• 29 اپریل, 2024

سحری کھا کر روزہ رکھنا ضروری ہے

سحری کھا کر روزہ رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحورالخ حدیث 1923)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔ خود بھی اور جو اپنے جماعت کے احباب افراد تھے ان کو بھی کہا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کے لئے بھی سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا بلکہ بڑا اہتمام ہوا کرتا تھا۔

اس بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ آپ نے سحری کھاتے دیکھ کر فرمایا کہ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ (سحری کے وقت دال روٹی کھا رہے تھے) اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں (ہیں۔ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔) ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر مَیں کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھا لو۔ اذان جلدی دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔‘‘

(سیرت المہدی جلد2 حصہ چہارم صفحہ127 روایت نمبر 1163)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز تہجد پڑھنا اور سحری کھانے کے بارے میں ایک روایت بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کر کے آخرشب میں ادا فرماتے تھے جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے۔ یعنی اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک۔ اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراءت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اسْتَغِیْث اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔ نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اور اس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہو جاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔‘‘ حضرت میاں بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہو جائے سحری کھانا جائز ہے۔ اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے۔ اس لئے لوگ عموماً بعض جگہوں پہ سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہو جاتی ہو۔ اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملے میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طور پر صبح صادق کا آغاز ہو اس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح صادق کی سفیدی ظاہر ہو جائے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کر رہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے، صبح ہو گئی۔ اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر320 صفحہ295-296)

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 2016)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2021

اگلا پڑھیں

عید مبارک