• 23 ستمبر, 2025

ذکر خیر والد محترم چوہدری محمد اقبال صاحب

میرے پیارے ابا جان چوہد ری محمد اقبال صاحب سابق صدر حلقہ چکلالہ راولپنڈی لگ بھگ ایک صدی کی مسافرت طے کرنے کے بعد 93 سال کی عمرمیں 22 مارچ 2021 ک ومختصر علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے ۔

یقیناً ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔

؎بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پر اے دل تو جان فدا کر

1947 میں آپ اپنے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ کپورتھلہ ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور سِلاں والی 140 جنوبی ضلع سرگودھا میں سکونت اختیار کی ۔ دادا جان بھی ا پنے زمانے کے میٹرک پاس تھے اور سائنس کے مضامین پڑھ رکھے تھے پھر اس کے ساتھ با شعوربھی تھے اور علم دوست بھی حضرت خلیفۃ المسیح ا لثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں خود تحقیق کر کے اور اپنی طبیعت کی سادگی کے دائرے میں خود سے سچائی کا ایک معیار بنایا اور سوچا کہ اگر میرا ذہن سچائی کے اس معیار سے مطمئن ہو گیا تو بیعت کر لوں گا چونکہ نیت بھی نیک تھی تحقیق بھی کر رکھی تھی سچائی کے متلاشی بھی تھے اس لئے خدا کے فضل سے اپنا ہی قائم کردہ معیار ان کے اطمینان قلب کے لئے کافی ہوا اور بیعت کر لی اور اس طرح مسیح پاک کی سچائی کا جو بیج میرےدادا جان نے اپنے دل میں لگایا تھا اور ان کی روح نے اس کی آبیاری کی آج ان کی چوتھی نسل اس کے پھل کھا رہی ہے ۔ میری دادی جان نے تو خیر اس وقت بیعت نہ کی لیکن دادا جان کے لئے ساری برادری، شریکہ اور گاؤں والوں سے تنہا لڑتی رہیں اور دادا جان کی سپر بنی رہیں ۔ کچھ سالوں کے بعد جب انہوں نے بیعت کی تو گاؤں والوں اور برادری نے خوب شور کیا اور برا بھلا کہا اور خبردار کیا کہ مائی اے مائی اے تینوں مرن لئی جگہ وی نئی لبنی ۔۔تو دادی جان جواب میں کہا کرتی تھیں کہ میں اللہ کیتا تے ڈنڈے نال جگہ لوؤ گی ۔ یہ پاکستان بننے کے بعد کی بات ہے ۔ جب 71 1970- میں ان کی وفات ہوئی تو گاؤں والوں نے خوب ہنگامہ کیا اور ان کی میت کو دفنانے نہ دیا ۔ایسے میں میرے چچا محمد عرفان حال مقیم ربوہ شہر چلے گئے اور تھانے میں رابطہ کیا وہاں کا ڈی ایس پی اور تھانےدار پولیس کی ایک بھاری نفری لے کر گاؤں پہنچ گئے اور 2کنال کی الگ جگہ مختص کی گئی اور ان کی موجودگی میں دفنایا گیا۔ خدا کے فضل سے گاؤں والوں پر ایسا رعب طاری ہوا کہ پولیس والوں کی بھی خوب خاطر مدارت کی ان تمام کے لئے کھانے کا بندوبست کیا اور میری پیاری دادی جان کے الفاظ بھی کس شان سے پورے ہوئے اور اس وقت سے سلانوالی میں احمدیہ قبرستان قائم ہوا اور اللہ کے فضل سے اس کی دیکھ بھال ہمارے چچا جان ہی کر رہےہیں ۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

یہ باتیں تو خاکسار نے تحدیث نعمت کے طور پربیان کی ہیں کیونکہ پہلے پہل ایمان لانے والوں کے تذکروں کے بغیر جذبوں کی یہ داستان اگلی نسل تک نہیں پہنچ سکتی ۔

