الله تعالى قران پاک میں فرماتا ہے
وَعَدَاللّٰهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَo
(النور:56)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے الله نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لیے ان کے دین کو، جو اس نے ان کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
(اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله تعالىٰ)
حضرت حذیفہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت على منہاج النبوة قائم ہو گی ، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا، پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی اور تب تک رہے گی جب تک الله تعالیٰ چاہے گا۔ جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور تب تک رہے گی جب تک الله تعالىٰ چاہے گا۔ پھر وہ ظلم وستم کے اس دور کو ختم کر دے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی ! یہ فرما کر آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
جہاں ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے آخری زمانے میں خلافت کے قیام کی خوشخبری عطا فرمائی وہیں یہ بھی سمجھا دیا کہ خدا کے اس انعام کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لئے اس کی قدر کرنا اور فرمایا اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اگر اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی بھی دینی پڑے تو دینا مگر خلافت کے ساتھ تعلق نہ توڑنا۔
خلیفہ خدا بناتا ہے
اور اس کے انتخاب میں نقص نہیں ہوتا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ۔
’’صوفیاء نے لکھا کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے۔ جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطر ناک وقت ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر ِنو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔
آنحضرت صلى الله علیہ وسلم نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا۔ اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ ﷺ کو خوب علم تھا کہ الله تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرماوے گا کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں۔ چنانچہ الله تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق انہی کے دل میں ڈالا۔‘‘
(ملفوظات جلد10 صفحہ229)
خلافت کی اطاعت سے باہر ہونے والا
نبی کی اطاعت سے باہر ہو جاتا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ۔
’’بے شک میں نبی نہیں ہوں لیکن میں نبوت کے قدموں پر اور اس کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہر ہوتا ہے …… میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔‘‘
( الفضل 4 ستمبر 1937ء)
خلیفہ اپنے زمانے میں
سب لوگوں سے افضل ہوتا ہے
حضرت مصلح موعود رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ۔
’’ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت کا جو خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ میں جماعت کے تمام لوگوں سے افضل ہوتا ہے اور چونکہ ہماری جماعت ہمارے عقیدہ کی رو سے باقی تمام جماعتوں سے افضل ہے اس لیے ساری دنیا میں سے افضل جماعت میں سے ایک شخص جب سب سے افضل ہو گا تو موجودہ لوگوں کے لحاظ سے یقیناً اسے ’بعد از خدا بزرگ توئی‘ کہہ سکتےہیں۔‘‘
(الفضل 27 اگست 1937ء صفحہ6)
خدا تعالیٰ کے منتخب خلیفہ کوکوئی معزول نہیں کر سکتا
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ۔
’’خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں۔ تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے، نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے۔ میں جب مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا۔ تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو۔ مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔ اگر تم زیاده زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو
تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے۔‘‘
(اخبار بدر 11جولائی 1912ء۔ جلد12 نمبر2 صفحہ4)
خلیفہ کی دعا ہی سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضى الله تعالیٰ فرماتے ہیں: ۔
’’الله تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے …… میں جو دعا کروں گا وه ان شاء الله فرداً فرداً ہر شخص کی دعا سے زیادہ طاقت رکھے گی۔‘‘
( منصبِ خلافت صفحہ32)
خلافت سے چمٹنے میں ہی بقا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ۔
’’آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل الله کے ساتھ ہو۔ قران تمہارا دستور العمل ہو، باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فيضان الہٰی کو روکتا ہے۔ موسی علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی طرح نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول الله صلى الله عليہ وسلم کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے اس لیے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مرده ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کروجیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں، استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو، وحدت کو ہاتھ سے نہ دو، دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو ۔ تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آ سکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے۔ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيْدَنَّكُمْ ليکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيْدٌ۔ (ابراہیم:8)۔‘‘
(الحكم 24 جنوری 1903ء جلد7 نمبر3 صفحہ15)
تمام ترقیات خلافت سے وابستگی میں ہی ہیں
حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ۔
’’پس تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا، وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہو گا لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کر سکے گی اور تمہارے مقابل میں بالکل ناکام و نامراد رہے گی جیسا کہ مشہور ہے اسفند یار ایسا تھا کہ اس پر تیر اثر نہ کرتا تھا۔ تمہارے لئے ایسی حالت خلافت کی وجہ سے پیدا ہوسکتی ہے۔ جب تک تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت تم پر اثر نہ کرسکے گی بیشک افراد مریں گے، مشکلات آئیں گی، تکالیف پہنچیں گی مگر جماعت کبھی تباہ نہ ہو گی بلکہ دن بہ دن بڑھے گی اور اس وقت تم میں سے کسی کا دشمنوں کے ہاتھوں مرنا ایسا ہو گا جیسا کہ مشہور ہے کہ اگرایک دیو کٹتا ہے تو ہزاروں پیدا ہو جاتے ہیں ۔تم میں سے اگر ایک مارا جائے گا تو اس کی بجائے ہزاروں اس کے خون کے قطروں سے پیدا ہو جائیں گے۔‘‘
(حقائق القران مجموعۃ القرآن حضرت مرزا بشیر الدين محمود احمد رضی الله عنہ)
( سورة النور زیر آیت استخلاف صفحہ73)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده الله تعالی بنصرہ العزیز نے یومِ خلافت کے حوالے سے جماعت احمدیہ راولپنڈی کے نام پیغام میں فرمایا:۔
’’آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دے اور اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھے اور یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھے کہ اس کی ساری ترقیات اور کامیابیوں کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی ہے۔ وہی شخص سلسلہ کا مفید وجود بن سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواه دنیا بھر کے علوم جانتا ہو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں۔ جب تک آپ کی عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت رہیں گی اور آپ اپنے امام کے پیچھے پیچھے اس کے اشاروں پر چلتے رہیں گے الله تعالیٰ کی مدد اور نصرت آپ کو حاصل رہے گی۔‘‘
(روزنامہ الفضل 30مئی 2003ء صفحہ2)
خلیفہ وقت کی سکیم کے سوا اور کوئی سکیم
قابلِ عمل نہیں ہونی چاہیے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز اور وہی تدبير مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 31جنوری 1937ء)
انسانی عقلیں اور تدبیریں
خلافت کے تحت ہی کامیابی کی راہ دکھا سکتی ہیں
حضرت مصلح موعود رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:۔
’’میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ تم کتنے ہی عقلمند اور مدبر ہو اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو ہرگز الله تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کر سکتے ۔ پس اگر تم خدا تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یاد رکھو اس کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا بیٹھنا، کھڑا ہونا اور چلنا اور تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو۔
(الفضل 4 ستمبر 1937ء)
آخر پر صد سالہ خلافت جوبلی 2008ء کے موقعہ پر ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده الله تعالىٰ بنصره العزیز نے جو عہد ہم سے لیا تھا اس کو پیش کرتا ہوں۔
اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر ہم الله تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول الله صلى الله عليہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کے لیے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول صلى الله عليہ وسلم کے لیے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے۔ ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخری دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے ۔ اے خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اللّٰهم آمين، اللّٰهم آمين، اللّٰهم آمين
(مقصود احمد بھٹی۔قادیان)