• 27 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول
آپ کی رؤیا و کشوف کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کا ایک بہت اعلیٰ مقام بیان فرمایا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو پانے کا ذریعہ آنحضرت ﷺ کو قرار دیا۔ فرمایا:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ

(آل عمران: 32)

یعنی اگر تم اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا ذریعہ محبت رسولﷺ ہے اس نسخہ پر عمل کر کے ہزاروں لوگوں نے خدا کی محبت پائی ہے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بہت بلند مقام ہے۔ آپ علیہ السلام اپنے مقام و مرتبہ کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیّد و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22 صفحہ64)

ایک اور جگہ آپنے فرمایا:
’’حقیقی طور پر مصداق ان سب عنایات کا آنحضرت ﷺ ہیں۔۔۔اور اس بات کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر یک مدح و ثناء جو کسی مومن کے الہامات میں کی جائے وہ حقیقی طور پر آنحضرت ﷺ کی مدح ہوتی ہے اور وہ مومن بقدر اپنی متابعت کے اس مدح سے حصّہ حاصل کرتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ580-581 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

مگر حقیقی متابعت میں عشق کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مزدور کا اپنے کام سے عشق نہ ہو، اس میں جذبہ نہ ہو، تو اس کا کام بھی اتنا اعلیٰ نہیں ہو گا۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنے کام سے عشق رکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عشق اس کے کام کو اعلیٰ کر دیتا ہے۔ معمول کے مطابق، اگر کسی شخص کو اپنے کام سے محبت ہویا کسی شعبہ سے محبت ہو، تو دیکھا گیا ہے کہ اسی کے سپرد اس کام کو کر دیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضرت ﷺ سے عشق انتہا کے درجہ تک پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو حضور ﷺ کے دین کی تجدید کے لئے چنا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’اس زمانہ میں بھی جو کچھ خدا تعالیٰ کا فیض اور فضل نازل ہو رہا ہے، وہ آپ ﷺ ہی کی اطاعت اور آپ ﷺ ہی کی اتباع سے ملتا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا، جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں۔ جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے۔

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ

(آل عمران:32)

اور خدا تعالیٰ کے اس دعویٰ کی عملی اور زندہ دلیل میں ہوں۔ ان نشانات کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کے محبوبوں اور ولیوں کے قرآن شریف میں مقرر ہیں مجھے شناخت کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل 132)

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرما دیا ہے کہ عشقِ رسول کے نتیجہ میں مَیں تم سے پیار کروں گا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ محبت الٰہی کی کیا علامات ہیں؟ جو شخص اللہ سے محبت کرتا ہو گا، اسے بلا شبہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ہونے کی خواہش محسوس ہوتی ہو گی۔ کہ کاش میں اس زمانے میں ہوتا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پر وحی نازل کی اور دنیا پر ایک انقلاب برپا کر دیا۔ کتنے خوش قسمت وہ صحابی ہیں جنہوں نے اس وقت کو دیکھا اور حضور ﷺ کو مانا اور ان سے سیکھا اور اس کامل رسول کی اور اس کے خدا کی رضا کو پایا۔

ہر سلیم عقل یہ ماننے پر مجبور رہے گی کہ اِس شخص نے اللہ تعالیٰ کے پیار کو پایا ہے۔ اس بات کا صریح ثبوت ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواب سے ملتا ہے جو آپ نے 1886 میں دیکھی:
’’خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا

ھٰذا رجل یحب رسول اللّٰہ

یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبتِ رسول ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ598 حاشیہ در حاشیہ نمبر3، تذکرہ صفحہ 34)

درج ذیل واقعہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرت آنحضرت ﷺ کی پاک ذات کی نسبت کیسے جاگتی تھی۔ آپ کی غیرت آنحضرت ﷺ کے پاک اسوہ پر کسی حملہ کو برداشت نہ کر پاتی۔ ایک دفعہ کی بات ہے کہ حضور علیہ السلام فیروزپور سے قادیان آرہے تھے۔ حضور علیہ السلام پلیٹ فارم کے قریب ہی نماز کی تیاری میں مصروف تھے۔ آپ وضو فرما رہے تھے کہ لیکھرام، جو آپ کا سخت دشمن تھا اور آنحضرت ﷺ پر حملے کرتا تھا، آپ کی طرف بڑھا اور سلام کیا۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ:
اس نے ہاتھ جوڑ کر آریوں کے طریق پر حضرت اقدس کو سلام کیا مگر حضرت نے یونہی سر اٹھا کر سرسری طور پر دیکھا اور وضو کرنے میں مصروف رہے۔ اس نے سمجھا شاید سنا نہیں۔ اس نے پھر (سلام) کیا۔ حضرت بدستور استغراق میں رہے۔ وہ کچھ دیر ٹھہر کر چلا گیا۔ کسی نے کہا کہ لیکھرام سلام کرتا تھا۔ فرمایا۔ اس نے آنحضرت ﷺ کی بڑی توہین کی ہے۔ میرے ایمان کے خلاف ہے کہ میں اس کا سلام لوں۔ آنحضرت ﷺ کی پاک ذات پر تو حملے کرتا ہے اور مجھ کو سلام کرنے آیا ہے۔