بہر حال ذکر خیر ہو رہا تھا میرے والد صاحب کا 1947 کا پُر آشوب دور ہے 14 ،15 سال عمر ہے بلوائیوں نے حملہ کر دیا گھر کی عورتوں کو رات کے اندھیرے میں کسی محفوظ مقام کی طرف روانہ کیا اور خود چھوٹے بھائی کو گود میں اُٹھا کر جنگل میں رات گذاری اور دو دن بعداپنی والدہ کو ملے جبکہ والدہ رو رو کر بے حال ہو چکی تھیں حتیٰ کہ مرنے کا یقین کر چکی تھیں (یہ واقعات تو وفات سے چند روز قبل بھی لا شعوری حالت میں بار بار سناتے رہے) لٹ لٹا کر پاکستان پہنچے خالی ہاتھ تھے زیرو سے زندگی شروع کی داداجان نے سِلانوالی میں سکونت اختیار کی اولاد کو بہت پڑھانے کی خواہش رکھنے کے باوجود زمیندارہ شروع کیا زندگی کی گاڑی تو چلانی تھی۔ میرے والد صاحب راولپنڈی آگئے اور تن تنہا حالات کی سختیوں سے نبرد آزما ہونے کا عہد کیا محنت مزدوری کی۔ پارٹ ٹائم کام کیا اتنا کہ ایک وقت پیٹ بھر جاتا تھا ایک طرف تعلیم جاری رکھی اور دوسرا جماعت کےساتھ بھرپور تعلق رکھا ۔ ریڈیو پاکستان میں ملازمت ملی ۔ میری والدہ مرحومہ کی فیملی بھی قادیان سے ہجرت کر کے راولپنڈی قیام پزیر ہوئی تھی ۔ میری والدہ شیخ عباد ا للہ ایڈووکیٹ آف دھوری کی نواسی تھیں اور ڈاکٹرظفرحسن رضی اللہ تعالیٰ(جو کہ کلرکہار ہسپتال کے پہلے میڈیکل سپریٹنڈنٹ تھے۔) کی پوتی تھیں اس وقت معاشی لحاظ سے دونوں خاندانوں کے حالات دگر گوں تھے ۔زندگی جہد مسلسل کی طرح کٹ رہی تھی۔ دعاؤں کے سہارے اور کامل توکل پر ان دونوں کا رشتہ طے ہوا۔ میری والدہ گو کہ میٹرک پاس تھیں لیکن بورڈ کے امتحان سے اسکالرشپ ہولڈر تھیں ۔دونوں کے ستارے خوب ملے زندگی کا مقصد واضح تھا کہ اولاد پر انویسٹ کرنا ہے ۔ دونوں نے اس کے حصول کے لئے بہت محنت کی خدا تعالیٰ کے فضلوں نے ساتھ دیا ۔ میرے والد صاحب کا خیال تھا کہ جماعت کو ناکارہ نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور با اثر افراد کی ضرورت ہے۔ والدہ صاحبہ نے گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہر بچے کو میٹرک تک خود پڑھایا ۔ ہم فیڈرل گورنمنٹ کے سکولوں سے پڑھے کیونکہ والد صاحب کو سرکاری رہائش ملی ہوئی تھی سب کے سکول گھر سے قریب تھے ۔ ہمارے والدین کا نام ہمارے سکولوں میں بہت احترام سے لیا جاتا تھا کہ یہ پڑھے لکھے والدین جو بچوں کی پڑھائی کا فکر بھی رکھتے ہیں اور سکول کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں ۔

