• 29 اپریل, 2024

روحانی اور جسمانی برکات سمیٹے ہوئے ایک ماہ کا مہمان رمضان المبارک

رمضان المبارک ایک ایسا مہمان ہے جو ایک سال میں ایک بار روحانی اور جسمانی برکات اپنے ہمراہ لے کر آتا ہے۔ اس کے آنے سے موسمِ بہار کا سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ نورانیت کا انتشار ہوتا ہے۔ خیرِ عمیم کی بے پایاں تقسیم ہوتی ہے۔ روحیں بیدار ہو کر ترقی کی منازل بڑی سرعت کے ساتھ طے کرتی ہیں۔ دل ودماغ میں محبت اور روشنی چمکتی ہے۔ جذبات صیقل ہوتے ہیں۔ کشتِ تقویٰ کی آبیاری ہوتی ہے۔ دعاؤں کی اجابت کے آسمانی دروازے وا ہوجاتے ہیں۔ کشوف و الہام اور رویا ئے صادقہ کا سلسلہ قائم ہو جاتاہے۔ روحانی زندگی کی گہما گہمی ہوتی ہے۔ احساس بیدار ہوجاتے ہیں۔ غریب بھائیوں کی تنگدستی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔صدقہ خیرات میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اخوت، باہمی ہمدردی اور مومنانہ ایثار و خلوص کی لہر سارے معاشرہ پر چھا جاتی ہے۔

رمضان کی وجہ تسمیہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان کی وجہ تسمیہ اور اس کی حکمت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:۔
’’رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے ۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لئے رمضان کہلایا۔ میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ عرب کے لئے خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ روحانی رمضان سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے۔ رمضان اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر و غیرہ گرم ہوتے ہیں۔ رمضان دعا کا مہینہ ہے۔ شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ سے ہی ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیوں نے اس مہینہ کو تنویر قلب کے لئے عمدہ لکھا ہے۔ اس میں کثرت سے مکا شفات ہوتے ہیں۔

(فتاویٰ احمدیہ صفحہ175)

روزہ تاریخ کے آئینہ میں

تاریخِ ادیان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ تمام ادیان میں فرض تھا البتہ روزہ کے احکام اس کی پابندیوں اور تعداد میں فرق ہے۔ آج بھی مختلف مذاہب میں روزہ کا رواج پایا جاتا ہے۔ روزہ کی خوبیوں اور فوائد کی بناء پر ہی اس کی فرضیت اسلام میں کی گئی ہے تاکہ اُمّتِ اسلامیہ بھی روزہ کے ذریعہ اپنی معاشرت اور ماحول میں اطمینان اور سکون کی فضا پیدا کر سکے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے فریضہ کو کما حقّہٗ سرانجام دے سکے۔

٭ یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اِتباع میں روزہ رکھتے ہیں اور اس میں وہ غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰؑ کے متعلق بائیبل میں لکھا ہے کہ آپ نے جبل الطور پر چالیس دن کے روزے رکھے تھے:۔
’’سو وہ چالیس دن اور چالیس رات وہیں خداوند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔‘‘

(خروج)

’’پھر سموئیل نے کہا کہ سب اسرائیل کو مصفاہ میں جمع کرو اور مَیں تمہارے لئے خداوند سے دُعا کروں گا سو وہ سب مصفاہ میں فراہم ہوئے اور پانی بھر کے خداوند کے آگے انڈیلا اور اس دن روزہ رکھا۔‘‘

(سموئیل نمبر 1 :6/7)

٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی روزے رکھا کرتے تھے اور ان کی اِتباع میں آج بھی بعض عیسائی روزہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ انجیل میں لکھا ہے:۔
’’اس وقت رُوح یسوع کو جنگل میں لے گیا تا کہ ابلیس سے آزمایا جائے اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو اُسے بھوک لگی۔‘‘ (یہاں فاقہ سے مراد روزہ ہے۔)

(متیؔ 2-1 : 4)

ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان شاگردوں نے دریافت کیا کہ ہم پلید رُوحوں کو کس طرح نکال سکتے ہیں؟ وہ جواب میں فرماتے ہیں:۔
’’یہ جنس (پلید رُوح) سوائے دُعا اور روزہ کے کسی طرح نہیں نکل سکتی‘‘

(مرقص 28-27 : 9)

