• 28 اپریل, 2024

بیوور (Beaver) ڈیم بنانے والا انجینئر

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کروڑوں اقسام کے چارپائے، حشرات اور چرند پرند پیدا کرکے انہیں ایسی ایسی منفرد صلاحیتیں عطاء فرما دی ہیں جن کو دیکھ کر انسانی عقل بھی ششدر رہ جاتی ہے۔

سمندروں کے پاتال سے فضاء تک یہ زمین کے ماحول کو متوازن رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔کوئی خشکی پر رہتا ہے، کسی کا مسکن پانی ہے، کئی ایسے ہیں جو دونوں جگہوں پر بسیرا رکھتے ہیں۔ کچھ کی اڑان تیز ہے،کوئی رفتار میں بے مثال ہے تو کسی کی طاقت حیران کن ہے۔کوئی اندھیرے میں اپنے شکار کو دیکھ سکتا ہے تو کوئی سینکڑوں میل دور سے اپنی خوراک سونگھ لیتا ہے۔ کئی جان لیوا زہریلے ہیں تو انہیں میں شہد بنانے والے بھی ہیں۔ یہ بہترین منصوبہ ساز ہیں، بے مثال حملہ آور ہیں تو قدرت نے انہیں بہترین دفاعی صلاحیتوں سے بھی نواز رکھا ہے۔ایسے ہی ایک منفرد صلاحیت کے حامل جانور کا تعارف پیش ہے جو پچھلے بیس ملین سال سے زمین پرآباد چلا آرہا ہے۔

اس کا نام بیوورہے۔

شمالی امریکہ ، کیلفورنیا اور ایری زونا میں پایا جاتا ہے. یہ جسامت میں کم و بیش لومڑی کے برابر ہوتا ہے۔دیکھنے میں ایک بڑے سے چوہے کی طرح لگتا ہے۔یہ سبزہ خور جانور ہے جو پانی اور خشکی میں رہتا ہے۔اس کے پنجے طاقتور ہوتے ہیں، یہ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور دو پیروں پر چل سکتا ہے۔اس کی چپٹی مضبوط دم پانی میں تیزی سے تیرنے میں مدد کرتی ہے۔اس کے دانت اور جبڑے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ انسانی انگوٹھے کے برابر موٹی ٹہنی کو ایک ہی بار میں دانتوں سے کاٹ کر دولخت کر سکتا ہے۔جنگلی حیات فلمانے والے ایک کیمرہ مین نے ایک بیوور کو بیس بال کے بیٹ سے دگنی موٹائی رکھنے والی شاخ دانتوں سے کترتے دیکھا جس نے صرف دس منٹ میں شاخ کو درخت سے علیحدہ کر دیا تھا۔ان کے دانتو ں میں آئرن کافی مقدار میں پایا جاتا ہے جس کی بدولت ان کے دانت نارنجی رنگ کے ہوتے ہیں اور مسلسل بڑھنے کے ساتھ قدرتی طور پر گھستے اور تیز ہوتے رہتے ہیں۔

بیوورکی وجہ شہرت بہتی ندیوں پر پشتے لگا کر اپنے لیے ڈیم بنانا ہے۔ یہ شاندار انجینئر ہوتے ہیں، خاندان کے تمام افراد مل کر ڈیم کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں۔ڈیم بنانے کے لیے ندی کنارے درختوں کو اپنے دانتوں سے کترتے ہیں۔ دانتوں سے درخت کترنا طاقت،محنت کے ساتھ صبر آزما کام ہے۔ایک حربہ یہ بھی استعمال ہوتا ہے کہ بیوور ہوا کے رخ کا بخوبی اندازہ رکھتے ہیں چنانچہ درخت کی ایک جانب سے کترتے ہیں۔ اس طرح ہوا کے تھپیڑوں سے کھوکھلا ہو چکا درخت تھوڑا سا کترنے کے بعد ہی گر جاتا ہے اور انہیں زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑتی۔درخت کے گرنے کے بعد یہ اس کی شاخیں کترتے ہیں اور انہیں گھسیٹ کر ڈیم کی دیوار کے ساتھ ترتیب سے لگاتے جاتے ہیں۔ ڈیم کی تعمیر میں درختوں کے علاوہ ندی کی تہ سے اکھاڑی ہوئی مٹی، پتھر اور ندی میں اگنے والی جالا نما گھاس کا بھی استعمال کرتے ہیں۔

یہ پتھروں اور مٹی کو اپنے اگلے پنجوں میں بھر بھر کے لاتے ہیں۔چھوٹے بچے والدین کا ہاتھ بٹانے کے دوران مسلسل ڈیم بنانا سیکھتے رہتے ہیں۔ ڈیم بنا لینے کے بعد یہ اپنے ڈیم سے غافل نہیں ہو جاتے بلکہ دن کے مختلف اوقات میں پشتوں کے ساتھ بڑی خاموشی سے تیرتے ہیں تاکہ اگر کہیں سے ڈیم کی دیوار میں سے پانی بہ رہا تو اس کی آواز سن سکیں۔ اگر ڈیم سے پانی رس رہا ہو تو پتھروں،تالاب کی مٹی اور حسب ضرورت درختوں کی شاخوں سے مرمت کا کام فوری شروع کر دیتے ہیں۔ یہ خرابی پر منحصر ہے اگر شگاف بڑا ہو تو ایک سے زیادہ بیوور مل کر تب تک مرمت کا کام کرتے ہیں جب تک شگاف پُر نہ ہوجائے۔

