• 29 اپریل, 2024

حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب رضی اللہ عنہ۔ سونگڑہ کٹک

حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب رضی اللہ عنہ ضلع کٹک صوبہ اُڈیشہ کے رہنے والے تھے۔ جوانی میں ہی دینی تعلیم کے حصول کے لیے حیدرآباد دکن گئے اور وہاں مدرسہ محبوبیہ میں تعلیم پائی۔ اسی مدرسہ میں آپ کا تعارف حضرت میر محمد سعید صاحب حیدرآبادی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا۔ مدرسہ محبوبیہ سے دستار بندی کے بعد وطن کو واپس جانے کے لیے سرمایہ کی فکر میں پڑے جس کے لیے پہلے ٹیوشن کرنے لگے پھر کوئی ملازمت مل گئی۔آپ دینی معاملات میں بڑے جوشیلے اور جلد مشتعل ہونے والے تھے۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ وفات مسیح کا علم ہونے پر برہمی کا اظہار کیا لیکن حضرت میر محمد سعید صاحبؓ نے بڑی مشکل سے آپ کو اِس بات پر آمادہ کیا کہ کہنے والا جو کہتا ہے اُسے پہلے دیکھ لینا چاہیے۔ بالآخر آپ راضی ہوگئے۔حضرت میر صاحبؓ نے آپ کو حضرت اقدسؑ کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ پڑھ کر سنانا شروع کی۔ آغاز میں تو کچھ لڑتے جھگڑتے رہے۔ جلد اول کے ختم ہوتے ہی چپ ہوگئے اور جب فارسی نظم ‘‘جائیکہ از مسیح و نزولش سخن رود’’ شروع ہوئی تو پھر زار زار رونے لگے خصوصاً اس شعر پر

؎بعد از خدا بعشقِ محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

آپ لیٹے لیٹے اٹھ بیٹھے اور کہا کہ اب دیر کیا ہے حق ظاہر ہوگیا۔

آپ کی بیعت کا حال اور ابتدائی حالات آپ کے بیٹے محترم سید عبدالحکیم صاحب کٹکی نے اخبار الحکم 28جون و 7جولائی 1939ءمیں شائع کرائے تھے۔ اس کے علاوہ محترم سید محمد زکریا صاحب سابق صدر جماعت بھدرک و اڑیسہ کا بھی آپ کے متعلق تفصیلی مضمون اخبار بدر قادیان میں یکم اپریل 1971ء کے شمارے میں شائع شدہ ہے۔ ان دونوں مضامین میں درج معلومات کے علاوہ بعض مزید باتیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
حضرت سید عبدالرحیم کٹکی صاحب رضی اللہ عنہ نے قبول احمدیت کے بعد نہایت اخلاص اور عقیدت مندی سے سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں حصہ لیا۔ آپ نے اندازً 1898ء میں بیعت کی۔ بیعت کے بعد سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ میں کوشاں رہے۔ آپ اپنی نیکی، تقویٰ اور علمیت کی وجہ سے اپنے علاقہ میں نہایت قابل احترام سمجھے جاتے تھے چنانچہ بیعت کے بعد جب آپ اپنے وطن سونگڑہ تشریف لے گئے تو اہل سونگڑہ جوق در جوق آپ کی زیارت و ملاقات کے لیے آئے۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ اور اپنی بیعت سے انہیں آگاہ کیا۔ سونگڑہ کے ایک بزرگ حضرت سید نیاز حسین صاحبؓ (ولادت: 1844ء ۔ بیعت: 1900ء۔ وفات: 12 ستمبر 1919ء) جو اس ملاقات میں شامل نہ تھے، انہیں جب بتایا گیا تو انہوں نے بر ملا کہا:
’’اگر عبدالرحیم کہتا ہے تو ضرور سچا ہوگا۔‘‘

(ہفت روزہ بدر قادیان 19 مارچ 2015ء صفحہ29)

بہر کیف آپ نے ضلع کٹک کی ایک بڑی تعداد کے نام حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بغرض بیعت بھجوائے جو اخبار الحکم میں شائع شدہ ہیں۔اسی زمانے میں آپ نے ایک کتاب ’’الدلیل المحکم علیٰ وفات المسیح ابن مریم‘‘ لکھی۔ آپ کے قادیان آنے کی خبر دیتے ہوئے اخبار الحکم لکھتا ہے:
’’کٹک سے مولانا مولوی سید عبدالرحیم صاحب مصنف الدلیل المحکم مع اور چند رفقاء کے تشریف لائے ہیں۔‘‘