یہود نے روزوں میں بعض بدعتیں اور تکلّفات اختیار کر لئے تھے جن میں ریا پایا جاتا تھا۔ اس لئے حضرت عیسیٰؑ نے اپنے حواریوں اور پیروؤں کو روزہ رکھنے کا صحیح طریق بتاتے ہوئے فرمایا:۔
’’پھر جب تم روزہ رکھوتوریا کاروں کی مانند اپنا چہرہ اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں، کہ لوگوں کے نزدیک روزہ دار ٹھہریں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا بدلہ پا چکے۔ پر جب تم روزہ رکھو اپنے سر میں تیل لگاؤ اور منہ دھوؤ تا کہ تم آدمی پرنہیں بلکہ اپنے باپ پر جو پوشیدہ ہے روزہ دار ظاہر ہو اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھ کو آشکار بدلہ دے۔‘‘

(متیؔ 18-16 :6)

٭ قدیم مصریوں میں بھی روزہ کا رواج تھا۔ اگرچہ قدیم مصری مذہب بُت پرستی کا مذہب تھا تاہم اس مذہب کے پَیرو اپنے بتوں کو خوش کرنے کے لئے اور اُن کے غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لئے روزے رکھا کرتے تھے اور کئی قسم کی جسمانی تکلیفیں اپنے اُوپر وارد کر لیا کرتے تھے۔ اسی طرح اہلِ یونان میں بھی روزہ کا رواج تھا بالخصوص یونانی عورتیں روزہ رکھنے میں خاص اہتمام کیا کرتی تھیں۔ ہندو مذہب میں تو ہر ماہ بعض ’’برت‘‘ یعنی روزے رکھنے کا رواج ہے اور ہندو مذہب کے مذہبی لیڈروں میں چلّہ کشی کا رواج تو معروف ہے گو روزوں کی تعداد، احکام اور روزہ کے وقت کے متعلق جملہ اَدیان میں فرق ہے۔

٭ مشرکینِ عرب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جاہلیت کے ایّام میں عاشورہ (دسویں محرم) کے دن روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ اس دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔

(صحیح بخاری کتاب الصّوم)

روزوں کی فرضیت

اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے چوتھا رکن روزہ ہے۔ تاریخِ اسلام کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناقابلِ برداشت مظالم کے پیشِ نظر جب مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی تو اس تاریخی ہجرت کے دوسرے سال ماہ شعبان میں ہر بالغ مسلمان پر روزے فرض کئے گئے بشرط یہ کہ وہ مسافر یا بیمار نہ ہو۔ چنانچہ قرآن کریم میں روزہ کی فرضیت کے متعلق مندرجہ ذیل نص وارد ہوئی ہے:۔

یٓاَ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّـذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْـرًا فَهُوَ خَيْـرٌ لَّـهٗ ۚ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْـرٌ لَّكُمْ ۖ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ۔شَهْرُ رَمَضَانَ الَّـذِىْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْـهُـدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۗ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۖ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَـبِّـرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدَلكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ۔

(البقرہ 186تا184)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر بھی روزوں کا رکھنا اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھاتاکہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے) بچو۔ تم متقی بن جاؤ۔ سو تم روزے رکھو چند گنتی کے دن اور تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اسے اَور دنوں میں تعداد پوری کرنی ہو گی اور ان لوگوں پر جو (فدیۂ رمضان کی) طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا دینا (بطور فدیہ رمضان کے واجب ہے) اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے نیک کام کرے گا تو یہ اس کے لیے بہتر ہو گا اور اگر تم عقل رکھتے ہو (تو سمجھ سکتے ہو کہ) تمہارا روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے رمضان کا وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے (وہ قرآن) جو تمام انسانوں کے لیے ہدایت (بنا کر بھیجا گیا) ہے اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے (ایسے دلائل) جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی (قرآن میں) الٰہی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو (اس حال میں) دیکھے (کہ نہ مریض ہو نہ مسافر) اسے چاہیے کہ اس مہینے کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد پوری کرنی واجب ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور یہ حکم اس نے اس لئے دیا کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور تاکہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس پر اﷲ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔

رمضان المبارک کی فضیلت اور عظمت

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَآءِ وَفِیْ روایۃٍ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمُ وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ وَفِیْ روایۃٍ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ۔

(مشکوٰۃ المصابیح)

ترجمہ : حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان آ جاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے واہو جاتے ہیں۔