والد صاحب آفس سے چھٹی کے بعد ٹیوشنز بھی پڑھاتے تھے اورکسی وکیل کے ساتھ ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈبھی کرتے تھے ۔رات کو لیٹ ہی گھر آتے تھے ۔ لیکن جب بھی ان کے پاس بیٹھنے کا موقع ملتا تو یا تو جماعت کی ترقیات کی باتیں کرتے ،خلافت کے ساتھ برکتوں کا ذکر کرتے ۔ہم بچے اباجی کو دن بھر کی رپورٹ دیتے کہ آج وہ بیٹی تقریر میں اوّل آئی ہے یا اس بیٹے نے کلاس میں اچھی پوزیشن لی ہے یا کسی کا اخبار میں مضمون چھپا ہے تو ایک دم سے جذباتی ہو جاتے اور کہتے کہ یہ ساری باتیں سن کر میرا سیروں خون بڑھتا ہے مجھے خوشی ہے کہ میری بیٹیاں آپس میں بیٹھ کر جوتی کپڑوں اور فیشن کی باتیں نہیں کرتیں یا کہتے بس مجھے اچھا سا پڑھ کر بتاؤ اپنا آپ بیچ کر بھی مجھے خرچہ پورا کرنا پڑا تو کروں گا۔ 1989 میں ریڈیو پاکستان سے ریٹائر ہوے تو اپنا ذاتی گھر بھی نہ تھا دوست احباب کہتے اقبال صاحب اپنا گھر تو بنا لیتے ابا جی جواب دیتے کہ میرے آٹھ بچے ہیں میری آٹھ کوٹھیاں ہیں ۔ محض اللہ کے فضل سے ہم آٹھ بہن بھائی سب شادی شدہ ،صاحب اولاد، 6گورنمنٹ جاب میں کلاس ون آفیسر اور سب خدمت دین کی برکتیں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ اگلی نسل میں 19 بچے وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں سب سے بڑا نواسہ خاکسار کی اکلوتی اولاد مربی ضلع گوجرانوالہ کی حیثیت میں خدمت کی سعادت پا رہا ہے اور اباجی اس پر بہت فخرمحسوس کرتے تھے ۔ کتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

70 کی دہائی میں نو جوانوں کو کمانے کے لئے بیرون ملک بھیجنے کا بہت رحجان تھا عزیز رشتہ داروں اور غیروں نے بھی کہا کہ بیٹوں کو باہر کے ملک بھجوا دیں یہی جواب دیا کہ اپنے ملک کی تھوڑی کھا لیں گے۔ یہاں صبح آفس جاؤ تو دس بندے کھڑے ہو کر سلام کرتے ہیں رستہ دیتے ہیں احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دوسرے ملک میں ایسی عزت کہاں ملے گی۔ مختصر بیماری میں جس میں کمزوری بہت زیادہ تھی کوئی اور بات نہ کی یا تو ہجرت کے واقعات دہرائے یا یہ کہ میں بہت خوش قسمت ہوں میری ساری اولاد جماعت سے وابستہ ہے ۔سب بچے فرمانبردار ہیں۔ میں تو پنڈی میں کمیٹی چوک کے قریب ایک بڑھیا کے تندور سے ایک آنے کی روٹی اور ساتھ سالن مفت ملتا تھا کھایا کرتا تھا ۔آج میرے سارے بچے اپنے اپنے گھروں میں ہیں ۔ دوسروں کے سٹیٹس سے تو متاثر ہونا اباجی کی سرشت میں ہی نہ تھا ۔ درویش آدمی تھے ان کی لمبی عمراور صحت کا راز بھی یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی تھیں جو کہ حقیقت میں بہت بڑی تھیں۔ 45 سال سے زیادہ صدر حلقہ چکلالہ راولپنڈی رہے ہم نے اپنے گھر کو ہمیشہ نماز سنٹر ہی دیکھا۔ نمازیں بھی باجماعت ہوتی رہیں ،جماعتی جلسے اور دعوت الی اللہ کے بھرپور پروگرام مرد و زن کے ساتھ ۔ ہمارے بچپن میں سلائیڈز دکھائی جاتی تھی چکلالہ والے گھر کے صحن میں پارٹیشن کر کے ایک طرف مردوں اور ایک طرف عورتوں کا انتظام ہوتا ۔ فطرِتاً خاموش طبیعت تھے لیکن منتظم بہت اچھے تھے ۔میری یاداشت میں ابا جی کی صدارت میں آخری بڑاپروگرام حلقہ کے مرد و زن کا خاکسار کے گھر ہوا تھا جس میں کل 98 حاضری تھی ۔ رات کا کھانا بھی پیش کیا گیا تھا ۔بچپن کی ساری عیدیں یاد ہیں ۔کسی آفس سے بس ہائر کروا لیتے اور یوں پورا حلقہ عید کی نمازاکٹھے مل کر پڑھنے جاتا ۔

