• 29 اپریل, 2024

رسول اللہ ﷺکا رمضان ہمارے لئے اسوہ

قدیم سے سنت اللہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے ایمان سے آراستہ محبوب بندوں کے لئے ہر سال ایک بہار کا موسم سجاتا ہے۔ اوریوں وہ مالک ارض و سماء اپنے پیارے بندوں کے لئے اَرفع روحانی آفاق کی انتہائی پُرکیف سیر یا پھر سیروں کا اہتمام کرتا ہے۔ ہمارا قدیر خدا اس روحانی اور آسمانی مائدہ کو جس کا اہتمام ایک ماہ کے لئے فرمایا جاتا ہے رمضان کے نام سے پکارتا ہے۔ جبکہ رسول ﷺ کے ایک جلیل القدر صحابی کی روایت کے مطابق اس موسم بہار کا نام سیدالشہور ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رمضان سید الشہور ہے اور جمعہ سید الایام ہے‘‘۔

اور یوں حقیقی مومنین کو اس روحانی بہار کے لطف سے مالا مال ہونے کا موقع عطا کیا جاتا ہے۔ اس لطف و انبساط کو دوبالا کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ ماہ رمضان کے اس مائدہ کو تین حصوں پر تقسیم کر دیتا ہے۔ پہلے حصہ میں اس الٰہی دعوت خاص کی سعادت پانے والے اپنے رب کریم کی رحمت سے لطف اندوز ہوتےہیں، دوسرے حصہ میں شب و روز خدا کے فرشتے اثمارمغفرت الٰہی سے خوب خوب مومنین کی تواضع کرتے ہیں ۔نوید مغفرت سےحسب توفیق نصیبہ مند ہو چکنے کے بعد ہاویہ کی دہکتی ہوئی آگ سےنجات کا مژدہ انہیں سنا دیا جاتا ہے۔ لیکن اس مژدہ کو سنانے کے لئے ہمارا غافر الذنب اور قابل التوب خدا ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام کرتا ہے جس میں فوج در فوج فرشتے بلکہ روح الامین کو بھی اِذن نزول دیا جاتا ہےیہ سب افواج ملائک یقین کامل کی طلوع فجر تک امن کی سلامیاں پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس خوبصورت محفل کا نام لیلۃ القدر بیان فرمایا ہے۔

اس روحانی مائدہ سے فیضیاب ہونے کے لئے ہمارے شاہ لولاک ﷺ کے کیا اسلوب ہوا کرتےتھے۔ آپ ﷺ کے برکات سے معمور یہ ایام کیسے گذرتے تھے ۔ کیسے آپ کا دل جوش و ولولہ سے موجزن رہتا تھا کہ ہر کس و ناکس عینی و قالی انداز میں اس تڑپ کا شاہد بن رہا ہوتا تھا اور آج اُنہی شہادتوں سے استفادہ کرتے ہوئے خدا کے بندے اپنے خالق کی رحمتوں، برکتوں اور فضلوں سے اپنی جھولیاں بھرتے چلے جارہے ہیں۔ آئندہ سطور میں ان ہی باتوں کاکچھ تذکرہ دیکھنے کو ملے گا۔

رسول اللہ ﷺ کا شوق رمضان

رسول اللہ ﷺ اس سید الشہور اور اَحَب الشہور کا استقبال بے حد پیارے انداز میں فرمایا کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں۔ رمضان کے آغاز سے ہی رسول اللہ ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا آپ ﷺ کی عبادات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا اللہ تعالی سےآپ ﷺ بہت الحاح سے خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مناجات پیش فرماتے اورآپکے چہرہ مبارک پر خوف ایزدی ہویدا ہوتا۔

رسول کریم ﷺ سارا سال اس رحمتوں اور برکتوں والے مہینےکے انتظار میں رہتے تھے۔ رجب کے مہینے سے ہی آپ ﷺ دیگر دعا ؤں کے ساتھ خصوصیت سے درج ذیل دعا کیا کرتے تھے۔

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَّشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان ۔

یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! تو ہمارے لیے رَجب اور شعبان میں بَرکتیں عطا فرما اور ہمیں ان برکتوں کے ساتھ ماہ رَمَضان تک پہنچا ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں

مَا رَأَیْتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْـرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَھْـرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ

ترجمہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہﷺنے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺکسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔

ایک اور حدیث میں آپ رضی اللہ عنھا سےروایت ہے

کَانَ اَحَبُّ الشُّہُورِ اِلٰی رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ بِرَمَضَانَ

ترجمہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں۔

رسول اللہﷺ صحابہ کرام سے تین بار دریافت فرماتے

مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟

ترجمہ ’’کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟‘‘

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ! کیا کوئی وحی اُترنے والی ہے؟ فرمایا نہیں۔ عرض کیا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ عرض کیا پھر کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اِنَّ اللّٰہ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ

ترجمہ ’’یقینا اﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات کو ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔‘‘

آپﷺ درج ذیل الفاظ میں بھی دعا کرتے تھے،

اَللّٰھُمَّ سَلِّمْنِي لِرَمَضَانَ وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي وَتَسَلَّمْهُ مِنِّي مُتَقَبَّلًا

’’اے اللہ! مجھے رمضان کے لیے اور رمضان کو میرے لیے صحیح سالم رکھنا اور رمضان کو میرے لیے سلامتی کے ساتھ قبولیت کا ذریعہ بنان‘‘۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دومہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔

یعنی نبی کریم ﷺ رمضان کے پورے مہینے کے ساتھ ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔

مندرجہ بالا تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پیارے رسولﷺ نہ صرف خود ماہ صیام کا استقبال فرمایا کرتے بلکہ اپنے اہل و عیال اور صحابہ کرام ؓ کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔

شعبان کی آخری رات رسول اللہ ﷺکا صحابہ سے خطاب

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کی آخری رات صحابہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ’’اے لوگو ایک عظیم الشان برکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہوا ہے۔ اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے، اور راتوں کے قیام کو نفل عبادت اور اپنے قرب کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جو شخص ان ایام میں خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی نیت سےکوئی نیکی کرتا ہے ،اُسے ایک فرض کا ثواب ملتا ہے۔ اور جس نے رمضان میں کوئی فرض ادا کیا ،اُس کا ثواب ستر گنا ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومن کے رزق میں برکت دی جاتی ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کروائے گا تو یہ عمل اُس کے لیے مغفرت اور آگ سے آزادی کا ذریعہ بنے گا۔ اور افطار کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ہم میں سے ہر کوئی اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ کسی کا روزہ افطار کروائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ چاہے کوئی ایک گھونٹ دودھ، ایک کھجوریا ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ افطار کروائے ، وہ بھی ثواب کا مستحق ہے۔ اور جو شخص کسی روزہ دار کو سیر ہوکر کھانا کھلائے گا، اللہ اُسے میرے حوض سے شربت پلائے گا اور وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کا پہلا عشرہ رحمت، درمیانی عشرہ بخشش اور آخری عشرہ آگ سے آزادی کا ذریعہ ہے۔ان ایام میں جو شخص اپنے ملازم کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اس کا یہ عمل اُس کی بخشش اور جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ بنے گا‘‘۔

رمضان کی ہر رات، اللہ کچھ لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے اے بھلائی کے طالب! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا، ان ایام میں اللہ کچھ لوگوں کی گردن جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، اور ایسا رمضان کی ہر رات کو ہوتا ہے‘‘۔

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا إِنَّ لِلّٰهِ عِنْدَ كُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءَ وَذٰلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ۔ ترجمہ اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت لوگوں کو (جہنم سے) آزاد فرماتا ہے اور یہ (رمضان کی) ہر رات میں ہوتا ہے۔

رؤیت ہلال

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا ختم کرو، اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو تیس دن کی گنتی پوری کرو‘‘۔

سحر و افطار

رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کا روزانہ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سحری کھانے کے متعلق فرمایا ہے۔

سحری کھانے کی اہمیت

سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں۔ فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ، أَکْلَةُ السِّحَرِ