(حیاتِ طیبہ صفحہ211)

یہ آپ کی غیرت کا ایک نمونہ ہے جو آپ میں آنحضرت ﷺ کی محبت کی وجہ سے جاگی۔ اگر جاگی تو اس لئے نہیں کہ کسی نے آپ کو برا بھلا کہا۔ نہیں۔ جاگی تو صرف اس لئے کہ کسی نے آپ کے محبوب کی گستاخی کی۔ آپ نے کتابیں بھر دیں اور اشتہارات شائع کیے اور نظمیں لکھیں اور کھول کھول کر دنیا کے لئے ثابت کر دیا کہ آنحضرت ﷺ کی گستاخی کرنا ناممکن ہے۔ آپ کی پاک زندگی پر کوئی معقول شخص ملامت نہیں کر سکتا۔ آپ علیہ السلام نے تمام مخالفینِ اسلام کے ہاتھ ہر قسم کے ہتھیار سے خالی کر دیے۔

آپ کی اس تعجب انگیز محبت نے آسمانوں سے قبولیت پائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور دنیا کو اطلاع دی کہ ہم اس کے عشق کو قبول کرتے ہیں۔

آپ علیہ السلام کو پہلا کشف 1864یا 1865 میں ہوا جب آپ ابھی صرف انتیس تیس سال کے تھے۔ آپ اس کشف کو اپنے لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں:
’’اوائل ایام جوانی میں ایک رات میں نے (رؤیا میں) دیکھا کہ میں ایک عالیشان مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کا ذکر اور چرچا ہو رہا ہے۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور ﷺ کہاں تشریف فرما ہیں؟ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کے اس کے اندر چلا گیا اور جب میں حضورؐ کی خدمت میں پہنچا تو حضور ﷺ بہت خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپ ﷺ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپ ﷺ کی پر شفقت و پر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپ ﷺ کی محبت نے مجھے فریفۃ کرلیا اور آپ ﷺ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس وقت آپ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اے احمد! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی۔ میں نے عرض کیا حضور ﷺ! یہ میری ایک تصنیف ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا اس کتاب کا کیا نام ہے۔ تب میں نے حیران ہوکر کتاب کو دوبارہ دیکھا۔ تو اسے اس کتاب کے مشابہ پایا جو میرے کتاب خانہ میں تھی اور جس کا نام قطبی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کا نام قطبی ہے۔ فرمایا اپنی یہ کتاب قطبی مجھے دکھا۔ جب حضور ﷺ نے اسے لیا تو حضور ﷺ کا مبارک ہاتھ لگتے ہی وہ ایک لطیف پھل بن گیا۔ جو دیکھنے والوں کے لئے پسند یدہ تھا۔ جب حضورﷺ نے اسے چیرا۔ جیسے پھلوں کو چیرتے ہیں تو اس سے بہتے پانی کی طرح مصفّا شہد نکلا۔ اور میں نے شہد کی طراوت آنحضرت ﷺ کے داہنے ہاتھ پر انگلیوں سے کہنیوں تک دیکھی اور شہد حضورﷺ کے ہاتھ سے ٹپک رہا تھا۔ اور آنحضرتﷺ گویا مجھے اس لئے وہ دکھا رہے ہیں تا مجھے تعجب میں ڈالیں۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ دروازے کی چوکھٹ کے پاس ایک مردہ پڑا ہے جس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ نے اس پھل کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور یہی مقدر ہے کہ نبی کریمﷺ اس کو زندگی عطا کریں۔ میں اسی خیال میں تھا کہ دیکھا کہ اچانک وہ مردہ زندہ ہو کر دوڑتا ہوا میرے پاس آگیا اور میرے پیچھے کھڑا ہو گیا مگر اس میں کچھ کمزوری تھی گویا وہ بھوکا تھا تب نبی کریم ﷺ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس پھل کے ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا ان میں سے حضورؐ نے خود کھایا اور باقی سب مجھے دے دئے ان سب ٹکڑوں سے شہد بہہ رہا تھا۔اور فرمایا۔ اے احمد اِس مردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اسے کھا کر قوت پائے میں نے دیا تو اس نے حریصوں کی طرح اسی جگہ ہی اسے کھانا شروع کر دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی کرسی اونچی ہو گئی ہے حتیٰ کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ ﷺ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج اور چاند کی شعاعیں پڑ رہی ہیں میں آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور ذوق اور وجد کی وجہ سے میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر میں بیدار ہو گیا اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا۔ اور تمہیں کیا پتہ شاید یہ وقت قریب ہو۔ اس لئے تم اس کے منتظر رہو۔ اور اس رؤیا میں آنحضرتﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اپنے پاک کلام سے اپنے انوار سے اور اپنے (باغِ مقدس کے) پھلوں کے ہدیہ سے میری تربیت فرمائی تھی۔‘‘

