حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اُس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بُزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں۔ ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے‘‘۔
(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20 صفحہ309)
پس یہ ہے ایمان کا معیار جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ یہ معیار ہم اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں۔ یہاں اطاعت کا بھی ذکر آیا تھا، اس وقت مَیں اطاعت کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اطاعت کے کسی درجہ سے بھی محروم نہ ہو۔ اطاعت کے مختلف درجے ہیں یا مختلف صورتیں ہیں جن پر ہمیں نظر رکھنی چاہئے۔ اطاعت کے مختلف معیار ہیں۔ نظامِ جماعت کی اطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا بھی اطاعت ہے۔ اسی طرح اور بہت ساری چیزیں انسان سوچتا ہے اور ایک نظام میں سموئے جانے کے لئے اور نظام پر پوری طرح عمل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بننے کے لئے ایک اطاعت ہی ہے جس کی طرف نظر رہے تو اس کے قدم آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً اطاعت کا معیار ہے۔ اس کی ایک معراج جو ہے وہ ہمیں جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول میں نظر آتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تار آئی کہ فوری آ جاؤ تو آپ اپنے مطب میں (اپنے کلینک میں) بیٹھے تھے۔ وہیں سے جلدی سے روانہ ہو گئے۔ یہ بلاوا اُسی شہر سے نہیں آ رہا تھا کہ اُسی طرح اُٹھ کے چلے گئے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دہلی میں تھے اور حضرت خلیفہ اولؓ قادیان میں۔ گھر والوں کو پیغام بھیج دیا کہ مَیں جا رہا ہوں۔ کوئی زادِ راہ، کوئی خرچ، کوئی کپڑے، کوئی سامان وغیرہ کی پیکنگ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ سیدھے سٹیشن پر پہنچ گئے۔ گاڑی کچھ لیٹ تھی تو ایک واقف شخص ملا۔ امیر آدمی تھا۔ اُس نے اپنے مریض کو دکھانا چاہا اور درخواست کی۔ گاڑی لیٹ ہونے کی وجہ سے آپ نے مریض کو دیکھ لیا۔ اور اس مریض کو دیکھنے کی آپ کو جو فیس ملی، وہی آپ کا سفر کا خرچ بن گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کا انتظام فرما دیا اور اپنے آقا کے حضور حاضر ہو گئے۔ اور جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح نہیں فرمایا تھا کہ فوری آ جائیں۔ تار لکھنے والے نے تار میں لکھ دیا تھا کہ فوری پہنچیں۔ لیکن کوئی شکوہ نہیں کہ اس طرح مَیں آیا، کیوں مجھے تنگ کیا بلکہ بڑی خوشی سے وہاں بیٹھے رہے۔
(ماخوذ از حیات نور صفحہ نمبر285)
تو یہ اطاعت کا اعلیٰ درجے کا معیار ہے کہ ہر سوچ اور فکر، حکم کے آگے بے حیثیت ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا بھی یہ سلوک ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ساتھ ساتھ انتظامات بھی فرما دئیے۔ اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتا ہے۔ پس یہ ہمارے لئے بھی اسوہ ہے۔
پھر نظامِ جماعت ہے۔ اس میں چھوٹے سے چھوٹے عہدیدار سے لے کر خلیفۂ وقت تک کی اطاعت ہے۔ اور اصل میں تو یہ تسلسل ہے اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اُس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی۔
(مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ49 مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر7330عالم الکتب بیروت 1998)
