• 30 اپریل, 2024

مادی اور روحانی زندگی

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جونظام جاری فرمایا ہے اس میں مادی نظام کے ساتھ ساتھ روحانی نظام کو بیان کیا ہے۔ جیسے مادی سورج اور روحانی سورج (حضرت محمد رسول اللہ ﷺ)، مادی چاند اور روحانی چاند (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام)، مادی ستارے اور روحانی ستارے (صحابہ رسولﷺ)، اسی طرح مادی پانی اور روحانی پانی (جیسے الہام اور وحی وغیرہ)۔

پانی زندگی کی علامت ہے خواہ وہ زندگی مادی ہو یا روحانی۔ ابھی چند روز قبل ناسا نے مریخ (Mars) پر مشین ایسی جگہ اُتاری ہے جہاں کسی وقت پانی کے آثار تھے۔ وہ اس جگہ زندگی کے آثار جاننے کی کوشش میں ہیں۔

چونکہ قرآن کریم کا علم بہت وسیع ہے اور مطالعہ کے دوران بعض نئے مضامین کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے وسیع و عریض اور گہرے سمندر میں نئے نئے موتی اور سیپ ملتے رہتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ قرآن کو پانی قرار دیتے ہوئے 31 اگست 1928ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’قرآن دنیا میں غلافوں میں رکھنے یا جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے نہیں آیا بلکہ اس لئے آیا ہے کہ منبروں پر سنایا جائے، مناروں پر اس کی منادی کی جائے اور بازاروں میں اس کا وعظ کیا جائے۔ وہ اس لئے آیا ہے کہ پڑھا جائے اور سنایا جائے، پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے، پھر پڑھاجائے اور سنایا جائے۔ خدا تعالیٰ نے اس کا نام پانی رکھا ہے اور پانی جب پہاڑوں پر گرتا ہے تو ان میں بھی غاریں پیدا کردیتا ہے۔ وہ نرم چیز ہے مگر گرتے گرتے سخت سے سخت پتھروں پر بھی نشان بنادیتا ہے اور اگر جسمانی پانی اس قدر اثر رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا نازل کیا ہوا روحانی پانی دلوں پر اثر نہ کرے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بار بار سنایا جائے اور اپنے عمل سے نیک نمونہ پیش کیا جائے۔

پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ دیوانہ وار نکلیں اور دنیا کو قرآن سے بہرہ ور کرنے کی پوری پوری کوشش کریں۔»

(خطبات محمود جلد11 صفحہ460)

ان دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ترجمہ قرآن سے سورۃ النحل کا مطالعہ جاری رہا۔ اس سورۃ میں روحانی اور مادی پانی کا ذکر مختلف مقامات پر ملتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس سورت کے تعارف میں تحریر فرمایا کہ
’’اسی طرح ہر قسم کے جانداروں کی بقا کے متعلق فرمایا کہ وہ آسمان سے اُترنے والے پانی ہی کے ذریعہ ہوتی ہے جس سے زمین سے سبزہ اگتا ہے اور ہر قسم کے درخت اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن آسمانی پانی کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے وہ اَنْعَام نہیں جانتے جو گھاس وغیرہ چرتے تو ہیں لیکن اس کی کُنہ کو نہیں سمجھتے۔ پس روحانی پانی سے جو زندگی اللہ کے رسول پاتے ہیں اور اس فیض کو آگےجاری کرتے ہیں اسے وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جن کی مثال قرآن کریم نے اَنْعَام سے دی ہے بلکہ ان کو اَشَرَ قرار دیا ہے کہ ان کا تو جانداروں سے بھی بدترحال ہے کیونکہ اَنْعَام تو اس کو سمجھنے کی بھی اہلیت ہی نہیں رکھتے مگر یہ دین کو بظاہر سمجھنے کے باوجود پھر بھی اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے سمندر میں پائی جانے والی نعمتوں اور سمندر میں کھارے پانی میں پلنے والی مچھلیوں وغیرہ کا بھی ذکر فرمادیا جو کھارا پانی پیتی ہیں، اسی میں گزر بسر کرتی ہیں لیکن ان کے گوشت میں کھار کا کوئی ادنٰی سا بھی نشان نہیں پایا جاتا۔ اور اس طرف بھی توجہ دلائی کہ پانی کے ذریعہ اس بقا کے نظام کا انحصار ان پہاڑوں پر ہے جو بڑی مضبوطی سے زمین میں گڑےہوتے ہیں۔ اگر یہ پہاڑ نہ ہوتے تو سمندر سے شفاف پانی کے اٹھنے اور اس کے برسنے کا یہ نظام جاری رہ ہی نہیں سکتا تھا۔»

(قرآن کریم، اردو ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ435)

چونکہ روحانی پانی سے وحی بھی مراد لی جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں پانی کے ذکر کے بعد شہد کی مکھی کا ذکر فرمایا۔ جو اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق پھولوں سے عرق کونچوڑ کر جو شہد تیار کرتی ہیں۔ اس کے متعلق فرمایا «فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ» کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔ بعینہٖ جو وحی انبیاء پر ہوگی اس کے صلے میں جو روحانی قوم تیار ہوگی اس میں شفاء کا بہت بڑا پیغام موجود ہے۔ بالخصوص جو الہام ہمارے سب سے بڑے اور عظیم نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوا۔ اس میں مومنوں کے لئے روحانی شفاء ہے۔ جو قرآن سے فیض پانے والوں کے لئے تاقیامت بطور شفاء کام کرتا رہے گا۔ اس لئے ہم میں ہر ایک کو روزانہ اس کی تلاوت معہ ترجمہ کرنی چاہیے۔ اگر کچھ تفسیر کو بھی زیر مطالعہ رکھیں اور اس کے معارف و حقائق پر غور کرتے رہیں تو شفاء کے بہت سے سامان پیدا ہوتے ہیں۔