ڈیم بنانے سے انہیں بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ڈیم بننے سے ندی کنارے درخت زیادہ سرسبز رہتے ہیں جن پر ان کی خوراک کا انحصار ہوتا ہے۔ ان کے بنائے ہوئے ڈیم چار فٹ تک گہرے ہو سکتے ہیں۔یہ پانی کے اندر پانچ سے پندرہ منٹ تک ڈبکی لگا سکتے ہیں جس کی وجہ سے یہ محفوظ رہتے ہیں۔ تالاب ان کا ریفریجریٹر بھی ہے جس میں یہ سردیوں کے لیے خوراک ذخیرہ کرتے ہیں۔

یہ درختوں کی بڑی بڑی شاخوں کو ایک سرے سے اپنے دانتوں میں جکڑ کرتیزی سے تیرتے ہوئے ندی کی تہ میں زور سے مارتے ہیں۔اس طرح شاخ ندی کی تہ میں گڑ جاتی ہے۔ پانی کے اندر ڈوبی رہنے سے یہ شاخیں سردیوں کا سارا موسم تر و تازہ رہتی ہیں اور انہیں خوراک کے حصول میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

بیوور اپنا قلعہ نما گھر ندی کے بالکل کنارے پر بناتے ہیں۔گھر بنانے میں وہی ساز و سامان استعمال ہوتا ہے جو ڈیم کی تعمیر میں کام آ تا ہے۔ ان کا گھر اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ طاقتور ریچھ بھی اسے نہیں توڑ سکتا۔گھر کا داخلی راستہ پانی کے نیچے سے ایک سرنگ کی صورت میں بناتے ہیں۔حفاظتی نقطہ نگاہ سے یہ ایک بہترین حکمت عملی ہے کیونکہ اگر کوئی ان تک پہنچنا چاہے تو اسے پانی کے اندر سے ان کے گھر کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔یہ بالعموم اپنے گھر کے دو داخلی راستے بناتے ہیں۔گھر بناتے وقت ہوا کی آمد و رفت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور ایسے رخ پر گھر بناتے ہیں کہ سردیوں کی ہوا سیدھی گھر میں داخل نہ ہونے پائے۔گھر کا رقبہ 12 میٹر تک پھیلا ہوتا ہے اور اونچائی تین میٹر تک ہو سکتی ہے۔گھر بناتے ہوئے پہلے موٹی لکڑیاں اور شاخیں ترتیب سے رکھتے ہیں ان کے اوپر گھاس پھونس کی تہ جمانے کے بعد اس پر مٹی سے لیپ کرتے ہیں۔ ڈیم بنانے میں بھی کم و بیش یہی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔بیوور اپنے جسمانی وزن کے برابر وزن اٹھا سکتے ہیں۔گھر بنانے میں بیس دن لگ جاتے ہیں اور گھر میں استعمال کیے گئے خام مال کا وزن تین ٹن تک ہوتا ہے۔گھر کے اندر الگ الگ چیمبر بناتے اور جوڑوں کی صورت میں رہتے ہیں۔موسم بہار میں مادہ بیوور تین سے چار بچے دیتی ہے۔دو ماہ تک مادہ بچوں کا خیال رکھتی ہے۔لیکن پیدائش کے صرف تین دن بعد ننھے بیوور ان شاخوں پر کاٹنے کی مشق کرنے لگ جاتے ہیں جو ریفریجرٹر سے لائی جاتی ہیں۔گھر کے اندر تین بڑے کمرے ہوتے ہیں جن میں ہر ایک کا الگ الگ داخلی راستہ ہوتا ہے۔ایک میں یہ آرام کرتے ایک، ایک بچوں کے لیے جبکہ تیسرا کمرہ کھانے کا ہوتا ہے جہاں یہ سب اکھٹے ہوکر ریفریجریٹر سے لائی گئی شاخیں چرتے ہیں۔

کسی خطرہ کی صورت میں یہ پانی پر تیرتے ہوئے اپنی دم کو زور سے پانی پر مار کر دوسرے بیوورز کو آگاہ کرتے ہیں۔ سردیوں میں جب ندی کے اوپر برف کی موٹی تہ جم جاتی ہے یہ اس کے نیچے وقتا ًفوقتاً تیرتے رہتے ہیں۔

یہ ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں اور خوراک کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک خاندان کی صورت میں مل جل کر رہتے اور بہت مصروف پُر مشقت گرمیاں گزارتے ہیں۔ بییور ہمارے لیے تعاون باہمی کی بہترین مثال ہیں۔

(ترجمہ و تلخیص مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2021