(ترجمہ از آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 548، 549، تذکرہ صفحہ 1-3۔ حاشیہ)

یہ رؤیا براہین احمدیہ میں بھی مذکور ہے مگر چونکہ اس کے شروع کا اور آخر کا حصہ اس تفصیل سے آئینہ کمالاتِ اسلام میں درج ہے اس لئے وہاں سے لیا گیا ہے۔

حضور علیہ السلام نے ایک کشف تقریباً 1876 میں دیکھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ نمازِ مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبتِ حس جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجہیہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آ گئے یعنی جناب پیغمبرِ خدا ﷺ و حضرت علیؓ و حَسَنَین ؓو فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہم اجمعین (براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 598-599 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) ۔۔۔ پھر۔۔۔ میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھے ایک کتاب دکھاتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی تفسیر ہے جس کو میں نے تالیف کیا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو دوں تب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے مگر آپ ﷺ بولتے نہیں تھے گو یا آپ ﷺ میرے بعض غموں کی وجہ سے غمگین تھے، اور میں نے جب آپ ﷺ کو دیکھا تو آپ ﷺ کا وہی چہرہ تھا جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ آپ ﷺ کے نور سے گھر روشن ہو گیا۔ پس پاک ہے وہ خدا جو نور اور نورانی وجودوں کا خالق ہے۔‘‘

(آیئنہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ550، تذکرہ صفحہ16-17 حاشیہ)

1882 میں آپ نے یہ خواب دیکھی:
’’اور ایک رات میں کچھ لکھ رہا تھا کہ اسی اثنا میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا۔ اس میں نے وقت آنحضرت ﷺ کو دیکھا۔ آپ ﷺ کا چہرہ بدرِ تام کی طرح درخشاں تھا۔ آپ ﷺمیرے قریب ہوئے اور میں نے ایسا محسوس کیا کہ آپ ﷺ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ آپ ﷺ نے مجھ سے معانقہ کیا اور میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہوئیں اور میرے اندر داخل ہو گئیں۔ میں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پاتا تھا اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ میں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوں اور اس معانقہ کے بعد نہ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ آپ ﷺ مجھ سے الگ ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر الہام الٰہی کے دروازے کھول دئے گئے اور میرے رب نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا یا احمد بارک اللہ فیک‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ550، تذکرۃ صفحہ34-35)

یعنی اے احمد تجھ میں اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوں۔

1891 میں آپ نے یہ خواب دیکھی جس سے آپ کا آپ ﷺ سے قرب کا پتا لگتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ایک مدت کی بات ہے جو اس عاجز نے خواب میں دیکھا جو آنحضرت ﷺ کے روضہ مبارکہ پر میں کھڑا ہوں اور کئی لوگ مر گئے ہیں یا مقتول ہیں ان کو لوگ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ اسی عرصہ میں روضہ کے اندر سے ایک آدمی نکلا اور اس کے ہاتھ میں ایک سرکنڈہ تھا اور وہ اس سرکنڈہ کو زمین پر مارتا تھا اور ہر یک کو کہتا تھا کہ تیری اس جگہ قبر ہو گی۔ تب وہ یہی کام کرتا کرتا میرے نزدیک آیا اور مجھ کو دکھلا کر اور میرے سامنے کھڑا ہو کر روضۂ شریفہ کے پاس کی زمین پر اس نے اپنا سرکنڈہ مارا اور کہا کہ تیری اس جگہ قبر ہو گی۔ تب آنکھ کھل گئی اور میں نے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ معیّت معادی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ جو شخص فوت ہونے کے بعد روحانی طور پر کسی مقدّس کے قریب ہو جائے تو گویا اس کی قبر اس مقدس کی قبر کے قریب ہوگئی۔ واللہ اعلم و علمہ احکم۔‘‘

