• 30 اپریل, 2024

بہر حال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعویٰ کو زلزلوں اور آفات کے ساتھ کس طرح جوڑا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس حقیقی مومن کی پکار مشکل اور مصیبت سے نجات پانے کے بعد بھی اللہ اللہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن بد عہد اور ناشکرے اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور پھر وہی ظلم و تعدّی، شرک اور ہر قسم کی برائیوں کا اُن سے اظہار ہوتا ہے۔ وہ اسی چیزمیں پڑ جاتے ہیں۔ حقیقی مومن تو اس سے بڑھ کر ہے۔ یہی نہیں کہ صرف اپنے پر جو مشکل آئے اور مصیبت آئے تو تب ہی خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے۔ صرف اپنے پر آنے والی مصیبت ہی انہیں ایمان میں مضبوط نہیں کرتی بلکہ جیسا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے دیکھا ہے، دوسری قوموں کے انجام بھی خوف دلانے والے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ ماضی میں گزری ہوئی قومیں ہیں یا اس زمانے میں ہمارے سامنے بعض قوموں کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ اگر پرانی گزری ہوئی قوموں کا انجام اللہ تعالیٰ کا خوف دلانے والا ہوتا ہے تو پھر ایک مومن کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا اپنے زمانے میں دوسری قوموں پر آفات کس قدر خوفزدہ کرنے والی اور اپنے خدا کے آگے جھکنے والی اور اس سے رہنمائی مانگنے والی ہونی چاہئیں۔ لیکن دنیا اس بات کو نہیں سمجھتی۔ اکثریت سمجھتی ہے کہ موسمی تغیرات یا زمینی اور آسمانی آفات قانونِ قدرت کا حصہ ہیں اور کچھ عرصے بعد انہوں نے آنا ہی ہوتا ہے۔ ایک معمول ہے جن کے مطابق یہ آتی ہیں۔ آج کل کے پڑھے لکھے انسان کو اس علم نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے ہی بے خوف کر دیا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ قانونِ قدرت کے تحت آفات آتی ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ زلزلے جب آتے ہیں تو زمین کی نچلی سطح کی جو پلیٹس ہیں اُن میں تغیر زلزلوں کا باعث بنتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نیوزی لینڈ یا جاپان وغیرہ کے علاقوں میں، مشرقِ بعید کے علاقوں میں جوجزائرہیں وہ اِن پلیٹس کے اوپر آباد ہیں جس کی وجہ سے اِن علاقوں میں زلزلے زیادہ آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے کسی بھیجے ہوئے اور فرستادے نے اپنی سچائی کے لئے اِن زلزلوں کی پیشگوئی تو نہیں کی؟

عرصہ ہوا غالباً یہ مولانا نذیر مبشر صاحب کے وقت کی بات ہے۔ گھانا میں جب یہ مبلغ ہوتے تھے توانہوں نے جب احمدیت اور اسلام کی اس علاقہ میں تبلیغ کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کا دعویٰ اور یہ نوید سنائی اور یہ تبلیغ کی تو گھانا کے اس علاقہ میں علماء نے اور اَور بہت سارے پُرانے لوگوں نے اُن کو کہنا شروع کیا کہ مسیح و مہدی کے آنے کی نشانی تو زلزلے ہیں۔ اگر آپ کا بیان سچا ہے تو ہمارے ملک میں پھر زلزلے کا نشان دکھائیں۔ اور گھانا ایسی جگہ ہے جہاں عموماً زلزلے نہیں آتے۔ چنانچہ آپ نے دعا کی اور اُس کے نتیجہ میں وہاں ایک زلزلہ آیا جس کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گئی اور بہت سارے لوگوں نے عیسائیت میں سے احمدیت قبول کی۔ مسلمانوں میں سے بھی احمدی مسلمان ہوئے۔ جنہوں نے نہیں ماننا ہوتا وہ تو نہیں مانتے لیکن بہر حال وہاں زلزلے کا ایک نشان مشہور ہو گیا۔

(ماخوذ از روح پرور یادیں صفحہ 78-79)

بہر حال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعویٰ کو زلزلوں اور آفات کے ساتھ کس طرح جوڑا ہے۔ اس کے بارے میں کیا بیان فرمایا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر حوادث اور زلزلوں کے بارے میں آپ نے کیا پیشگوئی فرمائی؟ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے اور شدّت سے آئیں گے اور قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کو تہ و بالا کر دیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہو جائے گی۔ پھر وہ جو توبہ کریں گے اور گناہوں سے دستکش ہو جائیں گے خدا اُن پر رحم کرے گا۔ جیسا کہ ہر ایک نبی نے اس زمانے کی خبر دی تھی ضرور ہے کہ وہ سب کچھ واقع ہو۔ لیکن وہ جو اپنے دلوں کو درست کر لیں گے اور اُن راہوں کو اختیار کریں گے جو خدا کو پسند ہیں اُن کو کچھ خوف نہیں اور نہ کچھ غم۔ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تُو میری طرف سے نذیر ہے۔ مَیں نے تجھے بھیجا تا مجرم نیکو کاروں سے الگ کئے جائیں۔ اور فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ میں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔

فرماتے ہیں کہ ’’آئندہ زلزلہ کی نسبت جو ایک سخت زلزلہ ہو گا مجھے خبر دی… اور فرمایا ‘‘پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی’’۔ اس لئے ایک شدید زلزلہ کا آنا ضروری ہے۔ لیکن راستباز اُس سے امن میں ہیں۔ سو راستباز بنو اور تقویٰ اختیار کرو تا بچ جاؤ۔ آج خدا سے ڈرو تا اُس دن کے ڈرنے سے امن میں رہو۔ ضرور ہے کہ آسمان کچھ دکھاوے اور زمین کچھ ظاہر کرے۔ لیکن خدا سے ڈرنے والے بچائے جائیں گے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی۔ کچھ تو اُن میں سے میری زندگی میں ظہور میں آ جائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی۔ اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد‘‘۔

(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد20۔ صفحہ 302تا 303)

تو یہ آپ کا دعویٰ ہے۔ اور جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے بھی غالباً گزشتہ سال مَیں اسی حوالے سے بیان کر چکا ہوں کہ گزشتہ سوسال کے دوران جو آفات اور زلازل آئے ہیں وہ اس سے پہلے ریکارڈ نہیں ہوئے۔ چھوٹے چھوٹے (ریکارڈ) نہیں ہوئے لیکن جو پرانی بڑی بڑی آفتیں آئی ہیں وہ ریکارڈ میں موجود ہیں۔ لیکن اتنی زیادہ نہیں جتنی اس سو سال میں۔ اللہ تعالیٰ یہ نشان دنیا کے مختلف حصوں میں بار بار دکھا رہا ہے۔ اس لئے بار بار ہمیں اس انذار کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے ایمانوں کو بھی مضبوط کر سکیں اور دنیا میں بھی اُس پیغام کو پہنچانے کا حق ادا کر سکیں جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے۔ آپؑ نے واضح فرمایا ہے کہ میرا نشان میری زندگی کے بعد بھی ظاہر ہوتا رہے گا۔ پس جس طرح شدت سے آپ نے دنیا کو اس نشان سے آگاہ کیا ہے ہمیں بھی دنیا کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 18؍ مارچ 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2021