(الحکم 24؍جنوری 1901ء صفحہ12)

مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کے بیٹے مولوی حامد رضا خان صاحب نے ’’الصارم الربانی علی اسراف القادیانی‘‘ نامی ایک کتاب لکھی تھی جس میں حیات مسیح ناصریؑ کے دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔ کتابی شکل میں شائع ہونے سے قبل یہ مواد پٹنہ (یو پی) سے شائع ہونے والے ایک ماہوار رسالے ’’تحفہ حنفیہ‘‘ کے شمارہ رجب المرجب 1319ھ بمطابق 1901ء میں شائع ہوا۔ حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب کٹکیؓ کو جیسے ہی اس کا علم ہوا تو آپ نے فوراً ’’القول العجیب فی ردّ حامِد المجیب‘‘ نام سے اس کا کافی و شافی جواب لکھا جو 1320ھ میں مطبع شمسی پریس حیدرآباد دکن سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں آپ نے عیسیٰ بن مریم نام کی حکمت، لفظ رفع و نزول کے معانی میں استدلال قرآنی، استدلال حدیثی اور استدلال لغوی کے ساتھ قولہٗ لکھ کر معترض کی بات اور اقول کہہ کر اُس کا جواب دیا ہے اور آخر پر اتمام حجت کے لیے وفات مسیح کے دلائل بھی خلاصۃً لکھے ہیں۔ یہ کتاب آن لائن موجود ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ 90 پر آپ لکھتے ہیں:
’’…. یاد رکھو یہی استعارہ اور یہی اشارہ مسیح کے دو فرشتوں کی نسبت ہے کہ نصرت الٰہی اس کے شامل حال رہے گی اور فرشتے اس کی امداد کے لیے مامور ہوں گے اور ہر مستعد دلوں کو اس کی طرف کھینچ کر پہنچائیں گے۔ اگر آنکھ ہو تو دیکھو کہ کہاں عرب و شام، افریقہ، آسام، کلکتہ، اوڑیشہ، مدراس، حیدرآباد، ہندوستان اور کہاں قادیان! کس طرح ان شہروں کے مستعد دل کھچے ہوئے چلے آتے ہیں۔ آپ لوگوں نے تو ناخنوں تک زور لگایا کہ اس سلسلہ کو مٹا ڈالیں اور اس جماعت کے شیرازے کو منتشر کردیں مگر جس قدر آپ لوگوں نے اس باب میں سعی کی اُسی قدر خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا ظہور فرمایا اور اس جماعت کو ترقی پر ترقی ہے …. یہ سلسلہ اسی کے ہاتھ کا قائم کیا ہوا ہے۔ آج اس کی تعداد لاکھ کے قریب ہے۔ کل تم دیکھو گے کہ اس کی گھوڑ دوڑ کیسی ہے اور کیسی ترقی کے زینے پر چڑھتی جاتی ہے ….‘‘

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے ایڈیٹر اخبار بدر بننے پر آپ نے حضرت مفتی صاحب کو لکھا:
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ محمد افضل مرحوم کی رحلت سے دل کو سخت صدمہ گذرا، اللھم اغفرلہ و ارحمہ۔ اس انتخاب کو یہاں کے تمام احمدیوں نے نہایت پسند کیا اور بابرکت سمجھا۔ کیوں نہ ہو آپ جیسے صادق انسان کا قدم درمیان ہے۔ میرا سلام و قدم بوسی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ضرور پہنچائیں۔‘‘

(بدر 27 اپریل 1905ء صفحہ5)