دسمبر 1971ءکی پاک بھارت جنگ کےہنگامی حالات کے پیش نظر ابا جی نے گھر کے باہر واقع کھلے گراؤنڈ میں ایل شیپ کی ایک کافی بڑی خندق کھودنی شروع کی۔ کالونی والوں نے آتے جاتے خوب مذاق اُڑایا۔ڈرپوک ہونے کا طعنہ دیا ۔ 3 دسمبر کو جنگ شروع ہوئی توپہلی بار خطرے کا سائرن بجا ۔خندق محلے والوں سے بھر گئی۔ ہر کوئی اپنے گھر سے قیمتی چیزوں کے ساتھ خندق میں گھس جاتا۔ بہر حال جب جنگ ختم ہوئی تو سب نے ابا جی کا شکریہ بھی ادا کیا اور معذرت بھی کی اور ہمت کی داد بھی دی ۔ 8 دسمبر کو خاکسار کا سب سے چھوٹا اور پیارا بھائی عزیزم ندیم احمد سنٹرل ہاسپٹل راولپنڈی میں پیدا ہوا۔ ہسپتال کے عملے نے نام میں مجاہد کا اضافہ کیا تواس طرح ندیم احمد مجاہد نیشنل بینک میں فرائض منصبی اور گذشتہ 6 سال سے جماعت راولپنڈی ضلع میں سیکرٹری مال کے طور پر بھی خدمت دین کی سعادت پا رہا ہے ۔

1974ء کا پُر آشوب دور ہم نے اپنی ہوش میں دیکھا۔ سکولوں میں مخالفت برداشت کی۔ میرے سے چھوٹی ہمشیرہ عزیزہ ڈاکٹر نگہت ظہیر حال مقیم فیصل آباد کو سکول سے نکال دیا گیا ۔ ویول لائنز چکلالہ کی دیواروں پر لکھا ہوتا تھا کہ ’’اقبال چور ہے اقبال کافر ہے۔‘‘ گھر کے دروازے پر جامع مسجد تھی۔ ہر وقت کفر کے فتوے اور قتل کے مشورے لاوڈ سپیکر پر سنائی دیتے۔ اباجی کا دعوت الی اللہ کا جنون قائم تھا۔ اس میں کسی قسم کی کمی نہ تھی۔ ہم میں بھی اللہ کے فضل سے کسی قسم کی بزدلی پیدا نہ ہونے دی ۔دو دفعہ تو جلوس گھر آیا اورگالی گلوچ کی، احمدیت کے خلاف نعرے لگائے۔ ایک دو دن بعد پولیس حرکت میں آ گئی اور ابا جی کو نقصِ امن کے لئے خطرہ قرار دے کر تھانے لے گئی اور اس طرح اسیر راہ مولا کی حیثیت سے بھی برکت سمیٹی۔ ایک رات تھانے میں گزاری۔ اس وقت کے امیر جماعت راولپنڈی محترم مجیب ا لر حمٰن ایڈووکیٹ صاحب نے ضمانت کروائی ۔ اس کے بعد کافی دنوں تک ابا جی رات کو دیر سے گھر آتے اور علی الصبح گھر سے نکل جاتے تا کہ لوگوں کو طیش نہ آئے۔ 1983ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ راولپنڈی آئے تو فلیش مین ہوٹل میں سوال و جواب کی ایک نشست رکھی گئی اور ابا جان اپنے بڑے بڑے وکلاء دوستوں کو لے کر گئے جس میں مکرم سردار اسحٰق خان صاحب جیسے ہائی کورٹ کے وکیل بھی شامل تھے اور اللہ کے فضل سے یہ پروگرام کافی کامیاب رہا ۔

وہ وقت جب ہم بڑے چاروں بہن بھائی اعلیٰ تعلیم میں تھے تو چھوٹی ہمشیرہ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں، ایک بھائی مکرم کرنل وسیم احمد شاہدصاحب (جنہوں نےآرمی سے فارغ ہونے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ میں بطور سکیورٹی آفیسرکام کیا اور بہت عزت پائی) کاکول میں چلے گئے تھے ۔کافی مالی مشکلات آئیں لیکن ابا جی نے زیادہ محنت کرنا شروع کردی۔ پارٹ ٹائم کام زیادہ کر دیا۔ صبح آفس جانے سے پہلے بھی ایک ٹیوشن پڑھانے لگے۔ہمیں کبھی احساس بھی نہ ہونے دیا اورہر ضرورت کو وقت پر پورا کیا ۔