(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ352، تذکرہ صفحہ147)

18 اکتوبر 1892ء کو آپ علیہ السلام نے یہ خواب دیکھی:
’’جب میں رات کو بعد تحریر نعت نبی کریم ﷺ اور مناقب و محامد صحابہ رضی اللہ عنہم سو یا تو مجھے ایک نہایت مبارک اور پاک رویا دکھایا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک وسیع مکان میں ہوں جس کے نہایت کشادہ اور وسیع دالان ہیں اور نہایت مکلف فرش ہو رہے ہیں اور اوپر کی منزل ہے اور میں ایک جماعت کثیر کو ربانی حقائق و معارف سنا رہا ہوں اور ایک اجنبی اور غیر معتقد مولوی اس جماعت میں بیٹھا ہے جو ہماری جماعت میں سے نہیں ہے۔ مگر میں اس کا حلیہ پہچانتا ہوں وہ لاغر اندام اور سفید ریش ہے اس نے میرے اس بیان میں دخل بےجا دے کر کہا کہ یہ باتیں کنہ باری میں دخل ہے اور کنہ باری میں گفتگو کرنے کی ممانعت ہے تو میں نے کہا کہ اے نادان ان بیانوں کو کنہ باری سے کچھ تعلق نہیں یہ معارف ہیں اور میں نے اس کے بے جا دخل سے دل میں بہت رنج کیا اور کوشش کی کہ وہ چپ رہے مگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آ یا تب میرا غصہ بھڑکا اور میں نے کہا کہ اس زمانہ کے بد ذات مولوی شرارتوں سے باز نہیں آتے خدا ان کی پردہ دری کرے گا اور ایسے ہی چند الفاظ اور بھی کہے جو اب مجھے یاد نہیں رہے۔ تب میں نے اس کے بعد کہا کہ کوئی ہے کہ اس مولوی کو اس مجلس سے باہر نکالے تو میرے ملازم حامد علی نام کی صورت پر ایک شخص نظر آیا اس نے اٹھتے ہی اس مولوی کو پکڑ لیا اور دھکے دے کر اس کو اس مجلس سے باہر نکالا اور زینہ کے نیچے اتار دیا تب میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جناب رسول اللہ ﷺ ہماری جماعت کے قریب ایک وسیع چبوترہ پر کھڑے ہیں اور یہ بھی گمان گذرتا ہے کہ چہل قدمی کر رہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ جب مولوی کو نکالا گیا آنحضرت ﷺ اسی جگہ کے (قریب) ہی کھڑے تھے مگر اس وقت نظر اٹھا کر دیکھا نہیں اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ میں کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام ہے یعنی یہی کتاب اور یہ مقام جو اس وقت چھپا ہوا معلوم ہوتا ہے اور آنجناب ﷺ نے اپنی انگشت مبارک اس مقام پر رکھی ہوئی ہے کہ جہاں آنحضرت ﷺ کے محامد مبارکہ کا ذکر اور آپ کی پاک اور پر اثر اور اعلیٰ تعلیم کا بیان ہے اور ایک انگشت اس مقام پر بھی رکھی ہوئی ہے کہ جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم کے کمالات اور صدق و وفا کا بیان ہے اور آپ تبسم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ

ھذا لی و ھذا لاصحابی

یعنی یہ تعریف میرے لئے ہے اور یہ میرے اصحاب کے لئے۔ اور پھر بعد اس کے خواب سے الہام کی طرف میری طبیعت متنزل ہوئی اور کشفی حالت پیدا ہو گئی تو کشفاً میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اس مقام میں جو خدا تعالیٰ کی تعریف ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا ظاہر کی اور پھر اس کی نسبت یہ الہام ہوا کہ ھذا الثناء لی۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ215-217 حاشیہ، تذکرہ صفحہ166-167)