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیْ قَالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی اٰخِرِ یَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ یَااَیُّھَا النَّاسُ قَدْأَ ظَلَّکُمْ شَھْرٌ عَظِیْمٌ شَھْرٌ مُبَارِکٌ شَھْرٌ فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہُ فَرِیْضَۃً وَقِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعاً مَنْ تَقَرَّبَ فِیْہِ بِخَصْلَۃٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ أَدَّیٰ فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ وَمَنْ أَدَّیٰ فَرِیْضَۃً فِیْہِ کَانَ کَمَنْ أَدَّیٰ سَبْعِیْنَ فَرِیْضَۃٌ فِیْمَا سِوَاہُ وَھُوَ شَھْرُ الصَّبْرِ والصَّبْرُ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃُ وَشَھْرُ الْمَوَاسَاۃِ وَشَھْرٌ یُزَادُ فِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ مَنْ فَطَّرَ فِیْہِ صَائِماً کَانَ لَہٗ مَغْفِرَۃً لِذُنُوْبِہٖ وَ عَتِقَ رَقِبَتُہٗ مِنَ النَّارِ وَکَانَ لَہٗ مِثْلُ أَجْرِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِہٖ شَیْیٌٔ قُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ لَیْسَ کُلُّنَا نَجِدُ مَاتفطِّرُ بِہِ الصَّائِمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْطِی اللّٰہُ ھٰذَا الثَوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمَاً عَلَی مَذَقَۃِ لَبَنٍ اَوْتَمْرَۃٍ اَوْشَرْبَۃٍ مِنْ مَائٍ۔ وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِماً سَقَاہُ اللّٰہُ مِنْ حَوْضِیْ شَرْبَۃً لَایَظْمَأُ حَتّٰی یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ وَھُوَ شَھْرٌ أَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَ أَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ وَ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْکِہٖ فِیْہِ غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ وَ أَعْتَقَہٗ مِنَ النَّارِ۔

(مشکوٰۃ المصابیح)

ترجمہ: حضرت سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہِ شعبان کے آخری روز خطبہ ارشاد فرمایا۔ حضرت ﷺ نے فرمایاکہ اے لوگو! کل تم پر ایک بڑا عظمت والا مہینہ چڑھنے والا ہے۔ وہ بابرکت مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس مہینہ کے روزے فرض قرار دیئے ہیں اوراس کی راتوں میں قیام (تہجد) کو خاص نفلی عبادت قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نفلی نیکی بجا لاتا ہے تاکہ اسے قربِ الٰہی نصیب ہو اس نے گویا دوسرے مہینوں میں فرض ادا کر دیا ہے اور جو شخص اس مہینہ میں فرض اداکرتا ہے اس نے گویا کہ ستّر سال کے فرائض ادا کر دیئے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے۔ یہ باہمی ہمدردی کا ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں زیادتی کی جاتی ہے۔ جو شخص اِس ماہ میں کسی روزہ دار کی اِفطاری کرواتا ہے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کی گردن جہنم سے آزاد ہو جاتی ہے اور اُسے روزہ دار ہی کی طرح ثواب ملتا ہے۔ ہاں روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! ہرایک شخص کو یہ توفیق کہاں کہ وہ روزہ دار کی افطاری کرا سکے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ ثواب تو اﷲ تعالیٰ ہر اُس شخص کو دیتا ہے جو کسی روزہ دار کی افطاری دودھ کے گھونٹ سے یا کھجور سے یا پانی کے گھونٹ سے کرواتا ہے۔ ہاں جو روزہ دار کو پوری طرح سیر کرتا ہے تواس کو تو اﷲ تعالیٰ میرے حوضِ کوثر سے ایسا پلائے گا کہ اُسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہ لگے گی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کا پہلا حصہ رحمت، درمیانی مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے۔ اس مہینہ میں جو شخص اپنے غلام یا خادم کے کام میں تخفیف کرے گا تو اﷲ تعالیٰ اسے بخشش عطا فرمائے گا اور جہنم سے آزادی بخشے گا۔

روزہ کی اغراض ومقاصد

اللہ تعالیٰ نے روزہ کے تین مقاصد قرآن میں بیان فرمائے ہیں:

لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن۔ تاکہ تم خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اخلاقی اور اجتماعی کمزوریوں سے بچو۔

