حضرت میاں اکبر علی صاحب رضی اللہ عنہ کا آبائی گاؤں بہادر ضلع گورداسپور تھا۔ آپ 1895ء میں پیدا ہوئے اور پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے والد حضرت مولوی محمد علی صاحب الراعی رضی اللہ عنہ (وفات: 3؍مئی 1961ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) 1895-1894ء کے قریب احمدیت کے ساتھ وابستہ ہوچکے تھے۔ بعد ازاں لاہور کے قریب اراضی ملنے پر لاہوری بھی کہلاتے تھے۔ حضرت میاں اکبر علی صاحبؓ اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’شرف ملاقات حضور سے 1906ء میں ہوا۔ میرے والد صاحب مولوی محمد علی لاہوری نے 1895ء میں بیعت کی تھی۔ میرے والد صاحب نے زمیندارہ کام چھوڑ کر جامع مسجد انبالہ کی امامت اختیار کی ….. جب ان کو دعوے کا علم ہوا تو آپ دو چار مریدوں کے ساتھ قادیان آئے۔ سب نے سوال و جواب کیے آخر لاجواب ہوکر بیعت کر لی۔ انبالہ جاکر اس بات کا پروپیگنڈا کیا، سخت مخالفت ہوئی، امامت سے علیحدہ کر دیا گیا ….. اس کے بعد آپ نے پھر زمیندارہ کام شروع کر دیا اور اب تک زراعت کا کام کرتے ہیں۔ حضرت صاحب کے ساتھ مقدمات میں جاتے رہے ہیں۔
میرے والد نے جب بیعت کر لی تو مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل کردیا۔ پہلی جماعت میں عبدالحئی صاحب صاحبزادہ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی میرے ہم جماعت تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں سے ملتے وقت اُن کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔ مائی فجو کھانا لایا کرتی تھی۔ حضرت اقدس کے کھانے کا بقیہ ہم سب بچے اُس سے تبرکًا لیا کرتے تھے۔ حضرت صاحب بھینی کی طرف سیر کو جایا کرتے تھے، راستہ میں ہم کھیلتے ہوتے تھے، ہم دوڑ کر آپؑ سے مصافحہ کرلیا کرتے تھے۔ آپؑ اس قدر تیز چلتے تھے کہ ہم بچے آپ کے پیچھے دوڑ کر ہی پکڑتے تھے …. ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ 7،6سو آدمی دیکھے۔ سب لوگ حیران تھے کہ کیا قادیان میں اب اس قدر احمدی ہو چکے ہیں…..‘‘
(الحکم 21؍جولائی 1935ء صفحہ4)
تعلیم مکمل کرنے کے بعد کا احوال بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’میں 1917ء میں ملٹری اکاؤنٹس میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ کے طور پر ملازم ہوگیا اور نو سال یہ ملازمت قائم رہی۔ 1926ء میں رخصت لے کر فتنہ ارتداد کے دنوں میں تین ماہ کے لیے اپنے خرچ پر اجمیر، بیادر، آگرہ اور ایٹہ میں تبلیغ کرتا رہا۔ چودھری نبی حسن خاں موضع راؤپٹی متصل ضلع ایٹہ کو بیعت کروانے کے لیے قادیان لے گیا۔ وہاں میرے ذریعہ سے بابو نور محمد صاحب مینیجر کاٹن مل بیادر نے بھی بیعت کی …..اس دوران میں ملٹری والوں نے تخفیف میں رکھ کر مجھے فارغ کردیا چنانچہ ایک سال میں نے اپنے گاؤں میں زراعت کا کام کیا۔ اس کے بعد مجھے کو آپریٹو ڈیپارٹمنٹ میں سب انسپکٹر کی جگہ مل گئی۔ 1935ء میں میں نے امیر علاقہ مکیریاں کے طور پر اس علاقہ میں تبلیغ کی نگرانی کی۔‘‘
(تاریخ احمدیت لاہور از عبدالقادر سوداگر مل صاحب صفحہ375)
آپ نے دارالرحمت قادیان میں بھی مکان بنوایا۔ فہرست صحابہ قادیان مندرجہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم میں آپ کا نام 372نمبر پر درج ہے۔ آپ سلسلہ احمدیہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس کی ایک مثال ملازمت سے رخصت لے کر فتنہ ارتداد کے علاقوں کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے جس کا اوپر ذکر گزرا ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے پچاس روپے شعبہ تبلیغ قادیان کو بھجوائے کہ ضلع لاہور اور ضلع گورداسپور کے دو ایسے احمدی دوستوں کو جو ایک سہ ماہی میں دوسرے افراد کے مقابلہ میں بیعتیں کرانے کے لحاظ سے اول آئیں، پچیس پچیس روپے نقد بطور انعام دیے جائیں۔ اس بارہ میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی سیدنا المصلح الموعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے استصواب کیا گیا تو حضور نے نقدی کی صورت میں انعام دینے کو ناپسند کرتے ہوئے اس کی بجائے یہ صورت پسند فرمائی کہ اول رہنے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتابیں انعام کے طور پر دی جائیں۔‘‘
(الفضل 3؍جولائی 1946ء صفحہ5)
1946ء سے حلقہ پرانی انار کلی لاہور میں بحیثیت پریذیڈنٹ حلقہ خدمت کی توفیق ملی۔ پرانی انار کلی میں آپ کی رہائش نابھہ روڈ پر تھی۔ 1953ء کے فسادات میں لاہور میں آپ کا مکان جلانے کی کوششیں کی گئیں مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپ کو بال بال بچا لیا۔ 1961ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا چندہ تحریک جدید 30 روپے سے 300 روپے اور وقف جدید 20 روپے سے 200 روپے دس گنا بڑھانے کی توفیق بخشی۔ اس کے علاوہ مساجد بیرون پاکستان، دارالذکر لاہور وغیرہ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق ملی۔
(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ376،375)
آپ کی شادی حضرت منشی عبدالغنی صاحب اوجلویؓ (وفات: 19؍جولائی 1961ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) کی بیٹی کے ساتھ ہوئی۔ آپ نے 31؍مارچ 1974ء کو وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 7393) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ اللّٰھم اغفر لہٗ و ارحمہٗ۔
(غلام مصباح بلوچ)