• 29 اپریل, 2024

رمضان المبارک۔ روحانی بہار کا موسم

اللہ تعالیٰ کا ہم مسلمانوں پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ سال میں ایک ایسی اہم تربیت اور ٹریننگ کے لئے رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آتا ہے جس سے تنویر قلوب ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی آلائشوں کو دور کر کے اسے صیقل کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ اس کی روحانیت بڑھ جاتی ہے اور اسے انتشار رحمت سے ایک خاص حصہ ملتا ہے، اس کے قلب میں نورانیت کے علاوہ خدا تعالیٰ کو پانے کی ایک سوزش اور تڑپ پیدا ہو جاتی ہے اور اگر وہ اسے زندہ رکھے تو سارا سال ہی اس پر خدا کی رحمت کا نزول ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو شخص بڑے ہی بدقسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور ایک وہ جس کے ماں باپ زندہ تھے اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا۔

(الترغیب والترھیب ـ کتاب الصوم ـ الترغیب فی صیام رمضان جلد2 حدیث نمبر1483)

پس رمضان گناہوں کو جلانے، گناہوں سے بخشش اور گناہوں سے نجات دلا کر خدا کے قریب تر لانے کے لئے ایک روحانی موسم آیا ہے۔ اس سے جس قدر بھی فائدہ اٹھایا جا سکے اٹھانا چاہئے۔

میں نے موسم بہار کا لفظ استعمال کیا ہے آپ جب دنیاوی سیزن موسم بہار سے گزرتے ہیں تو کس قدر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ موسم بہار میں طبیعتوں میں ایک عجیب قسم کا سرور اور لذت ملتی ہے۔ پھول، پھل کھلتے ہیں ان کی مہک سے انسان اپنے دل و دماغ کو تر و تازہ کرتا اور خوش ہوتا ہے۔ بس یہی لذت و سرور رمضان المبارک کا مہینہ روحانی طور پر ہمارے لئے لاتا ہے۔

رمضان المبارک میں کہیں نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام ہو رہا ہے تو کہیں تلاوت قرآن کریم کا۔ کہیں غرباء کی خدمت اور ان کی دیکھ بھال اور مساجد کی رونقیں بحال ہو رہی ہیں اور افطاریوں اور سحری کے اہتماموں کے علاوہ تراویح، ذکر الٰہی اور تہجد کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔ تو یہ سب باتیں انسان کے قلب پر ایک خاص اثر ڈال رہی ہوتی ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم سب رمضان المبارک کی برکتوں سے فیض حاصل کر کے خدا تعالیٰ کا قرب پانے اور عبادات بجا لانے والے اور نوع انسان کی خدمت کرنے والے ہوں اور پھر یہ رمضان ہم پر اپنا اتنا اثر چھوڑ کر جائے کہ یہ ساری ریاضتیں اور عبادتیں سارا سال ہی ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے۔ سوائے روزے کے۔ کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوتا ہوں۔‘‘

(بخاری کتاب الصوم)

اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ میں انسان محض اور محض خداتعالیٰ کے لئے حلال چیزوں کو بھی ایک مخصوص وقت کے لئے ترک کر دیتا ہے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔

پھر ایک اور حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ :
’’خدا کے پاس ایک دستر خوان ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ اس دستر خوان پر صرف روزے دار ہی بیٹھیں گے۔‘‘

(جامع الصغیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ :
’’روزہ داروں کے لئے جنت میں داخل ہونے کا ایک خاص دروازہ ہو گا جس کا نام ’’رَیَّان‘‘ ہے یہ اعلان کیا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ چنانچہ روزے دار کھڑے ہوں گے اور اس دروزے سے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اور جب وہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گاپھر اور کوئی اس میں سے داخل نہ ہو سکے گا۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب الریان للصائمین حدیث 1896)

دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ

رمضان المبارک کے ان بابرکت ایام میں لوگ قبولیت دعا کے مواقع سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک خاص موقع دعاؤں کی قبولیت کا افطاری سے قبل کا وقت ہے۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِہٖ لَدَعْوَۃٌ مَا تُرَدُّ‘‘

(سنن ابن ماجہ)

یعنی روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت جو دعا کی جاتی ہے وہ ردّ نہیں کی جاتی۔

جب انسان دل کی گہرائیوں سے عجز و انکسار اور تواضع سے اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اقرار کر کے خدا کے حضور گریاں ہوتا ہے تو وہ دعا قبولیت کا درجہ اختیار کر جاتی ہے۔

