• 27 اپریل, 2024

خلافت کا ٹھنڈا میٹھا سایہ!

خدا تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو زندگی بھر خلافت کا ٹھنڈا میٹھا سایہ میسر رہا ہے ۔ بہت بچپن میں کسی بھی تعلیم ، پڑھائی کے آ غاز سے قبل میرے بزرگ والدین نے یہ احسان کیا کہ ’’بسم اللہ‘‘ کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس دن حضور نے ایک خاتون کی بیعت بھی لینی تھی بسم اللہ ایسے ہوئی کہ حضور نے پہلے سمجھایا کہ جو وہ پڑھیں میں اسے دہراتا جاؤں پھر آپ سورہ فاتحہ کی ایک ایک آیت پڑھتے اور خاکسار اسے دہراتا آپ نے دعا بھی کی اور کروائی۔ یہ عظیم سعادت میری زندگی کا سر مایہ ہے ۔اس کے بعد بیعت کا سلسلہ شروع ہؤا تو جو الفاظ حضور نے بیعت لینے کے لئے ارشاد فرمائے میں نے بھی دہرائے۔ آپ نے فرمایا۔ میاں بس بیعت میں اکیلا ہی لے لوں گا۔ یہ بات بھی یادگار ہو گئی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان گنت روح پرور ایمان افروز باتیں ہیں جو یادوں کا قیمتی خزانہ ہے بطور نمونہ ایک خوش نصیب لمحے کا تا ثرپیش کرتا ہوں :۔
خاکسار جامعہ احمدیہ کے شاہد کے امتحان سے فارغ ہو چکا تھا۔ حضور کے ارشاد کے مطابق ’’تبویب مسند احمد بن جنبلؒ‘‘ کا کام تیزی سے جاری تھا۔ ایک دن ہم سب ساتھی مل کر کام کر رہے تھے کہ محترم مولانا ابو المنیر نور الحق صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے باہر دروازے میں کھڑے کھڑے خاکسار کا نام لےکر پوچھا کہ عبد الباسط موجود ہیں؟ خاکسار اُٹھ کر سامنے ہوا تو فرمانے لگے کہ میرے ساتھ چلیں آپ کو حضور نے یاد فرمایا ہے۔ میرے جیسے نالائق اور ناکارہ کو حضور نے یاد فر مایا ہے۔ راستہ میں استاد محترم سے بار بار پوچھا کہ کیا بات ہے کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے مگر محترم یہی جواب دیتے رہے کہ حضور ہی آپ کو بتائیں گے۔ میرا یہ حال تھا کہ گھبراہٹ اور پریشانی کی وجہ سے پسینہ چھوٹ رہا تھا۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں مولانا نے کاغذ کے ایک چھوٹے سے پرزے پر میرا نام لکھ کر بھیجا۔ فوراً ہی حضور کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ محترم مولٰنا صاحب کے ہمراہ سیڑیاں چڑھ کر خاکسار حضور کی نشست گاہ میں پہنچا۔ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو حضور اسی وقت کمرہ میں تشریف لائے تھے اور ابھی کھڑے ہی تھے ۔ حضور نے ایک لمبا سا جبّہ نما کوٹ جسے غالباً ً فَرغل کہتے ہیں پہنا ہوا تھا، آپ نے میری طرف ایک پیار بھری نظر دیکھا جس سے ساری پریشانی ختم ہو گئی ۔ حضور کی شخصیت کےرعب اور شفقت نے مل کرعجیب کیفیت پیدا کی۔

حضور نے میری تعلیم کے متعلق بعض سوال کئے ۔ پھر فر مایا کہ ’’تبویب‘‘ اور اس سلسلہ میں تمام کاموں کو آپ خود اچھی طرح سمجھیں بعض دفعہ کسی کام کے لئے ضرورت پڑے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کام کا جاننے والا ہمارے پاس کوئی نہیں ہے۔ حضور کا پیغام محترم مولوی صاحب نے دفتر میں پہنچایا اس کے بعد دفتری اور انتظامی امور کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا مگر میرے لئے تو یہ پیار بھری ملاقات سر مایہ حیات بن گئی، فالحمد للہ

خلافت ثانیہ اور خلافت رابعہ میں بھی اللہ کے فضل سے خدمت کے مواقع ملتےرہےتا ہم بطور اختصار اس دور سعادت کا کچھ ذکر کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اب متمتع فرمایا ہے۔

