• 8 جولائی, 2025

صبر و استقامت اور ہومیو پیتھک طریقہ علاج

1991ء میں خاکسار کو صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس جلسہ میں بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ ایک مجلس عرفان میں خاکسار کے ایک سوال کے جواب میں حضور انوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ آپ ہومیو پیتھک کے ڈاکٹر ہیں۔ ہومیوپیتھک دوائی جو کہ 29 طاقت میں ہوتی ہےاس میں کتنی بھی طاقتور خوردبین لے لیں اس میں کسی قسم کی دوائی کے کوئی اجزا نظر نہیں آتے ۔ مزید فرمایا کہ ہومیوپیتھک دوائی 30طاقت میں کام کرتی ہے، 200 میں کرتی ہے، 1000 میں کام کرتی ہے، دس ہزار اور ایک لاکھ میں بھی کام کرتی ہے۔ یہ سب روحانیت ہی ہے۔ اس میں دوائی کے کوئی اجزاء نہیں ملتے لیکن یہ سب طاقتیں کام کرتی ہیں۔

ہومیوپیتھک ادویات جہاں مریضوں کا جسمانی علاج کرتی ہیں وہاں نفسیاتی طور پر بھی بہت سے مریض کامل شفا پاجاتے ہیں۔ ہیسٹریا، بے صبری، پاگل پن ، بے چینی ، آہیں بھرنا، دوسروں کو قتل کردینے کی خواہش، اپنے آپ کو ہمیشہ ذہنی طور پر بڑا سمجھنا، تکبر پایا جانا اور دوسروں کو حقیر جاننا۔ اس قسم کی بے شمار علامات ایسی ہیں جن کا کسی دوسرے طریقۂ علاج میں کامل شفا موجود نہیں ہے۔ اس قسم کی علامات میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہومیو پیتھک طریقۂ علاج کامل شفا کا دعویٰ کرتی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے۔

اگنیشیا (Ignatia)

غم ، پریشانی اور بے صبری کو دور کرنے کے لئے نہایت اہم دوائی ہے۔ غم چاہے تازہ ہو یا کافی پرانا ، مریض آہیں بھرتا ہے اور از خود لمبی سانسیں لیتا ہے۔ مریض خود محسوس نہیں کرتا لیکن دیکھنے والے اسے محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ اگنیشیا صبر اور حوصلہ کی طرف مائل کرنے کے لئے بہترین دوائی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں فرماتے ہیں :
’’سٹیفی سگیریا کے مریض میں بھی غصہ دبانے کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ لیکن جب صورتحال حد سے بڑھ جائے تو پھر اس سے پیدا ہونے والی گھٹن جسمانی عوارض میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اگنیشیا میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ اگر اس کی مریض عورت کسی مجلس میں جائے اور وہاں کوئی طعنہ دے یا اس کا مذاق اڑایا جائے تو وہ اسے خاموشی سے برداشت کر لے گی اور کوئی جواب نہیں دے گی لیکن گھر واپس آکر شدید سر درد ہوگا اور اعصابی تناؤ اور بے چینی محسوس ہوگی۔ ایسی کیفیت میں اگنیشیا کی ایک خوراک اسے سکینت بخشے گی اور اسے جذبات دبانے کے بداثرات سے محفوظ رکھے گی۔

اگنیشیا میں بچوں یا عزیزوں کی وفات کا صدمہ بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے اور دور رس گہرے بداثرات باقی رہ جاتے ہیں۔ ان سب میں اگنیشیا مفید ثابت ہوسکتی ہے ۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ غم اور صدمہ تازہ ہوں تو یہ بہت مفید ہے اور غم کے باقی رہنے والے بداثرات سے بھی بچاتی ہے۔ ہاں اگر جسمانی عوارض کو پیدا ہوئے دیر ہوجائے تو پھر یہ مفید نہیں رہتی۔ اگر غم کے بداثرات جسم کا حصہ بن چکے ہوں تو ان میں تین دوسری دوائیں یعنی ایمبراگریسیا ، سلیشیا اور نیٹرم میور بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔‘‘

( ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ نمبر 463,464 )

پائیروجینم + سلفر (Pyrogenium + Sulfar)

