• 29 اپریل, 2024

خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے

یعصمک اللّٰہ من عندہ و لو لم یعصمک الناس
خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے

حضرت رسول اکر م ﷺ کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں وعدہ دیتے ہوئے فرمایا کہ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ68) یعنی اللہ تعالیٰ نہ صرف حضرت رسول اکرم ﷺ کی جان بلکہ عزت و عصمت کی حفاظت کو بھی اپنے ذمہ لینے کا وعدہ فرماتا ہے اور ایسے دلائل وبراہین کے عطا فرمائے جانے کا بھی وعدہ فرماتا ہے جو دشمنان دین کو مسکت کر یں گے۔اسی طرح مومنین کے ازدیاد ایمان کا بھی ذریعہ ہوں۔نیز پیدائش نبوی ﷺ سے قیامت تک ایسے سلطان نصیر عطا فرماتا رہے گا جو آپ کی ذات با برکات پر اٹھنے والے ہرقسم کے اعتراض کا دندان شکن جواب دینے کے ساتھ ساتھ آپ کی بلند ترین شان مصطفوی کو دنیا کے سامنے پیش کرتے اور اپنے عملی نمونوں سے اصلاح کا کام کرتے رہیں گے۔

اور ایسا کیوں نہ ہو؟ کیونکہ حضرت محمد ﷺ صفات الٰہیہ کے مظراتم اور انسان کامل اور تمام اوّلین و آخرین کے سردار ہیں۔ دنیا کی ابتدا سے لے کر اس کے اخیر تک حضرت محمد مصطفی ﷺ جیسا کوئی وجود نہ پیدا ہوا اور نہ ہو گا۔ صحف سابقہ بھی آپ کی عظمت و خوبیوں کے ذکر سے رطب اللسان رہے۔تمام پاکباز اور فرشتے حضور ﷺ کی حمد کے گیت گاتے ہیں بلکہ خود خدا وند کریم نے آپ کے ذکر کو بلند کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الانشراح) یعنی ہم نے آپ کے ذکر کو رفعت و سربلندی سے ہمکنار کر دیا۔

حضرت رسول اکرم ﷺ کی بعثت فی الآخرین

ہم جانتے ہیں کہ حق و باطل کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔رسول اکرم ﷺ کے زمانہ سے ہی دشمن آپ کو ناکام کرنے کاکوئی حربہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور نہ ہی اب کوئی کمی چھوڑتے ہیں۔سورۃ جمعہ کے مضامین کے موافق جب اللہ تعالیٰ نے آخرین میں آ پ ﷺ کے غلام صادق کو منصب مسیحیت و مہدویت سے سرفراز فرماتے ہوئے آپ کو نیابت رسول ﷺ کا لبادہ پہنایا تو اس سے قبل ہی بزرگان دین، مسیح ِ محمدی کو رسول اللہ ﷺ کا ظل اور بروز قرار دے چکے تھے۔ مثلا اردو کے مشہور شاعر جناب امام بخش ناسخ تحریر کرتے ہیں۔

اوّل و آخر کی نسبت ہو گی صادق یہاں
صورت معنی شبیہ مصطفی پیدا ہوا
دیکھ کر اس کو کریں گے لوگ رجعت کا گماں
یوں کہیں گے معجزے سے مصطفی پیدا ہوا

(دیوان ناسخ جلد دوم ص54۔ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ1923ء)

اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تحریر فرمایا تھا:
’’امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کا یہ حق ہے کہ اس میں سید المرسلین ﷺ کے انوار کا انعکاس ہو۔ عامۃ الناس گمان کرتے ہیں کہ جب وہ موعود دنیا میں آئے گا تو اس کی حیثیت محض ایک امتی کی ہو گی۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اس جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا اور اسی کا دوسرا نسخہ (True Copy) ہو گا۔ پس اس کے اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔‘‘

(الخیر الکثیر از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صفحہ72۔ مدینہ پریس بجنور)

