• 29 اپریل, 2024

رنگ انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے

چندروز قبل ٹی وی کے ایک پروگرام میں شا ملین پروگرام کے لباس کے رنگوں پر تبصرہ ہو رہا تھا ۔ ان میں سے ایک شخص نے رنگوں کے حوالہ سے کہا کہ:۔
’’رنگ انسان کی شخصیت کا آ ئینہ دار ہوتا ہے‘‘ جونہی یہ فقرہ میرے کانوں میں داخل ہوا ۔ فوراً میرا ذہن سورة البقرہ کی آیت 139 کی طرف ملتفت ہوا ۔ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے :۔

صِبْغَتَہ اللّٰہ وَ مَنْ اَ حْسَنُ مِنَ اللہ صِبْغَۃ

اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے (ترجمہ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر صغیر میں اس کے تحت فٹ نوٹ میں تحریر فر مایا ہے :۔
’’عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جہاں کسی کو کسی کام کی ترغیب دلانی ہو وہاں اس فعل کو جس میں ترغیب کے معنے پائے جاتے ہیں حذف کر دیا جاتا ہے اور صرف مفعول بہ بیان کر دیا جاتا ہے یہاں نَتَّبِعُ فعل محذوف ہے اور اصل فقرہ یوں ہے۔ نَتَّبِعُ صِبْغَۃ اللّٰہ۔ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کا دین اختیار کریں گے‘‘

’’اور تفسیر کبیر میں نَتَّبِعُ کی بجائے اِ تَّبِعُوْا لکھا ہے اللہ کا دین اختیار کرو‘‘

گویا ترجمہ یوں ہوا اللہ کا دین اختیار کرو اور دین سکھانے کے معاملہ میں اللہ سے کون بہتر ہو سکتا ہے ۔ یعنی اللہ کی ملّت اور فطرت اختیار کرو ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ ترجمہ فرماتے ہیں کہ الٰہی رنگ میں رنگین ہو جاؤ (حقائق الفرقان ص251)

اللہ کا رنگ اختیار کرنے یا اس کے دین کو اپنانے سے ساری دنیا کے مسلمانوں بالخصوص احمدی مسلمانوں کا رنگ وہی ہوگا جو سب سے زیادہ سیّد نا و امامنا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ پر چڑھا اور آپ کے توسط سے صحابہؓ اور پھر آج آنحضورﷺ کے روحانی فر زند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آنحضور ﷺ کا رنگ ہم احمدیوں پر چڑھا اور خلافت کے ذریعہ ان پروانوں اور روحانی پرندوں پر یہ رنگ چوکھا چڑھتا چلا گیا اور تمام دنیا میں ایک ہی رنگ اور ایک ہی بولی والے پرندے پیدا ہوتے گئے اور آ ئندہ بھی ان شاء اللہ پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ جیسے ایاز محمود میں حضرت ام طاہرؓ کے متعلق حضرت حشمت اللہؓ نے لکھا کہ آپ میں دینی شغف بہت تھا۔ ارکان اسلام کی نہایت پابند تھیں اور خواہش رکھتی تھیں کہ دوسری مستورات بھی اس رنگ میں رنگین ہوجائیں۔

(ایاز محمود صفحہ187)

جیسا کہ مادی پرندوں کی بولیاں تمام دنیا میں ایک جیسی ہوتی ہیں، گزشتہ سال مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نمائندگی میں سیرالیون جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ Landing کے بعد ہم دونوں میاں بیوی کو لنگے ائیر پورٹ ہی کے قریب ایک مشن ہاؤس میں رات بسر کرنی پڑی ۔ صبح سویرے کوئیل کی آواز سننے کو ملی۔ اس آواز سے ایسا سماں بندھ گیا جس نے پاکستان کی دیہاتی زندگی کی یادیں تازہ کر دیں ۔ اور یہاں برطانیہ Farnham میں بھی صبح سویرے روزانہ ہی کوئیل کی حسین اور پُر کشش آواز سنائی دیتی ہے اور پاکستانی ماحول یاد آجاتا ہے ۔ اسی طرح روحانی پرندے جہاں ہمرنگ ہوتے ہیں اُن کی بولیاں بھی مشترک ہوتی ہیں اور مزاج بھی خلافت کے پلیٹ فارم تلے سانجا ہوجاتا ہے۔

