رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ (القرآن)
رحمت اور عذاب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے انتہا مقامات پر کیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جہاں قرآن میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور انعامات و افضال کا ذکر آئے تو وہ رحمٰن و رحیم خدا سے مانگنی چاہئیں اور جہاں عذاب کا ذکر ہو وہاں اس سے پناہ مانگی جائے۔
رحمت، اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں رحمٰن اور رحیم سے مشتق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں سب سے پہلے اپنی صفات رحمٰن اور رحیم ہی بیان فرمائی ہیں جیسے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ (فاتحہ) گویا اللہ تعالیٰ کی تجلیات اور انعام وافضال کا ذکر رحمٰن اور رحیم سے ہی شروع ہوتا ہے۔ ان دو صفات کی تشریح میں لکھا ہے۔
i۔الرحمٰن۔ بِن مانگے دینے والا خدا۔ یعنی انسانوں اور ذی روح کے لئے ایسی ضروریات خود ہی مہیا فرما دیں جو اس کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔ جیسے آسمان، زمین، پانی اور ہوا وغیرہ۔
ii۔الرحیم۔ باربار رحم کرنے والا خدا یعنی وہ بالا ہستی جس کے آگے دست دعا پھیلایا جائے، مانگا جائے، سجدوں میں دعائیں کی جائیں جن کو وہ قبول کرکے اپنی مخلوق (جو اس کی عیال ہے) کو بار بار نوازے۔
حضرت الحاج حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنے ترجمہ قرآن میں 114 بار (سورتوں کے اعتبار کے حوالہ سے) الرحمٰن الرحیم کے مختلف معانی کئے ہیں جو خاکسار نے اکٹھے کروا کر روزنامہ الفضل آن لائن لندن میں شائع بھی کروا دیئے تھے۔ ان تراجم کو دیکھ اور پڑھ کر اس بالا ہستی کے بلند مقام کا علم ہوتا ہے اور اس کے لئے اللّٰہ اکبر کہنے اور تسبیح و تحمید کرنے کو بار بار دل کرتا ہے۔
احادیث میں بھی رحم مانگنے کی بہت سی دعائیں ملتی ہیں۔ رمضان کے پہلے عشرہ کا نام بھی رحمت کا عشرہ رکھ کر یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ صفات باری تعالیٰ کا آغاز رحمٰن اور رحیم صفات سے ہوتا ہے اور ہمیں اللہ جو رحیم ہے سے ہمیشہ اس کی رحمت کا طلبگار رہنا چاہیے۔
اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کا احاطہ کیا جائے تو آپ کی بے شمار دُعاؤں میں رحم طلب کرنے کی دعائیں ملتی ہیں۔ بلکہ بعض الہامی دعائیں بھی ہیں ۔ جیسے 31 مئی 1903ء کو یہ الہامی دُعا القا ہوئی۔
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ
(تذکرہ صفحہ 392)
اے اللہ! رحم فرما
4 اپریل 1907ء کو یا اللہ رحم کر (تذکرہ صفحہ601) الہام ہوئی۔
30 ستمبر 1907ء کو یہ دُعا الہام ہوئی:
رَبِّ ارْحَمْنِیْ اِنَّ فَضْلَکَ وَ رَحْمَتَکَ یُنْجِیْ مِنَ الْعَذَابِ
(تذکرہ صفحہ 621)
کہ اے میرے رب! مجھ پر رحم فرما۔ یقیناً تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے نجات دیتے ہیں۔
سورۃ الاعراف آیت 157، 158 میں رحمت کے بارہ میں ایک لاجواب مضمون بیان ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب اور اپنی رحمت میں کمال اعلیٰ ظرف کے مطابق فرق فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ کہ میں اپنے عذاب کو جس پر چاہوں وارد کروں اور میری رحمت تو ہر چیز پر حاوی ہے۔ گویا عذاب محدود کے لئے ہے اور رحمت کا دائرہ ساری کائنات پر محیط ہے جس میں جاندار اور بے جان روحیں بھی شامل ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ تفسیر صغیر میں اس آیت کے الفاظ» فَسَاَ کْتُبُھَا کہ میں اِسے ان لوگوں کے لئے لکھ چھوڑوں گا «کے تحت فٹ نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں « یعنی رحمت کافروں کو بھی پہنچے گی مگر مومنوں کے لئے تو اسے فرض کردیا ہے»۔
پھر رحمت کے وسعت کے ذکر کے معاً بعد ان متقی لوگوں کا ذکر ہے جو اپنے نیک اور طیب اعمال سے اس رحمت کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں گے۔ جو یہ ہیں