اسقاط حمل ہوجائے یا مریضہ کی ہسپتال میں کسی وجہ سے رحم کی صفائی کروائی جائے۔ اگر رحم میں کوئی ذرات باقی رہ جائیں تو اس کا بعض اوقات ذہن پر برا اثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے بے چینی ، بے صبری، ہائی بلڈ پریشر، غصہ ، بے سکونی اورکسی سے بات نہ کرنے کے ملے جلے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس ذہنی و نفسیاتی بیماری کی وجہ رحم میں موجود گندے مادے ہوتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد اگر رحم میں گندے مادے رہ جائیں تو اس سے بعض اوقات پرسوتی بخار بھی ہوجاتا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’(پائیروجینم ۔ناقل) خصوصاً پرسوتی کے بخار میں یہ اکسیر اعظم ثابت ہوئی ہے۔ یہ بخار بچے کی پیدائش کے بعد رحم میں گندے مادے رہ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اسے اگر سلفر کے ساتھ ملا کر دیا جائے تو اور بھی بہتر کام کرتی ہے۔ میں نے دونوں کو 200طاقت میں ملا کر دینا بہت موثر پایا ہے۔‘‘

( ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ نمبر 699 )

کریٹیگس (Crateagus)

کریٹیگس دل کی طاقت کے لئے ایک بہترین ٹانک ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اس کے مسلسل استعمال کرنے سے اس میں کوئی منفی اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ دل کی گھبراہٹ ، بے صبری اور بے چینی کے لئے نہایت مفید ثابت ہوئی ہے۔ اس کا استعمال مدر ٹنکچر کی صورت میں زیادہ مفید پایا گیا ہے۔‘‘

خاکسار کی پریکٹس کے دوران حافظ والہ ضلع میانوالی میں میرے کلینک پر ایک مریض آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی حالت غیر ہونی شروع ہوگئی۔ غشی کی حالت اس پر طاری ہوتی محسوس ہوئی۔ خاکسار نے فوراً کریٹیگس مدر ٹنکچر کے پچاس، ساٹھ قطرے ایک گھونٹ پانی میں ڈال کر اس کو پلا دئیے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس دوائی کی بدولت اس کی حالت کچھ دیر کے بعد سنبھلنی شروع ہوگئی اور وہیں کلینک میں بیٹھے ہی اس کی حالت نارمل پر آگئی۔

نیٹرم میور (Natrum Muriaticum)

نیٹرم میور عام کھانے والا نمک ہے جس سے یہ ہومیوپیتھک دوائی تیار کی جاتی ہے ۔ یہ پرانے غم کو دور کرنے کے لئے نہایت مؤثر ہومیوپیتھی دوائی ہے۔ غم جس سے اعصاب متاثر ہوں، ذہنی بے چینی ، پریشانی اور بےصبری بڑھتی ہے، ایسی علامات میں نیٹرم میور بہت ہی مفید دوا ہے۔ غم کے جسم پر بداثرات میں اگنیشیا اور نیٹرم میور کا استعمال فائدہ مند ہے۔ خاکسار کے تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ غم کے بداثرات دور کرنے کے لئے اگنیشیا 30 کی طاقت میں دن میں تین یا چار دفعہ اور نیٹرم میور 200 طاقت میں روزانہ رات کے وقت نہایت مفید ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اگر کوئی بخار لمبا عرصہ پیچھا نہ چھوڑے اور اس کا دماغ پر اثر پڑے تو نیٹرم میور کو آزمانا چاہئے لیکن خاص طور پر غم سے دماغ پر پڑنے والے اثرات میں نیٹرم میور بہترین ثابت ہوئی ہے۔ غم کے ابتدائی مراحل میں فوری طور پر اثر کرنے والی دوائیں اگنیشیا اور ایمبرا گریسیا ہیں۔ اگنیشیا اپنے اثرات کے لحاظ سے نسبتاً سب سے تیز مگر عارضی دوا ہے بار بار دینی پڑتی ہے۔ اگر گہرا غم زندگی کا حصہ بن چکا ہو تو وہ اگنیشیا کے دائرہ سے نکل جاتا ہے۔ ایمبرا گریسیا ایسے مریض میں بہتر کام دکھاتی ہے۔ اس کے بعد نیٹرم میور کی باری آتی ہے ۔ جس کے بارہ میں میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ اس سے پورے پاگل مریض بھی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔‘‘

( ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ نمبر 219-220 )

ایک اور جگہ آپؒ فرماتے ہیں :
’’اگر نیٹرم میور سے غم کے اثرات ٹھیک نہ ہوں اور مرض زیادہ گہرا معلوم ہوا تو پھر سلیشیا نیٹرم میور کی مزمن دوا بنتی ہے۔‘‘

( ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ نمبر 620 )