تقویٰ کا حصول ر وزہ سے اِس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک مسلمان کے قلب میں خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے تو برے کاموں سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور اچھے کاموں کی طرف رغبت اور میلان ہو جاتا ہے کیونکہ متقی شخص وہ ہوتا ہے جس کی زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی مرضی سے مطابق ہو۔

وَ لِتُکَبِّرُوااللّٰہ عَلٰی مَا ھَدٰیکُمْ تا کہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے مطابق اس کی عظمت بیان کرو۔

روزہ سے دوسری غرض اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعتراف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اَور کی عبادت کا تصور بھی دل میں نہ آئے اور حقیقی توحید کا زبان اور دل سے اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے لئے وقف کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رمضان کے روزے ختم ہو جاتے ہیں تو عید الفطر کی نماز کی تقریب میں کثرت سے تکبیرات کہنے کا ارشاد ہے۔ اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لااِلٰہ اِلااللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللہ الحمد۔

لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ تا کہ تم اس کا شکر کرو۔

تیسری غرض روزوں سے اظہارِ شکر ہے۔ عربی زبان میں شکر کے معنٰے قدر کرنے اور پورا حق ادا کرنے کے ہیں۔خد اتعالیٰ کا حقیقی شکریہ ہے کہ انسان کے جملہ اعضاء دماغ، دل، زبان، آنکھ، کان، ہاتھ پاؤں وغیرہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کام کریں اور ان اعضاء سے جائز کام لیا جائے تب ایک انسان کہہ سکتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ ہوں۔

روزوں کے طبی فوائد

روزے ا نسانی قلب و روح سے فاسد مادوں کو زائل یادرست کرنے کا اس قدر کامیاب ذریعہ ہیں جس کی نظیر نہیں ہو سکتی ۔روزے کی افادیت کو واضح کرتے ہوئے مشرق کے معروف طبیب علامّہ قرشی ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ اگر فضلے کو بدن میں رہنے دیا جائے تو اپنی کمیّت اور کیفیت کی بناء پر مختلف امراض کا موجب بنتا ہے لہٰذا اس کا اخراج لازمی ہے۔

فضلے کا اخراج اگر ادویات سے کیا جائے تو اکثر اوقات ادویات کے مضر اثرات سے فاسد مادہ کے ساتھ صالح مواد بھی ضرور خارج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جلاب کے بعد کمزوری سی محسوس ہو تی ہے اور جہاں تک روزہ دار کے جسم کی حرارت کا تعلق ہے یہ حرارت اکثر اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ موادِ ردّیہ کو جلانے اور اسے ختم کرنے میں اعانت کرتی ہے۔ اگر موادِ ردّیہ تحلیل ہو گئے تو مختلف قسم کے جراثیم کی جڑ کٹ گئی یا انسان صحیح معنوں میں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کا عامل یعنی متقی اور پرہیز گار بن گیا۔

روزہ دار کے لئے روزہ اور قرآن کریم کی شفاعت

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْر و اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الصِّیَامُ وَالْقُرْاٰنُ یُشَفَّعَانِ لِلْعَبْدِ یَقُوْلُ الصِّیَامُ اَیْ رَبِّ اِنِّیْ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ وَیَقُوْلُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ فَیُشَفَّعَانِ ۔

(البیہقی)

ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن مجید کی شفاعت مومن کے بارے میں قبول کی جائے گی۔ روزہ کہے گا کہ اے میرے رب! مَیں نے اس مومن کو کھانے اور شہوات سے دن کے وقت روکے رکھا تُو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن مجید کہے گا کہ مَیں نے رات کے وقت اسے نیند سے باز رکھا اس کے بارے میں میری سفارش منظور فرمایا۔ پس ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔

روزوں کا اجر و ثواب

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کلّ عمل ابن اٰدم یضاعف الحسنۃ بعشرامثالھا الیٰ سبع مائۃ ضِعفٍ الی ما شاء اللہ۔ یقول اللہ الا الصوم فانّہٗ لی اَنَا اجزی بہ یدع شھوتہٗ و طعامہ من اجلی للصائم فرحتان فرحۃ عند فطرہ و فرحۃ عند لقاء ربّہ و لخلوف فم الصائم اطیب عنداللہ من ریح المسک۔

(سنن ابن ماجہ۔ باب ماجاء فی فضل الصیام)

