• 29 جون, 2025

ڈیوٹی کی اہمیت اور ادائیگی کے 2 ایمان افروز واقعات

تعارف

مکرم و محترم شیخ ریاض محمود صاحب لاہور جماعت کے انتہائی ابتدائی فدائی اور مخلصین احباب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ، آج کل کینڈا میں مقیم ہیں ، خاکسار کا ان سے لاہور سے کئی دہائیوں سے تعلق ہے، ہمیں لاہور کے تین امراء صاحبان کی مجالس عاملہ میں بھی ایک ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، دارالذکر میں سال ہا سال سے ہم ایک ساتھ رابطے اور تعلق میں رہے تھے،وہ آج کل کینڈا میں مقیم ہیں جبکہ خاکسار جرمنی میں رہائش رکھتا ہے، کرونا کی وجہ زندگی کے معاملات رک چکے ہیں اور گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں تو ہم ٹیلی فون پر ہی گھنٹوں لاہور کی باتیں کرتے رہتے ہیں، اسی دوران خاکسار نے محترم شیخ صاحب سے ان کے دور کی گزری، بیتی باتیں اور واقعات سنے اور لکھ لئے، یعنی ان کے نوٹس لے لئے ۔ کیونکہ مجلس خدام الاحمدیہ لاہور شہر کے بعد جماعت احمدیہ لاہور کے حوالے سے محترم شیخ صاحب کو گرانقدر خدمات کی توفیق ملی جس میں دارالذکر کی توسیع اور تعمیر قابل ذکر ہے ۔ لاہور میں آپ کا تعلق جماعت سلطان پورہ سے تھا، اسی جماعت کی لمبا عرصہ تک صدارت کی توفیق بھی ملی تھی ۔ 1960کے عشرہ میں سید حضرت اللہ پاشا صاحب قائد مجلس شہر کے ساتھ بحیثیت نائب قائد مجلس خدام الاحمدیہ شہر خدمت دین کا سلسلہ شروع کیا تھا اور بعد ازاں آپ قائد مجلس شہر منتخب ہوئے اور1967تک قائد مجلس شہر و ضلع کی ذمہ داری نبھانے کی توفیق ملی تھی ۔ جب لاہور میں ’’دارالذکر‘‘ کی بنیاد رکھی گئی تو بھی آپ اس موقع پر موجود تھے اور تہہ خانہ کی کھدائی میں دیگر احباب کے ساتھ وقار عمل میں حصہ لیا تھا ،بعد ازاں 1988کے بعد مکرم میاں نذیر احمد صاحب انجینئر کی نگرانی میں ’’دارلذکر‘‘ کی تعمیر و توسیع کے کاموں میں معاونت کی ، مکرم میاں نذیر احمد صاحب انجینئر کی وفات کے بعد مکرم حمید نصراللہ خان صاحب امیر لاہور کی نگرانی میں دارالذکر کے گیسٹ ہاؤس اور نئے دفاتر کی تعمیر ات مکمل کرائی تھیں ۔ آپ نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک سیکرٹری ضیافت کی ذمہ داری نبھائی ، مکرم میجر عبد الطیف صاحب کی وفات کے بعد مکرم حمید نصراللہ خان صاحب، مکرم شیخ منیر احمد صاحب اور 28 مئی 2010 کو آپ کی شہادت کے بعد مکرم ملک طاہر احمد صاحب کے ساتھ بحیثیت نائب امیر جماعت احمدیہ لاہور خدمت دین کی توفیق ملی اورآج کل کنیڈا میں مقیم ہیں اور اسسٹنٹ سیکرٹری امور عامہ خد مت کی توفیق پا رہے ہیں ۔ خاکسار کے پر زور اصرار پر آپ نے تحدیث نعمت کے طور پراپنے دور کے دو اہم واقعات بیان کئے ہیں ان کا واحد مقصد صرف یہ ہے کہ آج کے دور کے خدام اوردیگر ڈیوٹی دینے والے احباب کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کی اہمیت کا احساس ہوتا رہے اور وہ ہمیشہ اس کو پیش نظر رکھیں۔