آپ کی کتاب ’’القول العجیب فی ردّ حامد المجیب‘‘ کا ٹائٹل پیج

قبول احمدیت کے بعد آپ نے اس امر کو شدّت سے محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ترجمۃ القرآن شائع ہونا چاہیے۔ اپنے اس احساس اور خواہش کو آپ نے اخبار الحکم میں یوں شائع کرایا:
’’ہم بچشم خود یکھتےاور چو طرف سے یہ آوازیں ہمارے کان میں گونج رہی ہیں کہ یہاں قرآن کا ترجمہ شائع ہوا اور وہاں سے تفسیر نکلی….. بحمد للہ آج مسیح موعود کے بابرکت زمانہ میں ہر ایک مسلمان خواہ ہمارا موافق ہو یا مخالف، قرآنی آیات و فرقانی استدلات پر اعتصام کے لیے بڑی مستعدی ظاہر کر رہا ہے مگر افسوس موافق و مخالف دونوں کا مطمع نظر وہی تفاسیر ہیں جن کو ایسے ہاتھوں نے لکھا کہ جن کے پاس محض روایات و اقوال تفہیم معنٰے قرآنی کے لیے حکم و قاضی کا حکم رکھتے ہیں۔ روایت کشوں نے جان فشانی کرکے اس قدر انبار کے انبار جمع کر ڈالے جس کے تاریک حجاب میں آیات قرآنی اور احکام ربانی کا نور بالکل مستور ہوگیا ہے۔ مترجموں اور مفسروں نے اس امر کا خیال ایک ذرہ برابر بھی نہیں کیا یہ ہمارا یہ ترجمہ اور ہماری یہ رائے دوسری آیات کے منشاء کے موافق ہے یا مخالف، ان کو صرف یہ فکر رہی ہے کہ ہر ایک آیات کے کے تحت میں بہت سے اقوال گو باہم متضادسہی، اکٹھے کر کے وسعت نظر کی داد ناظرین سے لے لیں۔ چونکہ یہ سلسلہ عالیہ احمدیہ اُن تمام رطب و یابس روایات سے دست کش ہو چکا ہے جو بصراحت کتاب مجید کے معارض میں پڑی ہوئی ہیں اور اپنے امام آخر الزمان کی ہدایت پر قرآنی فیصلہ کو ہر حال میں مقدم رکھنا چاہتا ہے تو پس ایسی حالت میں اگر سر دست کوئی ترجمہ قرآن اس کے ہاتھ میں نہ دیا جاوے اور وہی پُرانا سبق اس کا زیر مشق رہے تو میری رائے میں ہدایات امام علیہ السلام کی پوری اطاعت اور اس پر استقامت کا دعویٰ سراسر دعویٰ بے دلیل ہے اور ان میں اور غیروں میں ما بہ الامتیاز من کل وجوہ غیر ممکن۔ خدا گواہ ہے کہ جب اس بات پر غور کرتا ہوں کہ ہمارے مخالفوں کے ہاتھوں میں متعدد قرآن مجید کے تراجم موجود ہیں اور ہمارا ہاتھ اس نعمت الٰہی سے علی العموم تہی دست ہے تو آنکھ دل کے دل کے صدمہ سے متاثر ہوکر آنسو بہانے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ کاش یہ میری درد انگیز صدا کسی دولت مند احمدی بھائی کے کان میں پہنچے اور میرے دینی درد کو اپنا درد محسوس کرے تو کوئی عجب نہیں کہ بہت جلد میرے مخدوم جامع علوم حکیم الامۃ عارف قرآن مجاور امام حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی کا ترجمہ شائع ہوکر احمدی جماعت کے دلوں میں سرور اور آنکھوں میں نو ربخشے اور بہت شکوک و اوہام کے ازالہ کا باعث ہو۔ میرا مجروح دل و مضطر قلب ایک اور سہل تجویز کیے بغیر رہ نہیں رہ سکتا کہ اگر اخبار الحکم کے فاضل ایڈیٹر اخی شیخ یعقوب علی صاحب ہمارے درد کے درمان کے لیے تھوڑی سی تکلیف گوارہ فرماویں اس مبارک کام کو التزاماً شروع کردیں تو غالباً ہماری آرزو کی کشتی آج نہیں تو کل ساحل مقصود تک پہنچ سکتی ہے۔ الراقم عاجز سید عبدالرحیم کٹکی نزیل حیدرآباد‘‘