حفاظت عصمت کا خدا ئی وعدہ

طاغوتی طاقتیں ایک مرتبہ پھر آپ کے خلاف بر سر پیکار ہوئیں۔اس خدائی شمع کو بجھانے کے لیے اپنے تمام ہتھیاروں، کیل کانٹوں سے مسلح ہو کر شیطان نے ایک مرتبہ پھر بساط بچھائی، اپنے تمام مہروں کو سامنے لا کر عظیم ترین قوت کا مظاہرہ کیا۔ اور چشم فلک نے ایک مرتبہ پھر دور نبوی ﷺ جیسی ہی مشکلات و مصائب کا نمونہ پھر دنیا میں دیکھا۔ مگر دور اوّلین میں عطا فرمودہ خدائی وعدہ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ایک مرتبہ پھر پوری شان سے جلوہ گر ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس امام الزمان، حضرت محمد ﷺ کے غلام صادق کو بھی اپنے فضل سے نہ صرف تمام تر شیطانی قوتوں کی شکست بلکہ ہر میدان میں ترقیات کی بشار ت دیتے ہوئے انہی الفاظ میں حفاظت و ترقیات کی عظیم الشان خوشخبریاں عطا فرمائیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ان لم یعصمک الناس فیعصمک اللہ من عندہ۔ یعصمک اللہ من عندہ و ان لم یعصمک الناس۔ (براہین احمدیہ صفحہ510) ترجمہ۔ اگر چہ لوگ تجھے نہ بچاویں یعنی تباہ کرنے کی کوشش کریں مگر خدا اپنے پاس سے اسباب پیدا کر کے تجھے بچائے گا۔ خدا تجھے ضرور بچا لے گا اگر چہ لوگ پچانا نہ چاہیں۔

اب دیکھو کہ یہ کس قوت اور شان کی پیشگوئی ہے اور بچانے کے لیے مکرر وعدہ کیا گیا ہے۔ اور اس میں صاف وعدہ کیا گیا ہے کہ لوگ تیرے تباہ اور ہلاک کرنے کے لیے کوشش کریں گے اور طرح طرح کے منصوبے تراشیں گے مگر خدا تیرے ساتھ ہو گا اور وہ ان منصوبوں کو توڑ دے گا اور تجھے بچائے گا۔ اب سوچو کہ کون سا منصوبہ ہے جو نہیں کیا گیا۔ بلکہ میرے تباہ کرنے او رہلاک کرنے کے لیے طرح طرح کے مکر کیے گئے۔ چنانچہ خون کے مقدمے بنائے گئے، بے آبرو کرنے کے لیے بہت جوڑ توڑ عمل میں لائے گئے اور ٹیکس لگانے کے لیے منصوبے کیے گئے۔ کفر کے فتوے لکھے گئے، قتل کے فتوے لکھے گئے لیکن خدا نے سب کو نا مراد رکھا۔ وہ اپنے کسی فریب میں کامیاب نہ ہوئے۔ پس اس قدر زور کا طوفان جو بعد میں آیا، مدت دراز پہلے خدا نے ان کی خبر دے دی تھی۔ خدا سے ڈرو اور سچ بولو کہ کی علم غیب اور تائید الٰہی ہے یا نہیں؟‘‘

(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ528-529)

پھر فرمایا: ’’براہین احمدیہ میں ایک یہ بھی پیشگوئی ہے یعصمک اللّٰہ من عندہ و لو لم یعصمک الناس یعنی خدا تجھے تمام آفات سے بچائے گا اگر چہ لوگ نہیں چاہیں گے کہ تو آفات سے بچ جائے۔ یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جب کہ میں ایک زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور کوئی مجھ سے نہ تعلق بیعت رکھتا تھا نہ عداوت۔ بعد اس کے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ میں نے کیا تو سب مولوی اور ان کے ہم جنس آگ کی طرح ہو گئے ۔۔۔ مگر خدا ئے علیم نے ان کی ایک نہ سنی ۔۔۔ ان لوگوں نے میرے پھانسی دلانے کے لیے اپنے تمام تر منصوبوں سے زور لگایا اور ایک دشمن خدا اور رسول کی مدد کی ۔۔۔ (مگر) اسی نے بچایا جس نے پچیس برس پہلے یہ وعدہ دیا تھا کہ تیری قوم تو تجھے نہیں بچائے گی اور کوشش کرے گی کہ تو ہلاک ہو جائے مگر میں تجھے بچاؤں گا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22۔ صفحہ242-243)

معزز قارئین! اسی خدائی وعدہ کے موافق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے تابع ہم آپ کی تمام تر زندگی کو عصمت الٰہی کے گھنے سائبان تلے دیکھتے ہیں۔ آپ کی جان لینے کے بے شمار منصوبے کیے گے مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کی خاک اڑا دی۔ پھر انسانی عدالتوں میں آپ کی جان مال اور عزت و آبرو پر حملوں کی خاطر مقدمات کیے گئے مگر آپ کی ہر میدا ن میں فتح ہوئی، دلائل کے میدان میں آپ پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہے مگر آ پ بڑی تحدی سے فرماتے رہے:۔

جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار

اور جب ایک مرتبہ ایک سخت مقدمہ میں دشمن کی تباہ کن چال سے سخت پریشانی کا اظہار کیاگیاکہ دشمن کہتاہے کہ اب آپ دام میں پھنس چکے ہیں اور میں آپ کا شکار کروں گا۔ تو آپ لیٹے ہوئے تھے مگر جوش کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور بہت جوش سے فرمایا کہ
’’میں اس کا شکار ہوں؟ میں شکار نہیں ہوں۔ میں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا۔ وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ ایسا کر کے تو دیکھے۔‘‘ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب فرماتے تھے کہ حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دہرائے اور اس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی اور نیم بند رہتی تھیں،واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکنے لگی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا‘‘۔

(سیرت المہدی جلد اوّل)

اور پھر چشم فلک نے وہ نظارے دیکھ کر انگلیاں دانتوں میں دبا لیں جہاں تمام شیطانی ومذہبی و دنیاوی قوتیں اور طاقتوں کی مخالفتوں کے باوجود خائب و خاسر رہیں۔ اورآپ محض اور محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح دین و دنیا کی تمام تر ترقیات میں اپنا قدم آگے سے آگے بڑھاتے رہے۔آپ نے اپنے شعری کلام میں فرمایا:۔

ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلند ی کی طرف
وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیر غار

اور انہی الٰہی نصرت و تائیدات کے بے شمار واقعات میں سے ایک بہت ہی نادر واقعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب یوں بیان کرتے ہیں۔
’’قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خواجہ کمال الدین صاحب سے میں نے سناہے کہ مولوی کرم الدین بھیں والے کے مقدمہ کے دوران ایک دفعہ حضرت صاحب بٹالہ کے راستہ گورداسپور کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ رتھ میں خود خواجہ صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مرحوم تھے اور باقی لوگ یکّوں میں پیچھے آ رہے تھے۔ اتفاقاً یکے کچھ زیادہ پیچھے رہ گئے اور رتھ اکیلی رہ گئی۔ رات کا وقت تھا آسمان ابر آلود تھااور چاروں طرف سخت اندھیرا تھا۔ جب رتھ وڈالہ سے بطرف بٹالہ آگے بڑھا تو چند ڈاکو گنڈاسوں اور چھریوں سے مسلح ہو کر راستہ میں آ گئے اور حضرت صاحب کی رتھ کو گھیر لیا اور پھر وہ آپس میں یہ تکرار کرنے لگ گئے کہ ہر شخص دوسرے سے کہتا کہ تو آگے ہو کر حملہ کرمگر کوئی آگے نہ آتا اوراسی تکرار میں وقت گزر گیا اور اتنے میں پچھلے یکے آن ملے اور ڈاکو بھاگ گئے۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب بیان کرتے تھے کہ اس وقت یعنی جس وقت ڈاکو حملہ کرنے آئے تھے میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی پیشانی سے ایک خاص قسم کی شعاع نکلتی تھی جس سے آپ کا چہرہ مبارک چمک اٹھتا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان اور بٹالہ کی درمیانی سڑک پر اکثر چوری اور ڈاکہ کی وارداتیں ہو جاتی ہیں مگر اس وقت خدا کا خاص تصرف تھا کہ ڈاکو خود مرعوب ہو گئے اور کسی کو آگے آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔‘‘

(سیر المہدی حصہ دوم روایت نمبر454)

قارئین کرام! اعلائے کلمہ توحید کے لیے نیک اور پاک گروہ کا پیدا کرنا نبی کا سب سے مقصد عظیم ہوا کرتا ہے اور اسی مقصد کی تکذیب میں بھی دشمن نے ناخنوں تک زور لگایا کہ آ پ کو بے یار و مدد گار کرکے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔ اور یوں آپ کا سلسلہ ختم ہو جائے مگر آپ نے الٰہی تائید سے بڑے جلال سے فرمایا: ’’خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لیے اور اپنی قدرت دکھانے کے لیے پیدا کرنا چاہا ہے ۔۔۔ وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لیے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے۔‘‘

(اشتہار 4مارچ 1889ء)