’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا ہی فرق ہے‘‘۔

ایک اور جگہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ۔

وَهُوَ يَدْعُوْا إِلَی السُحُّوْرِ فِی شَھْرِ رَمَضَان، فَقَالَ هَلُمُّوْا إِلَی الْغَدَاءِ الْمُبَارَکِ

’’آپ ﷺ رمضان المبارک میں سحری کے لئے بلاتے اور ارشاد فرماتے صبح کے مبارک کھانے کے لئے آؤ۔‘‘

روزہ کی نیت

روزہ رکھتے وقت درج ذیل دعا پڑھنی چاہئے

وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ

’’میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔‘‘

روزہ رکھنے کی دعا کسی حدیث میں نہیں ملتی۔ نیت جو دل کے ارادے کا نام ہےکرنا فرض ہے ۔ نیت کا مطلب کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں نیت کا مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ کرنا۔

رسول اللہ ﷺ کی دعائے افطار

حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، ۔۔۔۔۔۔ قَالَ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔

ترجمہ مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے ’’پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا‘‘۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ اللّٰھُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ۔

معاذ بن زہرہ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے ’’اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا‘‘۔

ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں

اَللّٰھُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ

’’اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی۔‘‘

رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی مسواک

عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ،‏‏‏‏ قَالَ‏‏‏‏ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ وَهُوَ صَائِمٌ مَا لَا أُحْصِي أَوْ أَعُدُّ،‏‏‏‏ وَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏‏‏‏ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِيْ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ،‏‏‏‏ وَيُرْوَى نَحْوُهُ،‏‏‏‏ عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَخُصَّ الصَّائِمَ مِنْ غَيْرِهِ،‏‏‏‏ وَقَالَتْ عَائِشَةُ‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏‏‏‏ السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ،‏‏‏‏ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ،‏‏‏‏ وَقَالَ عَطَاءٌ،‏‏‏‏ وَقَتَادَةُ يَبْتَلِعُ رِيقَهُ

عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، انہوں نے کہا میں نے رسول اللہﷺ کو روزہ کی حالت میں بےشمار دفعہ (وضو میں) مسواک کرتے دیکھا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کی کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم وجوباً دے دیتا اسی طرح کی حدیث جابر اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما کی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں کی عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا کہ (مسواک) منہ کو پاک رکھنے والی اور رب کی رضا کا سبب ہے اور عطاء اور قتادہ نے کہا روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے

رمضان اور رسول اللہ ﷺ کا قیام اللیل

فرائض سے پہلے اور ان کے بعد کی سنتوں اور اسی طرح نماز چاشت کے علاوہ قیام اللیل کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرماتے تھے ۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے۔ آپ ﷺ نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کرایا یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے۔ چنانچہ آپ ﷺنے 23 کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیا اور اتنی لمبی قراءت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی ۔ پھر چوبیسویں رات کو آپ ﷺ نے قیام نہیں کرایا۔ پھر پچیسویں رات کو آپ ﷺ نے قیام کرایا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! کاش آج آپ ساری رات ہی ہمیں قیام کراتے۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا ’’جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام قیام ختم کردے تو اس کیلئے پوری رات کے قیام کا اجر لکھا جاتا ہے۔‘‘ پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ ﷺ نے قیام نہیں کرایا۔ پھر ستائیسویں رات کو آپ ﷺ نے قیام کرایا اور اپنے گھر والوں اور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو بھی بلا لیا۔ اور اتنا لمبا قیام کرایا کہ ہمیں سحری کے فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓبیان فرماتی ہیں کہ نماز تہجد کو مت چھوڑو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کبھی نہ چھوڑتے تھے۔ اگر کبھی بیمار ہوتے یا کسل ہو تا تو بیٹھ کر نماز پڑھتے۔

رمضان اور نماز تراویح

حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ اس ارادے کے مطابق آپ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔

رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ پہلے چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