خاکسار کو ربوہ میں دارالقضاء میں بطور قاضی خدمت کا موقع ملا ۔ کچھ عرصہ کے بعد پتہ چلا کہ محترم مرزا مسرور احمد بھی قاضی مقرر ہو گئے ہیں ’’مرافعہِ اولیٰ‘‘ یعنی اپیل کے بعد بعض مقدمات خاکسار اور حضرت میاں صاحب کو مِل کر سننے کا اتفاق ہوا۔ حضرت میاں صاحب کی معاملہ فہمی اور اصابتِ رائے کا خوب پتہ چلتا تھا۔ پھر آپ سے یہاں لندن میں شرف ملاقات حاصل ہوا حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ نے پہلا فقرہ یہی فرمایا کہ آپ نے ربوہ والا کام سنبھالا ہوا ہے (خاکسار اُن دنوں ناظم دارالقضاء تھا)۔ اس کے بعد آپ کے احسانات کا سلسلہ شروع ہوا جو برابر جاری ہے ۔حضور کی طرف سے شیروانی اور عربی چغہ کی نعمت غیر مُتر قبہ حاصل ہوئی ۔

ایک دن حضور نے میرے بیٹے سے دریافت فر مایا کہ آج کل آپ رات کی ڈیوٹی کر رہے ہیں؟ اس کے نفی میں جواب دینے پر حضور نے فرمایا کہ آپ کے ابو تو نماز فجر کے لئے عادل صاحب کے ساتھ آتے ہیں۔ عادل صاحب ایک مخلص نوجوان ہیں جو میری رہائش گاہ سے تھوڑے فاصلہ پر رہتے تھے اور صبح کی نماز میں باقاعدگی سے جاتے تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ اگر آپ گھر سے نکلتے وقت فون کی ایک گھنٹی کر دیا کریں تو میں نماز کیلئے تیار سڑک کے کنارے آپ کو ملوں گا۔ خدا تعالیٰ اُن کو جزائے خیر عطا فر مائے وہ لمبا عرصہ جب تک لندن میں رہے بخوشی یہ کام کرتے رہے۔ حضور نے اُن کے ساتھ نماز کیلئے جانے کا جس طرح سے ذکر فر مایا وہ ہمارے لئے خوشی کا باعث تو ضرور تھا مگر ہم دونوں یہ بھی سوچتے رہے کہ حضور کو اس بات کا کیسے علم ہوا تھا۔

ایک دفعہ خاکسار اپنی صحت کے متعلق ڈاکٹر کی رپورٹ کی وجہ سے کچھ متفکر تھا ۔ حضور ایدہ اللہ سے ملاقات کیلئے حاضر ہوا اور ڈاکٹری رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کی۔ حضور نے بڑی توجہ سے اسے دیکھا۔ بعض سوالات پوچھے اور پھر ایک دواتجویز فر مائی اور دوا کا نام لینے کے بعد فر مایا کہ ’’یاد رہے گا‘‘ خاکسار نے عرض کیا کہ آپ لکھ دیں تو میرے پاس بطور تبرک رہے گا۔ حضور نے نہ صرف دوائی کانام لکھا بلکہ ڈاکٹر حفیظ صاحب کو توجہ سے دوائی دینے کا ارشاد بھی فر مایا۔ اس جگہ اس احسان کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد حضور نے متعدد مرتبہ خالص شہد (جو قادیان سے آیا ہوا تھا) اور عجوہ کھجور بھی عطا فر مائیں۔ گویا ایک بیمار کو دوا کے ساتھ ساتھ مفید غذا بھی عطا فر مائی اور دعا بھی۔

خاکسار کی اہلیہ محمودہ کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی تو ہم نے حضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا پیارے حضور نے دعائیں کیں دلجوئی فرمائی اور باوجود جلسہ سالانہ کی مصروفیات کے خیریت دریافت فرماتے رہے الحمدللہ رب العالمین۔ اسی بیماری کے تعلق سے ایک اور بات یاد آگئی۔ پریشانی کا اثر میری طبیعت پر محسوس کرکے میری ایک چھوٹی بہن نے حضور کی خدمت میں میرے لئے بھی دعا کا خط لکھ دیا۔ حضور نے اسے جواب میں لکھا فکر نہ کریں وہ مسجد فضل میں درس دیتے ہیں آواز بڑی زور دار ہوتی ہے ٹھیک ہیں۔ اور ساتھ بہت ساری دعائیں دیں۔ یہ دعائیں ہی خلافت کا ثمر اور ہماری زندگی کا سامان اور سرمایہ ہیں۔ اللھم اید امامنا بروح القدس ۔

خدا تعالیٰ نے ہمیں خلافت کا انعام عطا فرمایا ہے ہمارے مخالف کئی دفعہ اپنے تمام ذرائع اور جتھوں کے زعم میں اس انعام کے حصول کیلئے خلافت کے قیام کے لئے نا کام کو شش کر چکے ہیں۔ مگر خلافت تو خدا ہی کی عطا ہے جو انسانی کوششوں اور خواہشوں سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔

یہاں قدرت وہاں در ماندگی فرق نمایاں ہے

(عبد الباسط شاہد مربی سلسلہ۔ یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2021