اس سورت میں چونکہ چرند پرند کا پانی پر انحصار کا ذکر ہے۔ اس کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیق پانی کے استعمال کے ایک نئے معانی سامنے لائی ہے۔ آپ سمندروں اور پانی پر سفر کرنے والے آبی پرندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«پھر یہی پرندے آبی پرندے بھی بنتے ہیں اور ڈوبتے نہیں حالانکہ ان کو اپنے وزن کی وجہ سے ڈوب جانا چاہئے تھا۔ نہ ڈوبنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جسم کے اوپر چھوٹے چھوٹے پَر ہوا کو سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں اور پَروں میں قید ہوا ان کو ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ اور یہ خود بخود ہوہی نہیں سکتا کیونکہ ضروری ہے کہ ان پَروں کے گرد کوئی ایسا چکنا مادہ ہو جو پانی کو پَروں میں جذب ہونے سے روکے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پرندے سارے پَر اپنی چونچوں میں سے گزارتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت ان کے جسم میں سے اللہ تعالیٰ گرِیس (Grease) کی طرح کا وہ مادہ نکالتا ہے جسے پَروں پر ملنا لازمی ہے۔ وہ مادہ کیسے از خود پیدا ہوا اور ان کے منہ تک کیسے پہنچا اور ان پرندوں کو کیسے شعور ہوا کہ جسم تک پانی کے سرایت کرنے کو روکنا لازمی ہے ورنہ وہ ڈوب جائیں گے؟»

(قرآن کریم، اردو ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ437)

اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں انسان کی تخلیق کابھی ایک گدلے پانی سے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے نیک اور ا للہ کے پیاروں پر وحی یعنی روحانی پانی کا نزول ہوتا ہے۔ اور بعض خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ (النحل:5) یعنی کھلے کھلے جھگڑالو بن کرمعاشرے میں اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کو ویسے ہی گدلا کرتے اور بنائے رکھتے ہیں جیسے وہ گدلے پانی سے پیدا ہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل کے مختلف مقامات پرنظام حیات کا ذکر فرمایا ہے۔ ان میں ایک اہم بات آیت 66 میں بیان فرمائی گئی ہے اور وہ زندگی ہے جو پانی خواہ مادی ہو یا روحانی سے ملتی ہے۔ آسمان سے نازل ہونے والا پانی جب خشک صحراؤں اور بنجر زمینوں پر گرتا ہے تو وہاں بھی ہریالی جنم لیتی ہے باقی زرخیز زمینوں پر تو سرسبزی آہی جاتی ہے۔ اسی طرح روحانی پانی بھی پتھر جیسے سخت دلوں پر بھی اثر کرجاتا ہے۔ اس لئے نیک صالح متقی پرہیزگاروں کی مصاحبت ضروری ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ یہ پانی پینے کے بھی کام آتا ہے اور نبات کے بھی یعنی کھیتی کے زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اس مادی پانی سے ہی نہ صرف زمین پر اُگتے بلکہ پنپتے، پھولتے اور پھلتے ہیں۔ حتی کہ کھارے پانی والے سمندر میں بھی اللہ تعالیٰ نے مچھلی اور دوسرے آبی جانور پیدا کئے۔ جو کھارے پانی میں رہنے کے باوجود کسی قسم کا کھار اپنے اندر نہیں رکھتے بلکہ انسانوں کے کام آتے ہیں۔ بلکہ اس پانی کے اتھاہ گہرائیوں میں موتیوں اور دیگر قیمتی جواہرات کو بطور زینت انسان اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پھر انہی پانیوں کو کشتیاں چیرتی ہوئی چلتی اور مسافروں اور سامان کو اِدھر اُدھر لے جاتی ہیں جو محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی جستجو میں انسان لگا رہتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت حکمت کے ساتھ پہاڑوں کا ذکر کرکے فرمادیا کہ ان کے درمیان جو نہریں اور دریا بہتے ہیں وہ راستے بناتے ہیں جس سے انسان ہدایت پاتا ہے۔

الغرض پانی ایک انسان کی مادی اور روحانی زندگی کے لئے لازم ملزوم ہے۔ اسی لئے تو اسلام نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک بلا تسلسل تمام انبیاء جو روحانی پانی ہیں کو ماننے اور ان سے فیض یاب ہونے کی تلقین فرمائی ہے۔ جس شخص یا جس امت نے اپنے دَور کے روحانی پانی کو جھٹلایا وہ تہس نہس ہوگئی اور جس نے اس پانی سے فائدہ اُٹھایا وہ زندہ تابندہ ہوگئی۔

آج بھی اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے توسط سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ صورت میں روحانی پانی نازل فرمایا ہے۔ جو اس سے فیض یاب ہوئے یا ہورہے ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ بامراد رہے، بامراد رہ رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بامراد رہیں گے۔ ان کے روحانی چمن سرسبز و شاداب رہیں گے اور ان کی نسلیں آئندہ باغ احمدیت کی لہلہاتی کھیتیوں کی مانند دنیا میں پنپیں گی۔ ان شاء اللہ

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اپریل 2021