پس نظامِ جماعت کی اطاعت، اطاعت کے بنیادی درجے کے حصول کے لئے چھوٹی سے چھوٹی سطح پر بھی انتہائی ضروری ہے۔ کسی بھی جماعت یا اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھیں تو کسی دنیاوی تنظیم یا حکومت کو چلانے کے لئے بھی ایک نظام ہوتا ہے اور اُس کی ضرورت ہوتی ہے، اُس کے بغیر نظام چل نہیں سکتا۔ دنیاوی حکومتوں میں بھی ہر درجے پر اُس کے نظام چلانے کے لئے کچھ قانون اور قواعد ہوتے ہیں اور اُن کی پابندی کرنا ضروری ہوتی ہے۔ اور حکومتوں کے پاس چونکہ طاقت ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے نظام کی پابندی اپنی اس طاقت اور اُن قوانین کے تحت کرواتی ہیں جو انہوں نے وضع کئے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک روحانی نظام میں اخلاص و وفا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اطاعت کی بنیاد ہے۔ اس لئے یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر درجے پر اطاعت کرنے والے میرے پسندیدہ ہیں۔ پس نظامِ جماعت کے چھوٹے سے چھوٹے درجے سے لے کر اوپر تک جو نظام کی اطاعت کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ سے جو خلافت کا وعدہ فرمایا ہے اور قرآنِ کریم میں مومنین کی جماعت سے جس خلافت کے جاری رہنے کا وعدہ فرمایا ہے اُس کی واحد مثال اس وقت جماعت احمدیہ میں ہے۔ لیکن اس آیت سے پہلے جو آیتِ استخلاف کہلاتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کاوعدہ فرمایا ہے، اس آیت سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ یہ بھی فرماتا ہے کہ وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ اَمَرْتَھُمْ لَیَخْرُجُنَّ۔ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ (النور: 54) اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق اطاعت کرو۔ یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
پس یہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں والی اطاعت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مؤمن کس طرح اطاعت کرتے ہیں۔ چونکہ جب وہ سنتے ہیں تو وہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہتے ہیں۔ اسی کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ ہماری مرضی کے خلاف بھی بات ہو یا ہمارے موافق بات ہو، ہمارا فرض اطاعت کرنا ہے۔ یہ ہے اعلیٰ درجہ کا معیار جو ایک مومن کا ہونا چاہئے اور یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو بڑی بڑی قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اطاعت در معروف کرو۔ جو دستور کے مطابق اطاعت ہے وہ کرو۔ کھڑے ہو کر ہم عہد تو یہ کر رہے ہوں کہ جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اُس کی پابندی کرنی ضروری سمجھیں گے لیکن جب فیصلے ہوں تو اس پر لیت و لعل سے کام لیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن وہ ہے جو صرف قسمیں نہیں کھاتا بلکہ ہر حالت میں اطاعت کا اظہار کرتا ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں، پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہاں طاعت در معروف ہے اور معروف فیصلے کی باتیں کی جاتی ہیں تو خلافتِ احمدیہ کی طرف سے کبھی خلافِ احکامِ الٰہی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ اور معروف فیصلے کا مطلب یہی ہے کہ شریعت کے مطابق جو بھی باتیں ہوں گی، اُس کی پابندی کی جائے گی۔ اگرہر احمدی اس یقین پر قائم ہے کہ خلافت کا سلسلہ خلافت علیٰ منہاج نبوت ہے تو اس یقین پر بھی قائم ہونا ہو گا کہ کوئی غیر شرعی حکم خلافت سے ہمیں نہیں مل سکتا۔ اسی طرح سے نظامِ جماعت بھی ہے۔ جب وہ خلافت کے نظام کے تحت کام کر رہا ہے تو کوئی غیر شرعی حکم نہیں دے گا۔ اور اگر کسی وجہ سے دے گا یا غلطی سے کوئی ایسا حکم آ جاتا ہے تو خلیفۂ وقت، جب وہ معاملہ اُس تک پہنچتا ہے، اُس کی درستی کر دے گا۔ پس جب خلافت کے استحکام کے لئے ایک احمدی دعا کرتا ہے تو ساتھ ہی اپنے لئے بھی یہ دعا کرے کہ مَیں اطاعت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے والا بنوں تا کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ رہوں اور خلافت کے انعام سے جُڑا رہوں۔ جس ہدایت پر قائم ہو گیا ہوں اُس سے خدا تعالیٰ کبھی محروم نہ رکھے۔