نکس وامیکا (Nux Vomica)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس دوا کے متعلق فرماتے ہیں:
’’نظام ہضم میں خرابی کی وجہ سے معدہ میں تیزابیت پیدا ہونے لگے تو مریض کا مزاج چڑ چڑا ہوجاتا ہے اور وہ جلد غصہ میں آجاتا ہے۔ ایسے مریض عموماً دبلے پتلے ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں موٹے لوگ بھی معدہ کی تیزابیت کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے لئے کئی اور دوائیں مفید ہیں۔ نکس وامیکا ایسے دبلے پتلے نسبتاً نوکیلے مریضوں کی دوا ہے جو غصیلے اور چڑچڑے ہوتے ہیں۔ ایسے مریضوں کی بعض خاص عادات ہوتی ہیں جو ان کی بیماریوں میں اضافہ کردیتی ہیں ۔ مثلاً رات کو دیر تک جاگنا، لمبے عرصہ تک بیٹھ کر کام کرنا اور مناسب ورزش کا فقدان۔ مغربی تہذیب میں بہت زیادہ شراب کی عادت اور ہماری تہذیب میں مرغن غذاؤں کا کھانا اور چٹخورہ پن کی وجہ سے معدہ جواب دے جاتا ہے اور تیزابیت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ ایسے سب مریضوں میں نکس وامیکا اچھا اثر دکھاتی ہے۔‘‘

( ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ نمبر 638 )

بیلاڈونا(Bella Dona)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس دوا کے متعلق فرماتے ہیں:
’’بیلاڈونا میں دماغی علامتیں ایکونائیٹ کے مقابل پر بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ بیلاڈونا دماغ پر بھی حملہ کرتی ہے اور شدید پاگل پن کا دورہ پڑسکتا ہے۔ بیلاڈونا کا پاگل بہت ہی متشدد پاگل ہوتا ہے ۔ اگر کسی پاگل میں بے انتہا جوش ہو ، کسی کو کرنے یا خودکشی کرنے کی کوشش کرے، غصہ میں تیزی ہو اور سنبھالنے والوں کو بھی مارے تو اسے فوراً بیلاڈونا دینا چاہئے۔ اگر مرض مزمن ہوجائے تو پھر بیلاڈونا کام نہیں کرے گی۔ ہاں کسی کو اچانک پاگل پن کا دورہ پڑے، جیسا کہ بعض بیماریوں میں سرسام کے نتیجہ میں ہوجاتا ہے تو بیلاڈونا فوری اثر دکھا سکتا ہے ۔ اگر مستقل مریض ہو تو سلفر اور سٹرا مونیم وغیرہ مؤثر ہیں۔ بعض پاگل اتنے جوشیلے ہوجاتے ہیں کہ انہیں زنجیروں سے باندھنا پڑتا ہے ۔ یہ خاص بیلاڈونا کی علامت ہے۔‘‘

( ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ نمبر 134)

ایمبراگریسیا (Ambra Grisea)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس دوا کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’ایمبرا گریسیا دبلے پتلے ، زود رنج، چڑچڑے اور جلد غصہ میں آجانے والے بچوں اور بڑوں کی دوا ہے۔ زود حسی اس میں نمایاں علامت ہے ۔ کم عمری میں ہی توازن کھودینے اور چکرانے کا رجحان ملتاہے جیسے بہت بوڑھے لوگوں میں طبعی طور پر یہ عارضہ پایا جاتا ہے۔ لہذایہ دوا معمر مریضوں کی عمومی بیماریوں میں مفید ثابت ہوتی ہے ۔ ایمبرا گریسیا کا مریض عموما ً غم میں ڈوبا رہتا ہے ۔ خواہ کوئی معین غم اس کے ذہن میں نہ بھی ہو۔ یہ ایسے مریضوں کی دوا ہے جو طبعاً اور فطرتاً غمگین ہوں۔ان کا رجحان اندھیرے میں بیٹھے رہنے کی طرف ہو، بات بات پر دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو اور زندگی کی خواہش باقی نہ رہے۔ ہر چیز سے بے زار اور بے پرواہ ہوجائے۔ اگر ان علامتوں کے ساتھ وقت سےپہلے بڑھاپے کی جسمانی علامتیں بھی ظاہر ہوں تو ان کا علاج ایمبراگریسیا ہے۔‘‘

پھر فرماتے ہیں کہ
’’ایمبرا گریسیا میں بڑھاپے کی طبعی علامتیں ہاتھ پاؤں کا سونا، دل دھڑکنا اور اعصاب کا ڈھیلا پن سرعت سے بڑھنے لگتاہے۔ یہ دوا فوری صدمہ کی شدت کو کم کرنے میں کام آتی ہے۔ میں نے کئی بار ایسے مریض خواتین میں استعمال کیا ہےجو جذباتی صدمہ کے پہنچنے کے نتیجہ میں گہرے غم کا شکار ہوگئی تھیں۔عارضی طور پر غم کے صدمہ کے لئے اگنیشیا سے بہتر کوئی اور دوا نہیں ہے۔‘‘

(ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ نمبر 55-56)