اللہ کا رنگ اپنانے کے متعلق ایک اداریہ خاکسار نے گزشتہ رمضان میں تحریر کیا تھا جو الفضل آن لائن کی زینت بن چکا ہے۔ جس میں خاکسار نے اللہ تعالیٰ کی جو تعلیمات قرآن و احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ ان کو اپنا کر آ نحضور ﷺ کے اُ سوہ کو ماڈل کے طور پر اپنا بنا کر الٰہی رنگ کو اپنے اوپر چڑھانے کی درخواست کی تھی ۔آج جو مضمون اس حوالہ سے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔ وہ صفات باری تعالیٰ کو اپنے اندر حسب توفیق سمونے سے متعلق ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ «رحیم» ہے اور دعاؤں کو سُن کر نرمی و رحم کا سلوک اپنے بندے سے کرتا ہے تو ایک مومن کو بھی اپنے درجے سے کم لوگوں کی اگر وہ التجا کریں تو مثبت جواب دینا چائیے ۔ مجھے یاد ہے کہ استادی المحترم سید میر محمود احمد ناصر ایک دفعہ مسجد مبارک میں درس الحدیث دے رہے تھے ۔ آپ نے فر مایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت» الاوّل « بھی ہے ۔اس لئے ہم میں ہر ایک کو یہ صفت اپنا کر نیکیوں میں ایک دوسرے پر اوّلیت اور فوقیت حاصل کرنی چائیے ۔

میں بیان کر رہا تھا کہ اس دفعہ صفات باری تعالیٰ سے اپنے آپ کو رنگین کرنے کی درخواست کروں تو یوم مصلح موعود کے حوالہ سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے اقتباسات پڑھتے صبغۃ اللہ کے متعلق بھی ایک اقتباس ملا۔ جس میں اللہ کی صفات کو لبادہ بنانے کی تلقین ملتی ہے ۔

آپؓ فر ماتے ہیں :۔
’’صِبْغَۃ اللہ کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو۔ یعنی ہمیشہ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اور دیکھتے رہو کہ کیا تم صفات الٰہیہ کے مظہر بنے ہو یا نہیں بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی غرض کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کا مظہر بنے اور اس کی قابلیت خود اس نے انسانی فطرت کے اندر ودیعت کردی ہے۔ کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کی ربوبیت کا مظہر نہیں بن سکتا یا رحمانیت کا مظہر نہیں بن سکتا یا رحیمیت کا مظہر نہیں بن سکتا یا مالک یوم الدین کا مظہر نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ تمام قابلیتیں رکھ دی ہیں اور اسی کی طرف رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ خلق اللّٰہ اَدم علیٰ صورتہ (بخاری جلد 2 کتاب الاستیذان) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی مادی شکل نہیں اور نہ اسلام اس کا قائل ہے پس اللہ تعالیٰ کی صورت پر آدم کو پیدا کرنے کا یہی مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم میں صفات الٰہیہ کا مظہر بننے کی قابلیت رکھ دی اب کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ان صفات کو اپنے وجود کے ذریعہ ظاہر نہیں کر سکتا جس طرح خدا تعالیٰ ستار ہے ۔ اسی طرح وہ بھی ستار بن سکتا ہے ،جس طرح خدا شکور ہے اسی طرح وہ بھی شکور بن سکتا ہے، جس طرح خدا وہّاب ہے اسی طرح وہ بھی وہّاب بن سکتا ہے جس طرح خدا رزّاق ہے اسی طرح وہ بھی اپنے دائرہ میں رزّاق بن سکتا ہے ۔ اور در حقیقت اسلامی نقطہ نگاہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب بھی وہی شخص حاصل کرتا ہے جو صفات الٰہیہ کا مظہر بن کر اللہ تعالیٰ سے مشارکت پیدا کر لیتا ہے۔ اور اُسی کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے۔ دیکھو آک کا ٹڈا آک کے پتوں میں رہ کر ویسا ہی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ اور تیتری جن پھولوں میں اُ ڑتی پھرتی ہے اُن کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ کیا ہم ٹِڈوں اور تیتریوں سے بھی گئے گزرے ہیں اور ہمارا خدا نعوذ باللہ آک اور پھولوں سے بھی گیا گزرا ہے کہ ٹڈا اگر آک میں رہتا ہے تو اُن کا رنگ قبول کر لیتا ہے تیتریاں جن پھولوں میں رہتی ہیں اُن کا رنگ اخذ کر لیتی ہیں ۔ لیکن خدا تعالیٰ کے بندے اس کے پاس جائیں اور وہ اُسکا رنگ قبول نہ کریں دراصل اپنے دل کی بد ظنی ہوتی ہے۔ جو انسان کو ناکام و نامراد رکھتی ہے رسولِ کریم ﷺ فرماتے ہیں:۔ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے اَنا عِنْد ظنْ عبدی بی۔ جیسا بندہ میرے متعلق گمان کرتا ہے ویسا ہی میں اس سے سلوک کرتا ہوں وہ لوگ جن کے دلوں میں اپنی عظمت کا احساس نہیں ہوتا یا خدا تعالیٰ کے متعلق یقین نہیں ہوتا ان کو کچھ نہیں ملتا لیکن جو لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں معزز بنایا ہے اور بڑی بڑی طاقتیں عطا کی ہیں اور وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے اور بڑے بڑے انعام دینے والا ہے وہ خالی نہیں رہتے بلکہ اپنے ظرف کے مطابق اپنا حصہ لے کر رہتے ہیں پس خدا تعالیٰ نے اس آ یت میں توجہ دلائی ہے کہ تم دنیا میں سے کسی نہ کسی کا رنگ اختیار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اور جب تم نے بہر حال کسی کا رنگ اختیار کرنا ہے تو ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم اپنے دوستوں کا رنگ اختیار نہ کرو ۔ تم اپنے بیوی بچوں کا رنگ اختیار نہ کرو تم اپنے اساتذہ کا رنگ اختیار نہ کرو۔ تم اپنے ماحول کا رنگ اختیار نہ کرو۔ تم اپنی حکومت کا رنگ اختیار نہ کرو بلکہ تم خدائے واحد کا رنگ اختیار کرو ۔ کیونکہ اُس نے تم کو پیدا کیا ہے اور اس سے تعلق ہی تمہاری نجات کا موجب ہو سکتا ہے ۔