یعنی یہ تعریف میرے لئے ہے۔

’’7دسمبر 1892ء کو ایک اور رؤیا دیکھا کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے سو اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضیٰ ہوں۔ اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے تب میں نے دیکھا کہ رسول ﷺ میرے پاس ہیں اور شفقت اور تودّد سے مجھے فرماتے ہیں۔

یا علی دعہم و انصارھم و زراعتھم

یعنی اے علی ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت ﷺ مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترک خطاب بہتر ہے۔اور کھیتی سے مراد مولویوں کے پیروؤں کی وہ جماعت ہے جو ان کی تعلیموں سے اثر پذیر ہے جس کی وہ ایک مدت سے آبپاشی کرتے چلے آئے ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ218-219، تذکرہ صفحہ 170)

چنانچہ 1893ء میں آپ علیہ السلام نے آئینہ کمالاتِ اسلام کے اشتہار میں فرمایا کہ:
اس کتاب کی تحریر کے وقت دو دفعہ جناب رسول اللہﷺ کی زیارت مجھ کو ہوئی اور آپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرّت ظاہر کی۔

(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ652 تذکرہ صفحہ187)

1893 میں حضور نے یہ خواب دیکھی:
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور اس سے پہلے بھی قریب عرصہ میں مجھے آپ کی زیارت ہو چکی تھی۔ آپ نے مجھے اپنا چابک بنایا اور مجھے مقابلہ کے لئے تیار کیا تاکہ میں فرعونی سیرت لوگوں اور ظالموں سے جنگ کروں۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ561، تذکرہ صفحہ180)

7؍اپریل 1893ء کو آپ نے فرمایا کہ:

پیغمبرِ خدا ﷺ نے فرمایا: ’’یہ باغِ اسلام ہم تم کو دیتے ہیں۔‘‘

(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ صفحہ158، تذکرہ صفحہ653)

27 اکتوبر 1900 کو آپ علیہ السلام نے یہ خواب سنائی اور حضور کی کتاب ایک غلطی کا ازالہ میں بھی حضور نے اس کو درج فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھی اس کی تصدیق آنحضرت ﷺ نے بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہ

سلمان منا اھل البیت علی مشرب الحسن
میرا نام سلمان رکھا یعنی دو سِلم۔
‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد18 صفحہ212، تذکرہ صفحہ314)

حضور علیہ السلام نے 14 مارچ 1906ء کو فرمایا:

’’میں نے اپنی خواب میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انت سلمان و منی یا ذا البرکات‘‘

(ریویو آف ریلیجنز مارچ 1906 صفحہ162، تذکرہ صفحہ515، 516)

یعنی تو سلمان ہے اور مجھ سے ہے اے صاحبِ برکات۔

14 اگست 1907 کو آپ فرماتے ہیں کہ یہ الہام ہوا:

’’آج ہمارے گھر میں پیغمبر ﷺ آئے، آگئے، عزت اور سلامتی۔‘‘

(البدر جلد6 نمبر33، 15اگست 1907، تذکرہ صفحہ615)

حضرت مرزا بشیر احمد ایم۔ اے۔ فرماتے ہیں کہ ان کو حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے فرمایا کہ
’’حضرت صاحب نے بہت مرتبہ زبان مبارک سے فرمایا کہ میں نے بار ہا بیداری میں ہی آنحضرت ﷺ سے ملاقات کی ہے اور کئی حدیثوں کی تصدیق آپ سے براہِ راست حاصل کی ہے۔ خواہ وہ لوگوں کے نزدیک کمزور یا کم درجہ کی ہوں۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم روایت نمبر572 صفحہ550، تذکرہ صفحہ678)

حضور علیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ :
’’ایک روز میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارا جو باہر کا مکان ہے اس کے آگے دو گھوڑے خوب موٹے تازے بندھے ہوئے ہیں اور عربی گھوڑے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر ایک گھوڑے پر رسول اللہﷺ سوار ہیں اور ایک گھوڑے پر میں سوار ہوں اور ہم دونوں بہادروں کی طرح تیز رفتار چلتے ہیں اور چلنے (میں) کوئی کمی نہیں۔ بعد میں میری آنکھ کھل گئی۔‘‘

(الحکم جلد38 نمبر30 مورخہ 21 اگست 1935 صفحہ6، تذکرہ صفحہ687-688)

