• 30 اپریل, 2024

عزت تو اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مومنوں کے لئے ہے (القرآن)

گزشتہ دنوں خاکسار کے ایک شاگرد زاہد محمود نے مجھے فَاِ نَّ العِزَّۃَ للّٰہِ جَمِیعاً پر قلم اُٹھانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرہ میں لوگوں نے اپنے آپ کو بھی دوسروں کے لئے عزت کا مقام دے رکھا ہے اور بعض جگہوں پر وڈیروں کو عزت کا مقام دے کراپنا مستقبل داؤ پر لگا رکھا ہے نیز بعض ایسی رسومات اور بدعات کو معزز سمجھ کر جو قرآنی تعلیم کے برعکس ہے اپنے معاشرے کا حصہ سمجھ لیا ہے۔

خاکسار نے اس آیت کریمہ اور عزت و تکریم کے حوالہ سے قرآن کریم کی آیات کو دیکھا اور احادیث نبوی کو اس عنوان کے تحت تلاش کیا تو بہت دلچسپ، قابل قدر مضمون ذہن میں اُبھرا۔ ویسے تو تمام دنیا میں اکثر بادشاہوں، حکمرانوں اور وڈیروں کا طرز عمل اور رکھ رکھاؤ متکبرانہ رہا ہے اور وہ اپنے آپ اور اپنے تاج و عروس کو ہی عزت سمجھتے اور فخریہ انداز میں اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے مسلمان دنیوی جاہ و جلال رکھنے والے جابر حکمرانوں نے بھی اپنی حکمرانی میں متکبرانہ انداز اپنایا۔ اپنی رعایا کو بھیڑبکریوں سے بڑھ کر درجہ نہ دیا۔ اپنے جاہ و جلال و مقام، مال وثروت اور فخر ومباہات اور سستی شہرت کو طول دینے کے لئے بلند و بالا محلات اور گھر بنائے۔ اپنے آباؤ اجداد کے مقبرے اور پختہ قبریں بنائیں۔ اپنے ہاں منعقد ہونے والی تقریبات اور مجالس میں اپنی عزت و تکریم قائم رکھنے کے لئے غیر اسلامی رسومات کو رواج دیا۔ تا اپنی ناک قائم رہے۔ انہوں نے عالی شان اور خوبصورت مساجد اپنے نام و نمود کی خاطر بنوائیں۔ ان پر نقش و نگار کروائے۔ بیل بوٹے ڈلوائے اور آج اگر یہ مساجد موجود ہیں تو نمازی نہیں ملتے اور بعض مساجد کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں یا بعد میں آنے والی حکومتیں ان مساجد سے کوئی اور کام لے رہی ہیں۔ اور آج بھی یہ فخر ومبا ہات کا سلسلہ مسلمان حکمرانوں میں قدرے تبدیلی کے ساتھ جاری ہے۔اللہ تعالیٰ کا ایسے فسادی حکمران کو البقرہ:207 میں تقویٰ کی تلقین کا ذکر ملتا ہے مگر ظاہری عزت کی انا نے ان کو گناہ پر قائم رکھا۔ جبکہ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کا دَور کتنا سادگی پر مشتمل تھا۔ خانہ کعبہ کتنی سادگی کا مظہر ہے۔ مسجد نبوی آنحضرت ﷺ کے دور میں کھجور کے پتوں سے ڈھانپی گئی تھی۔ جس کی چھت بارش کے دوران ٹپکتی تھی۔ اور فرش کے طور پر پتھریلے پتھر (سنگریزے) بچھائے گئے تھے۔ جو سجدہ کرتے چبھن پیدا کرتے تھے اور صحابہ ؓسجدہ کرنے سے قبل ان کو سیدھا کر لیا کرتے تھے۔ خود آپ ﷺ کی قبر کتنی سادہ رہی۔ ایک دفعہ آنحضور ﷺ کو معلوم ہوا کہ فلاں قبیلہ کی ایک خاتون مجھ سے رابطہ کرتے ہوئے ڈرتی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تو اس خاتون کا بیٹا ہوں جو روٹی کے سوکھے ٹکڑے بھگو کر کھایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا وَابغُونِی فی الضعفاء کہ مجھے کمزور اور غریبوں میں تلاش کرو۔یه فرماکرآپؐ نے اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار فرمایا۔ حضرت عمرؓ راتوں کو اپنے کاندھوں پر راشن رکھ کر غریب رعایا کے گھر پہنچایا کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے گھر ایک دفعہ مہمان آگئے۔ رات کا وقت تھا۔ گفتگو کے دوران دیا بجھ گیا۔ آپ حاضرین کے اصرار کے باوجودخود اُٹھے اور تیل ڈال کر آگ جلا کر دیے کو لے آئے اور فرمایا۔ دیے میں تیل ڈالنے سے قبل بھی میں عمر بن عبد العزیز تھا اور تیل ڈالنے کے بعد بھی میں عمر بن عبد العزیز ہوں۔