30 سال کے قریب چکلالہ والے گھر میں رہے (بڑا برکت والا گھر تھا۔ جماعتی مرکز بھی تھا اور ہم بہن بھائیوں نے زندگی کی ساری کامیابیاں اسی گھر میں حاصل کیں ۔ الحمدللہ)

ابا جی نے اپنی مد د آپ کے تحت اپنے علاقے کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ایسوسی ایشن بنائی۔ جب بھی کبھی معاشرے میں پریشانی کا وقت آیا مثلا ًہتھوڑا گروپ کا خوف عوام میں پھیلا ،اوجڑی کیمپ کا خوفناک سانحہ ہواتوراتوں کو ٹھیکری پہرے کا نظام متعارف کروایا اور کامیابی سے چلایا۔ لوگ سکون سے راتوں کو سونے لگے ۔ خدمت خلق کا بھی منظم طریقہ کار اپنایا گیا ۔ ہر سال ادبی اور کھیلوں کے مقابلے منعقد کروائے جاتے ۔ جن لوگوں نے یہ سب دیکھ رکھا ہے وہ یقیناً اسکو آج بھی یاد کرتے ہوں گے ۔

ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں بھی ایسوسی ایشن بنائی۔ ملازمین کی فلاح وبہبود کے لئے بہت کام کروایا۔ دیرینہ مطالبات منظور کروائے۔ اس وقت مولانا کوثر نیازی صاحب وزیر اطلاعات تھے۔ کئی مرتبہ ان کی گاڑی اور ڈرائیور ابا جی کے استعمال میں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ہم بچوں کو بھی اسلام آباد سیر کے لے گئے ۔ایک جگہ صدر ایوب خان صاحب کو راستے میں واک کرتے دیکھا تو گاڑی رکوائی اور ہمیں بتایا یہ پاکستان کے سابق صدر ہیں۔ میری یادداشت میں بس یہی یاد موجود ہے ۔

1988ء میں پشاور ریڈیو سٹیشن میں آپکا تبادلہ ہوا اور بڑی خوشی سے بتایا کرتے تھے کہ خدا نے میرے ہاتھوں سے وہاں مسجد بنوائی اور کنویں کا انتظام کیا۔

ابا جی نے گوشت تو 60 سال کے کہیں بعد جا کرکھانا شروع کیا۔ اورسادہ خوراک، سادہ رہن سہن ہر قسم کے تصنع اور لالچ سے پاک ، باوقار زندگی گزارتےہوئےبطورایڈمن آفیسر ریٹائرڈ ہوئے۔ سائیکل ہی استعمال کی۔ روزانہ صبح واک کی۔ پودوں اور نیچر سے بہت لگاؤ تھا ۔ ہم نے چکلالہ والے گھر میں گندم اور روئی کے علاوہ ہر چیز اُگی ہوئی دیکھی۔ مٹی کو سونا بنا دیتے تھے۔ گزشتہ 31،30سال سے جس گھر میں رہائش پزیر تھے وہاں نیچے تو اتنی کھلی جگہ نہ تھی کہ ابا جی باغبانی کر سکتے۔ انہوں نے تیسری منزل پر خوب باغبانی کر رکھی تھی اور وفات سے 15 دن پہلے تک روزانہ صبح چھت پر جاتے اور دو گھنٹے وہاں گزارتے۔ آخری دنوں انتہائی کمزوری کی حالت میں آنکھیں کھولیں اور مجھے کہا کہ اب میرے میں ہمت نہیں کہ پودوں کو پانی دے سکوں۔ آدھے پودے آپ لے لینا اورآدھے منزہ کو دے دینا ۔ اور عزیزہ مننزہ خالد (میری چھوٹی ہمشیرہ جو کہ فیڈرل گورنمنٹ کالج میں فزکس پڑھارہی ہے) آج کل صبح صبح چھت پر جا کر پودوں کو پانی دیتی ہے اور گلشن اقبال کے نام سے ویڈیو شیئر کررہی ہوتی ہے ۔