حضرت مسیح موعودؑ اور نماز تراویح و تہجد

ایک شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان میں نماز تراویح آٹھ رکعت باجماعت قبل خفتن مسجد میں پڑھنی چاہیے ، یا کہ پچھلی رات کو اٹھ کر اکیلے گھر میں پڑھنی چاہیے؟۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ ’’نماز تراویح کوئی جدا نماز نہیں۔ دراصل نماز تہجد کی آٹھ رکعت کو اوّل وقت میں پڑھنے کا نام تراویح ہے۔ اور یہ ہر دو صورتیں جائز ہیں جو سوال میں بیان کی گئی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ہر دوطرح پڑھی ہے۔ لیکن اکثر عمل آنحضرت ﷺ کا اس پر تھا کہ آپ پچھلی رات کو گھر میں اکیلے یہ نماز پڑھتے تھے‘‘۔

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِدائمی تو وہی آٹھ رکعت ہے اور آپ ﷺ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے۔ مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصہ میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی‘‘۔

امرو نہی اور رمضان

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے)۔

روزہ دار کے منہ کی بو
اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو

’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی سے دس گنا ہوتا ہے‘‘۔

صدقہ و خیرات و سخاوت

رسول اللہﷺ کا ساری عمر کا ایک خاص معمول یہ تھا کہ آپﷺ کثرت سے صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔ لیکن جیسے ہی ماہ رمضان کا آغاز ہو تا آپ ﷺ کی اِس عادت مبارکہ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا۔ سید الانبیاء ﷺ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی سوالی آپﷺ کے در سے خالی ہاتھ واپس نہ جاتا۔ ماہ رمضان میں باقی گیارہ مہینوں کی نسبت سخاوت اپنے نقطہ عروج پر نظر آتی۔ اس ماہ میں صدقہ و خیرات کی بارش نظر آتی۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے:
جب حضرت جبرائیل آتے تو آپﷺ بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔ حضرت جبرائیل کیونکہ رمضان المبارک میں خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے پیغام محبت لے کر آتے تھے ۔چونکہ عام دنوں کی نسبت جبرائیل کثرت سے آتے تھے اِس لیے رسول اللہﷺ جبرائیل کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے تھے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں:
’’نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپﷺ سے رمضان میں ملتے، جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریمﷺ جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے۔ جب جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپﷺ تیز چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے‘‘۔

تلاوت قرآن کریم

نبی کریم ﷺ پورا رمضان المبارک بہت زیادہ ذوق و شوق سے عبادات کرتے۔ آپ ﷺ رمضان المبارک میں تلاوت ِ قرآن کریم بہت بڑھا دیتے اور فرماتے کہ تلاوت قرآن مجید افضل ترین عبادات میں سے ہے ۔

تلاوتِ قرآن مجید افضل ترین عبادت

حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن مجید ہے۔ بلاشبہ قرآن مجید کی تلاوت کی بے پناہ اہمیت اور فضیلت ہے۔ یہ عظیم کتاب رمضان المبارک کے با برکت مہینہ میں نازل ہوئی۔ اِسی لیے رمضان المبارک اور قرآن مجید کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ لہٰذا رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اِس عظیم الشان تعلق کو اور بھی مضبوط کر تا ہے۔

جبرائیل کے ساتھ قرآن کا دور

سرور کائنات محبوب خدا ﷺ کی متعدد احادیث اِس بات کا روشن ثبوت اور دلیل ہیں کہ رسول کریم ﷺ رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے اور جبرائیل امین کو سناتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل امین رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کرتے۔ قرآن مجید کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب قیامت کے روز کوئی کسی کا والی نہ ہو گا اور ہر کسی کو اپنی پڑی ہوگی تو تلاوت قرآن مجید کا اہتمام کرنے والوں کی شفاعت قرآن مجید خود کرے گا۔

قیامت کے دن روزہ اور قرآن مجید دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ پیارے آقاﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن روزہ اور قرآن مجید دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا کہ اے میرے رب! میں نے اِس شخص کو دن کے وقت کھانے پینے اور دوسری نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اِس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا کہ اے میرے رب! میں نے اِس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