ترجمہ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول مقبول صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس گُنے سے سات سَو گُنے تک بڑھایا جاتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اس کی جزا مَیں خود دوں گا (یعنی اس کے بدلہ کی کوئی حد نہیں ہے بلکہ غیر محدود ہے) روزہ رکھنے والا اپنی خواہش اور اپنا کھانا میرے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ رکھنے والے کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب کی ملاقات کے وقت۔ روزہ دار کے مُنہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک خالص کستوری سے بھی بہتر ہے۔

رمضان المبارک کی تین اجتماعی برکات

روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ شریعتِ اسلامیہ نے ضروری قرار دیا ہے کہ روزہ دار ہمہ وقت تلاوتِ قرآن کریم، نوافل، ذکرِ الٰہی اور دعائوں میں مشغول رہے۔ ہر قسم کی لغو بات اور لغو عمل سے اجتناب اختیار کرے۔اسلام نے انفرادی برکات کے علاوہ اجتماعی طور پر بھی رمضان کے ساتھ بعض برکات کو مخصوص کر دیا ہے جو درج ذیل ہیں۔

پہلی برکت۔ نماز تہجد/تراویح

قرآن مجید نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے نماز تہجد کو ضروری قرار دیا ہے۔ آپؐ کے صحابہؓ بھی حضورؐ کے نقشِ قدم کی پیروی میں تہجد پڑھا کرتے تھے۔ تہجد کی نماز پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ہے جو سونے سے بیدار ہو کر طلوعِ فجر سے پہلے پہلے پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ انفرادی نماز خلوت اور تنہائی کی مناجات ہے جو بندہ اپنے رب سے کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم زندگی بھر لمبے قیام و رکوع و سجود کے ساتھ نماز تہجد پڑھتے رہے حتّٰی کہ آپؐ کے پائوں متورم ہوجاتے تھے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تین وتروں کے علاوہ آٹھ رکعت نفل بطور تہجد ادا فرمایا کرتے تھے۔ آخر میں وتر پڑھتے تھے۔ یہ نوافل حضورؐ بالعموم دو دو رکعتوں کی صورت میں پڑھا کرتے تھے۔ احادیث میں مذکور ہے کہ آپؐ نے ان آٹھ نوافل کا رمضان اور غیر رمضان میں التزام فرمایا ہے۔

رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ اس میں بکثرت تلاوتِ قرآن کریم لازمی ہے۔ خود حضرت جبریلؑ اس ماہ میں آپؐ کے ساتھ قرآن مجید کا دَور فرماتے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان میں اجتماعی طور پر تلاوت کرتے اور قرآن مجید سُننے کی صورت یوں پیدا فرمائی کہ آپؐ مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں نے آپؐ کی اقتداء میں نوافل ادا کئے۔ ایسا صرف دو تین روز ہوا۔ مگر نہایت پُرکیف منظر تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے مگر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم شارع نبی تھے اس لئے آپؐ نے اس کی فرضیت کے احتمال کے پیشِ نظر اجتماعی شکل کو ترک فرما دیا۔ لوگ انفرادی طور پر اپنے اپنے مقام پر تہجد کے وقت نوافل میں تلاوتِ قرآن کریم کرتے تھے۔ کچھ لوگ عشاء کے بعد بھی یہ نوافل پڑھ لیتے تھے۔ عہد فاروقی میں یہ طریق منظم ہو گیا کہ ایک امام کی اقتداء میں رمضان میں سارا قرآن مجید سُنایا جائے۔ یہ نوافل تراویح قرار پائے اور بالعموم نوافل عامۃ الناس کی سہولت کے پیشِ نظر بعد نماز عشاء یہ نوافل پڑھے جانے لگے اور آج چودہ صدیاں بیت چکی ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں یہ طریق جاری و ساری ہے۔ کتنی شاندار یہ برکت ہے کہ عالمِ اسلام میں ہر جگہ حُفّاظ اور قاریوں کے ذریعہ سارا قرآن مجید سُنا جاتا ہے۔ یہ بابرکت طریق قرآن مجید کی حفاظت کے لئے بھی ایک بے مثال ذریعہ ہے۔ تمام مساجد میں رمضان کی ہر رات یہ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ امام اگر ایک لفظ بھی بھول جاتا ہے تو فوراً مقتدیوں کی طرف سے اس کی تصحیح ہو جاتی ہے۔ اس طریق سے صدہا حُفّاظ بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ پس یہ طریق ایک اجتماعی برکت ہے۔ آخری حصۂ شب میں سحری کے وقت تہجد کی نماز اپنی جگہ پر مستقل مناجات کا طریقہ ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ داروں کے لئے اس کا التزام کرنے کا بھی بہترین موقعہ میسّر آتا ہے۔