نہ صرف آپ کی مبارک زندگی میں بلکہ اس کے بعد بھی خواہ 1934کی ہندوستان گیر مخالفت کی تحریک ہو جہاں یہ بلند و بانگ دعوے کیے گئے کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، منارۃ المسیح کی اینٹیں دریائے بیاس میں بہا دیں گے، تمام دنیا سے احمدیوں کو ختم کر کے صرف ایک احمدی کو زندہ رکھیں گے اور اسے میوزم میں رکھیں گے تا کہ آئندہ اپنے بچوں کو بتا سکیں کہ احمدی اس طرح کے ہوا کرتے تھے۔ چاہے 1952 کی ملک گیر تحریک مخالفت سامنے ہو یا 1974 اور 1984 میں اٹھایا گیا عالمی طوفان ہو۔خواہ دنیا کے بہت سے مسلمان ممالک میں سینکڑوں کلمہ گو احمدیوں کی جانوں مالوں اور عزتوں کی پائمالی کی ناپاک کوششیں ہوں۔مگر ان تمام تر مخالفتوں کی کوششوں کے باوجود آج قیام احمدیت کو 132سال بعد بھی ناکامی و خسرانی انہی دشمنان احمدیت کے ہی حصہ میں آئی۔ اور اس کے برعکس تمام دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں احمدی مسلمان جو اپنی جان، مال، عزت، وقت ہر قربانی پیش کر کے،ہمہ وقت اعلائے کلمہ توحید و اسلام کی کوشش میں مصروف کار ہیں، اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت عصمت فرمائی۔ اور آپ کو ہی کامیاب و کامران فرمایا۔ آپ نے اپنے کلام میں کیا ہی خوب فرمایا:۔

میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا
اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا

بر صغیر کے ایک ممتازعالم دین مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی مدیر صدق جدید (لکھنؤ) نے قادیان سے شائع ہونے والے رسالہ پر تبصر کرتے ہوئے 1957 میں لکھا تھا:
’’احمدیہ جماعت قادیان اپنے رنگ میں جو خدمت تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں کر رہی ہے یہ رسالہ اس کا پورا مرقع ہے۔ جماعت کے مشن یورپ، امریکہ، مغربی افریقہ، مشرقی افریقہ، ماریشس، انڈونیشیا، نائیجیریا اور ہندوستان و پاکستان کے خدامعلوم کتنے مختلف مقامات پر قائم ہیں۔ ان سب کی فہرست اور ان کی کارگزاریاں، ان سے تبلیغی لٹریچر کی اشاعت انگریزی، فرنچ، جرمن، ڈچ،اسپینی، فارسی، برمی، ملایا، تامل، ملیالم، مرہٹی، گجراتی، ہندی اورر اردو زبان میں ان کی مسجدوں اور ان کے اخبارات و رسائل کی فہرست اور اسی قسم کی دوسری سرگرمیوں کا ذکر ان صفحات میں نظر آ جائے گا۔ اور ہم لوگوں کے لیے جو اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہیں ایک تازیانہ عبرت کا کام دے گا۔ کاش! ان لوگوں کے عقائدہمارے جیسے ہوتے اور ہم لوگوں کی سرگرمی عمل ان کی جیسی۔‘‘

(صدق جدید 7جون 1957)

یہ تقریباً 65سال پہلے کی تحریر ہے جب کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ نہ صرف ہزاروں لاکھوں گنا بڑھ چکی ہے بلکہ کئی گنا بڑھ کر خدمت اسلام میں کوشاں ہے۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک

قارئین کرام!اس معرکہ حق و باطل میں دشمن نے ایک کوشش یہ بھی کی کہ آپ کو دلائل کے میدان میں شکست دے کر آپ کی عصمت دری کی جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کومحض اپنے فضل سے وہ علم کلام عطا فرمایا جس نے نہ صرف آپ کی تمام دنیا میں علم و فضل اور زبان و بیان کے لحاظ سے پہچان کروائی بلکہ اپنے اندر لاانتہا علم و عرفان کے موتی سمیٹے ہونے کے باعث کروڑوں عاشقان توحید کی تسلی و تشفی اور معرفت خداوندی کا باعث بنا اور بن رہا ہے۔ آپ علیہ السلام کی عظیم الشان خوبیوں کے متعلق ہندوستان کے ایک بڑے ادیب مولانا ابو الکلام نے آپ کی وفات پر تحریر کیا۔
’’وہ شخص بہت بڑا شخص، جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا، جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلابات کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا ۔۔۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم تاریخ میں منظر عام پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں ۔۔۔ مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں او ر آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔۔۔غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا۔

(بدر 18جون1908ء صفحہ3،2)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحیح پیغام کو سمجھنے اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ازمحمد فاتح احمد ناصرمربی سلسلہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2021