رسول اللہ ﷺ کا اعتکاف

آخری عشرہ کا افضل طریق عبادت اعتکاف کی سنت پر عمل پیرا ہونا ہے۔ کیونکہ اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ انسان دنیاوی کاموں سے بالکل منقطع ہو کرصرف خدا تعالی کی طرف متوجہ ہو اور اس کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے مکمل طور پر یکسو ہوجائے۔ نبی کریم ﷺ بھی یہ عشرہ اعتکاف میں گذارتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گذارتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے محبوب حقیقی سے جاملے۔ پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف بیٹھنے لگیں۔‘‘

رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں رسول اللہ ﷺ کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ ﷺ کا وصال ہو گیا۔ پھر آپﷺ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔ اِسی سلسلے میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ سرور کائنات، محبوب خدا ﷺ ہر سال رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کا وصال مبارک ہوا اس سال آپ ﷺ نے بیس دن اعتکاف کیا۔

رسول اللہ ﷺ کی لیلۃ القدر

حدیث میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایاکہ جس نے ماہ رمضان کے شروع سے آخر تک تمام نمازیں باجماعت ادا کیں تو اس نے لیلۃ القدر کا بہت بڑا حصہ پا لیا۔ گویا صرف آخری دنوں میں تلاش نہ کریں بلکہ سارے رمضان میں پوری عبادات بجا لائیں۔

پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا ہے جو ایک بابرکت مہینہ ہے۔ خداتعالیٰ نے اس کے روزے رکھنا تم پر فرض کئے ہیں۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دئے جاتے ہیں۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اُس کی خیر سے محروم کیا گیا وہ محروم کردیا گیا‘‘۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہو تو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔

آخری دس راتوں میں لیلۃالقدر تلاش کرنے کے بارہ میں ایک اور حدیث سے ہمیں کچھ اس طرح سے راہنمائی ملتی ہے۔ بخاری اور مسلم نے حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے بھی اور ہم نے بھی رمضان کی پہلی دس تاریخوں میں اعتکاف کیا۔ اس کے خاتمہ پر حضرت جبرائیل آئے اور رسول کریمﷺ کو خبر دی کہ جس چیز (لیلۃ القدر) کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔ اس پر آپؐ نے اور ہم سب نے درمیانی دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ اس کے خاتمہ پر پھر حضرت جبرائیل نے ظاہر ہو کر آنحضرتﷺ سے کہا کہ جس چیز کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔ اس پر رسول کریمﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو تقریر فرمائی اور فرمایاکہ مجھے لیلۃ القدر کی خبردی گئی تھی مگر مَیں اُسے بھول گیا ہوں۔ اس لئے اب تم آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں اس کی تلاش کرو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ لیلۃ القدر آئی ہے اور مَیں مٹی اور پانی میں سجدہ کررہاہوں۔ اس وقت مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی اور جس دن آپ نے یہ تقریر فرمائی بادل کانشان تک نہ تھا۔ پھر یہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ اچانک بادل کاایک ٹکڑا آسمان پر ظاہر ہوا اور بارش شروع ہو گئی۔ پھر جب نبی کریمﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی تو مَیں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر مٹی اور پانی کے نشانات ہیں۔ ایسا خواب کی تصدیق کے لئے ہوا۔ صحیح بخاری اور مسلم نے اس کو درج کیا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ لیلۃالقدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں راتوں میں لیلۃالقدر کو تلاش کرو)۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں رات جمعہ کی رات ہو تووہ خداکے فضل سے بالعموم لیلۃالقدر ہوتی ہے۔

لیلۃ القدرکے حصول کے لئے
رسول اللہ ﷺ کی دعا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پڑھو:

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ

اے اللہ! تو بیشک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو ، پس مجھے بھی معاف فرمادے ۔

رسول اللہ ﷺ اور رمضان کا آخری عشرہ

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو آپ کی راتیں زندہ ہوجاتیں۔ آپ کمر ہمت کس لیتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی عبادت کے لیے بیدار کرتے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت میں اتنی کوشش کرتے جو اور دنوں میں نہ کرتے۔