دوسری برکت۔ اعتکاف

سارا رمضان ہی روحانی جدوجہد کا مہینہ ہے مگر آخری عشرہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن گویا روحانی پھلوں کے پکنے کے دن ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ان ایّام میں خاص طور پر کمر ِہمت کس لیا کرتے تھے اور سب اہل و عیال کو بھی اس روحانیت کی بارش سے پورا حصّہ لینے کی تلقین فرماتے تھے۔ قرآن مجید نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا ذکر فرمایا ہے۔ اور اس کے لئے احکام بیان فرمائے ہیں۔ معتکف مسجد کے ایک حصہ میں آخری دس روز کے لئے خلوت نشین ہو جاتا ہے۔ وہ از خود شوق سے روزہ دار سے بھی زائد پابندیوں کو قبول کر لیتا ہے۔ دن رات درِ محبوب پر دُھونی رما کر بیٹھ جاتا ہے۔ عاجزی، گریہ و زاری اور محبت کے خاص انداز سے قربِ الٰہی پاتا ہے۔

اعتکاف سُنتِ نبویؐ ہے۔ جو شخص اس سُنّت کی پیروی کر سکے اس کے لئے بہت بابرکت ہے۔ یہ خلوت نشینی بھی اُمّت کے نمائندوں کے طور پر آستانۂ الوہیت پر ناصیہ فرسا ہوتے ہیں اور اسلام کے غلبہ امام جماعت اور اُمت کے افراد کی فلاح و بہبود اور خدمتِ دین بجا لانے والوں کی کامرانی اور کامیابی کے لئے ہمہ وقت دعائیں معتکفین کا شعار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بھی رمضان کی ایک اجتماعی برکت ہے۔

تیسری برکت۔ لَیْلۃُ الْقَدْرِ

اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کو بہترین رات قرار دیا ہے۔ لیلۃ القدر سے مراد مامور کا زمانہ بھی ہوتا ہے۔ ہر فرد کی حقیقی اور مقبول توبہ کی گھڑی کو بھی صوفیاء نے اس کی لیلۃ القدر قرار دیا ہے۔ اُمت کی ایک اجتماعی عمومی لیلۃ القدر ہر رمضان میں ہوتی ہے۔ احادیثِ نبویہ میں بتایا گیا ہے کہ یہ رات آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ یہ انوار و افضال کی رات ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں کے دربارِعام کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ قبولیت کی خاص گھڑیاں ہوتی ہیں۔ مَطْلَعِ الْفَجْر تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دعا کرنے والے خاص لذّت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دل نورانیت سے بھر جاتا ہے۔ انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اس کا ایک مستحکم اور پائیدار رابطہ ذاتِ اقدس سے قائم ہوجاتا ہے۔ وہ ایک نورانی وجود بن جاتا ہے۔ روح القدس کو حاصل کر لیتا ہے۔ گویا اسے زندگی کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی لئے یہ رات اس کی ساری زندگی (الف شَھْر) سے بہتر رات شمار ہوتی ہے۔

یہ لیلۃ القدر اُمّتِ محمدیہ کے لئے بڑی خیر و برکت کی رات ہوتی ہے۔ ملائکہ اور جبریل کا نزول ہوتا ہے اور انوار کی بارشیں چاروں طرف ہوتی ہیں۔ اس رات کی برکتوں سے مومنوں کے قلوب میں وہی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو موسمِ بہار میں زرخیز زمینوں پر موزوں بارش ہونے سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ اس رات میں قوموں کے عروج وزوال کے فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں اور زمین پر بروقت ان کا نفاذ ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ لیلۃ القدر رمضان کی نہایت ہی بابرکت رات ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا وہ انعام ہے جس سے اُمّتِ محمدیہ مخصوص ہے۔

روزوں کے متعلق مسائل

٭ چاند دیکھ کر روزے رکھنا

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاتَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرُ وا الْھِلَالَ وَلَاتُفْطِرُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہٗ۔

(مسلم)

