کا اظہار کر دیا کرتا تھا تو ازراہِ شفقت روٹی منگوا کر اس میں سے ایک لقمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے لیا کرتے تھے اور بقیہ دے دیا کرتے تھے جو مَیں خوشی خوشی لا کر اُن دوستوں کو دے دیا کرتا تھا جنہوں نے مانگا ہوتا تھا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ جلد3 صفحہ134تا 138)

حضور کی نماز میں رِقّت کو انہوں نے کس طرح دیکھا۔ لکھتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا جنازہ حضور نے خود پڑھایا تھا۔ نماز بہت لمبی پڑھائی۔ حتیٰ کہ مَیں کھڑے کھڑے تھک گیا۔ نماز سے کچھ قبل ایک ٹکڑا بادل کا آ گیا اور گرد اُڑنے لگی۔ (ہوا بھی چلنے لگی، مٹی اڑنے لگی) اور نماز کے سارے وقت میں یعنی ابتدائی تکبیر سے لے کر سلام پھیرنے تک خوب موٹے موٹے بوند کے قطرے بارش کے پڑتے رہے۔ اور سلام پھیرنے پر بارش ختم ہو گئی۔ اور تھوڑی دیر بعد آسمان کھل گیا۔

(رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر3 روایت حضرت محمد یحییٰ خان صاحب صفحہ نمبر134تا138غیر مطبوعہ)

اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی اور ہمارے اندر بھی احمدیت کی حقیقی روح ہمیشہ قائم فرماتا چلا جائے۔ ہمیں بھی اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دے۔ ہمارے ایمان اور ایقان میں اضافہ ہو۔ ہر آنے والا دن ہمارے اندر بھی اور ہماری نسلوں میں بھی احمدیت کی محبت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق اور قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف ہمیشہ توجہ بڑ ھاتا چلا جائے۔

(خطبہ جمعہ 8؍ اپریل 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مارچ 2021