• 29 اپریل, 2024

تین قسم کی عیدیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اولؓ فرمایا کرتے تھے کہ آپ ایک دفعہ اس مکان کے قریب سے گزر رہے تھے جو مسجدِ اقصیٰ سے ملحق ہے۔ قادیان کے رہنے والے اسے جانتے ہیں یا وہاں گئے ہوئے لوگ بھی جانتے ہوں گے یہ ڈپٹیوں کا مکان کہلاتا تھا۔ اب غالباً یہ مسجداقصیٰ میں شامل ہو گیا ہے۔ یہ خرید لیا گیا اور حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ کے وقت میں وہاں سلسلہ کے دفاتر بھی قائم ہو گئے تھے۔ جماعت نے خرید کے وہاں دفاتر قائم کر دیے تھے۔ اب تو شاید بدل دیا ہے۔ میرا خیال ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں مسجد کا حصہ آ گیاہے۔ بہرحال مکان کا مالک جو ہندو تھا اور ڈپٹی رہ چکا تھا حضرت خلیفہ اولؓ سے کہنے لگا کہ مَیں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوںاگر آپ ناراض نہ ہوں۔ آپؓ نے فرمایا بےشک پوچھو۔ اس نے کہا مَیں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب پلاؤ اور بادام روغن بھی کھا لیتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرمانے لگے کہ مَیں نے اسے کہاکہ ہاں کھا لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چیزیں پاک اور طیب ہیں اس میں کوئی حرج نہیں اور انہیں کھانا جائز ہے۔ اس پر بڑے افسوس والی شکل بنا کر کہنے لگا کہ فقیراں نوں وی جائز اے؟ آپ نے کہا ہاں فقیراں نوں وی جائزاے۔ جو اللہ والے لوگ ہیں ان کو بھی جائز ہے۔ تب وہ خاموش ہو گیا لیکن اس کے چہرے سے یہی تاثر تھا کہ اس کو یہ بات کچھ بھائی نہیں۔ تو اس کے نزدیک بزرگی کا یہی معیار تھا کہ عمدہ چیزیں نہ کھائی جائیں۔ تو دنیا میں لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا رسیدہ لوگوں کی یہ علامات ہیں کہ دنیا سے بالکل کٹ جائیں حالانکہ اصل چیز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں اور اسے حاصل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ عمدہ کھلائے پہنائے تو پہنیں اور کھائیں۔ اللہ تعالیٰ غربت اور مسکینی سے گزار کر قرب دینا چاہے تو اس امتحان میں بھی پورا اتریں۔ پس نہ اچھا کھانا خدا کی محبت کا ثبوت ہے اور نہ فاقہ کرنا اس کے قرب کی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں آپؐ کا ہر پہلو نظر آتا ہے۔ آپؐ کے فاقوں کی مثالیں بھی ملتی ہیں اور عام کھانے کھانے کی مثالیں بھی ملتی ہیں اور عمدہ کھانے کھانے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا قرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا وہ کسی کو نہ کبھی ملا نہ مل سکتا ہے۔ پس آپؐ کے نمونے اور اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر صرف خراب کھانا کھانا یا فاقے کرنا ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے تو پھر کیا لاکھوں کروڑوں انسان ایسے نہیں جو فاقے کرتے ہیں لیکنان کا خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق نہیں ہے اور لاکھوں کروڑوں انسان ایسے بھی ہیں جو اچھے کھانے کھاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی محبت سے محروم ہیں۔ پس خدا تعالیٰ سے تعلق کا ثبوت انسان کے کھانوں یا فاقے پر نہیں بلکہ خد اتعالیٰ سے محبت کا ثبوت خدا تعالیٰ کے سلوک پر ہے۔ یہ یاد رکھنے والی چیز ہے۔ نہ امارت سے یہ محبت ملتی ہے نہ صرف غربت سے ملتی ہے۔ امارت نے بہت سے فرعون پیدا کیے، جہاں امیر لوگوں میں بہت سے فرعون بھی پیدا ہوئے وہاں غربت نے بہت سے کافر بھی بنا دیے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ فَقر و فاقہ انسان کو کافر بنا دے۔ پس اصل راہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو۔ اگر خدا تعالیٰ کسی کو فاقے کے ذریعے اپنا قرب عطا کرنا چاہے تو فاقہ اختیار کرنا ہی اصل نیکی ہے اگر کھانا کھلانا چاہے تو کھانا کھانا ہی خداتعالیٰ کی رضا کا موجب ہے۔ پس وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبت کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ بظاہر یہاں اس دنیا میں ہمیں نظر آتے ہیں ہمارے اندر ہی پھر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کی حقیقی عید ہوتی ہے۔