اس لئے افطاری سے چند منٹ پہلے جو گھڑی ہوتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہدایت فرمائی ہے کہ سارا دن جب انسان نے خدا کی خاطر بھوک پیاس برداشت کی ہے تو اب یہ وقت خدا کی طرف مزید توجہ پیدا کرنے کا موجب بن جائے اور دعا کرے تو خدا تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو کر اس کی دعا کی قبولیت ہو جاتی ہے۔ پس یہ وقت عموماً گپوں میں اور باتوں میں نہ صرف کیا جائے علیحدگی میں بیٹھ کر ضرور ضرور دعا کرنی چاہئے اور خصوصاً اس وقت جبکہ عالم اسلام ایک کرب اور درد کی حالت سے گزر رہا ہے جبکہ نہ سعودی عرب امن میں ہے نہ یمن اور نہ ہی پاکستان۔ نہ ایران، نہ شام، نہ عراق، نہ ہی لیبیا اور مصر اور نہ ہی دوسرے اسلامی ممالک، تو ہم احمدی مسلمانوں پر یہ دوہری ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں اور اپنی دعاؤں میں خصوصیت کے ساتھ ان ممالک اور عالم اسلام کو قبولیت دعا کی گھڑیوں میں یاد رکھیں۔ع آخر کنند کہ دعویٰ حُبّ پیمبرم
اس وقت رمضان المبارک سے بہت فائدہ اٹھائیں۔ اور دعا کریں کہ خداتعالیٰ ان ممالک میں امن بھی قائم کرے۔اور مسلمانوں کو عقل و رشد اور ہدایت بھی عطا فرمائے۔ انہیں قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ انہیں آپس میں پیار اور محبت سے رہنے کے طریقے خود ہی سکھائے اور وقت کے امام کو بھی پہچاننے کی توفیق دے۔ آمین

یہ صحیح مسلمان بنیں، صرف نام کے مسلمان نہ ہوں۔ خدا کرے کہ یہ وہ حقیقی مسلمان بنیں جس کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان اور امن پسند لوگ محفوظ رہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم لامسلمون من لسانہ و یدہ حدیث:10)

رمضان المبارک کا سارا مہینہ ہی دعاؤں کا مہینہ ہے۔ افطاری کا وقت ایک خاص دعا کی قبولیت کا وقت ہے۔ اس کے علاوہ سارا دن ہی روزے کی حالت میں انسان اپنے آپ کو ذکرِ الٰہی، تلاوت قرآن کریم، پانچ نمازوں کے علاوہ نوافل کے ادا کرنے میں مشغول رکھے۔ جو اس کی قبولیت دعا کی وجہ بن سکتے ہیں۔

تہجد کے وقت کی دعائیں

اس کے علاوہ ایک اور وقت قبولیتِ دعا کا نماز تہجد کا وقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام دنوں میں بھی تہجد کی طرف توجہ دلائی۔ اور آپ کا تو ہر روز کا معمول تہجد پڑھنے کا تھا۔ قرآن کریم نے اس طرف راہنمائی فرمائی ہے اور آپ کی اس رنگ میں توصیف کر دی اور امت کے لئے آپ نے ایک نمونہ چھوڑ دیا ہے۔ تہجد کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا۔ ترمذی کتاب الدعوات کی حدیث ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ اس کے راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’ہمارا رب ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کا جواب دوں۔ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اس کو دوں۔ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں۔

(ترمذی کتاب الدعوات)

پس تہجد کا وقت بھی قبولیت دعا کا وقت ہے اور بخشش حاصل کرنے اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا وقت ہے۔

ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ حَیِیٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیٖ اِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ اِلَیْہِ یَدَیْہِ اَنْ یَّرُدَّھَا صِفْرًا خَائِبَیْنِ۔

(ترمذی کتاب الدعوات)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا، بڑا کریم اور سخی ہے جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے یعنی صدقِ دل سے مانگی ہوئی دعا کو وہ رد نہیں کرتا بلکہ قبول فرماتا ہے۔

یہاں ایک بات اور یاد رکھنے والی ہے کہ اصل نماز تہجد ہے۔ اگر رمضان المبارک میں آپ نے نماز تراویح پڑھ لی ہے پھر بھی کوشش کریں کہ صبح کو تہجد ادا کریں۔

رمضان میں صحبتِ صالحین

ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کس کے پاس بیٹھنا مفید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے شخص کے پاس بیٹھنا مفید اور بہتر ہے جس کو دیکھنے سے تمہیں خدا یاد آجائے اور جس کی باتوں سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کو دیکھ کر تمہیں آخرت کا خیال آئے (اور اپنے انجام کو بہتر بنانے کے لئے تم کوشش کرنے لگو)