جب حضور علیہ السلام سیالکوٹ میں نوکر تھے، تو آپ نے اپنے ساتھی بھیم سین کو مخاطب کر کے یہ خواب سنایا کہ:
’’آج رات میں نے رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپ ﷺ مجھ کو بارگاہِ ایزدی میں لے گئے اور وہاں سے مجھے ایک چیز ملی جس کے متعلق ارشاد ہوا کہ یہ سارے جہان کو تقسیم کر دو۔‘‘

(سیرتِ احمد علیہ السلام مصنفہ مولوی قدرت اللہ صاحبؓ سنوری صفحہ150-151 روایت66، تذکرہ694)

1900 میں حضور علیہ السلام نے خطبہ الہامیہ پڑھا۔ یہ حضور کی صداقت کا ایک عظیم نشان تھا۔ حضور کی عربی زبان میں، جو رسول اللہ ﷺ کی زبان تھی، ایسی فصاحت و بلاغت نصیب ہوئی کہ دیکھنے والوں کے لئے ایک عجیب نظارہ تھا۔ سامعین میں سے ایک صحابی سید امیر علی شاہ صاحب کی یہ روایت ملتی ہے کہ:
’’۔۔۔ دیکھا تھا کہ جس وقت عربی خطبہ بروز عید پڑھا جاتا تھا اس وقت جناب رسول اللہ ﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام جلسہ میں موجود ہیں اور اس خطبہ کو سن رہے ہیں۔ یہ خواب عین خطبہ پڑھنے کے وقت ہی بطور کشف اس جگہ بیٹھے ہوئے ان کو معلوم ہو گیا تھا۔‘‘

(رقم فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام برورق کتاب تعطیر الانام موجودہ خلافت لائبریری ربوہ، تذکرہ صفحہ290)

حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ کا ایک زبردست فرمان ملتاہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد تو بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ ان میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھے حضرت نبی کریم ﷺ کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے۔‘‘

(حیاتِ نور صفحہ194)

یہ بات پڑھ کر ہر کوئی جانچ سکتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے صحابہ کرام کا آنحضرت ﷺ سے کیسا تعلق حضور علیہ السلام نے جوڑ دیا۔

اب یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں اور ان کے پیروکار ہیں ہم یہ جذبہ اپنے اندر کیسے پیدا کریں اور حضور علیہ السلام کے اعلیٰ نمونہ پر کس طرح چلیں۔ تو اس کا ایک جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دے دیا۔ متابعت تو کرو مگر دل میں عشق پیدا کرنا متابعت کے لئے ضروری ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک اور زبردست اصول بیان کر دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ یٰۤاَ أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا

(الاحزاب: 57)

یعنی یقیناً اللہ اور اس کے ملائکہ اس نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس نبی پر درود بھیجو اور اس پر سلامتی بھیجو۔

اس آیت کابھی سب سےاعلیٰ نمونہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی نظر آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود اپنا ایک کشف بیان فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے

وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ

(المائدہ: 36)

تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقے یعنی ماشکی آئے اورایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور اُن کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھذا بما صلیت علی محمد

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ131)

آج کل مخالفینِ احمدیت یہ حملے سوچے سمجھے بغیر کر جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی گستاخی کی نعوذباللہ من ذالک۔ پس ان سب معترضین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دل نشیں عشق پر تعجب کیوں نہیں آتا؟ کیا وہ اس بات پر تدبر نہیں کرتے کہ اس سے زیادہ محبت انہوں نے کسی میں نہیں دیکھی؟ ہر نیک فطرت شخص بالطبع ماننے پر مجبور ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ کوئی شخص نہیں جو آنحضرت ﷺ سے اتنا پیار کرتا ہو۔ تاریخ میں کسی کو کوئی عالم یا بزرگ یا مجدد نہیں ملے گا جس کا پیار اس شدت تک پہنچا ہو۔

بہت سے محدثین اور مجّددین گزرے ہیں جنہوں نے آپ ﷺ سے محبت کے جذبہ دکھائے اور اللہ تعالیٰ کو پایا۔ آپ علیہ السلام ان سب سے اعلیٰ تر مقام پر اسی لئے ہیں کہ آپ کا عشقِ رسول ان سب سے اعلیٰ تھا۔ ان الہامات رؤیا کشوف اور خوابوں سے اب ہر دیکھنے والا کسی اور ثبوت کا محتاج نہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اعلیٰ نمونہ پر چلنے کی توقیق دے۔ آمین۔

اللّٰھم صلی علی محمدو علیٰ آل محمد و بارِک و سلِم انک حمید مجید

(جاذب محمود طالب علم جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2021