وَ مَنْ اَ حْسَن مِنَ اللہ صِبغَۃ اور اللہ تعالیٰ سے بہتر اور خوبصورت رنگ تم پر اور کون چڑھا سکتا ہے اس رنگ کے بعد تم بہروپئے نہیں بنو گے بلکہ ایک حسین ترین وجود بن جاؤ گے جسے دیکھ کر دنیا کی آ نکھیں خیرہ ہو جائیں گی ۔ اور وہ تمہیں اپنے مکالمات و مخاطبات سے مشرف کرے گا۔ تم پر اپنے غیب کے اسرار کھولے۔ اور تمہیں اپنے غیر معمولی انعامات سے بہرہ ور فر مائے گا‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2 ص 217۔218)

پھر آ پؓ فر ماتے ہیں :۔
’’غرض صبغۃ اللہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے اور اس کے رنگ میں رنگین ہونے کی نصیحت کی گئی ہے جو انسانی پیدائش کا حقیقی مقصد ہے اور جس پر بنی نوع انسان کی نجات اور اللہ تعالیٰ کا قرب منحصر ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد2 ص219)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ نے ترجمۃ القرآن کے نیچے Foot note میں تحریر فر مایا ہے :۔
« نصاریٰ کا اصطباغ کس کام کا ۔ ا لٰہی رنگ سے ہم رنگین ہیں :
اپنے گزشتہ اداریہ (جس کا ذکر خاکسار اُ وپر کر آیا ہے) کے مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے خاکسار اپنے قارئین سے عرض کرنا چاہے گا کہ اللہ کی صفات کو اپنے اندر اُس وقت تک نہیں اُتارا جا سکتا جب تک قرآنی تعلیم کو نہ اپنایا جائے آ نحضور ﷺ کی سیرت کے بارے میں کسی نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا تو آپ نے فر مایا :۔ کَانَ خُلُقہُ القرآن کہ آپؐ کے اخلاق اور آپ کی زندگی مجسم قرآن تھی ۔

آ نحضورﷺ فر ماتے ہیں :۔

اپنی آنکھوں سے بھی عبادت میں حصہ لیا کرو۔ صحابہ نے پوچھا یہ کیسے ہو؟

فرمایا آ نکھوں سے قرآن کو دیکھنا، اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے عجائبات کو سمجھنا۔

(البیہقی حدیث نمبر 2222)

میرا ایک دفعہ کچھ احمدی دوستوں کے ساتھ انارکلی لاہور سے گزر ہوا وہاں ایک ٹیلر کی دکان کے باہر لکھا تھا :۔

God makes men and we make them
Gentlemen

میرے ساتھی اس فقرہ سے محظوظ تو ہوئے۔ لیکن میں نے اُن سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس فقرہ سے شرک کی بو آتی ہے ہمیں اسے یوں پڑھنا چائیے۔

God makes men and Quran makes them
Gentlemen

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنی تعلیمات سے آ شکار کرتا رہے اور ہماری نسلیں اس سے رہنمائی لے کر مقربین الی اللہ میں شمار ہوں ۔آ مین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اپریل 2021