پھر دوسری قسم کے لوگوں کی عید ہے جنہوں نے اپنی توفیق کے مطابق عمدہ کھانے بھی کھائے، اچھے کپڑے بھی پہنے، عطر اور خوشبو بھی لگائی، عید کے تحفے بھی دیے اور وصول بھی کیے۔ وہ خوش بھی ہیں کہ انہیں ظاہری طور پر عید مل گئی لیکن وہ عید ان سے اتنی ہی دور ہے جتنا مشرق مغرب سے دور ہے مگر باوجود اس کے وہ خوش ہیں اور باوجود اس کے وہ عید کی خوشیوں میں شامل ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مثال دی ہے کہ ان کی خوشی بالکل اس بچے کی سی ہے جو نادانی سے ایک سانپ کو دیکھتا ہے اور اس کی چمکیلی آنکھوں کو دیکھ کر اسے کھلونا سمجھتا ہے۔ تب وہ محبت اور پیار سے اسے پکڑ لیتا ہے۔ اگر سانپ نہ ہلے بعض دفعہ بچے پکڑ بھی لیتے ہیں اور سمجھتا ہے کہ مجھے بڑی اچھی چیز حاصل ہو گئی حالانکہ جس وقت وہ خوشی سے جھوم رہا ہوتا ہے جس وقت وہ مسرت اور انبساط سے اپنے جامے میں پھولا نہیں سماتا اس وقت سانپ کا زہر جو اسے ایک منٹ میں اس جہان سے اگلے جہان میں پہنچانے والا ہوتا ہے اس کے بدن میں سرایت کر رہا ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ تھوڑی دیر میں اس کی تمام خوشی جاتی رہے گی، اس کی تمام مسرتیں خاک میں مل جائیں گی اور وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہی مثال اس شخص کی ہوتی ہے جو خوش ہوتا ہے اور شاید اپنی نادانی میں ان خدا رسیدہ لوگوں سے بھی زیادہ خوش ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر چکے ہوتے ہیں مگر یہ نادانی اور غفلت کی جو خوشی ہے بےشک اس کے خیال میں یہ عید ہے لیکن ماتم کی پیش خبری ہے، افسوس ناک خبر کی پیش خبری ہے۔ پس جو خدا کو بھول کر، اس کے حقوق بھول کر اس کی مخلوق کے حقوق بھول کر صرف اپنی اور اپنے قریبیوں کی خوشی کر رہے ہوتے ہیں اور عید منا رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور ناپسندیدگی کو مول لے کر اپنی دنیا اور عاقبت خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ پاتے نہیں بلکہ کھوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی عید حقیقی عید نہیں کہلا سکتی۔