پہلا واقعہ

مکرم شیخ ریاض محمود صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’یہ واقعہ میری زندگی کے ابتدائی سالوں کا ہے جس نے میری تربیت اور معیار اطاعت کی مضوط بنیاد فراہم کی تھی۔ قادیان سے ہجرت کے بعد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیشتر افراد حضرت مصلح موعو رضی اللہ عنہ کے ہمراہ لاہور رتن باغ کی کوٹھی اور دیگر قریبی عمارتوں میں قیام پذیر تھے، سامنے جودھا مل بلڈنگ تھی، حضرت امیرالمومنین کی قیام گاہ کے باہرگیٹ پر حفاظتی مقاصد کے پیش نظر لاہور کے خدام کی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی۔ میری عمر اس وقت تیرہ، چودہ سال کی تھی۔ ایک روز مجھے بھی اپنے والد صاحب کے ہمراہ رتن باغ جانے کا موقع ملا، گیٹ پر ڈیوٹی والے چند خدام کھڑے تھے جن میں مکرم میاں محمد یحیٰ صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ لاہور شہر، مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب، مکرم میاں عبدالقیوم صاحب، مکرم ٹھیکیدار شریف صاحب شامل تھے، مجھے بھی گیٹ پر کھڑے ہونے کا موقع ملا تھا، میں ادھر گیٹ پر ہی کھڑا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دیگر احباب کے ہمراہ جودھا مل بلڈنگ سے رتن باغ کی طرف اندر جانے کے لئے تشریف لائے، جب آپ اندر جانے لگے تو ڈیوٹی انچارج مکرم میاں محمدیحی ٰصاحب قائد مجلس نے انتہائی ادب سے آگے بڑھ کر پوچھا ’’کوڈ‘‘؟ اس پر حضرت میاں صاحب نے فرمایا مجھے نہیں جانتے؟ قائد صاحب نے عرض کی کہ ضرور جانتا ہوں مگر ’’کوڈ‘‘ بتائیں، اس پر میاں صاحب نے جو بھی کوڈ تھا، وہ بتایا، اس پر قائد صاحب نے عرض کیا کہ اب آپ تشریف لے جاسکتے ہیں اور راستہ چھوڑ دیا، اس پر حضرت میاں صاحب نے ناراضگی کا اظہار کرنے کی بجائے شاباش دی اور کہا ’’کہ اگر آپ مجھے کوڈ پوچھے بغیر اندر جانے دیتے تو میں تمہیں ابھی ڈیوٹی سے فارغ کردیتا‘‘۔ اس واقعہ کا مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب بھی کئی دفعہ ذکر کر تے رہے تھے۔ اس واقعہ سے ڈیوٹی اور فرض کی اہمیت اور ادائیگی کا یہ واقع میری زندگی میں ایسی تربیت کا موجب بنا تھا اور انداز تربیت کی بھی راہنمائی حاصل ہوئی تھی الحمدللہ۔

دوسرا واقعہ

ڈیوٹی کے دوران فرائض کی ادائیگی کے بارے میں دوسرے واقعہ کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں ’’یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور شہر کا قائد ہوا کرتا تھا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ اپنی خلافت کے بعد پہلی بار لاہور تشریف لائے تھے اور جمعہ کی ادائیگی دارالذکر میں ادا فرمائی تھی اور واپس پام ویو کوٹھی نواب زادہ میاں عباس احمد خان صاحب کی رہائش گاہ پر جانا تھا۔ حفاظتی گروپ کے انچارج مکرم چوہدری رشید احمد صاحب المعروف رشید تھانیدار تھے، یہ پائلٹ گروپ موٹر سائیکلوں اور سکوٹروں پر دارالذکر کے بالکل سامنے تیار کھڑا تھا، میں دارالذکر کے باہر کی دیوار کے ساتھ اس جگہ کھڑا تھا جہاں ’’دارلذکر‘‘ کا بورڈ دیوار پر لگا ہوا کرتا تھا، حضور رحمہ اللہ کی گاڑی جب دارالذکر سے باہر نکلی تو میری نظر اچانک سامنے سڑک پر پڑی جہاں گجروں کا ایک تانگہ تیزرفتاری سے اسٹیشن کی طرف سے دوڑا چلا آ رہا تھا، وہ اتنا تیز تھا کہ اس کا فوری طور پر رکنا بھی ممکن نہ تھا، حضوؒر کی کار سڑک پر پہنچ چکی تھی،اس پوزیشن کو دیکھ کر میں نے اپنے سکوٹر کو جو پہلے ہی سٹارٹ تھا، گجروں کے تانگہ کے آگے کردیا تانگہ بھی رک گیا اور گھوڑا بھی گرگیا اور اس گھوڑے کی ٹانگوں سے ٹکرانے کے بعد میں بھی گرگیا تھا، لیکن اس طرح حضور انور کی گاڑی بحفاظت اپنی منزل کی طرف چلی گئی تھی، مجھے معمولی چوٹیں آئی تھیں مگر سب خیریت رہی تھی۔ حضور نے اس واقعہ کو گاڑی میں سے دیکھ لیا تھا اور کوٹھی پام ویو پہنچتے ہی ایک خادم کے ذریعے مجھے بلوایا اور فرمایا ’’تم نے یہ کیا حرکت کی تھی‘‘۔ میں نے عرض کیا حضور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، اس پر حضور نے ازراہ شفقت مسکرا کر فرمایا کہ ’’اگر تم کو کچھ ہو جاتا‘‘ میں نے خوفزدہ حالت میں عرض کی کہ ’’حضور کی حفاظت میرا فرض تھا‘‘۔ اس کے بعد حضور نے ازراہ شفقت مسکراتے ہوئے فرمایا ’’میں شاباش دیتا ہوں، فرض کی ادائیگی میں تم نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے مگر اپنی ذات کی حفاظت بھی ضروری ہے‘‘ دعا کے بعد حضور نے خاکسار کو جانے کی اجازت دی۔

(مراسلہ م۔ع۔ شاہد (جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مارچ 2021