• 30 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کو جذب کرنا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ بڑا سخت انذار ہے۔ خوف کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ہمیشہ دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے پر نظر رکھنی چاہئے۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کو جذب کر سکتے ہیں۔ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم کسی میں برائی دیکھ کر ظاہر نہیں کریں گے تو اصلاح کس طرح ہو گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کسی کی کوئی برائی نظام جماعت کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن رہی ہے یا معاشرے کے ایک طبقہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر خراب کر رہی ہے تو پھر اصلاح کے لئے جو لوگ مقرر ہیں، امیر جماعت ہے، جماعت کے اندر صدر جماعت ہے، ان تک بات پہنچا دیں یا مجھے لکھ دیں تا کہ اصلاح کی طرف توجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ اس کی بنائی ہوئی جماعت کا نظام خراب ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک انفرادی برائی معاشرے کی عام برائی بن جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ننگ ظاہر کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’جو اس بات پر قائم رہتے ہیں اور ضد کرتے ہیں کہ جو گناہ انہوں نے کیا ہے یا غلطیاں کی ہیں ان کو پھیلانا ہے اور ظاہر بھی کرنا ہے یا کرتے چلے جانا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا کہ انسان کے گناہوں اور خطاؤں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے لیکن اپنی صفت کے باعث خطاکاریوں کو اس وقت تک جبتک کہ اعتدال کی حد سے نہ گزر جائے ڈھانپتا ہے۔ پس جب انسان خود ہی اپنے آپ کو ظاہر کر دے اور اعتدال کی حدوں سے باہر نکلنے لگے تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کی صفت بھی کام کرتی ہے۔ اور پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس دنیا میں بھی پکڑتا ہے اور اگلے جہان کی بھی سزا ہے۔

لیکن کسی کی برائی دیکھ کر اس کی تشہیر کرنا اس کو پھیلانا بہرحال منع ہے کیونکہ اس سے برائیاں بجائے ختم ہونے کے پھیلتی ہیں۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تُو لوگوں کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا تو انہیں بگاڑ دے گا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی التجسس حدیث 4888)

کمزوریوں کے پیچھے پڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جگہ جگہ بیان کرنا، تجسّس کر کے ان کی کمزوریوں کی تلاش کرنا۔ اگر انسان اس طرح کرے تو ان لوگوں کو بگاڑے گا اور معاشرے کے امن کو بھی خراب کرے گا اور پھر جب یہ باتیں جگہ جگہ لوگوں میں بیان کی جائیں تو پھر ایسے لوگ جن میں یہ برائیاں ہیں ان میں اصلاح کی بجائے ضد پیدا ہو جاتی ہے اور پھر ضد میں آ کر وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے حلقے کو وسیع کرتے جاتے ہیں۔ حجاب ختم ہو جاتا ہے۔ اور جب حجاب ختم ہو جائے تو اصلاح کا پہلو بھی ختم ہو جاتا ہے۔

پس یہاں مَیں ان لوگوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جن کے سپرد جماعتی کام بھی ہیں خاص طور پر اصلاح کرنے والا شعبہ کہ انتہائی احتیاط سے اور ہمدردی کے جذبات رکھتے ہوئے اصلاح کے کام کریں۔ کبھی کسی بھی فرد کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ میری کمزوری کی فلاں عہدیدار کی وجہ سے پردہ دری ہوئی، تشہیر ہوئی، لوگوں کو پتا لگا۔ اگر یہ احساس پیدا ہو جائے تو پھر اس کا ردّعمل بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جن کے سپرد اصلاح کا یہ کام ہے وہ جہاں لوگوں کی پردہ دری کر کے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لے رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو تمہیں جماعتی خدمت کا موقع دیا تھا اس لئے کہ میری صفات کو زیادہ سے زیادہ اپناؤ۔ لیکن یہاں تو تم میری ستاری کی صفت سے الٹ چل کر بے چینیاں اور فساد پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ ستّاری کو کتنا پسند کرتا ہے اور ستّاری کرنے والے کو کس قدر نوازتا ہے۔

(خطبۂ جمعہ 31؍ مارچ 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2021