• 29 اپریل, 2024

ستم گروں نے عشق کا چراغ جو بجھا دیا

ستم گروں نے عشق کا چراغ جو بجھا دیا
ستم زدوں نے خون سے رگوں میں پھر جلا دیا
وہ نامِ دل ستاں تو دل پہ ہے مرے لکھا ہوا
بلا سے گر، جدار و لوحِ سنگ سے مٹا دیا
میں نور کا پیامبر، تُو ہے سفیرِ تیرگی
عجب نہیں کہ تُو نے کل منارِ عشق ڈھا دیا
مجھے جو جاں سے ہے عزیز، ترے بھی وہ قریب تھا
یہ تو نے کیا کیا اُسی پہ تیغ کو چلا دیا
جو واعظوں نے راہِ میکدہ میں سنگ رکھ دیے
تو لعلِ ناب کو حرم میں رند نے لنڈھا دیا
تری شرابِ نارسا مجھے نہ راس آئے گی
مجھے تو میرے ساقی نے ہے جامِ جم پلا دیا
لے دیکھ آج کامراں ہوا میں کیسی شان سے
تُو زعم کر رہا تھا یہ کہ مجھ کو ہے ہرا دیا
وہ کج کلہ جو کہہ رہا تھا مجھ کو اپنی خاکِ پا
خدا نے اُس کلاہ کو ہے خاک میں ملا دیا
ترا عقیدہ جو بھی ہو مرا تو دین ہے یہی
ملا رفیقِ یار جو اُسی پہ سب لُٹا دیا
گیا میں ایک بار تھا گلی میں اُس حسین کی
حیاتِ مستعار کو وہیں پہ پھر بِتا دیا
’’جو خاک میں ملے اُسے (ہی) ملتا ہے (وہ) آشنا‘‘
عجب یہ راز، یارِ راز دان نے بتا دیا

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2021

اگلا پڑھیں

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کی تردید از روئے قرآن