حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسرائیل یعنی خدا کا پہلوان کا لقب دیا۔ آپ کے بارہ بیٹے پیدا ہوئے اور ان بارہ بیٹوں سے آگے نسل چلی اور 12قبیلے بنے۔ ان بارہ قبیلوں کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں جو مذہب لے کر آئے اس کو یہودیت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ نام اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی ہوئی شریعت کو نہیں دیا ۔اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو شریعت بھیجی اس کو خود نام دیا اور اس کا نام اسلام اور اس کے ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے:
ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا
(سورۃالحج:79)
یعنی اس نے یعنی اللہ نے اس قرآن میں بھی اور اس سے پہلی شریعت میں بھی تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اسی طرح سورۃ المائدۃ 2میں ہے:
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیے ہوئے مذہب کا نام یہودیت نہیں رکھا تو پھر یہ نام ان کی طرف کیسے منسوب ہوا اور بنی اسرائیل اور یہودیت میں فرق کیا ہے؟ اس مضمون کو لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اس نے قرآن کریم میں ان دو لفظوں کو استعمال کیا ہے اور دونوں کے استعمال میں فرق دکھایا ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں لفظ تب ہی استعمال کیے ہیں جب یہ دونوں لفظ وجود میں آکرعُرف کے طور پر استعمال ہونے لگ گئے تھے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون کو تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 354تا359 میں یوں بیان فرمایا ہے: ’’یہودی یاھود جہاں بھی استعمال ہوا ہے مذہب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے اور بنو اسرائیل کا لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے قوم کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی جہاں حضرت یعقوب کی نسل کی طرف اشارہ مقصود ہے وہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو اپنے آپ کو موسیٰ کے پیرو کہتے تھے وہاں یہودی یا ھود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس نام (یہود) کا انتخاب بعض سیاسی حالات نے خود ہی کر دیا اور وہ اس طرح کے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد ان کا لڑکا (رحبعام) ایک دنیا دارآدمی تھا اس کی تخت نشینی پر بنی اسرائیل کے سردار اس کے پاس ملنے آئے اور اس سے قانون میں بعض نرمیاں کرنے کی درخواست کی اس پر اس نے اپنے نوجوان دوستوں کے مشورہ سے انہیں سخت جواب دیا اور دھتکار کر دربار سے رخصت کر دیا۔ اس پر بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے دس کے سرداروں نے دربار سے باہر نکلتے ہی بغاوت کا فیصلہ کرلیا اور رحبعام بن سلیمان سے باغی ہوگئے اور رحبعام کے ماتحت صرف یہود کا علاقہ (جسے اب فلسطین کہتے ہیں) اور یہودہ اور بنیامین دو قبیلوں کے آدمی رہ گئے ۔۔۔۔ اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیلیوں کی دو حکومتیں ہوگئیں۔ ایک اس وجہ سے کہ حضرت داؤد یہودہ قبیلے میں سے تھے اور یہودی کے علاقے میں رہتے تھے یہودیہ کہلائی اس میں یہود اور بنیامین قبائل کے افراد شامل تھے اور دوسری اس وجہ سے کہ اسرائیل کے اکثر قبائل اس میں شامل تھے اسرائیل کی حکومت کہلائی ۔۔۔۔ اس اختلاف کے بعد اسرائیل کی حکومت متواتر بت پرستی کی طرف راغب ہوتی گئی اور تورات کے علماء اسے چھوڑ کر یہودیوں کی طرف بھاگ آئے اور موسوی مذہب کا گڑھ یہودی حکومت بن گئی ۔۔۔ چنانچہ پہلے تو اسرائیل کی حکومت کے باشندوں اور یہودی حکومت کے باشندوں میں فرق کرنے کے لئے یہودیہ کے باشندوں کو یہودی کہا جانے لگا لیکن جوں جوں مذہبی اختلاف کی خلیج بڑھتی گئی یہودی کا لفظ مقام رہائش کو بتانے کی بجائے مذہب کو بتانے کے لئے استعمال ہونے لگا اور عزیر اور نحمیاہ دونبیوں کے ذریعے جب یہودیہ دوبارہ بسایا گیا اور مذہب موسوی کی بھاگ ڈور کلی طور پر یہودہ کے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی تو یہودی کا لفظ نسلی امتیاز یا مقامی رہائش کے معنوں سے بالکل الگ ہوکر مذہب موسوی کے پیرو کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔
اس مضمون کو اچھی طرح سمجھنے اور ایک اور زاویے سے دیکھنے سے تفسیر کا ایک اور پہلو بھی نکلتا ہے اور اس پہلو کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن واقعی عالم الغیب خدا کی کتاب ہے۔ اس ذوقی نقطہ کو بیان کرنے کیلئے بنی اسرائیل کی تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہے اس لیے اختصار کے ساتھ بنی اسرائیل کی تاریخ بیان کی جاتی ہے۔
بنی اسرائیل کی تاریخ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے جن کا زمانہ آج سے قریباً 4000 سال قبل اور حضرت عیسٰی علیہ السلام سے 2000 سال قبل بنتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں دو بیٹے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام پیدا ہوئے۔ ان دونوں بیٹوں کے متعلق بائبل پیدائش باب 12 اور 17 میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدے دیے ہیں کہ ان دونوں بیٹوں کی نسلوں کو میں بہت بڑھاؤنگا اور ترقیات دوں گا۔ حسب منشاء الہٰی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حجاز یعنی مکہ میں آباد کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو کنعان یعنی موجودہ فلسطین و اسرائیل میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے وارث ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کا خطاب دیا جس کا مطلب ہے خدا کا پہلوان۔ بائبل کے مطابق حضرت یعقوب علیہ السلام کے ہاں دو بیویوں اور دو لونڈیوں سے بارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے جو بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں حضرت یوسف علیہ السلام بھی تھے جن کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں رکھ دیا اور ایک قافلہ انہیں اٹھا لے گیا اور مصر میں بیچ دیا۔ بالآخر حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مصر میں عزت دی اور ان کو شاہی اختیارات دیئے گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو شاہی اختیارات ملنے کی وجہ سے حضرت یعقوب علیہ السلام اور آپ کے باقی گیارہ بیٹے مع اہل وعیال بھی مصر میں ہی آگئے۔ بائبل کے مطابق حضرت یعقوب علیہ السلام کی آخری عمر میں جب یہ خاندان مصر گیا تو اس وقت 75 افراد کا تھا اس وقت ان کیلئے بنی اسرائیل کا لفظ مستعمل نہیں تھا بلکہ قرآن کریم اِخوۃُ یُوسُف یوسف کے بھائی کا لفظ استعمال کرتا ہے کیونکہ کوئی بھی نام بطور لقب یا عُرف اس وقت استعمال ہوتا ہے جب وہ معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرلے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا خاندان جب حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں مصر گیا تب تک ان کی افرادی قوت بھی زیادہ نہ تھی اور نہ ہی معاشرے میں سوا ئے حضرت یوسف علیہ السلام کے کوئی نمایاں مقام ان کو حاصل تھا۔ اسی لئے قرآن کریم نے جہاں پر حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا ہے وہاں حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل کے لئے بنی اسرائیل کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اِخْوَۃُیُوسف کےالفاظ استعمال کیے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ سلام سے لے کر یہ خاندان 400سال (1700ق م تا 1300ق م) تک مصر میں رہا اور اس دوران یہ خاندان تعداد اور طاقت میں ترقی کرتا گیا۔ قرآن کریم نے اس دور کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا:
وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰٮکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ
(سورۃالمائدۃ:21)
اس ترقی والے دور میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے بننے والے قبیلوں کے لئے بنی اسرائیل کا لفظ استعمال ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اس عرصے میں بنی اسرائیل کی ترقی کی وجہ یہ تھی کہ اس دوران مصر پر سامی النسل ہیکسس خاندان کی حکومت تھی جنہیں چرواہے بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خاندان چونکہ خود فلسطین وشام کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا اس لیے ان کا بنی اسرائیل کے ساتھ اچھا سلوک ایک فطری وجہ تھی اور بنی اسرائیل خود مصر میں پردیسی تھے اور بغاوت کا ڈر ہمیشہ مقامی لوگوں سے ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مصر کے مقامی متعصب نسل پرست قِبطی خاندان نے ہیکسس خاندان کو شکست دیکر مصر پرحکومت کرلی قبطی قوم اپنے بادشاہ کیلئے فرعون کا لقب استعمال کرتی تھی جبکہ ہیکسس قوم نہیں اسی لئے قرآن کریم حضرت یوسفؑ کے دور کے بادشاہ یا سردار کیلئے ملک اور عزیز کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن بائیبل حضرت یوسفؑ کے دور کے بادشاہ کیلئے فرعون کا لفظ استعمال کرتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بائیبل میں تحریفات ہوچکی ہیں اور اصل حالت میں نہیں ہے قبطی خاندان نے بنی اسرائیل اور ہیکسس خاندان کا آپس میں اچھا سلوک دیکھا ہوا تھا اور بنی اسرائیل خود بھی دنیاوی لحاظ سے مضبوط تھے لہذا قبطیوں نے اس ڈر سے کہ یہ کہیں بغاوت نہ کر دیں بنی اسرائیل پر ظلم کرنے شروع کر دیے اسکی تفصیل بائیبل خروج باب1 اور تاریخ یہود از جوزیفس کتاب دوم باب9 اور قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں اس ظالم دور کا ذکر موجود ہے بنی اسرائیل کو ان ظلم و ستم سے بچانے کیلئے حضرت موسیؑ آئے وہ انکو فرعون سے بچا کر فلسطین موعودہ زمین کی طرف لے گئے لیکن حضرت موسیؑ کی زندگی میں فلسطین داخل نہ ہوسکے بعد میں حضرت یوشعؑ کی سرکردگی میں بنی اسرائیل نے فلسطین فتح کیا حضرت یوشعؑ کی وفات کے بعد فلسطین میں بنی اسرائیل کی کوئی متحد مرکزی حکومت نہ رہی بلکہ ہر قبیلہ اپنی اپنی جگہ نیم آزاد تھا اور ہر قبیلے کا اپنا اپنا قاضی تھا اس دور کو قضاۃ کا دور کہا جاتا ہے یہ دور قریبًا 230 برس 1020 ق م تا 1225ق م رہا۔ ارد گرد کی اقوام کے مسلسل حملوں سے یہ خیال زور پکڑ گیا کہ کوئی متحد مرکزی حکومت ہونی چاہیے چنانچہ سرداروں نے اس وقت کے نبی حضرت سموئیلؑ سے بادشاہ بنانے کی درخواست کی حضرت سموئیل نے ساؤل کو بادشاہ بنایا انکے بعد حضرت داؤدؑ 960ق م تا 1000ق م اور پھر حضرت سلیمانؑ 922 ق م تا 960 ق م بادشاہ رہے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد 922ق م میں ان کا بیٹا رحبعام جانشین ہوا رحبعام ایک ناخلف حکمران تھا جسے قرآن کریم نے بھی دآبۃ الارض یعنی زمینی کیڑا کہا ہے اسی وجہ سے اس کی حکمرانی میں دس قبائل اور بنیامین کا اکثر حصہ باغی ہوگیا اور یربعام بن نباط کی سربراہی میں فلسطین کے شمال میں ایک الگ حکومت بنائی جس کا نام مملکت اسرائیل رکھا اور باقی دو قبائل یہودہ، شمعون اور بنیامین قبیلہ کا کچھ حصہ رحبعام کے ماتحت ہی رہا انہوں نے فلسطین کے جنوب میں اپنی سلطنت بنائی ۔اور چونکہ حضرت داؤد ،سلیمان اور انکا بیٹا رحبعام یہودہ قبیلہ سے تھے اس لئے حکمران قبیلہ ہونے کی وجہ سے اور یہودہ قبیلے کا علاقہ بھی ہونے کی وجہ سے اس سلطنت کا نام مملکت یہودہ رکھا گیا 200سال بعد 722ق م میں شمالی مملکت اسرائیل کو عراق کے شمال میں موجود اسیری حکومت نے تباہ کردیا اور مملکت اسرائیل کے 10 قبائل کو جلاوطن کر کے عراق لے گئے جلاوطنی کے بعد یہ قبائل کبھی واپس نہیں آئے اور عراق سے چین افغانستان کشمیر اور ہندوستان میں آگئے ان دس قبائل کو بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیں بھی کہتے ہیں حضرت مسیح موعوؑد نے بھی اپنی کتاب مسیح ہندوستان میں اسیری بادشاہ شالمنذر پنجم کے دور میں مملکت اسرائیل کی تباہی اور جلاوطنی کا ذکر کیا ہے مملکت اسرائیل کے بعد فلسطین میں صرف یہودہ سلطنت باقی رہی اور یہودہ مملکت587 ق م 922ق م سے لیکرتک قائم رہی۔ یہودہ سلطنت کے رہنے والوں کیلئے یہودی کا لفظ استعمال ہونا ایک فطری بات ہے اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان مبارک کہ اسرائیل مملکت میں بت پرستی رہ گئی تھی اور یہودہ سلطنت موسوی مذہب کی علمبردار رہی اس لئے یہود کا لفظ رہائش کی بجائے مذہب کے اظہار کیلئے استعمال ہونے لگا۔ لیکن اس لفظ کے استعمال کو زیادہ تقویت تب ملی جب587ق م میں عراق کی بابلی سلطنت کے بادشاہ بنوکد نضریہودہ مملکت کو تباہ کرکے وہاں کے لوگوں کو اپنے ساتھ بابل لے گیا بابل میں بابلی لوگ انکو یہودی کہنے لگ گئے کیونکہ یہ یہودہ سلطنت سے آئے تھے پھر 538ق م میں میدوفارس کے بادشاہ خورس نے بابلی حکومت کو شکست دی اور ان جلاوطن سوا 2قبائل کے کچھ لوگوں کو مملکت یہودہ میں واپس جانے دیا۔ ان دو قبائل کے کچھ لوگ خورس کی سلطنت میں ہی آباد رہے اور ظاہر ہے کہ اس دوران بابل ودیگرفارس حکومت کے رہنے والے لوگوں نےان کو مملکت یہودہ سے آئے یہودی کے لفظ سےہی پکارنا تھامثلاً جیسے پردیس میں پاکستان سے گئے لوگوں کو پاکستانی کہا جاتا ہے اور اس بات کا ثبوت پادری ولیم جی بلبکی کی کتاب اے مینول آف بائیبل ہسٹری صفحہ370 میں آستر کی کتاب باب 2آیت 5 پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’آستر کی کتاب سے یہ بات خوب روشن ہوجاتی ہے کہ یہودیوں کی جو فارسی سلطنت میں پھیلے ہوئے تھے کیا حالت تھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں بنی اسرائیلی عمومًا یہودی کہلانے لگ گئے تھے‘‘ اور یہ لفظ علاقائی اور مذہبی پہچان کیلئے استعمال ہونا شروع ہوگیا جیسے حضرت عیسی علیہ السلام فلسطین کی بستی ناصرہ کے رہنے والے تھے اس لئے انکو مسیح ناصری اور انکے ماننے والوں کیلئے نصارٰی کا لفظ بطور مذہب استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ قرآن کریم حضرت موسیؑ سے لیکر حضرت سلیمانؑ کے دور تک یہود لفظ استعمال نہیں کرتا بلکہ بنی اسرائیل کرتا ہے کیونکہ لفظ یہود کا استعمال مملکت یہودہ بننے کے بعد شروع ہوا اب خاکسار اپنے مضمون کے نتیجہ کی طرف آتا ہے بنی اسرائیل 12قبائل اور یہود