• 27 اپریل, 2024

‘‘مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔’’(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ‘‘مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔’’

(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 293۔ حاشیہ)

ایک احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اُسے ان الفاظ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں، ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ ان پر غور کرنا چاہئے۔ ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور جب ایک احمدی یہ کر رہا ہو گا تو تبھی وہ اُسے بیعت کا حق ادا کرنے والا بناتا ہے۔ ورنہ تو صرف ایک دعویٰ ہے کہ ہم احمدی ہیں۔ وہ سچائی اور ایمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لانا چاہتے ہیں یا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے، جس سے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جیسا کہ آپ کے اس فقرے سے ظاہر ہے کہ ’’سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے‘‘ یعنی یہ سچائی اور ایمان اور تقویٰ کا زمانہ کسی وقت میں تھا جو اَب مفقود ہو گیا ہے اور اس کو پھر لانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سچائی اور ایمان اور تقویٰ کے قیام کا یہ زمانہ اپنی اعلیٰ ترین شان کے ساتھ اُس وقت آیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیج کر شریعت کو کامل کرتے ہوئے ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ: 4)‘‘ کا اعلان فرمایا تھا کہ آج مَیں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے۔ یہ اعلان جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا تو وہ وقت تھا جب یہ سب کچھ قائم ہوا۔ پس اس بات میں تو کسی احمدی کو ہلکا سا بھی شائبہ نہیں، نہ کبھی خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوئی نئی چیز لے کر آئے ہیں اور نہ کوئی احمدی کبھی ایسا سوچ سکتا ہے۔ آپ نے تو اُس سچائی، اُس ایمان اور اُس تقویٰ کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کے لئے قرآنِ کریم کی پیشگوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنا تھا اور آئے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی اور جس سے مسلمان اپنی شامتِ اعمال کی وجہ سے محروم کر دئیے گئے تھے۔

پس ہم احمدی جب یہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہم نے وہ ایمان اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کی تعلیم قرآنِ کریم نے دی تھی اور جو صحابہ نے اپنے اندر پیدا کیا ہے؟ کیا ہم نے اُس سچائی کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی یا کر رہے ہیں جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مومنین کی ایک کثیر تعدادنے اپنے اندر انقلاب لاتے ہوئے پیدا کیا؟ کیا ہم نے اپنے دلوں میں وہ تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جس کا ذکر ہم صحابہ رِضْوَانُ اللّٰہ عَلَیْھِم کی سیرت میں سنتے اور پڑھتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تواپنی زندگی میں اپنے صحابہ کی زندگی میں یہ انقلاب پیدا فرمایا تھا جس کا ذکر مَیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات جب بیان کرتا ہوں تو اُس حوالے سے کرتا رہتا ہوں۔ یہ فقرہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’میں بھیجا گیا ہوں تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو‘‘ اس کے آگے پھرچند سطریں چھوڑ کر آپ فرماتے ہیں کہ ’’سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔

(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن۔ جلد13۔ صفحہ293۔ حاشیہ)

یعنی آپ کے وجود کی، آپ کی ذات کی اصل اور بنیادی وجہ ہیں۔ پس جب آپ اپنے ماننے والوں کو ایک جگہ مخاطب کر کے یہ فرماتے ہیں کہ ’’میرے درختِ وجود کی سر سبز شاخو‘‘۔ (فتح اسلام روحانی خزائن جلد3 صفحہ34) تو یہ کام جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، یہ کا م کرنے والے ہی آپ کے وجود کی سر سبز شاخ بن سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے اپنے وجود کا یہی بنیادی مقصد قرار دیا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک شیریں اور میٹھے پھلدار درخت کی کچھ شاخیں زہریلے پھل دینے لگ جائیں یا سوکھی شاخیں اُس درخت کا حصہ رہیں۔ سوکھی شاخوں کو تو کبھی اُس کا مالک جو ہے رہنے نہیں دیتا بلکہ کاٹ کر علیحدہ کر دیتا ہے۔ پس بہت خوف کا مقام ہے۔ ہمیں ہر وقت ذہن میں یہ رکھنا چاہئے کہ بیعت کے بعد ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ جو تو نئے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو رہے ہیں، اُن کے واقعات اور حالات جب مَیں سنتا ہوں یا خطوں میں پڑھتا ہوں تو اپنے ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض وہ جن کے باپ دادا احمدی تھے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں، جب بعض دفعہ ان کے بعض حالات کا پتہ چلتا ہے کہ بعض کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں تو دُکھ اور تکلیف ہوتی ہے کہ اُن کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف اُس طرح توجہ نہیں ہے جس طرح ہونی چاہئے۔ پیدائشی احمدی ہونا بعض دفعہ بعض لوگوں میں سستیاں پیدا کر دیتا ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہنا چاہئے کہ کیا ہم کہیں ایسی سستیوں کی طرف تو نہیں دھکیلے جا رہے جو کبھی خدا نہ کرے، خدا نہ کرے واپسی کے راستے ہی بند کر دیں، یا ہم صرف نام کے احمدی کہلانے والے تو نہیں ہو رہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ارشادات میں، اپنی تحریرات میں متعدد جگہ اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ احمدیت کی حقیقی روح تبھی قائم ہو سکتی ہے جب ہم اپنے جائزے لیتے رہیں اور ہمارے قول و فعل میں کوئی تضادنہ ہو۔ آپ ہم میں اور دوسروں میں ایک واضح فرق دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں بار بار اور کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ظاہر نام میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں۔ تم بھی مسلمان ہو۔ وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ تم کلمہ گو ہو۔ وہ بھی کلمہ گو ہیں۔ تم بھی اتباعِ قرآن کا دعویٰ کرتے ہو۔ وہ بھی اتباعِ قرآن ہی کے مدعی ہیں۔ غرض دعوؤں میں تو تم اور وہ دونوں برابر ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ صرف دعوؤں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو۔‘‘ (فرمایا کہ دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی تبدیلی ہو اور اس کی پھر دلیل ہو۔ یہ نظر بھی آ رہا ہو کہ دعویٰ میں جو عملی تبدیلی ہے اس کاواضح طور پر اظہار بھی ہو رہا ہے جو اُس کی دلیل بن جائے) پھر فرمایا کہ ’’اس واسطے اکثر اوقات مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدنمبر5۔ صفحہ نمبر604۔ جدید ایڈیشن۔)

