• 2 اگست, 2025

وصیت کا نظام اور جنت کا وعدہ

آجکل سوشل میڈیا پر ایک اعتراض جماعت احمدیہ پر کیا جاتا ہے کہ جماعت میں چندہ کا نظام، اور خاص طور پر وصیت کا نظام صرف ایک کمائی کا ذریعہ ہے۔ اس کے عوض جنت کے وعدے دیئے جاتے ہیں نیز بہشتی مقبرہ میں پیسے دینے کے بغیر کوئی دفن نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ جماعت احمدیہ میں چندہ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے وغیرہ ذالک۔

جہاں تک مالی قربانی کا عمومی تعلق ہے اس کے بارہ میں ایک بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ انبیاء اور مذاہب عالم کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر نبی نے اپنے وقت میں حالات اورضروریات کے مطابق مالی قربانی کی تحریک کی۔ عقلاً اور نقلاً یہی بات درست ہے کہ ایک نبی جو خدا کے مشن کو آگے لے کر چلتا ہے اس نبی کو ماننے والی جماعت کسی نہ کسی رنگ میں اس مشن میں ضرور شامل ہو۔ گو مالی قربانی کی شکل بھی مختلف ہو سکتی ہیں، جیسے مختلف اشیاء، سونا چاندی وغیرہ کے ذریعہ جائیداد یا زمین کے ذریعہ، یا رائج الوقت کرنسی کے ذریعہ مگر تحریک ہر دور اور وقت میں ہوتی رہی ہے۔

نہ صرف یہ بلکہ خدا تعالیٰ یہی تلقین کرتا رہا ہے کہ جو بھی مال یا رزق انسان کو ملتا ہے وہ خدا تعالیٰ ہی دیتا ہے اس لئے اس کے دیئے ہوئے میں سے خوشی سے خرچ کرے اور انعاموں کا وارث بنے۔

مثلا بائیبل میں عہد نامہ قدیم میں لکھا ہے:
اور اَیسا نہ ہو کہ تُو اپنے دِل میں کہنے لگے کہ میری ہی طاقت اور ہاتھ کے زور سے مُجھ کو یہ دَولت نصِیب ہُوئی ہے۔

بلکہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو یاد رکھنا کیونکہ وُہی تُجھ کو دَولت حاصِل کرنے کی قُوّت اِس لِئے دیتا ہے کہ اپنے اُس عہد کو جِس کی قَسم اُس نے تیرے باپ دادا سے کھائی تھی قائِم رکّھے جَیسا آج کے دِن ظاہِر ہے۔

(استثناء باب8 آیت 8)

پھر عہد نامہ جدید میں لکھا ہے:
لیکن بات یہ ہے کہ جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا اور جو بُہت بوتا ہے وہ بُہت کاٹے گا۔

جِس قدر ہر ایک نے اپنے دِل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے نہ دریغ کر کے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خُدا خُوشی سے دینے والے کو عزِیز رکھتا ہے۔

(2 کرنتھیوں باب 9 آیات 6تا7)

یہ بیان قرانی تعلیم کے مطابق ہے کہ جو خدا کی راستہ میں بخوشی دیتا ہے خدا تعالیٰ اسکو بہت بڑھا کر واپس کرتا ہے۔

(البقرہ :266)

اگر چہ یہ تعلیم نئی نہیں، تو محض اسلام احمدیت کے مالی نظام اور چندہ کے نظام پر اعتراض کرنے کی وجہ بغض کے علاوہ اور کوئی معلوم نہیں ہوتی ۔

قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مالی قربانی کا ذکر ملتا ہے، بلکہ اسکو عبادت کے ساتھ رکھا گیا، قرآن کریم کے شروع میں ہی اسکی ذکر ہے کہ:

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ

جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

(البقرہ:4)

اس سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ جس طرح عبادت کا حکم ہے اسی طرح مالی قربانی کا حکم ہے، یا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا بھی درست ہے کہ مالی قربانی بھی ایک عبادت ہے۔ مزید یہ کہ خدا کے ہر حکم پر عمل ہی عبادت ہے۔