یہ تھا اُن مسلمان حکمرانوں کا شیوہ اور طریق جن کی تربیت براہ راست آنحضورﷺ سے ہوئی تھی اور وہ تمام عزت وتکریم کی آماجگاہ اللہ تعالیٰ کو ہی سمجھتے تھے۔ اور جو عزت ان حکمرانوں اور دیگر مسلمانوں نے کمائی وہ سورۃ المنافقون کی آیت 9 وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ کہ عزت تمام تر اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کی ہے کے تحت حصہ میں آئی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کو ان کے مقام کا حق دیں گے وہی عزت پائیں گے۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین) نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یہ کہا تھا کہ ہم مدینہ پہنچ کر معزز ترین شخص (حضرت محمدﷺ) کو نکال باہر کریں گے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا معزز وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو عزت دیتے ہیں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَکُمْ میں بیان فرمایا ہے۔

؎رنگ تقویٰ سے کوئی رنگ نہیں ہے خوب تر
ہے یہی ایمان کا ذریعہ یہی دین کا سنگھار

الغرض خداوند قدوس ہی اصل اور حقیقی عزت کا سر چشمہ ہے۔ جو اس سے فیض پائے گا العمل الصالح یرفعه کے تحت باعزت ٹھہرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں 5 سے زائد مقامات پر عزت کو اپنی طرف منسوب کیا ہے مگرمختلف معنوں میں۔

٭پہلا ذکر سورۃ النساء آیت 140میں ہوا ہے۔ جس میں مومنوں کو چھوڑ کر کفار کو دوست اس غرض سے بنانے کا ذکر ہے کہ انہیں عزت ملے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عزت تو تمام تر اللہ کے قبضے میں ہے۔ اور سورۃ مریم آیت89 میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے معبود بنانے کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ وہ یہ تمام تر عزت بڑھانے کے لئے کرتے ہیں۔ اور سورۃ ص آیت 2میں کفار کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جھوٹی عزت و انا میں مبتلا ہیں۔

٭ دوسری جگہ سورۃ یونس آیت 66سے پہلے اولیاء اللہ اور ان کے اوصاف، ان پر ہونے والے انعامات کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان کے مخالفین کی باتیں تمہیں غمگین نہ کریں یقینًا عزت تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں۔ اولیاءاللہ اپنی عزت نہیں چاہتے وہ تو خدا کا جلال اور خدا کی عزت کے طالب رہتے ہیں۔ ان لوگوں میں ریاء کا نام تک نہیں ہوتا۔

(حقائق الفرقان جلد2 ص342)

٭سورۃ فاطر آیت 11میں فرماتا ہے کہ مَن کَانَ یُرِیدُ العِزَّۃَ فَلِلّٰہِ ا لعِزَّۃُ جَمِیعاً کہ جو بھی عزت کا خواہاں ہے تو اللہ ہی کے تصرف میں سب عزت ہے۔