بعض دفعہ بعض لوگ اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نظامِ جماعت پر بد اعتمادی کا اظہار کر جاتے ہیں اور اُس انعام سے بھی محروم ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال بعد اب عطا فرمایا ہے۔ مثلاً بعض قانونی مجبوریوں کی وجہ سے اگر قضائی نظام میں جو حقیقتاً جماعت کے اندر ایک نظام ہے جس کی حقیقت ثالثی نظام کی ہے، اُس میں جب یہ تحریر مانگی جاتی ہے اور اب نئے سرے سے کوئی تحریر لکھوائی جانے لگی ہے کہ اس ثالثی اور قضائی فیصلے کو مَیں خوشی سے ماننے کو تیار ہوں اور کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور اس نظام میں مَیں خود اپنی خوشی سے اپنے معاملے کو لے کرجا رہا ہوں۔ تو بعض لوگ یہ بدظنی کرتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں کہ ہمارے جو فیصلے ہیں وہ ہمارے خلاف ہوں گے اس لئے ہم تحریر نہیں دیں گے۔ تو ایسے لوگوں کی شروع سے ہی نیت نیک نہیں ہوتی۔ وہ صرف لمبا لٹکانا چاہتے ہیں کہ چلو یہاں سے کچھ عرصہ کسی معاملے کوٹالو۔ اُس کے بعد یہاں نہیں فیصلہ ہو گا تو حکومت کی عدالتوں میں لے جائیں گے۔ اور پھر جب یہ لوگ یہاں سے انکار کر کے دنیاوی عدالتوں میں جاتے ہیں اور جب وہاں مرضی کے خلاف فیصلے ہو جاتے ہیں تو پھر قضا میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے معاملات پھر جماعت نہیں لیتی۔ کیونکہ وہ پہلی دفعہ اطاعت سے باہر نکل گئے ہیں۔ انہوں نے نظامِ جماعت پر اعتمادنہیں کیا۔ اور نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ وہ اطاعت سے باہر ہیں اور پھر میرے ناپسندیدہ ہیں۔ اور جب انسان اللہ تعالیٰ کا نا پسندیدہ ہو جائے تو چاہے وہ ظاہر میں جماعت کا ممبر بھی کہلاتا ہو، حقیقتاً وہ جماعت کے اُس فیض سے فیض نہیں پا سکتاجو خدا تعالیٰ افرادِ جماعت کو جماعت کی برکت سے پہنچاتا ہے۔ پس بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن ذاتی اَناؤں اور بدظنیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر دیتی ہیں۔ پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا پسندیدہ بننے کی کوشش کرے کہ اسی میں ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں عہدیدارانِ جماعت سے بھی یہ کہوں گا کہ وہ خلافت کے حقیقی نمائندے تبھی کہلا سکتے ہیں جب انصاف کے تقاضوں کو خدا کا خوف رکھتے ہوئے پورا کرنے والے ہوں۔ کسی بھی عہدیدار کی وجہ سے کسی کو بھی ٹھوکر لگتی ہے تو وہ عہدیدار بھی اُس کا اُسی طرح قصور وار ہے کیونکہ اُس نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی امانت کا حق ادا نہیں کیا۔ اگر اُس کی غلطی کی وجہ سے ٹھوکر لگ رہی ہے اور جان بوجھ کر کہیں ایسی صورت پیدا ہوئی ہے تو بہر حال وہ قصور وار ہے اور امانت کا حق ادا نہ کرنے والا ہے۔ پس ہر احمدی کو چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہو، ہمیشہ یہ سمجھنا چاہئے کہ مَیں نے اپنے عہدِ بیعت کو قائم رکھنے کے لئے، اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لئے ہر حالت میں صدق اور تقویٰ کا اظہار کرتے چلے جانا ہے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والا بن سکوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں کثرتِ جماعت سے کبھی خوش نہیں ہوتا‘‘ (کہ صرف جماعت کی جو تعداد ہے یہ خوشی کی بات نہیں ہے) ’’حقیقی جماعت کے معنے یہ نہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرصرف بیعت کر لی بلکہ جماعت حقیقی طور سے جماعت کہلانے کی تب مستحق ہو سکتی ہے کہ بیعت کی حقیقت پر کاربند ہو۔ سچے طور سے اِن میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جاوے اور اُن کی زندگی گناہ اور آلائش سے بالکل صاف ہو جاوے۔ نفسانی خواہشات اور شیطان کے پنجے سے نکل کر خدا تعالیٰ کی رضا میں محو ہو جاویں۔ حق اللہ اور حق العباد کو فراخ دلی سے پورے اور کامل طور سے ادا کریں۔ دین کے واسطے اور اشاعتِ دین کے لئے اُن میں ایک تڑپ پیدا ہو جاوے۔ اپنی خواہشات اور ارادوں، آرزوؤں کو فنا کر کے خدا کے بن جاویں‘‘۔ فرمایا کہ ’’متقی وہی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشاء الٰہی کے خلاف ہیں۔ نفس اور خواہشاتِ نفسانی کو اور دنیا وما فیہا کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں‘‘۔
(ملفوظات جلدنمبر5 صفحہ454,455۔ جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(خطبہ جمعہ 22؍ اپریل 2011ء)