(حدیقۃ الصالحین حدیث78 ذکرِ الٰہی کی اہمیت)

رمضان المبارک سوشل تعلقات بڑھانے کا مہینہ نہیں ہے بلکہ اس میں خداتعالیٰ سے تعلق بڑھانا ہے اس تعلق کو بڑھانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تلقین اور ہدایت فرمائی ہے کہ ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھو، ایسے لوگوں سے میل جول کرو ایسے لوگوں سے ملو جو نیک ہوں، متقی ہوں جن کے پاس بیٹھنے سے تمہارے علم میں اضافہ ہو، تمہیں آخرت کی فکر ہو جائے اور تمہیں خدا یاد آجائے۔

رمضان المبارک اور درس القران

رمضان المبارک میں بہت سی مساجد میں روزانہ درس القرآن کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ اور اگر اب Zoom کے ذریعہ ہے تو اس میں شامل ہوں۔ اس میں ضرور ضرور شامل ہونا چاہئے۔ جہاں آپ تلاوت کرتے ہیں وہاں ان درسوں میں اپنی اپنی جگہ ضرور شامل ہوں۔ جس سے صحبت صالحین بھی ہو گی، علم بھی بڑھے گا، نیکیوں کے بجا لانے کی تحریک و ترغیب بھی ہو گی۔ ان شاء اللہ

اس لئے اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھو، جماعت کے بزرگان سے ملو اور سب سے بڑھ کر ایم ٹی اے دیکھو جہاں حضرت خلیفۃ المسیح کے خطابات، سوال و جواب کی مجالس اور تقاریر جس میں ہمیں ہر وقت ہی سبق مل رہا ہے جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی ہے۔

TV کے مختلف چینل پر رمضان کے خصوصی پروگرام بھی آتے ہیں انہیں بھی دیکھ کر علم حاصل کیا جا سکتا ہے مگر سب سے عمدہ سب سے اچھا اور سب سے اعلیٰ چینل ایم ٹی اے کا ہے اسے دیکھیں، سنیں اور اپنے علم میں اضافہ کریں اور صحبت صالحین بھی اس سے کامل طور پر مل جائے گی۔

فدیہ اور رمضان المبارک

حضرت امام الزماں فرماتے ہیں:
’’ایک بار میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس لئے مقرر ہے تو معلوم ہوا یہ اس لئے کہ اس سے روزہ کی توفیق ملتی ہے خدا ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا ہی سے طلب کرنی چاہئے وہ قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی طاقت روزہ عطا کر سکتا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ایسا انسان جو دیکھے کہ روزہ سے محروم رہا جاتا ہوں تو دعا کرے کہ
الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال رہوں یا نہ رہوں یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ کر سکوں اور اس لئے اس سے توفیق طلب کرے مجھے یقین ہے کہ ایسے قلب کو خدا طاقت بخشے گا اگر خدا چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں بھی کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے لئے رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں مجھے محروم نہ رکھ تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا اور اسی حالت میں اگر رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہو جاتی ہے کیونکہ ہر کام کا مدار نیت پر ہے مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کرے۔ جو شخص کہ روزہ سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش مَیں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُو نہ ہو تو خدا تعالیٰ ہرگز اسے ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔ یہ ایک باریک امر ہے۔ اگر کسی شخص پر اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ مَیں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہوں گے اور یہ ہو گا اور وہ ہو گا تو ایسا آدمی جو خدائی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے کب اس ثواب کا مستحق ہو گا۔ ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور اس کا منتظر ہی تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزہ سے محروم نہیں ہے اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں لیکن وہ خدا کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ تکلف کا باب بہت وسیع ہے اگر انسان چاہے تو اس کی رو سے ساری عمر کو بیٹھ کر ہی نماز پڑھتا رہے۔ اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے خدا جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا اسے اصل ثواب سے بھی زیادہ دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شئے ہے۔‘‘

(فقہ احمدیہ صفحہ293-294)

آپ اگر کسی وجہ سے رمضان کے کچھ روزوں سے محروم ہو گئے ہیں تو رمضان کے بعد وہ روزے پورے کریں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ دوسرے ان چھوڑے ہوئے روزوں کا بھی فدیہ دیں۔ یہ بھی بہت ثواب کا موجب ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی برکتوں اور اس روحانی موسم سے بدرجہ اولیٰ استفادہ کی توفیق دے۔ ہمارے گناہ بخشے اور اپنی حفاظت میں رکھتے ہوئے پردہ پوشی بھی فرمائے۔ آمین

(سید شمشاد احمدناصر۔مبلغ سلسلہ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2021