اس جگہ یاد رہے کہ آیت میں ذکرہے کہ جو کچھ خدا نے دیا اس میں سے واپس لوٹائے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ہر طاقت اور استعداد، علم یا مال خدا کی طرف سے ہے۔ دوسری بات یہ کہ خدا کی راہ میں قربانی صرف مال سے ہی نہیں ، بلکہ انسان کی ہر استعداد جو کہ خدا نے اسکو دی اس میں سے خرچ کرے۔جہاں تک مال کا تعلق ہے تو انسان اپنی ہر خدا داد استعداد مال کے کمانے میں خرچ کر دیتا ہے۔ اگر اسی مال میں سے وہ خدا کو واپس لوٹائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انسان نے اپنی ساری خدا داد طاقتوں میں سے قربانی کی۔

نیز مالی قربانی کے فوائد کا خدا تعالیٰ ذکر فرماتا ہے، جیسے پہلے اس آیت کا اشارۃ ذکر کیا گیا ہے:

وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ

اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کوثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اُسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے، اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہو۔ اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

(البقرہ :266)

ان آیات کے باوجود اگر کوئی خدا تعالیٰ کی مرضی اور احکامات کو بھلا کر اعتراض کرے تو یہ اعتراض سیدھا خدا تعالیٰ پر پڑتا ہے کہ اسنے یہ حکم کیوں دیا کہ :

وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖ وَ اَحۡسِنُوۡاۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں (اپنے تئیں) ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اور احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

(البقرہ:196)

اس آیت میں خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہےکہ اسکی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو، یعنی خدا کے رستے میں قربانی سے انسان ہلاکت سے بچتا ہے، یہاں مقصد مالی قربانی ہے تو اسکو مدنظر رکھ کر یہ سوا ل پیدا ہو سکتا ہے کہ کونسی ہلاکت؟ روحانی ترقی اورمدارج کے علاوہ اس آیت میں ایک اور بات بھی مضمر ہے جس کی تائید قرآن کریم کی اور آیات سے بھی ہوتی ہےکہ جو بھی مال خدا کی راہ میں خرچ ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے اپنے مشن، لوگوں کی بھلائی، تبلیغ ، تعلیم و تربیت پر خرچ ہوتا ہے، اگر مالی قربانی نہ ہو، تو ان امور میں جو خرچ ہوگا اس کو پورا کرنا نا ممکن ہوگا، اور اگر یہ امور ہوں ہی نہ، اور افراد کی بھلائی کا کوئی کام نہ ہو تو اس کا آخر نتیجہ ہلاکت کے علاوہ اور کیا ہے۔ اس آیت میں نہایت خوبصورتی سےذاتی اور قومی تباہی سے بچنے کا ایک طریق بتا دیا، کہ وہ اسکی راہ میں اموال کا خرچ ہے۔

یہ اعتراض کہ جماعت میں زیادہ چندے پر زور ہے، صرف بغض کی بناء پر ہے۔ اور سوائے ایسے لوگوں کےکہ جن کو مالی قربانی کے ان احکامات یا لطف کا نہیں پتہ، کوئی یہ اعتراض کر نہیں سکتا۔ حماعت احمدیہ میں نہ صرف مالی قربانی، بلکہ اسی طرح دیگر امور کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے، جیسے خداتعالیٰ فرماتا ہے:

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ

تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

(آل عمران:111)

ایک بہتریں امت کا یہ فرض ہے کہ وہ اچھی باتوں کی تلقین کرے اور برائی سے روکے خدا پر ایمان لاتے ہوئے، یا یہ کہیں کہ ایک بہترین امت بننے کے لئے یہ امور ضروری ہیں۔ یعنی خدا کے ہرحکم کی تلقین کرنا ایک بہترین امت کا فرض ہے۔ جہاں مالی قربانی کی تلقین کی جاتی ہے وہاں نماز، روزہ، تلاوت قرآن کریم کی بھی تلقین کی جاتی ہے۔ معترضین کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا وہ بہترین امت کا حصہ ہیں؟ اگر ہیں تو کس بھلائی کاحکم دیتے ہیں، یہ نہ ہو کہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف اعتراض کر کے بھلائی سے روک رہے ہوں اور دوسروں کو بھی قرآن پر عمل کرنے سے روک رہے ہوں۔