کیمومیلا (Chamomilla)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس دوا کے متعلق فرماتے ہیں:
’’یہ بہت حساس اور زود رنج بچوں کی دوا ہے جو بہت ضدی اور غصیلے ہوتے ہیں۔ زرا زرا سی بات پر ان کا پارہ آسمان پر چڑھ جاتا ہے۔ بیمار ہوجائیں تو انہیں سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ جس طرح بھی بہلانے کی کوشش کریں غصہ کم نہیں ہوتا ہے۔ کوئی چیز مانگیں گے لیکن ملنے پر پھینک دیں گے۔ کہیں جانا چاہیں تو وہاں پہنچ کر دھکے دیں گے مجھے کیوں یہاں لائے ہو؟ غصہ کی حالت میں بدتمیز ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیمومیلا کا مریض واقعتاً عام لوگوں کی نسبت تکلیف زیادہ محسوس کرتا ہے۔ اس کی بیماریاں اعصاب اور جذبات سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ بے انتہاء حساس لوگوں کی دوا ہے جو بظاہر بد خلق بھی ہوں لیکن اندرونی طور پر بے حد حساس ہوتے ہیں۔ خاموش رہتے ہیں لیکن معمولی سی بات پر غصہ میں آجاتے ہیں۔ بظاہر بہت خاموش اور سست رو دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو کیمومیلا اونچی طاقت میں فوری فائدہ پہنچاتی ہے۔ ایک تو احساسات اعتدال پر آجاتےہیں۔ دوسرے باقی دواؤں کو کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔‘‘

پھر فرماتےہیں کہ
’’کیمومیلا غیر معمولی حساس مریضوں کی دوا ہے ۔ اس لئے اس میں اعصابی بے چینی سے جھٹکے بھی لگتے ہیں اور عضلات بھی پھڑکتے ہیں ۔ شکنجے پڑنے کا احساس بھی ہوتا ہے اور عضلاتی اور اعصابی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ کیمومیلا میں کافیا ، نکس وامیکا اور اوپیم کی بھی کچھ مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ کافیا اور نکس وامیکا کا مریض بھی کافی زود حس ہوتا ہے۔ اوپیم کا مریض بظاہر بے حس، بے پرواہ اور غنودگی کی سی حالت میں رہتا ہے ۔ لیکن درحقیقت وہ اندرونی طور پر بہت حساس ہوتا ہے۔ اوپیم اگر زہر کے طور پر کام کرے تو مریض کا دماغ سخت مشتعل، بے چین اور بے سکون ہوجاتاہے۔ بڑی مقدار میں دی جائے تو پہلا رد عمل بے ہوشی کی صورت میں اور دوسرا اعصاب میں تناؤ اور خشکی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہےاورکیمومیلا کی بعض علامتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لئے اوپیم مزاج کے بعض مریضوں میں سخت غصہ پایا جاتا ہے۔ الگ تھلگ رہتے ہیں ، تنہائی اور خاموشی کو پسند کرتے ہیں ، ہر چیز انکے اعصاب میں جھنجھناہٹ پیدا کرتی ہے اور وہ بہت زود حس ہوجاتے ہیں۔‘‘

( ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ نمبر 269-270 )

شفاء کا واقعہ

خاکسار حافظ آباد میں اپنے کلینک پر موجود تھا۔ ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ میری بیوی کو ہاتھوں پر فالج ہوگیا ہے۔ اس نے بتایا کہ ابھی ابھی اس کے ہاتھ مڑنے شروع ہوگئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا مریضہ کو کوئی غم تو نہیں پہنچا؟ تو اس نے کہا ہاں ، اس کی والدہ فوت ہوگئی ہیں اور وہ میت کے قریب بیٹھی ہوئی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں سختی آگئی ہے اورفالج کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ خاکسار نے اسے چند خوراکیں اگنیشیا 30 کی بنا کردیں اور کہا کہ اس وقفہ وقفہ سے کھلادیں اور والدہ کی میت سے دور کسی دوسرے کمرے میں بٹھائیں تاکہ وہ آرام کرسکیں۔ شام کو وہی شخص مجھے ملا میں نے مریضہ کی حالت دریافت کی تو کہنے لگاکہ آپ کی دی ہوئی چند خوراکیں دینے سے اس کی فالجی کیفیت ختم ہوگئی ہے اور پھر وہ والدہ کی میت کے قریب بیٹھی ہوئی ہے۔

اللہ کے فضل سے غم کے ابتدائی مراحل میں اگنیشیا غیر معمولی اثر دکھاتی ہے۔ اگر غم پرانا ہوجائے تو اس کے بداثرات ختم کرنے کے لئے اگنیشیا 30 کے ساتھ ساتھ نیٹرم میور 200 بھی استعمال کرنی چاہئے۔

(ڈاکٹر نصیر احمد شریف)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2021