(الحکم 17؍جون 1905ء صفحہ8)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پورے ایمان اور اخلاص کے ساتھ خلافت کے ساتھ وابستہ رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ضلع کٹک کی ساری احمدیہ جماعت مخالفین کی لاف و گزاف کے باوجود خلافت سے وابستہ ہوئی چنانچہ سونگڑہ کے ایک اور مخلص بزرگ حضرت سید انعام رسول صاحب نے جناب ابو سعید عرب صاحب کے نام ایک خط میں لکھا:
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ …. بفضلہ تعالیٰ مقام سونگڑہ و خردہ وغیرہ کی جماعت بدستور سابق ثابت قدم اور پُر جوش ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وصال سے پُر حزین رہنا یہ علیحدہ بات ہے اور محبت کا تقاضا ہے وگرنہ مخالفین کی تحریرات اور وساوس کا اثر ابھی تک شمہ برابر نہیں ہے۔ ہر ایک نے انشراح صدر کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بذریعہ تحریر حاضر ہوکر بیعت کی ہے۔ پس دعائے ثبات اور استقامت فرماتے رہیں۔ خداوند تعالیٰ ہم کو اپنی مرضیات پر چلاوے، آمین ثم آمین ….. عاجز بندہ انعام رسول احمدی کٹکی عفا اللہ عنہ‘‘

(بدر 13؍اگست 1908ء صفحہ9)

پھر خلافت ثانیہ کے موقع پر بھی یہ ساری جماعت خلافت کے دامن سے وابستہ رہی۔ خلافت ثانیہ کے آغاز میں ہی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ دورہ کرتے ہوئے سونگڑہ اور اس کے گرد و نواح کی جماعتوں میں پہنچے۔ حضرت مفتی صاحبؓ اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:
’’سونگڑہ کی ساری جماعت دل و جان سے حضرت فضلِ عمر کی غلام ہے۔‘‘

(الفضل 10؍جون 1914ء صفحہ18)

خاص طور حضرت سید عبدالرحیم صاحبؓ نے غیر مبائعین سے سخت بیزاری کا اظہار کیا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے اسی دورہ ضلع کٹک کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا:
’’….. یہاں کے مولوی عبدالرحیم صاحب ایک پاک نفس انسان ہیں۔ حضور سے بہت اخلاص رکھتے ہیں۔ لاہوریوں سے سخت بیزار ہیں….. مولوی عبدالرحیم صاحب کا خیال ہے کہ کٹک اور مدراس کے درمیان بہت سے مسلمانوں کے شہر ہیں جو احمدیت سے بالکل ناواقف ہیں وہ چاہتے ہیں کہ میں اس طرف جاؤں اور ان کے بیٹے عبدالحلیم کو ساتھ لے جاؤں۔ شاید وہ اس کے متعلق حضور کو لکھیں۔‘‘

(الفضل 5؍جولائی 1914ء صفحہ5،6)

آپ نے 12 جنوری 1916ء کو وفات پائی اور محلہ کوسمبی سونگڑہ در مشترکہ قبرستان میں مدفون ہوئے۔ خبر وفات دیتے ہوئے اخبار الفضل نے لکھا:
’’حضرت مسیح زمان مہدی دوران کا مخلص مرید مولوی سید عبدالرحیم صاحب جو کہ بہت عرصہ سے عارضہ ذیابیطس میں مبتلا تھے، بارہویں تاریخ چہار شنبہ اس جہان فانی سے انتقال فرما گئے انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کی مساعی جمیلہ اڑیسہ میں تبلیغ احمدیت خوب زور سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے پاک روحوں کو اس سلسلہ حقہ کی طرف کھینچا۔ مرحوم کو احمد نبی اللہ سے اس قدر محبت تھی کہ ہر لحظہ و ہر لمحہ ان کا ذکر ان کے سلسلہ کی تبلیغ کا دھن رہتا۔ احباب جنازہ غائب پڑھیں۔‘‘

(الفضل 26 جنوری 1916ء صفحہ2)

آپ کی اولاد بھی بفضلہ تعالیٰ نیک اور سلسلہ احمدیہ کی خادم رہی۔ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید عبدالحلیم کٹکی صاحب (بیعت 1901ء ۔ وصیت نمبر 2960۔ وفات 2؍ جون 1946ء مدفن کوسمبی) چوٹی کے عالم تھے۔ آپ کے متعلق سید عبدالمنعم صاحب صالح پور لکھتے ہیں :
’’جماعت احمدیہ اڑیسہ کا ستون، اسلام کا پہلوان، عالم با عمل، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شیدائی اور حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی کا فدائی…. کیا بحیثیت عالم، کیا بحیثیت شوہر، کیا بحیثیت باپ، کیا بحیثیت بیٹا، کیا بحیثیت ملازم، کیا بحیثیت آقا، کیا بحیثیت خادمِ سلسلہ غرض ہر حیثیت سے مرحوم اس صوبہ میں اعلیٰ نمونہ تھے …..‘‘