ترجمہ۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک رمضان کا چاند نظر نہ آئے روزے شروع نہ کر اور رمضان کو ختم سمجھ کر روزے ترک نہ کرو جب تک نیا چاند دکھائی نہ دے۔اگر بادل ہوں تو اندازہ کرلو یعنی تیس دن پورے کر کے نئے مہینے کا آغاز سمجھو۔

٭ سحری کھاتے ہوئے اذان سننا

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ اَحَدُکُمْ وَالْاَنَاءُ فِیْ یَدِہٖ فَـلَایَضَعْہٗ حَتّٰی یَقْضِیَ حَاجَتَہٗ مِنْہُ

(ابوداؤد)

ترجمہ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سحری کے آخری وقت انسان کے ہاتھ میں کھانے یا پینے کا برتن ہو اور مؤذن کی اذان اس کے کان میں پڑ جائے تو اسے اپنی ضرورت پوری کرکے برتن رکھنا چاہئے۔

٭ روزہ میں مسواک

عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ قَالَ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالَا أُحْصِیْ یَتَسوَّکُ وَھُوَ صَائِمٌ ۔

(الترمذی)

ترجمہ: حضرت عامرؓ سے مروی ہے کہ مَیں نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بے شمار مرتبہ روزہ دار ہونے کی صورت میں مسواک کرتے دیکھا ہے۔

٭ روزہ دار کا بھول کر کھانا یا پینا

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ نَسِیَ وَھُوَصَائِمٌ فَأَکَلَ اَوْ شَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہٗ فَاِنَّمَا أَطْعَمَہُ اللّٰہُ وَسَقَاہُ۔

(بخاری و مسلم)

ترجمہ : حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو روزہ دار بھول کر کھا لے یا پی لے اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہئے اس کا روزہ نہیں ٹوٹا۔ اسے اﷲ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔

٭ جھوٹ بولنے والے کا روزہ نہیں ہوتا

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَ الْعَمَلَ بِہٖ۔ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ۔

(البخاری)

ترجمہ:۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا ترک نہیں کرتا اور جھوٹ پر عمل پیرا ہونا نہیں چھوڑتا تواﷲ تعالیٰ کو ہرگز ضرورت نہیں کہ وہ شخص یونہی روزہ کے نام پر اپنا کھانا اور پینا چھوڑے۔

٭ گرمی یا پیاس سے سر پر پانی ڈالنا

عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعُرْجِ یَصُبُّ عَلٰی رَأْسِہِ الْمَاءَ وَ ھُوَ صَائِمٌ مِنَ الْعَطَشِ اَوْ مِنَ الْحَرِّ ۔

(البیھقی)

ترجمہ: ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے عرج مقام پر دیکھا تھا کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم روزہ دار ہوتے ہوئے پیاس یا گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے تھے۔

٭ روزہ کی حالت میں ازدواجی تعلقات قائم کرنے کا کفارہ

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْجَاءَہٗ رَجُلٌ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلَکْتُ قَالَ مَالَکَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِیْ وَأَنَاصَائِمٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھَلْ تَجِدُ رَقَبَۃً تُعْتِقُھَا قَالَ لَا قَالَ فَھَلْ تَسْتَطِیْعُ اَنْ تَصُوْمَ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ قَالَ لَا قَالَ ھَلْ تَجِدُ اِطْعَامَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا قَالَ لَا قَالَ اِجْلِسْ وَمَکَثَ النّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَبَیْنَا نَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرْقٍ فِیْہِ تَمَرٌ وَالْعَرْقُ الْمِکْتَلُ الْضَخِمُ قَالَ أَیْنَ السَّائِلُ قَالَ أَنَا قَالَ خُذْ ھٰذَا فَتَصَدَّقْ بِہٖ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا أَعْلٰی أَفْقَرَ مِنِّیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَوَ اللّٰہِ مَابَیْنَ لَابَتَیْھَا یُرِیْدُ الْحَرَّتَیْنِ أَھْلُ بَیْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَھْلِ بَیْتِیْ فَضَحِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَدَتْ أَنْیَابُہٗ ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْہُ أَھْلَکَ۔

(البخاری)