اس آیت کے تحت فٹ نوٹ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’بعض لوگ دنیا کے بڑے لوگوں سے میل ملاپ رکھنے میں اپنی عزت سمجھتے ہیں مگر مومنوں کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ عزت اللہ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور مخا لف ان کو دنیا میں ذلیل کرنے کی جو بھی کوششیں کرے گا وہ رائیگاں جائیں گی۔‘‘

(ترجمہ قرآن صفحہ763)

اسی تفسیر میں سورۃ المنافقون آیت 9 کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے کہ عزت کے مستحق مومنوں کی جماعت انبیاء ہیں جن کو عزت، ان کے اعمال صالح کی وجه سے ان کے خدا کی طرف سے آتی ہے۔ ترمذی کتاب الدعوات میں حضرت ابوہریرہؓ سے اللہ تعالیٰ کے جو 99صفاتی نام درج ہیں۔ ان میں ایک صفت المعز بھی ہے جس کے معانی عزت دینے والے کے ہیں جبکہ وہ خود رب العزت (الصافات:181) اور العزیز (ترمذی کتاب الدعوات) تو ہے ہی ۔عزت کے معانی غلبہ اور قوت کے ہیں۔

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ عزت کا لفظ ہمیشہ ذلت کے مقابل پر استعمال ہوتا ہے۔ پس ذلت کے مقابل جو چیز ہے اسے عزت کہا جائے گا۔

(تفسیر کبیر جلد5 ص356)

٭عربوں میں دور جاہلیت میں خاندانوں میں جاہ و مقام کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ اپنے قد کاٹھ اور مال و ثروت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ اسلام نے آکر اس طریق کو ختم کر کے اعمال صالح بجا لانے والوں کو مقام دیا۔ ایک دفعہ صحابہ ؓ نے آنحضور ﷺ سے عرب کے اعلیٰ اور معزز خاندانوں کے متعلق پوچھا تو آنحضورﷺ نے فرمایا خِیَارُہُم فِی الجَاھِلِیۃِ خِیَارُہُم فِی الاِسلَامِ اِذَا فَقَہُوا (بخاری کتاب الانبیاء) کہ ان میں سے جو جاہلیت میں معزز تھے اسلام میں بھی معزز ہیں بشرطیکہ وہ دین کو سمجھیں اور اس کا فہم رکھیں۔

٭ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے زندگی میں بہت بُرے عمل کئے گنا ہ کر تا رہا۔ مگر وفات سے قبل اپنے بچوں سے کہا کہ مجھے جلا کر میری راکھ سمندروں اور ہواؤں میں بکھیر دینا۔ خدا کے لئے اس کا اکٹھا کرنا مشکل ہوگا۔ اور میں عذاب سے بچ جاؤں گا۔ لیکن خدا نے اس کی راکھ کے ذرات کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ پورے جسم کے ساتھ خدا کے حضور لرزاں ترساں حاضر ہوا، اور ایسا کروانے کی وجہ پوچھنے پر کہا۔ اے خدا! تیری خشیت اور خوف اور کبرائی نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ خدا کو اس کا یہ احساس ندامت پسند آیا اور اسے بخش دیا۔

(حدیقۃ الصالحین ص165-164)

یہ واقعہ بظاہر خدا سے خوف کھانے سے متعلق ہے لیکن نتیجہ خدا کو معزز گرداننے کا نکلتا ہے۔ خدا کو معزز جانا اور خود عزت پائی کیونکہ عزت تو خدا کی لونڈی ہے۔

یہ تو خدا کو اس کا مقام اور درجہ دے کر عزت پانے کا مقام ہے۔ آئیں دیکھیں کہ رسول کریم ﷺ کو معزز جاننے اور ان کو ان کا مقام دینے پر خدا تعالیٰ کا ان خدا کے بندوں سے کیا سلوک ہوتا ہے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ بلند آواز تھے۔ جب لَاتَرفَعُوٓا اَصُوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (الحجرات:3) نبی سے اپنی آواز یں بلند نہ کرنے کی آیت نازل ہوئی تو یہ اس خدشہ سے گھر بیٹھ گئے کہ کہیں میں گنہگار نہ بن جاؤں۔ آنحضور ﷺ نے جب چند دن محفل میں نہ آنے کی وجہ دریافت کرنے کے لیے ان کے گھر صحابہ کو بھیجا تو آپﷺ نے حضرت ثابت ؓ کوبلوا کر یہ خوش خبری سنائی کہ اے ثابت! تو دوزخی نہیں بلکہ جنتی ہے۔