i۔یَتَّقُوْنَ۔ جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔
ii۔ یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ۔ وہ جو زکوٰۃ دیتے ہیں۔
iii۔وَالَّذِيْنَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُوْنَ یعنی وہ ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔
iv۔اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ یعنی جو اس رسول نبی امی (حضرت محمد رسول اللہ ﷺ) پر ایمان لاتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے نبی امی کی تشریح میں بعض علامات کا ذکر فرما کر مومنوں کو ان کی پیروی کی تلقین فرمائی۔ تا ان پر عمل کرکے اللہ کی وسیع رحمت سے حصہ دار بن سکیں۔
یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔ کہ وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے۔
وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ۔ کہ وہ انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے۔
وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ۔ کہ وہ ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے۔
وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ۔ کہ ان پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے۔
وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ۔ کہ وہ ان سے اُن کے بوجھ اور طوق اُتار دیتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔
اور آیت کے اخیر پر فرمایا کہ
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ۔ وہ لوگ اس (نبی) پر ایمان لاتے ہیں۔
وَ عَزَّرُوْهُ۔ اور اُسے عزت دیتے ہیں۔
وَ نَصَرُوْهُ۔ اور اس کی مدد کرتے ہیں۔
وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ اور اس نور (قرآن کریم) کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے نور سے مراد سنت نبوی بھی لی ہے۔
(فٹ نوٹ آیت متذکرہ بالا ترجمہ قرآن صفحہ384)
گویا یہ نیکیوں کے 13 کام ہیں جو آنحضورﷺ کے بالواسطہ یا بلا واسطہ کرنے سے ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وارث ٹھہراتے ہیں۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ کی رحمت سے مالا مال ہونے اور اپنے اور اپنی نسلوں کو بھی اس سے وافر حصہ دلوانے کے لئے اوپر بیان کردہ 13 نیکی کے کاموں کو روزانہ حرزِ جان بنائیں بالخصوص اپنے سب سے پیارے نبی سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی کامل اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھیں تا خدا کا قرب بھی حاصل ہو اور اس کی رحمت کے جلو میں زندگی بسر کرکے کامیاب و کامران اور نہال و بامراد ہوں گے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو شخص بھی اپنے رب پر ایمان لاتا ہے۔ ’’فَــلَا یَخَافُ بَخْسًا وَّ لَا رَھَقًا‘‘ (الجنّ:14) اس کو نہ بخس کا کوئی خوف رہتا ہے اور نہ رہق کا کوئی خوف رہتا ہے۔
بخس کے معنے ہیں ظلم کر کے کسی کو نقصان پہنچانا مگر جو شخص مومن ہوتا ہے اس کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور جس طرح دوسرے مذاہب کا عقیدہ ہے کہ ایک دفعہ جنّت میں لے جائے جانے کے بعد پھر جنّت سے نکال دیا جائے گا۔ شریعت محمدیہ پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں وہ جنّت نہیں ملتی جس سے انسان نکالا جاتا اور دھتکار دیا جاتا ہے اور اُسے یہ کہا جاتا ہے کہ پھر از سر نو کوشش کرو اگر تم مستحق ٹھہرے تو تمہیں جنت مل جائے گی۔
پس اگر عارضی جنت کا عقیدہ درست ہو تو پھر یہ بَخْسًا ہے۔ انسانی فطرت یہ کہتی ہے کہ اُس پر ظلم ہو گیا کیونکہ انسان کی طاقتیں محدود تھیں اور اُسے محدود زمانہ دیا گیا اگر تو غیر محدود زمانہ دیا جاتا تو پھر غیر محدود عمل ممکن ہوتے اور غیر محدود جنت ہو جاتی اور آپس میں کلیش (CLASH) ہو جاتا کیونکہ دو غیر محدود تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے سر ٹکرا دینے تھے۔ جو عقلاً درست نہیں ہے مضمون دقیق ہے مگر جو سمجھنے والے ہیں وہ سمجھ جائیں گے دو غیر محدود ایک دوسرے کا نتیجہ نہیں ہو سکتے کیونکہ نتیجہ انتہاء ہوتا ہے۔ غیر محدود ابتلاء اور امتحان کا زمانہ اور غیر محدود جزاء اور جنت۔ یہ بات عقل میں نہیں آتی۔