اس کے علاوہ کچھ اَور لوگ ہیں، یہ دونوں قسمیں جو بیان کی ہیں ایک وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم بھی عید منا رہے ہیں یعنی خدا رسیدہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عید منا رہے ہیں اور دوسرے نیک لوگ بھی جو حقوق کوادا کر رہے ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں ہم عید منا رہے ہیں۔ اور اسی طرح دوسری قسم بھی ہے جو میں نے بیان کی جنہیں حقیقی عید نصیب نہیں ہوئی اور دھوکے میں سمجھتے ہیں کہ ہم عید منا رہے ہیں ۔لیکن ایک تیسری قسم بھی ہے۔ یہ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو ان دونوں سے بالکل مختلف ہیں، الگ قسم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں، ان کو احساس ہے، جو دل میں خیال کرتے ہیں کہ روزے تو رکھے لیکن روزوں کا حق ادا نہیں کیا، دل میں ایک شرمندگی ہے۔ جو نمازیں بھی پڑھتے ہیں لیکن دل میں شرمندہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی شرطوں کے مطابق نماز نہیں ادا کر سکے۔ ایسے لوگوں میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہےکہ آج بھی عید پر شاید ایک رسم اور لوگوں کو دکھانے کے لیے عمدہ لباس پہن کر مجلس میں آگیا ہوں اور عمدہ کھانا بھی کھا رہا ہوں مگر اس کا دل رو رہا ہوتا ہے، اس کا دماغ پریشان ہے۔ اس کی ایک نظر اپنے بھائیوں پر پڑتی ہے اور ایک نظر اپنے تاریک دل پر ڈالتا ہے۔ ہر تَر لقمہ، ہر وہ لقمہ جس کو اپنے مزے میں کھانے کے لحاظ سے بھرپور لقمہ کہہ سکتے ہیں اسے جھنجھوڑتا ہے اور اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ اچھے سفید کپڑے تو پہنے ہوئے ہیں لیکن انہیں دیکھ کر اس کا دل روتا ہے کہ کاش میرا اندرونہ بھی ایسا ہی صاف ہوتا۔ اپنے بھائی پر نظر پڑے تو اپنی کمزوریاں اَور اُبھر کر سامنے آ جاتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو دیکھ کر جن کا اللہ تعالیٰ سے خاص قرب ہے اور سمجھتا ہے کہ میری حالت کی چوری پکڑی گئی۔ شاید میرے گناہ اسے نظر آ گئے ہیں، شاید میرے نقائص اسے نظر آ گئے ہیں۔ ہر دفعہ جب اپنے بیوی بچوں اور دوستوں اور ہمسایوں پر نگاہ دوڑاتا ہے اور پھر اپنے نفس پر غور کرتا ہے تو شرمندہ ہو جاتا ہے اور ندامت سے اپنا سر جھکا لیتا ہے۔ ظاہر میں تو مجلس میں شامل ہوتا ہے لیکن دل اپنے گناہوں کی وجہ سے ندامت اور شرمندگی سے پُر ہوتا ہے۔ خیال کرتا ہے کہ شاید اس مجلس میں مَیں ہی ایسا ہوں جو حقیقی عید سے محروم ہے اور ضمیر ملامت کرتا ہے کہ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ نہ اُن میں شامل ہوں جو غفلت اور نادانی سے عید منا رہے ہیں اور نہ ان میں شامل ہوں جو وصالِ الٰہی کی خوشی میں عید منا رہے ہیں۔ پھر سوچتا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑا ستار ہے اگر میں ظاہر میں عید منا لوں تو کیا تعجب کہ خدا تعالیٰ مجھے باطن میں بھی عید منانے کی توفیق دے دے۔ جس طرح خدا تعالیٰ نے میرے ظاہر کی ستاری کی ہے میرے باطن کی بھی ستاری کر دے، میری اندرونی حالت کی بھی ستاری کر دے۔ اللہ تعالیٰ جو بندوں پر بہت رحم کرنے والا اور بخشنے والا ہے اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔ جب بندہ سوچتا ہے کہ اصل عید تو خدا تعالیٰ کے ملنے سے ہے یہ مجھے میسر نہیں آ رہی۔ نفس بار بار اسے ملامت کرتا ہے کہ کیا تمہارے عمل ہیں۔ توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے، ندامت محسوس کرتا ہے اور پھر جب پشیمانی اس کو بے چین کر دیتی ہے تو خدا تعالیٰ بھاگ کر اس کے پاس آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کوئی شخص صحرا میں ہو اور اس کی اونٹنی گم ہو جائے جس پر اس کی خوراک اور پانی بھی ہو اور پھر اچانک وہ اسے مل جائے اور اس اونٹنی کو دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی حسرت اور ندامت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ جس کے پاؤں تھے، جو نیک عمل کرنے والا تھا وہ چل کے میرے پاس آ گیا، نیک لوگ تھے ان کو اتنی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی ہوئی تھی، ان کے پاؤں تھے جن سے چل کے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے ۔اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں ان کے بھی پاؤں تھے اور ان کے عمل تھے لیکن ان کے عمل دکھاوے کے تھے۔ وہ چل کر شیطان کے پاس چلا گیا ۔مگر وہ بندہ جس کے پاؤں نہیں ہیں ،جو کہیں جانے کی طاقت نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چلو میں اس کے پاس جاتا ہوں وہ بہت زیادہ ندامت اور پشیمانی کا اظہار کر رہا ہے، توبہ اور استغفار کر رہا ہے۔ یہ گرا ہوا ہے تو اسے اٹھاتا ہوں اپنے پاس لے آتا ہوں۔

پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اگر پہلی قسم میں سے نہیں تو ہم اس تیسری قسم سے ہی بن جائیں کہ یہ بھی تحقیر کا مقام نہیں ہے، یہ بھی کوئی کم چیز نہیں ہے، یہ بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے انسان کا مقام گر رہا ہو۔

(خطبہ جمعہ 24؍ مئی 2020ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2021