حضرت عائشہ رضي اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ ’’شد مئزرہ‘‘ عبادت کی تیاری اورعادت سے زيادہ عبادت کی کوشش سے کنایہ سے، اور اس کا معنیٰ عبادت میں تیزی ہے ۔اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ یہ عورتوں سے علیحدگی سے کنایہ ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول ’’احیا اللیل‘‘ کامعنیٰ ہے کہ رات کونماز وغیرہ کے لیے بیدار رہا کرتے تھے ۔

حدیث میں آتاہے کہ حضرت ابن عمرؓ رسول کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:
عمل کے لحاظ سے ان دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خداتعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب کوئی دن نہیں۔ پس ان ایام میں تہلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا، اللہ تعالیٰ کی بندگی پوری طرح اختیار کرنا اور تکبیر کہنا اور تحمید کہنا، یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا، بکثرت اختیار کرو۔

رمضان کا آخری عشرہ اور
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

’’اس آخری عشرہ میں تو پہلے سے بڑھ کر خداتعالیٰ اپنے بندے کی طرف متوجہ ہو تا ہے۔ قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کر ظاہر کرتا ہے بلکہ ان دنوں میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کہا ہے اور یہ ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس ایک رات کی عبادت انسان کو باخدا انسا ن بنانے کے لئے کافی ہے‘‘۔

رمضان اور باب ریان

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّآئِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ أَ يْنَ الصَّآئِمُوْنَ؟ فَيَقُوْمُوْنَ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقْ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ

ترجمہ: حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں۔ قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا۔ پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے۔ جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر کوئی اُس سے داخل نہ ہو گا‘‘۔

حضرت مسیح موعود ؑکی نظر میں صیام رمضان۔
رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت

’’رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں ۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور دیگر تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے ، دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک جوش اور حرارت پیدا کرتا ہے ۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا ۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لیے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عرب کے لیے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی ۔ روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے۔ رمض اُس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہی‘‘۔

انسان جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے، کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔

روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اُسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے، اُنہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمداور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا اُنہیں مل جاوے۔‘‘

یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کے دن ہیں

’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کے دن ہیں‘‘۔

اس مضمون کا اختتام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےبعض خطبات جمعہ کے اختتامی الفاظ سے بہتر ممکن نہیں تھا اس غرض سے ذیل میں پیارے آقا کے بعض انتہائی پر اثر الفاظ تحریر خدمت ہیں:
’’خدا کرے کہ رمضان کی برکات ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائیں۔ جو نیکیاں ہم نے اپنا لی ہیں ان کو کبھی چھوڑنے والے نہ ہوں۔ اور جو برائیاں ہم نے ترک کی ہیں وہ کبھی دوبارہ ہمارے اندر داخل نہ ہوں۔ ہماری اولاد در اولاد اور آئندہ نسلیں بھی خداتعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والی اور نیکیوں پر چلنے والی ہوں‘‘۔

ایک اور موقع پر آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ہمیں اس عشرہ سے بھرپورفائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور جن مقاصد کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے ان مقاصد کو پورے ہوتےہوئے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو حضرت خاتم الانبیاءﷺ کے جھنڈے تلے لانے کے نظارے ہمیں دکھائے اور ان دنوں میں کل دنیا کے احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور حقیقی اور سچا مسلمان بنائے۔۔۔۔ بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں ان دنوں میں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے جلد فتح کے سامان پیدا فرمائے‘‘۔ آمین!

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہر رمضان ہمارے لئے ایک نئی پیدائش کی خوشخبری لے کر آتا ہے۔ اگر ہم ان شرطوں کے ساتھ رمضان میں سے گزر جائیں جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہیں تو گویا ہرسال ایک نئی روحانی پیدائش ہوگی اور گزشتہ تما م گناہوں کے داغ دھل جائیں گے‘‘۔

(عبدالرشید انور ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2021