• 30 جون, 2025

رمضان کے روزوں سے مسافر، حائضہ، حاملہ، رضاعی عورتوں اور بچوں کا استثناء

رمضان کے روزے ہر بالغ، عاقل، تندرست، مقیم مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہیں۔ مسافر اور بیمار کو یہ رعایت ہے کہ وہ دوسرے ایّام میں ان روزوں کو پورا کرلیں جو اس ماہ میں ان سے رہ گئے ہیں۔ مستقل بیمار جنہیں صحت یاب ہونے کی کبھی امید نہ ہو یا ایسے کمزور ناتواں ضعیف جنہیں بعد میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ملے۔ اسی طرح ایسی مرضعہ اور حاملہ جو تسلسل کے ساتھ ان عوارض سے دوچار رہتی ہے۔ ایسے معذور حسب توفیق روزوں کے بدلہ میں فدیہ ادا کریں۔

يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ

(البقرة : 186)

یعنی : اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔

بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيْضًا أَوْ عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (البقرة: 185) جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے۔ اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں۔ خدا تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے۔ بعد کے روزے اس پر بہرحال فرض ہیں۔ درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ زائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے فرمایا:
جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہِ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کرسکتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے، مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔

(بدر 17 اکتبر 1907ء صفحہ7)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحُبْلَى الَّتِيْ تَخَافُ عَلىٰ نَفْسِهَا أَنْ تُفْطِرَ وَلِلْمُرْضِعِ الَّتِيْ تَخَافُ عَلىٰ وَلَدِهَا

(سنن ابن ماجه، كتاب الصيام)

ترجمہ: انس بن مالکؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حاملہ کو جسے اپنی جان کا خطرہ ہو اور دودھ پلانے والی جسے اپنے بچہ کا خطرہ ہو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

نَحِيْضُ عَلىٰ عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَآءِ الصَّوْمِ وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَآءِ الصَّلَاةِ

(سنن النسائي، كتاب الصيام)

ترجمہ: یعنی ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایام حیض سے پاک ہوتیں تو آپؐ ہمیں روزوں کی قضاء کا حکم دیا کرتے تھے اور جبکہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں:
اگر نماز کے لئے یہ شرط ہے کہ جو کھڑا نہ ہو سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر نماز ادا کرے تو رمضان کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ اگر انسان مریض ہو۔ خواہ اُسے مرض لاحق ہو چکا ہو یا ایسی حالت میں ہو جس میں روزہ رکھنا اُسے یقینی طور پر مریض بنا سکتا ہو جیسے حاملہ ہے یا دودھ پلانے والی عورت ہے یا ایسا بوڑھا شخص ہے جس کے قویٰ میں انحطاط شروع ہو چکا ہے یا اتنا چھوٹا بچہ ہے جس کے قویٰ نشونما پا رہے ہیں تو اُسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔مسافر اور بیمار کا روزہ رکھنا ایسا ہی لغو ہے جیسے حائضہ کا روزہ رکھنا۔ کون نہیں جانتا کہ حائضہ کا روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بےوقوفی اور جہالت ہے یہی حال بیمار اور مسافر کا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔

پھر فرمایا:
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضررور کرانی چاہیے۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزے کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے ۔

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ384)

بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔

مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔

(الفضل 11 اپریل 1925ء صفحہ7)

(مرزا فراز احمد طاہر۔ مبلغ سلسلہ نائیجر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اپریل 2021