لفظ مملکت یہودہ میں رہنے والے 2یا سوا2قبائل پر دلالت کرتا ہے قرآن کریم ایک عالم الغیب خدا کی کتاب ہے اسکا ثبوت یہ ہے کہ قرآن ان دونوں لفظوں کو مختلف جگہوں پر ویسے ہی استعمال کرتا ہے جیسے یہ وقوع پذیر ہوئے ہیں جیسے حضرت یوسفؑ کی زندگی تک لفظ بنی اسرائیل مستعمل نہیں تھا لہذا قرآن کریم نے قصہ یوسف میں حضرت یعقوب کے بیٹوں کیلئے بنی اسرائیل نہیں بلکہ اِخْوَۃُیُوسف لفظ استعمال کیا ہے قرآن کریم نے جہاں جہاں بھی اُن نعمتوں اور عذابوں کا ذکر کیا ہے جو ان 12قبائل پر ہوئی تھیں وہاں لفظ بنی اسرائیل استعمال کیا ہے مثلاً (یا بنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم) سورۃ بقرۃ 40۔ قرآن کریم میں لفظ بنی اسرائیل 41 دفعہ آیا ہے اور تمام جگہوں پر مکمل 12 قبیلے ہی مراد ہیں۔ اور لفظ یہود/ھود/ھادوا 23دفعہ آیا ہے جہاں کوئی کام 12 قبائل نے نہیں بلکہ سوا 2قبائل نے کیا وہاں لفظ یہود استعمال کیا ہے کیونکہ لفظ یہود مملکت یہودہ کے رہنے والے سوا2 قبائل کیلئے استعمال ہونا شروع ہوا تھا اور اسی طرح موسوی مذہب کیلئے بھی استعمال ہونے لگا۔ مثلاً جہاں حضرت عیسیؑ کی بعثت کا ذکر ہے تو وہ چونکہ بنی اسرائیل کے مکمل 12 قبائل کیطرف مبعوث ہوئے تھے اسلئے وہاں لفظ بنی اسرائیل استعمال فرمایا (ورسولاً اِلٰی بنی اسرآئیل) سورۃ اٰل عمران49۔ لیکن جہاں حضرت عیسیؑ کو صلیب دینے کا ذکر کیا تووہاں لفظ یہود استعمال فرمایا چنانچہ سورۃ النساء 158 تا 160 واقعہ صلیب بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے (فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِین ھادوا حرَّمْنا علیھم طیباتٍ اُحِلَّت لھم وبِصَدِّھم عن سبیل اللہ کثیراً) النسآء 161۔کیونکہ حضرت عیسیؑ کو 12 قبائل نے صلیب دینے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ جب آپؑ فلسطین میں مبعوث ہوئے تو اس وقت وہاں صرف یہی سوا2قبائل آباد تھے جنکو یہود کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اسی طرح قرآن کریم جب آنحضورؐ کے دور کے یہود یا انکے بگڑے عقائد کا ذکر کرتا ہے تو بنی اسرائیل نہیں بلکہ یہود لفظ استعمال کرتا ہے مثلا (وَلَنْ تَرْضٰی عنک الیھود ولاالنصٰرٰی حتّٰی تَتَّبع مِلَّتھم) سورۃ البقرۃ 121 آنحضورؐ کے دور میں یہی سوا2قبائل کے لوگ تھے جنہیں یہود کہا جاتا ہے کیونکہ باقی دس قبائل تو جلاوطنی کے بعد افغانستان کشمیر اور پنجاب وغیرہ علاقوں میں آگئے اور کبھی فلسطین واپس نہی گئے اور نہ ہی ان کیلئے یہود لفظ کبھی استعمال ہوا ان دس قبائل کی طرف حضرت عیسیؑ واقعہ صلیب کے بعد گئے جیسا کہ یوحنا انجیل باب7 آیت34 میں لکھا ہے (تم مجھے ڈھونڈو گے مگر نہ پاؤگے اور جہاں میں ہوں تم نہیں آسکتے یہودیوں نے آپس میں کہا یہ کہاں جائے گا جو غیر یہودی اقوام میں جا بجا رہتے ہیں) اور یہ دس قبائل حضرت عیسیؑ پر ایمان لے آئے اوریہ دس قبائل اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اب مسلمان ہیں کیونکہ جن علاقوں میں یہ ہجرت کر کے آئے وہاں یہودی قریبًا بلکل نہیں پائے جاتے۔ اس ضمن میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگرچہ یہود لفظ کا استعمال مملکت یہودہ کے رہنے والے سوا دو قبائل کی وجہ سے شروع ہوا تھا لیکن پھریہ لفظ موسوی مذہب کی جگہ لے گیا اس لئے تفسیر کے وسیع پہلؤوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تناظر میں لفظ یہود سے حضرت موسیٰ علیہ السلام تک کا زمانہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
(ع ۔ا۔ ورک مربی سلسلہ)