(بخاری کتاب التفسیر)

تاریخ نے بہت سے ایسے واقعات محفوظ کئے ہیں کہ صحابہؓ نے اپنے حسب و نسب کو خیر آباد کہا۔ اللہ کے تمام احکام کے تابع زندگی بسر کی اور آنحضورﷺ کی اطاعت میں ہی اپنی عزت سمجھی۔ یہ ظاہری حسب و نسب صرف پہچان کا ذریعہ رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان آیت 55میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو ایک (گدلے) پانی سے پیدا کیا اور نسب و صہرجان پہچان کا ذریعہ ہیں۔ ان کی کوئی بڑائی نہیں حضرت مصلح موعودؓ نے نسب سے مراد آبائی شجرہ اور صہراً سے مراد سسرالی شجرہ مراد لیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا ایک کامیاب مقصد جماعت احمدیہ میں خاندانوں کی بڑائی ختم کرکے تمام احباب جماعت کو نیکی اور تقویٰ کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا۔ ہمارے اکثر و بیشتر رشتے خاندانوں کی بڑائی سے الگ رہ کر نیکی و تقویٰ پر قائم ہوتے ہیں۔ جونہی رشتے کی کوئی دس پہنچتی ہے فوراً اس لڑکے یا لڑکی کے خاندان کا جماعت سے تعلق، نمازوں اور چندوں کا معیا ردیکھا جاتا ہے۔ پھر ایک اور مقام سورۃ المومنون آیت 102 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب صور پھونکا جائے گا تو کوئی رشتے داری اور حسب نسب کام نہیں دے گا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’اس دن (جس دن صور پھونکا جائے گا) کسی دوسرے کی مدد کام نہیں دے گی۔ بلکہ انسان کے اپنے ہی اعمال اس کے کام آئیں گے۔ اگر نیک اعمال زیادہ ہوئے تو انسان نجات پاجائے گا۔ اگر نیک اعمال کم ہوئے تو وہ گھاٹے میں پڑے گا۔‘‘

(تفیسر کبیر جلد6 ص229)

؎عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

آنحضور ﷺ نے زمانہ جاہلیت سے اسلام میں آنے والوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت و غرور کو ختم کردیا اور باپ دادا کے نام لے کر فخر کرنے سے روک دیا (سنن ابن داؤد 5116)۔ ایسا کرنے پر ایک اور موقع پر ایسے لوگوں پر اللہ، رسول اور فرشتوں کی لعنت دی گئی ہے۔

انبیا کی مخالفت بھی اسی نظریے کو لے کر کی جاتی ہے کہ ہم اس نبی سے بہتر ہیں۔ انبیاء اپنی مخالفت میں حسب و نسب کے طعنہ کی زد میں آتے رہے هیں۔

پاکستان و دیگر بعض مسلم ممالک میں جماعت احمدیہ کو جس مخالفت کا سامنا ہے اس میں حقارت آمیز رویہ شامل ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ سورۃ یٰسٓ آیت 15میں واضح رنگ میں فرماتا ہے کہ انبیاء دراصل قوموں کے لئے تقویت اور عزت کا باعث بنتے ہیں۔ اور تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ (اٰل عمران:27) میں عزت افزائی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ہم جس کو چاہیں عزت دیتے ہیں۔ او ر اس عزت کے حاصل کرنے کے لئے ایک مسلمان کو ہر وقت مستعد رہنا چاہیے۔

الله تعالی هم سب کوحقیقی اور سچی عزت کا حقدار بناۓ رکھے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2021

اگلا پڑھیں

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کی تردید از روئے قرآن