ساری زندگی نماز کی باقاعدگی رہی۔ صبح کے وقت بلند آواز سے تلاوت جس میں کبھی ناغہ نہ ہوا ۔

اجلاسوں اور جماعتی پروگراموں اور جمعہ کی نماز کو کبھی نہ چھوڑا ۔کئی بڑی سورتیں خاموشی سے حفظ کر لیں ۔ پڑوسیوں کا حال احوال پوچھنا کبھی نہ بھولتے۔ آتے جاتے ان کو سلام کرتے ۔

2000ء میں میری والدہ کی وفات پر ایوان توحید راولپنڈی میں جب جنازہ پڑھا جانے لگا تو ابا جی نے کھڑے ہو کر میری پیاری ماں کو یوں خراج عقیدت پیش کیا کہ میں اس عورت کا احسان نہیں بھول سکتا جس نے میرے بچوں کو قابل بنانے میں بھرپور ساتھ دیا ۔ 2005ء میں ابا جی نے دوسری شادی کی۔ دوسری والدہ کو بھی فوری طور پر کیش حق مہر ادا کیا۔ ماہانہ خرچ ادا کرنے میں ضروریات اور خواہشات پوری کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی ۔

اپنے بچوں کے ساتھ بہت احترام اور خاموش محبت کا تعلق تھا ۔کبھی اُونچی آواز سے ڈانٹا نہیں۔ اپنی اولاد کو بھرپور وقت دیا ۔میرے سے بڑے بھائی جان مکرم نعیم احمد خالد صاحب حال مقیم کینیڈا ہیں ۔ ان سے اورطرح کا پیار تھا۔ وسیم بھائی سے اور طرح کا اور عزیزم ندیم اورعزیزم فہیم کے ساتھ وکھری طرح کا پیار تھا ۔میں کبھی کبھی سوچتی ہوںکہ ابا جی کس بچے کے ساتھ زیادہ پیار کرتے تھے۔ سارے بچےہی ان کا مان تھے۔ ان کے دل سے قریب تھے۔ اوربیٹیوں اور بہوؤں کےساتھ تو بہت دوستی کا تعلق تھا ۔ محض خدا کے فضل سے سارے ہی بیٹے اور بیٹیاں ان کے فرمانبردار تھے۔ ابا جی کی موجودگی کےبغیر ہماری کوئی بھی تقریب ادھوری ہوتی ۔

میرے ابا جی نے ہمارے لئے سب سے بڑا ورثہ خلافت اور جماعت کےساتھ محبت اور نظام کے ساتھ اطاعت کا ہی چھوڑا ہے ۔میرے ابا جی ایک نابغۂ روزگار وجود تھے۔ خلافت اور جماعت کا ذکر آتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور شکر ادا کرتے رہتے کہ ہمیں خدا نے سچائی کو اپنانے کی توفیق دی ۔خاکسار نے ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ اس پیارے وجود کی زندگی کا جو کہ ہم بیٹیوں کے لئے ایک رول ماڈل تھا، کچھ احاطہ کر سکوں لیکن

؎حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

آہ !اب کون ہمارا انتظار کرے گا۔ ہماری اڈیک رکھے گا۔ ہمارے آنے پر اُٹھ بیٹھے گا۔ فورا ًسے پیشتر اپنی دراز کھول کر ڈرائی فروٹ نکال کر آگے رکھے گا۔ پھر باربار کہی جانے والی جماعت کی باتوں کو دہرا کر لہوگرمائے گا اور زندگی کی ایک نئی حرارت پھونکے گا ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ میرا خدا خلافت سے سچی محبت کے صدقے اپنے قرب میں جگہ دے گا ۔

اے خدا! میرے پیارے ابا جی کی روح کو اپنی بے پناہ مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے۔ ان کی اولاد کے لئے کی گئی دعاؤں سے ساری اولاد نسلوں تک فیض پائے۔ ان کی اولاد ان کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے اور قیامت تک خلافت سے چمٹی رہے آمین۔

(ام وحید احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2021