پس اگر غیر محدود جنتیں ہیں جن کی انتہاء کوئی نہیں تو عمل محدود ہی ہونے تھے اور جنت غیر محدود ہو گی، رحمتِ الہٰی غیر محدود ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ (الاعراف: 157)
خداتعالیٰ کی رحمت کے مقابلے میں زمانہ کیا چیز ہے۔ یہ تو اس کی ایک پیداوار ہے لیکن اس کی رحمت کی موجیں تو اس کی ہر پیداوار کے اُوپر سے گزر رہی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز اور ہر مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
لیکن ہماری فطرت اور ہماری شریعت ہر دو ہمیں یہی کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کے اوپر حاوی ہے۔ اس واسطے کہ اگر ہماری فطرت یہ نہ کہتی تو محدود عمل کی غیر محدود جزاء کی توقع اور اُمید ہم کیسے رکھتے۔ خداتعالیٰ نے ہماری فطرت کے اندر یہ ڈالا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے تمہیں تھوڑی عمر دی گئی ہے، تمہیں تھوڑے وسائل دئیے گئے ہیں لیکن تمہیں ایک بشارت دے دیتے ہیں کہ اگر تم اپنی اس تھوڑی زندگی میں، اس چھوٹی زندگی میں، خلوصِ نیت کے ساتھ اور کامل توحید پر قائم ہو کر اور شرک کے ہر پہلو سے بچتے ہوئے محدود عمل کرو گے تو تمہیں غیر محدود جزاء مل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں بھی یہی رکھا ہے اور شریعت سے بھی یہی کہلوایا ہے۔
پس یہ اسلامی شریعت ایسی شریعت ہے کہ جو آدمی اس پر ایمان لاتا ہے اُسے یہ خطرہ لاحق نہیں ہوتا کہ اس پر ظلم ہو گا اور وہ گھاٹے اور نقصان میں رہے گا۔
قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے پیارے رنگ میں روشنی ڈالی ہے۔ قرآن کریم نے ظلم کے متعلق تو یہ اعلان کر دیا: ’’وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔‘‘ (ق:30)
اور اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا۔ تو اس سے انسان کی تسلی ہو گئی۔
پھر فرمایا:
’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ ج وَاِنَّا لَہٗ کَاتِبُوْنَ‘‘
(الانبیاء: 95)
کہ جو ایمان لائے گا اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور عمل صالح بجا لائے گا نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ تو ’’فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ‘‘ اس کی کوشش اور اس کے عمل بوجہ انسان ہونے کے اگر ناقص رہ جائیں گے تب بھی ردّ نہیں کئے جائیں گے۔ فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری سعی قابلِ قبول ہو گی ردّ نہیں کی جائے گی بلکہ فرمایا کہ جو شخص اعمال صالحہ بجا لائے گا اور وہ مومن ہو گا اور ایمان کے جُملہ تقاضوں کو پورا کرے گا تو ’’فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ‘‘ اس کو ہم یہ تسلی دیتے ہیں کہ بشری کمزوری کے نتیجہ میں اگر اس کے اعمال میں کوئی کمی اور نقص رہ جائے گا تب بھی اس کے اعمال ردّ نہیں کئے جائیں گے۔ وہ قبول کر لئے جائیں گے۔ اب یہ کتنا بڑا وعدہ ہے جو فَـلَا یَخَافُ بَخْسًا میں انسان کو دیا گیا ہے۔
پھر فرمایا:
وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہٗ جَزَآئَ نِ الْحُسْنٰی
(الکہف: 89)
یعنی جو ایمان لایا اور مناسب حال اعمال بجا لایا اُسے بہترین جزاء دی جائے گی۔ کسی جگہ فرمایا عَشْرُ اَمْثَالِھَا دس گناہ زیادہ دی جائے گی۔ اس طرح پھر ظلم کا تو کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔ رحمت ہی رحمت ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہی ہے۔ انسان کا تھوڑا سا عمل ہوتا ہے اور اُسے بہت بڑی جزاء مل جاتی ہے۔‘‘
(خطبات ناصر جلد سوم صفحہ497-499)