یہ بات درست ہے کہ جہاں آیت مذکورہ بالا کے مطابق جماعت احمدیہ میں دیگر امور کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے وہاں مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے۔ جس طرح اس مالی قربانی کی توجہ خدا تعالیٰ نے خود آنحضرت ﷺکو دلائی۔ فرمایا:

خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ

تُو ان کے مالوں میں سے صدقہ قبول کرلیا کر، اس ذریعہ سے تُو اُنہیں پاک کرے گا نیز اُن کا تزکیہ کرے گا۔ اور اُن کے لئے دعا کیا کر یقیناً تیری دعا اُن کے لئے سکینت کا موجب ہوگی اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

(التوبہ:103)

اب سوال یہ ہے کہ کون ہے وہ جو مالی قربانی کے ذریعہ اپنا تزکیہ نہ چاہے، کون ہے جو یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کی ضرورت نہیں؟ اور جس کے لئے ایک نبی، یا اس نبی کا خلیفہ دعا کرے، یقیناً اسکی دعا کے ذریعہ ایسے افراد کا تزکیہ نفس ہوگا اور خدا تعالیٰ بخشش کے سامان پیدا کرے گا۔

جہاں تک بہشتی مقبرہ کا سوال ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والوں کے متعلق یہی قرآنی اصول بیان فرمایا ، بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ:
’’کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے کہ جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغی احکام قرآن میں خرچ ہوگا۔ اور ہر ایک صادق کامل ایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے ۔۔۔۔ ‘‘

پھر ایک شرط یہ بھی تھی کہ:
’’اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہوسچا اور صاف مسلمان ہو۔‘‘

پھر فرمایا:
’’ہر ایک صالح جو اس کی کوئی بھی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد20 صفحہ319و320)

مذکورہ بالا شرائط جو حضرت مسیح موعود ؑ نے درج فرمائیں وہ وہی ہیں جن کے اصول قرآن کریم سے ثابت ہیں۔

اس کی تفصیل میں قرآن کریم کی یہ آیت غور طلب ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ

یقیناً اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں تا کہ اس کے بدلہ میں اُنہیں جنت ملے۔

(التوبہ:111)

خدا تعالیٰ نے جانوں اور اموال کی قربانیوں کے بدلے جنت کا وعدہ کیا،مومنین اور انکی جان کے بدلے سے مراد خداتعالیٰ کے دین کی خاطر قربانیاں کرنے والے، خدا کی ذات میں فنا ہونے والے ایسے لوگ جو اس کےقرب کے متلاشی ہیں، نیز اسکے قرب کے لئے مال قربان کرنے والوں کو یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

اس آیت میں جنت کا وعدہ براہ راست خدا تعالیٰ نے دیا اور جس وجہ سے وعدہ دیا وہ بھی بیان کر دیا گیا۔

ہاں اگر کسی کے پاس مال نہ بھی ہو تو بھی اس مقبرہ میں داخل ہو سکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس نے قربانی کی اور دین کی خاطر زندگی وقف رکھی جیسا کہ شرائط میں ذکر ہے، کیونکہ اصل غرض خدا کی راہ میں قربانی ہے خواہ وہ مال سے ہو یا اپنی جان سے یا اور خداد اد استعدادوں سے۔

ایک اور سوال قابل غور ہے کہ کیا ہر شخص جو اس مقبرہ میں دفن ہو گیا وہ جنتی ہے صرف اس وجہ سے کہ اس میں دفن ہے؟ اس ضمن میں یاد رہے کہ، اس زمین میں دفن ہونا جنتی نہیں بناتا بلکہ جنتی ہی اس میں دفن ہو گا اور کسی ایسے شخص کے متعلق ہی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ جنتی ہے جس نے اپنی ظاہری زندگی اس اصول پر گزاری ہو جیسے فرمایا:

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ

تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

(الانعام:163)

نیز حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:
’’کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیونکر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مطلب نہیں کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کردے گی بلکہ خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد20 صفحہ321 حاشیہ)

(اسفند سلیمان احمدمربی سلسلہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2021