ترجمہ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ہم آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور کہنے لگا۔ یار سول اﷲ! میں تو ہلاک ہوگیا ہوں۔ فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ عرض کیا کہ روزہ دار ہو کر مَیں نے اپنی بیوی سے مجامعت کر لی ہے۔فرمایا کہ کیا تم غلام آزاد کر سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ پھر حضورؐ نے پوچھا کہ کیا تم دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں۔پھر حضورؐ نے فرمایاکہ کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ کہنے لگا کہ نہیں۔حضورؐ نے فرمایا کہ اچھا بیٹھو۔ راوی کہتے ہیں کہ اسی اثناء میں حضورؐ کے پاس کھجوروں سے بھری ہوئی ٹوکری بطور ہدیہ آئی۔ حضورؐ نے دریافت فرمایا کہ وہ مسئلہ پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ مَیں موجود ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ ٹوکری لے جاؤ اور اسے صدقہ کر دو۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اے رسولِ خدا! کیا اس شخص کو صدقہ دیا جائے جو مجھ سے بھی غریب اور محتاج ہو؟ بخدا اس وادی میں تو میرے گھر سے زیادہ غریب اور حاجتمند اور کوئی نہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی یہ بات سن کر قہقہہ مار کر ہنسے۔آپؐ کی داڑ ھیں نظر آ رہی تھیں اور پھر فرمایا کہ اچھا اپنے اہل وعیال کو ہی کھلا دو۔

٭ روزہ چھوڑنا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جائوں تب روزہ چھوڑتا ہوں۔ طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں۔‘‘

(الحکم 24جنوری 1901ء)

٭ سفر میں روزہ رکھنا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ کا کیا حکم ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’قرآن شریف سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فَمَنْ کَانَ مِنْـکُمْ مَرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے اس میں امر ہے ۔یہ اﷲ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔ میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہ رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عدۃٌ ایّام اُخر کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے۔ سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زورِ بازو سے اﷲتعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی اطاعتِ امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔ یہ غلطی ہے اﷲ تعالیٰ کی اطاعتِ امراورنہی میں سچا ایمان ہے۔‘‘

(مجموعہ فتادی احمدیہ جلد اوّل 189)

٭ روزہ کی نیت

ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ مَیں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا اور میرا یقین تھا کہ ہنوز روزہ رکھنے کا وقت ہے او ر مَیں نے کچھ کھا کر روزے کی نیّت کی مگر بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی اب میں کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا کہ ایسی حالت میں اس کاروزہ ہو گیا دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اور نیّت میں فرق نہیں۔

(مجموعہ فتادی احمدیہ جلد اوّل183)

٭ روزہ دار کا آئینہ دیکھنا

ایک شخص کا سوال حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں فرمایا ’’جائز ہے۔‘‘

(مجموعہ فتادی احمدیہ جلد اوّل ۱۸۳)

٭ روزہ دار کا تیل لگانا

ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ حالتِ روزہ میں سر کو یا ڈاڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا ’’جائز ہے۔‘‘

(مجموعہ فتادی احمدیہ جلد اوّل183)

٭ بیمار کا روزہ رکھنا

اِسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہو تو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا۔ ’’یہ سوال ہی غلط ہے بیمار کے لئے روزہ رکھنے کا حکم نہیں۔‘‘

(مجموعہ فتادی احمدیہ جلد اوّل183)

٭ مسکین کو کھانا کھلانا

اِسی شخص کا یہ سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہے۔ اس کے کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔ ’’ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں کسی مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے۔‘‘

(مجموعہ فتادی احمدیہ جلد اوّل 183)

٭ روزہ دار کا سُرمہ لگانا

سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھ میں سُرمہ ڈالے یا نہ ڈالے … فرمایا۔ ’’مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سُرمہ لگائے، رات کو سر مہ لگا سکتا ہے۔‘‘

(مجموعہ فتادی احمدیہ جلد اوّل184)

٭ جو روزہ نہ رکھ سکیں

سوال:۔ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں سے جب کہ کام کی کثرت مثل تخمریزی و رودگی ہوتی ہے۔ ایسے مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھا جاتا۔ ان کی نسبت کیا ارشاد ہے ؟فرمایا۔ ’’ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدور رکھ سکتا ہے ورنہ مریض کے حکم میں ہے پھر جب یُسر ہو رکھ لے اور عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ کی نسبت فرمایا کہ معنے یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے۔‘‘

(مجموعہ فتادی احمدیہ جلد اوّل184)

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک میں روحانی اور جسمانی برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور اپنے محبوب بندوں میں داخل کرے۔ آمین ثم آمین

(طاہر محمود احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اپریل 2021