• 27 اپریل, 2024

’’نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر آپؑ نے فرمایا ’’پس مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح اور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذّتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھا دے۔ کھایا ہوا یاد رہتا ہے۔ دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے۔ اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت اُس کے بالمقابل مجسّم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا۔ اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر، سردی میں وضو کر کے، خوابِ راحت چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشوں کو چھوڑ کر پڑھنی پڑتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اُسے بیزاری ہے۔ وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذّت اور راحت سے جو نماز میں ہے اُس کو اطلاع نہیں ہے۔ پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر 9صفحہ 7۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

پھر 1906ء کی ایک مجلس میں آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ: ’’دعا کے معاملہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خوب مثال بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک قاضی تھا جو کسی کا انصاف نہ کرتا تھا اور رات دن اپنی عیش میں مصروف رہتا تھا۔ ایک عورت جس کا ایک مقدمہ تھا وہ ہر وقت اُس کے دروازے پر آتی اور اُس سے انصاف چاہتی۔ وہ برابر ایسا کرتی رہتی یہاں تک کہ قاضی تنگ آ گیااور اُس نے بالآخر اس کا مقدمہ فیصلہ کیا اور اُس کا انصاف اُسے دیا‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو کیا تمہارا خدا قاضی جیسا بھی نہیں کہ وہ تمہاری دعا سنے اور تمہیں تمہاری مراد عطا کرے۔ ثابت قدمی کے ساتھ دعا میں مصروف رہنا چاہئے۔ قبولیت کا وقت بھی ضرور آ ہی جائے گا۔ استقامت شرط ہے‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر 9صفحہ 41۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

پھر ایک جگہ آپ نے ایک مجلس میں فرمایا کہ دیکھو: ’’نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفیدنہیں بلکہ ایسے نمازیوں پر تو خود خدا تعالیٰ نے لعنت اور وَیْل بھیجا ہے چہ جائیکہ اُن کی نماز کو قبولیت کا شرف حاصل ہو۔ وَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (الماعون: 5) خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ اُن نمازیوں کے حق میں ہے جو نماز کی حقیقت سے اور اُس کے مطالب سے بے خبر ہیں۔ صحابہ (رضوان اللہ علیہم) تو خود عربی زبان رکھتے تھے اور اُس کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے واسطے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی سمجھیں اور اپنی نماز میں اس طرح حلاوت پیدا کریں۔ مگر اِن لوگوں نے تو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ دوسرا نبی آ گیا ہے اور اس نے گویا نماز کو منسوخ ہی کر دیا ہے‘‘۔ (یعنی بجائے اس کے کہ نماز کو سمجھیں، صرف رسمی چیزیں رہ گئی ہیں اور نماز کو اب اس طرح بنا لیا ہے جیسا کہ حکم ہی نئے آگئے ہیں اور کسی نئے نبی نے حکم دے دئیے ہیں )۔ فرمایا: ’’دیکھو! خدا تعالیٰ کا اس میں فائدہ نہیں، بلکہ خود انسان ہی کا اس میں بھلا ہے کہ اُس کو خدا تعالیٰ کی حضوری کا موقعہ دیا جاتا ہے اور عرض معروض کرنے کی عزّت عطا کی جاتی ہے جس سے یہ بہت سی مشکلات سے نجات پا سکتا ہے۔ مَیں حیران ہوں کہ وہ لوگ کیونکر زندگی بسر کرتے ہیں جن کا دن بھی گزر جاتا ہے اور رات بھی گزر جاتی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ اُن کا کوئی خدا بھی ہے۔ یاد رکھو کہ ایسا انسان آج بھی ہلاک ہوا اور کل بھی‘‘۔ فرمایا: ’’مَیں ایک ضروری نصیحت کرتا ہوں کاش لوگوں کے دل میں پڑ جاوے۔ دیکھو عمر گزری جا رہی ہے۔ غفلت کو چھوڑ دو اور تضرع اختیار کرو۔ اکیلے ہو ہو کر خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ خدا ایمان کو سلامت رکھے اور تم پر وہ راضی اور خوش ہو جائے‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر 10صفحہ 413-412۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

مارچ 1907ء کی ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو وہاں دو احباب کی آپس کی ناراضگی کاذکر ہوا کہ اُن میں ناراضگی ہو گئی ہے۔ اِس بارہ میں بھی آپ نے مختلف نصائح اُس مجلس میں فرمائیں اور پھر یہ بھی فرمایا کہ: ’’جب تک سینہ صاف نہ ہو، دعا قبول نہیں ہوتی۔ اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی‘‘۔ فرمایا کہ یہ جو آپس میں لڑائیاں اور رنجشیں اور جھوٹی اَناؤں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراضگیاں ہیں اِن کو چھوڑ دو اور دلوں کے بغض اور کینے نکال دو۔ کیونکہ اگر سینے میں یہ بُغض اور کینے ہیں تو فرمایا تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ فرمایا کہ ’’اس بات کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہئے اور دنیوی معاملہ کے سبب کبھی کسی کے ساتھ بُغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اور دنیا اور اُس کا اسباب کیا ہستی رکھتا ہے کہ اس کی خاطر تم کسی سے عداوت رکھو‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر 9صفحہ 218-217۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

آپ صبح سیر کو تشریف لے جاتے تھے۔ بعض احباب بھی آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔ کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو ہو رہی ہوتی تھی۔ 1908ء کی ایک صبح کی سیر کا ذکر ہے۔ یہ لمبی گفتگو تھی اس کا ایک حصہ مَیں نے لیاہے فرمایا ’’بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف نکال دیتے ہیں۔ ان باتوں کو دل میں نہیں اتارتے۔ چاہے جتنی نصیحت کرو مگر اُن کو اثر نہیں ہوتا۔ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اُس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ (سورۃ النمل آیت :63)‘‘ (ملفوظات جلدنمبر 10صفحہ 137۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء) (کہ کون کسی کی دعا کو سنتاہے جب وہ اُس سے دعا کرتا ہے اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے۔ کسی بے کس کی دعا اور مضطر کی دعا کو وہ سنتا ہے)۔ آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اِن دعاؤں کو سنتا ہے۔

لاہور میں ایک مجلس میں جس میں غیر احمدی احباب بھی شامل تھے آپ نے ایک لمبی تقریر فرمائی جس میں دعا کے بارہ میں فرمایا کہ ’’اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر لے‘‘۔ فرمایا ’’مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا۔ ہاں اس میں کلام نہیں‘‘۔ (اس میں کوئی شک نہیں) ’’کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے۔ لیکن اس مقام کے حصول کا اَصل اور سچا ذریعہ دعا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ جب تک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا اس دشوار گزار منزل کو طے نہیں کر سکتا۔ خود اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کے ضُعفِ حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النسآء: 29) یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے۔ پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سراسر خام خیالی ہے۔ اس کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے۔ کیونکہ دعا اُس فیض اور قوت کے جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے۔ جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پا لیتا ہے۔ ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے۔‘‘ (پوری کوشش کرے) ’’اور اُس کے ساتھ دعاسے کام لے۔ اسباب سے کام لے۔ اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا، یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے۔ اور نرے اسباب پر گر رہنا اور دعا کو لاشیئی محض سمجھنا، یہ دہریت ہے۔ یقینا ًسمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اُس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔ وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جو دعاؤں سے لاپروا ہے وہ اُس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے۔ ایک لمحے میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا۔ اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔ اس لئے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اُس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔ یہی دعا اُس کے لئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اُس میں لگا رہے‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر 7صفحہ 193-192۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

(خطبہ جمعہ 20؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2021