• 4 مئی, 2025

عظیم دیوار چین (The great wall of China)

آج کا انسان دور حاضر کی سائنس اور اس کی ایجادات کو دیکھ کر پھولا نہیں سماتا اور خیال کرتا ہے کہ اس نے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے اور آج سب کچھ اس کے پاؤں تلے ہے، مہینوں کا سفر اب محض گھنٹوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، دنیا کے کونے میں کہیں بھی ایک معمولی واقعہ ہو جائے تو اس کی خبر دنیا کے ان کناروں تک پہنچ جاتی ہے جہاں تک انسان رہتا ہے۔ اور تو اور اب دنیا کے کسی بھی چھوٹے سے کمرہ میں مقید ہوں تو ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے براہ راست گفتگو کرسکتے ہیں، کوسوں دور ہونے کے باوجود غمی، خوشی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ سائنس ہی کی بدولت ممکن ہوا ہے جو انسان ہی کا کارنامہ ہے لیکن آج کا انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جب سائنس نہیں تھی، بجلی نہیں تھی، مشینیں نہیں تھیں اور آمدو رفعت کے ذرائع نہیں تھے بلکہ جانوروں کے ساتھ سفر کیا جاتا تھا، اس زمانے میں انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے ایسی ایسی عمارتیں، بت، دیواریں اور نہ جانے کیاکچھ تعمیر کر چھوڑا جس کی نقل آج کے سائنسی دور میں بھی ممکن نہیں ہے اور وہ سب دنیا کی عظیم تعمیراتی عجائبات میں شامل ہوئیں، ایسے انسانوں کےبارے میں کیا سوچا جا سکتا ہے؟۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عظیم انسان کون ہے ؟ اگر آج کا انسان عظیم ہے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ زمانہ قدیم کا انسان عظیم تر تھا اور ہے۔ انسانی ہاتھوں کی یہ تعمیرات اور تاریخ چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ زمانہ قدیم کے انسانوں نے ناممکن کو ممکن میں بدل ڈالا تھا۔ آج کی جس سائنس پر فخر کیا جاتا ہے کیا وہ سائنس آج تاج محل، اہرام مصر، زیوس کا مجسمہ، اسکندریہ کا روشن مینار وغیرہ تعمیر کرسکتی ہے؟ تعمیر تو دور کی بات رہی، آج کی سائنس ان کی نقل کرنے میں بھی ناکام رہے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ سائنس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی ماضی کے انسانوں نے دنیا میں عجوبے تعمیر کر چھوڑے تھے جن پر آج کی سائنس تحقیق کر رہی ہے اور کچھ زمانے کی گردش اور قدرتی آفات کی نذر ہو گئے لیکن اس کی باقیات اس دور کے عظیم تر انسانوں کی ہمت اور بہادری کے گن گاتی ہیں، آج کی انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس وقت زمانہ قدیم کی عجائبات، قرون وسطیٰ کے عجائبات اور زمانہ جدید کے عجائبات دنیا میں موجود ہیں۔ لیکن حقیقی عجائبات وہی ہیں جو ہزاروں سال قبل انسانی ہاتھوں سےتعمیر ہوئی تھیں۔ زمانہ قدیم کے انسانوں کے ہاتھوں تعمیراتی عجوبوں میں عظیم ایک دیوار چین The greatwall of China بھی ہے۔ اس کے متعلق ہو شربا قسم کے قصے، افسانے اور کہانیاں اقوام عالم کی زبانوں میں لکھے موجود ہیں، دیوار چین کی عظمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس بارے میں عالمی سطح پر یہ یقین کر لیا گیا تھاکہ اس کو چاند کی سطح سے بھی ایک لکیر کی مانند دیکھا گیا ہے،حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جو لوگ چین جا کر دیوار چین دیکھنے کی سکت نہیں رکھتے وہ گوگل کے ذریعے دیوارچین کو دیکھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوبکی لگا سکتے ہیں ،سانپ کی مانند بل کھاتی دیوار چین جوں جوں آپ دیکھتے جائیں گے، توں توں آپ کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جائیں گی۔ چین کی یہ قدیم اور عظیم دیوار چین آج دنیا کے لئے سب سے بڑا نظارے کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہ عظیم دیوار چین کے شمال میں واقع ہے جو حقیقت میں ایک قلعہ نما دیوار ہے جو پہاڑوں ، میدانوں ، سبزہ زاروں اور صحرائے گوپی سے بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے۔ یہ صدیوں میں بننے والی مختلف دفاعی دیواروں کا مجموعہ ہے جس کی تعمیر کی ابتداء کئی سو سال پہلی قبل از مسیح (ق م) ہوئی تھی اور تکمیل 1644عیسوی میں ہوئی تھی ۔ تاریخ کے مطابق چین کے پندرہ سے زائد شاہی خاندانوں کے سینکڑوں برس کے ادوار میں بھی عظیم دیوار چین کی تعمیر ہوتی رہی تھی ۔ تاریخ دانوں نے اس کی تعمیر کی مدت1700 سے2000 سال بتائی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چین کے 15 صوبوں میں سے ہو کر گزرتی ہے ۔ یونیسکو نے 1987 میں اس کو عالمی ورثہ قرار دیا تھا ۔ 1346 میں لکھے گئے ابن بطوطہ کے سفر نامے میں بھی دیوار چین کا تذکرہ ملتا ہے قبل از مسیح کی قدیم تحریر میں اس دیوار کا نام‘‘ چانگ چنگ’’لکھا گیا تھا جس کے معنی لمبی دیوار کے ہیں ۔ اس دیوار کی تعمیر میں چاول کا آٹا استعمال کیا گیا جس کے باعث اینٹوں کی پختگی صدیوں تک برقرار رہی ۔

دیوار چین کیوں تعمیر کی گئی ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی جستجو میں ان گنت تحقیقات ہوئی ہیں اور سب میں متعدد باتیں مشترک بھی پائی گئیں ان میں ایک یہ ہے کہ یہ دیوار دفاعی دفاعی نقطہ نگاہ سے تعمیر ہونا شروع ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دیوار چین کی تعمیر یسوع مسیح کی پیدائش سے تقریبا دوسو سال پہلے شروع ہوئی تھی، (اس بارے میں تاریخ میں مختلف ادوار کا ذکر ملتا ہے)۔ ان دنوں چین کے بڑے دشمنوں میں منگول تاتار تھے جو وسطیٰ ایشیا کے طاقتور لوگ تھے،یہ چور ڈاکو اور جنگجو قسم کے لوگ تھے اور آئے دن چین پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔ انہی حملوں سے بچاؤ کے لئے ایک حفاظتی اور دفاعی دیوارکے بارےمیں سوچا گیا تھا۔ کن شی ہوانگ بادشاہ کے دور میں پندرہ سو کلومیٹر دیوار تعمیر کی گئی تھی جو پانچ سے آٹھ میٹر بلند تھی۔ اس کی نیچے سے چوڑائی پچیس فٹ جب کہ اوپر سے بارہ فٹ کے قریب تھی۔ اس کو دیوار چین کی ابتداء کہا جاتا ہے جو دفاعی نقطہ نگاہ سے شروع ہوئی تھی، بعد میں دیوار کی بلندی ہر دور میں مختلف رہی ہے۔ دیوار چین پر500 میٹر بلند ایسے ٹاور بھی تعمیر کئے گئے تھے جہاں سے تیر انداز، تیروں کی بارش کیا کرتے تھے ۔ سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے بڑے قلعے تعمیر ہوئے ۔