(الفضل 11؍جون 1946ء صفحہ2)

دوسرے بیٹے محترم سید محمد احمد صاحب (وصیت نمبر 6383۔ وفات: 8 اور 9 کی درمیانی شب جنوری 1972ء مدفون کوسمبی) نے بھی خلافت ثانیہ کے آغاز میں قادیان میں تعلیم پائی تھی۔ آپ کئی سال تک جماعت احمدیہ سونگڑہ کے جنرل سیکرٹری رہے بعد ازاں آپ کو بطور صوبائی امیر صوبہ اڈیشہ خدمت کی توفیق ملی۔ جماعت کی تعلیمی و تربیتی میں ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ اڑیہ زبان میں کتابیں بھی لکھیں۔ آپ کے متعلق آپ کے بیٹے محترم سید محمود احمد منیر صاحب کا مضمون اخبار بدر قادیان 3؍فروری 1972ء صفحہ 9 پر شائع شدہ ہے۔

تیسرے بیٹے محترم سید عبدالسلام صاحب (وصیت نمبر 4957۔ وفات: 11؍اکتوبر 1957ء) تھے جنہوں نے قادیان میں اپنے بھائی سید محمد احمد صاحب کے ساتھ ہی تعلیم پائی۔ بعد ازاں اپنے وطن میں ہی گورنمنٹ ہائی سکول میں ہیڈ مولوی مقرر ہوئے۔ آپ ایک اچھےمناظر تھے اور سلسلہ احمدیہ کی طرف سے آپ نے کامیاب مناظرے کیے جس کے بڑے شاندار نتائج بعد میں ظاہر ہوئے۔ بہت صاف گو اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فدائی تھے۔ ان کے متعلق محترم سید محمد موسیٰ صاحب مبلغ سلسلہ کا مضمون اخبار بدر قادیان 21؍اکتوبر 1957ء صفحہ 8 پر شائع شدہ ہے۔

آپ کی ایک بیٹی محترمہ محسنہ خاتون صاحبہ (ولادت: 1910ء۔ وفات: 13؍فروری 1932ء بعمر 22 سال) گو کہ چھوٹی عمر میں ہی والد کی شفقت سے محروم ہوگئیں تھیں لیکن اپنے لائق بھائیوں اور والدہ ماجدہ کی مدد سے گھر ہی میں تعلیم حاصل کی اور سلسلہ احمدیہ کی تعلیم سے خوب واقفیت پیدا کرلی اور تبلیغ احمدیت کے لیے دل میں خاص جوش رکھتی تھیں۔ آپ کی شادی کریم بخش صاحب ابن سید رسول بخش صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔

(الفضل 8 جولائی 1927ء صفحہ2۔ الفضل 8؍مارچ 1932ء صفحہ2)

آپ کی موجودہ نسل میں سے مکرم سید محمد سرور شاہ صاحب، مکرم سید تنویر احمد صاحب اور مکرم سید داؤد احمد صاحب کے قادیان میں خدمات بجالانے کا ذکر مکرم منصور احمد صاحب حال ایڈیٹر اخبار بدر نے اپنے مضمون مطبوعہ بدر 31؍دسمبر 1998ء میں کیا ہے۔

نوٹ: احمدیت کی تاریخ میں ایک اور صحابی بھی حضرت مولوی عبدالرحیم کٹکی کے نام سے معروف ہیں لیکن ان کا اصل نام مولوی عبدالرحمٰن تھا اور وہ چک اندورہ کشمیر کے رہنے والے تھے۔ 1917ء میں ہجرت کر کے اڑیسہ تشریف لے گئے اور کیرنگ کو اپنا مرکز بنایا اور سلسلہ احمدیہ کے لیے نمایاں تعلیمی و تربیتی خدمات سر انجام دیں ۔ 11؍جون 1944ء کو وفات پائی۔

(تاریخ احمدیت جلد9۔ تاریخ احمدیت جموں و کشمیر از مولانا اسد اللہ کاشمیری صاحب)

(غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2021