فرمایا ’’اللہ تعالیٰ صرف دعوؤں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو۔ اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی ٔ حالت کی دلیل نہ ہو۔ اس واسطے اکثر اوقات مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے۔‘‘

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے عملی ثبوت چاہتے ہیں۔ اس لئے اگر ہم خود اپنی حالتوں کے یہ جائزے لیں تو زیادہ بہتر طور پر اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں۔ دوسرے کے کہنے سے بعض دفعہ انسان چِڑ جاتا ہے یا بعض دفعہ سمجھانے سے انانیت کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے اور اپنے جائزے لینے کے لئے یہ مدّنظر رکھنے کی ضرورت ہے، ہر وقت یہ ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر لمحہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں نے ایک عہدِ بیعت باندھا ہوا ہے جس کو پورا کرنا میرا فرض ہے توپھر انسان اپنا محاسبہ بہتر طور پر کر سکتا ہے۔ ایک احمدی چاہے وہ جتنا بھی کمزور ہو، پھر بھی اس کے اندر نیکی کی رمق ہوتی ہے اور جب بھی احساس پیدا ہو جائے تو نیکی کے شگوفے پھوٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہر ایک کو اعمال کے پانی سے اس نیکی کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کو تروتازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ جن کو احساس ہو جائے اُن کی حالت دیکھتے ہی دیکھتے سوکھی ٹہنی سے سرسبز شاخ میں بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ کئی مجھے خط لکھتے ہیں، خطوں میں درد ہوتا ہے کہ ہمارے اندر وہ پاک تبدیلی آ جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پس جو بھی اپنے احساس کو ابھارنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو ماں سے بھی بڑھ کر اپنے بندے کو پیار کرنے والا ہے، اپنی طرف آنے والے کو دوڑ کر گلے سے لگاتا ہے تو پھر ایسے لوگوں کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک سنہری موقع ہمیں اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کا عطا فرمایا ہے، اس سے ہم اگر صحیح طور پر فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو یہ ہماری بدنصیبی ہو گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے صدمے اور درد کا جو اظہار فرمایاہے وہ اُس وقت فرما رہے ہیں جبکہ آپ سے براہِ راست فیض پانے والے آپ کے صحابہ موجود تھے، جن کے معیار کے نمونے جب ہم سنتے اور پڑھتے ہیں تو رشک آتا ہے کہ کیا کیا انقلاب اُن لوگوں نے اپنے اندر پیدا کیا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درد دیکھیں۔ آپ کا معیارِ تقویٰ دیکھیں جو آپ اپنے ماننے والوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُس وقت بھی آپ بعض کی حالت دیکھ کر فرما رہے ہیں کہ مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے تو ہماری کمزوری کی حالت کس قدر صدمہ پہنچانے والی ہے۔ گو آپ آج ہم میں اس طرح موجودنہیں ہیں لیکن ہماری حالتوں کو تو اللہ تعالیٰ آپ پر ظاہر فرما سکتا ہے کہ کس کس صحابی یا بزرگ یا آپ کے قریبیوں کی اولاد کی کیا کیا حالت ہے؟ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں گندے ماحول سے بچ کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی دنیا چھوڑ کر مسیح کے دامن سے جُڑ کر اس عہد کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے رہے کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، اُن میں سے بعض کے بچوں کی دینی حالت کمزور ہو گئی ہے اور بعضوں کو اُس کی فکر بھی نہیں ہے۔ پس ہمیں اپنی حالت سنوارنے کے لئے اپنے بزرگوں کے حالات کی اس نیت سے جُگالی کرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے سامنے ایک مقصد ہو جسے ہم نے حاصل کرنا ہے۔ اُن کی زندگی کے پہلوؤں پر غورکرنا چاہئے۔ اُن کی بیعت کی وجوہات معلوم کرنی چاہئیں، تبھی ہم کسی مقصد کی طرف جانے والے ہوں گے اور اُن کی خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں گے۔

(خطبہ جمعہ 22؍ اپریل 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2021