عظیم دیوار چین کی تعمیر اپنے اندر محض مٹی، پتھر، پانی اور چاول کے آٹا کی آمیزش ہی نہیں سموئے ہوئے ہے بلکہ انسانی آنسو، خون، پسینہ اور اس دور کے بادشاہوں کا ’جبر‘ بھی اس میں شامل ہے، اس کی تعمیر میں لاکھوں انسان موت سے ہمکنار ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس ابتدائی تعمیر کے دور میں تین لاکھ سے زائد انسانوں کو دس سال تک جبری طور پر اس کی تعمیر میں شامل کیا گیا تھا جو یقینا جبری مشقت کے زمرے میں آتی ہے۔ وقت گزرتا رہا اور پھر اس تعمیر کا سلسلہ نہ رکا، سینکڑوں، ہزاروں سال گزر گئے، ہر بادشاہ کے دور میں کئی کئی ہزار کلومیٹر دیوار تعمیر کی جاتی رہی۔ گویا یہ ایک ایسی واحد انسانی تعمیر ہے جو کئی صدیوں میں مکمل ہوئی، ہزاروں سال تک اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا۔ درجنوں سلطنتوں کے ادوار میں اس کی دفاعی نقطہ نگاہ سے تعمیر کا سلسلہ جاری رہا اور یہ کئی کئی ہزار کلو میٹروں کے حساب سے تعمیر ہوتی رہی اور بالاخر ایک وقت وہ بھی آیا جب ان سبھی دیواروں کو یکجا کردیا گیا اور یوں ’’عظیم دیوار چین‘‘ کی تخلیق ہوئی۔ اس دوران منگولوں اور دیگر بیرونی حملوں کے باعث یہ دیوار ٹوٹتی بھی رہی اور اس کی تعمیر بھی ہوتی رہی۔ تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ جب کئی ہزار سال تک بادشاہوں نے اس دیوار کی طرف توجہ نہ دی اور اپنے اندرونی معاملات میں الجھے رہے تو دیوارشکست و ریخت کا شکار ہونا شروع ہوئی ،1234 عیسوی میں چنگیز خان نے اس کا فائدہ اٹھایا اور شہنشاہ چین کو اقتدار سے محروم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور چنگیز خان کی تاتاری فوج دیوار چین کو روندتی ہوئی شمالی علاقہ سے چین میں داخل ہوگئی اور منگول خاندان سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ 1368 میں چین کے منگ خاندان نے ایک بار پھر تاتاریوں کو چین سے نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی اور چین کی حفاظت کے لئے شمالی سرحدوں پر دیوار چین کی تعمیر نو شروع کی، پھر یہی وہ منگ خاندان کا دور حکومت ہے جس میں دیوار چین کی تعمیر کی تکمیل ہوئی اور اس کی لمبائی ہزاروں کلومیٹر تھی۔ یہ دیوار زیادہ تر پتھروں سے تعمیر کی گئی تھی، اور پتھروں کے درمیانی خلا کا مٹی اور اینٹ کے روڑوں سے پر کیا گیا تھا۔ ارد گرد کی نگرانی کے لئے جگہ جگہ چوکور میناروں کی تعمیر کی گئی، جس سے چین شمالی سرحدوں سے ہر قسم کے حملوں سے محفوظ ہو گیا تھا ۔ آثار قدیمہ کے ایک سروے کے مطابق دیوار چین کی کل لمبائی21196 کلو میٹر(13171میل) ہے۔ دیوار چین کی تعمیر کا سب سے بڑا حصہ ’’منگ خاندان‘‘ کے دور میں تعمیر ہوا جو 1368 اور1644 کے عرصہ کا تھا۔ منگ دور میں 8851 کلو میٹر دیوار تعمیر ہوئی جس میں 359 کلو میٹر خندقیں اور25000 حفاظتی ٹاور اس میں شامل تھے، مجموعی طور پر کئی لاکھ انسان دیوار کی تعمیر میں موت کا شکار ہوئے ،کہا جاتا ہے کہ اس خاندان کی تعمیر کردہ دیوار کا ایک بڑا حصہ مٹ چکا ہے۔ دیوار کا 2232 کلو میٹر کا حصہ قدرتی رکاوٹوں پر مشتمل ہے جس میں پہاڑ، ندیاں، دریا شامل ہیں۔ دیوار چین پر محققین نے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق دیوار چین نے جہاں چینیوں کو شمالی سرحدوں کے جنگجوؤں سے بچانے کے لئے دفاعی دیوار کا کردار ادا کیا وہیں اس دیوار سے اس دور میں مقامی معیشت اور کلچرکو بھی فروغ ملا تھا، دونوں اطراف کے ممالک اور قبائلوں کے درمیان ثقافتی تبادلے بھی ہوا کرتے تھے۔ قدیم زمانہ میں جنگ کے دوران دیوار پر بنے بیکن ٹاوروں سے مختلف قسم کے سگنل دینے کا کام بھی اس دیوار سے لیا جاتا رہا تھا ۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ تجربہ1991 میں گریٹ وال کے ساتھ کیا گیا تھا، بیکن ٹاوروں اور جدید کاروں کے ذریعے ایک پیغام لوگوں تک پہنچانا تھا، تجرباتی فاصلہ سات میل کا تھا، بیکن ٹاوروں کے ذریعے بھیجے گئے پیغام کو منزل مقصود تک پہنچنے میں سات منٹ اور 26 سیکنڈ لگے جبکہ کاروں کے ذریعے9 منٹ اورپانچ سیکنڈ لگے تھے، جس سے ثابت ہوا کہ ان بیکن ٹاوروں نے جنگوں میں اہم کردار کیا ہے۔ دیوار چین نے ہزاروں سال اس خطے میں انتہائی مثبت کردار ادا کیاہے، جنگ کے دنوں میں روزانہ کی کھانے پینے اور دفاعی ضروریات کے ہتھیاروں کی رسد اور ذخیرہ کرنے میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ دیوار پر ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے قلعے بھی تعمیر کئے گئے تھے، قلعوں میں موجود سپاہیوں کو کمک کی فراہمی میں یہ دیوار بہت مفید ثابت ہوتی رہی۔ شاہراہ ریشم کے تحفظ کے لئے بھی اس دیوار سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ تاریخ میں جن جن چینی بادشاہوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اس کی تعمیر اور اس کے بڑھانے میں کردار ادا کیا ان میں قبل مسیح اور عیسوی دور کے بادشاہ شامل ہیں ملاحظہ کریں (تصویر مع پیریڈ)۔

عظیم دیوار چین دور حاظر میں ایک ثقافت کا رنگ اختیارکر چکی ہے، دنیا بھر کے لاکھوں سیاح اس کو دیکھنے جاتے ہیں ۔ عام لوگوں کے علاوہ سینکڑوں دنیا کی بڑی بڑی سیاسی اور حکومتی شخصیات دیوار چین کو دیکھ چکی ہیں۔ ان میں یوایس ایس آر کے سابق صدر، امریکی رچرڈ نکسن انہوں نے اپنے دورہ چین فروری1972 میں کہا تھا کہ ’’صرف ایک عظیم قوم ہی ایسی عظیم الشان دیوار تعمیر کرسکتی ہے‘‘، رونلڈ ریگن سابق امریکی صدر، برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر1977، جاپان کے سابق وزیر اعظم، برطانیہ کی کوئین الزبتھ دوم،صدر بارک اوباما، ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیر اعظم، بھارت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی، امریکی صدربل کلنٹن، جارج بش، روس کے صدر پیوٹن، مصر کے صدر بشر السد، کینڈا کے وزیر اعظم وغیرہ شامل ہیں، ان کے علاوہ دیگر اور بھی عالمی شخصیات شامل ہیں جنہوں نے دیوار چین کو دیکھا اور اس کی تعمیر پر زمانہ قدیم کے انسان کو اس کی ہمت، بہادری پر خراج تحسین پیش کیا۔

(منور علی شاہد (جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مارچ 2021