• 16 مئی, 2025

ایک بچے کی حکمت کی بات ہی تھی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اب دیکھیں وہ ایک بچے کی حکمت کی بات ہی تھی جو اس نے بزرگ کو کہی تھی۔ واقعہ آتا ہے بارش میں ایک بچہ چلا جا رہا تھا تو بزرگ نے کہا کہ دیکھو بچے آرام سے چلو کہیں پھسل نہ جانا۔ بچے نے کہا کہ اگر مَیں پھسلوں گا تو صرف مجھے چوٹ لگے گی لیکن آپ تو قوم کے راہنما ہیں، روحانی راہنما ہیں۔ آپ اگر پھسلے تو پوری قوم کے پھسلنے کا خطرہ ہے، متأثر ہونے کا خطرہ ہے۔ تو بڑی حکمت کی بات ہے جو ایک بچے کے منہ سے نکلی۔ دوسرے اس طرف توجہ دلائی کہ ایک مومن کو فضولیات سے بچتے ہوئے حکمت کی باتوں کی تلاش رہنی چاہئے۔ اگر اس سوچ کے ساتھ ہم اپنی زندگی گزاریں گے تو بہت سی لغویات اور فضول باتوں سے بچ جائیں گے۔

پھر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ رشک دو آدمیوں کے متعلق جائز ہے۔ ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا رہے۔ اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلے کرتا ہے اور اسے دوسروں کو سکھاتا ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الاحکام باب اجر من قضی بالحکمۃ حدیث7141)

اس میں مومنوں کے ذمے یہ کام بھی کر دیا کہ حکمت کو آگے بھی پھیلاؤ۔ حاصل بھی کرو اور پھر آگے پھیلاؤ تمہارے تک محدود نہ رہ جائے۔ اگر کوئی پُر حکمت اور علم کی بات ہے تو مومن کی شان یہی ہے کہ اسے آگے پھیلاتا چلاجائے تاکہ حکمت و فراست قائم کرنے والا معاشرہ قائم ہو۔ ایسی مجالس جن میں حکمت کی باتیں ہوتی ہوں آنحضرتﷺ نے اُنہیں نِعْمَ الْمَجْلِس کا نام دیا ہے۔

عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ (بن مسعود) نے کہا کہ کیا ہی عمدہ وہ مجلس ہے کہ جس میں حکمت والی باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ یہ براہ راست آنحضرتﷺ کی طرف تو روایت نہیں ہے۔ لیکن یہ انہوں نے سنا اور فرمایا کہ کیا ہی عمدہ مجلس ہے جس میں حکمت کی باتیں پھیلائی جائیں اور جس میں رحمت کی امید کی جاتی ہے۔

(سنن الدارمی۔ باب من ھاب الفتیا مخافۃ السقط حدیث:292)

تو یہ ہماری مجالس کے معیار ہونے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے کہ لغو مجالس سے اٹھ جاؤ۔ ایسی مجالس سے بھی اٹھ جاؤ جہاں دین کے خلاف باتیں ہو رہی ہوں۔ مذہب پر منفی تبصرے ہو رہے ہوں۔

خداتعالیٰ کی ذات کے متعلق فضول باتیں ہو رہی ہوں۔ اگر تمہارے علم میں ہے تو سمجھانے کے لئے اور اس لئے کہ کچھ لوگوں کا بھلا ہو جائے اور یا جوکوئی بھی صاحب علم ہیں وہ ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے اگر ایسی مجلس میں بیٹھ جاتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر دیکھیں کہ یہ لوگ صرف ڈھٹائی سے کام لے رہے ہیں، سمجھنا نہیں چاہتے تو پھر ایسی مجلس سے اٹھ جانے کا اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے۔ کیونکہ پھر فرشتے ایسی مجلسوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اور ایک مومن کو تو ایسی مجلس کی تلاش ہونی چاہئے جس میں حکمت کی باتیں ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے لئے رسول اللہﷺ نے دو مرتبہ یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے حکمت عطا کرے۔

(سنن الترمذی۔ کتاب المناقب باب مناقب عبداللہ بن عباسؓ حدیث:3823)

آپؐ کے نزدیک اس کی اتنی اہمیت تھی۔ یہ اتنا بڑا تحفہ تھا کہ آپؐ نے دعا دی۔

(خطبہ جمعہ 14؍ دسمبر 2007ء بحوالہ الاسلام ویب وسائٹ)

پس یہاں مزید وضاحت فرمائی کہ جیسا کسی کی فطرت ہو ویسا ہی اُسے نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں یرقان زدہ مریض جو ہے اُس کی آنکھیں زرد ہو جاتی ہیں تو اُس کو ہر چیز زردنظر آتی ہے۔ جو بدفطرت ہے اُس کو اپنی فطرت کے مطابق ہی نظر آتا ہے۔ قرآنِ کریم نے جب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ: 3) کا اعلان فرمایا ہے تو ابتدا میں ہی فرما دیا ہے کہ یہ جو ہدایت ہے اور اس قرآنِ کریم میں جو خوبصورت تعلیم ہے، جو سب سابقہ تعلیموں سے اعلیٰ ہے، یہ صرف انہی کو نظر آئے گی جن میں کچھ تقویٰ ہو گا۔ ہدایت اُنہی کو دے گی جن کے دل میں کچھ خوفِ خدا ہو گا۔ پس یہ لوگ جتنی چاہے دریدہ دہنی کرتے رہیں ہمیں اس کی فکر نہیں کہ اس ذریعہ سے یہ نعوذ باللہ قرآنِ کریم کی تعلیم کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ قرآنِ کریم کے اعلیٰ مقام اور اس کی حفاظت کا خدا تعالیٰ خود ذمہ دار ہے بلکہ یہ دوسری آیت جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں تو مومنوں کو خوش خبری ہے کہ قرآنِ کریم تمہارے لئے رحمت کا سامان ہے۔ اور ہر لمحہ رحمت کا سامان مہیا کرتا چلا جائے گا۔ تمہاری روحانی بیماریوں کا بھی علاج ہے اور تمہاری جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہے، ہر قسم کی تعلیم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اور اگر اس سے پہلے کی آیت سے اس کو ملا لیں تو حقیقی مومنین کو یہ خوشخبری ہے کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا۔ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل: 82) کہ جھوٹ، فریب، مکاری اور باطل نے بھاگنا ہی ہے، یہ اُس کی تقدیر ہے۔ پس یہاں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سروں کی قیمت مقرر کرنے سے یا توڑ پھوڑ کرنے سے یا غلط قسم کے احتجاج کرنے سے قرآنِ کریم کی عزت قائم نہیں ہو گی بلکہ حقیقی مومن اپنے پر قرآنی تعلیم لاگو کر کے ہی قرآنِ کریم کی برتری ثابت کر سکتا ہے اور کرنے والا ہو گا۔ وہ اس کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کو دکھا کر حق اور باطل میں فرق ظاہر کریں گے۔ اور جب یہ تعلیم دنیا پر ظاہر ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر مومنوں کے لئے رحمت اور اُن زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا نظارہ دکھائے گی۔ قرآنِ کریم کی فتح اور مومنین کی فتح ہو گی۔ دنیا کو اس کے بغیراب کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ قرآنِ کریم کی تعلیم سے اپنی روحانی اور مادّی ترقی کے سامان پیدا کرے۔ اپنے اوپر یہ تعلیم لاگو کرے۔

(خطبہ جمعہ 25؍ مارچ 2011ء بحوالہ الاسلام ویب وسائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مارچ 2021