پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الودود کی احباب جماعت سے محبت ۔ دعا کی قبولیت اور محیر العقول یادداشت کا ایک دلچسپ واقعہ
جلسہ سالانہ یوکے 2007ء منعقدہ حدیقۃ المہدی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگیا۔ ہم بھی ان خوش نصیبیوں میں شامل تھے جو اس یاد گار جلسے میں شامل ہوئے۔اس جلسے پر ایک ایسا واقعہ ہوا جس کا سرور زندگی بھر تازہ رہے گا۔ ہم حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کی اپنے احباب سے یک جہتی اور قبولیتِ دعا کے ایک واقعہ کے گواہ بنے۔ خلیفہء وقت سے جڑے ایسے حسین واقعات ازدیاد ایمان کا ذریعہ ہوتے ہیں اظہار تشکر کے ساتھ کچھ روداد پیش کرتی ہوں۔ جسے آخر تک پڑھئے آپ کو پیارے حضور کی سحر انگیز یادداشت کا ایک واقعہ ملے گا۔
جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا شوق ہم احمدیوں کی فطرت میں شامل ہوگیا ہے۔ جلسہ کا موسم آتا ہے تو احمدی حضرات غول در غول موسمی پرندوں کی طرح اُڑان بھرتے ہیں۔ قوت پرواز رکھنے والے ہوں یا پرشکستہ پیچھے رہنے والے، سب کا دھیان جلسے میں لگا رہتا ہے۔ ایم ٹی اے کے توسط سے جلسہ دیکھنے کا انتظام ہونے کی وجہ سے بہت سے شائقین کی حسرتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ حدیقۃ المہدی میں پہلا جلسہ جو 2006ء میں ہوا تھا تو ایم ٹی اے پر دیکھا تھا۔ بے حد دلفریب نظارے تھے وسیع حسین سبزہ زار قدرت کا شاہکار نظر آتا تھا۔ اپنی چیزوں سے یوں بھی جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔ سارا سال انتظار کے بعد 2007ء کے جلسے میں شمولیت کے لئے ناصر صاحب اور خاکسار جلسہ سے دو ہفتے پہلے ہی لندن پہنچ گئے۔ ہماری بیٹی امۃ الصبور عمر خان کا گھرمسجد بیت الفتوح کے قریب ہے اس لیے لندن پہنچتے ہی نمازوں میں حاضرہونے اور جلسہ سالانہ کے انتظامات کی گہما گہمی قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ گہماگہمی میں بتدریج اضافہ جذبات میں تموّج پیدا کرنے لگی۔ مسجد کے وسیع ہالوں میں مہمانوں کے بستر لگے دیکھ کر پھر ڈائننگ ہال اور ٹوائلٹس کا جدید انتظام دیکھ کر ربوہ کا جلسہ بہت یاد آیا ۔ وہاں کی قیام گاہوں کا منظر اور یہاں جدید طریق دیکھ کر دل سے ان بزرگوں کے لیے دعائیں نکلیں جن کے تجربات اور دعاؤں نے خوب سے خوب تر اور ترقی کی راہیں کھولیں۔ ایسی روایات قائم اور مستحکم ہوئیں جن سے دنیا بھر کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے مہمانوں کو عمدگی، وقار اور عزت سے ٹھہرانے کا انتظام ممکن ہوا۔ ہم نے گھر میں مہمانوں کے لئے کچھ زائد کھانے بنالیے ۔ جلسے کے دنوں میں آنے جانے کے وقت کا ایک ایک گھنٹہ رکھ لیں تو گھر آکر کام کا وقت نہیں ہوتا اس لیے ہر طرح تیاری کر لی۔ وفور شوق کا اصرار تھا کہ وقت جلدی گزر جائے اور جلسہ شروع ہو۔ سکھیوں سہیلیوں سے معلوم ہورہا تھا کہ بہت سی شخصیتیں جنہیں دیکھنے ملنے کی تمنا تھی جلسے پر آرہی ہیں۔ جلسے پر سب سے ملاقات کا تصور ہی خوش کر رہا تھا۔ ایک دن بیت الفتوح میں اعلان ہو رہا تھا کہ حدیقۃ المہدی کےلیے خصوصی بسوں کا انتظام کیا جارہا ہے ہم نے اس اعلان کو سرسری سا سُنا کیونکہ ہمیں ہر سال جلسے پرعُمر لے جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جزائے کثیر سے نوازے۔ اس دفعہ بھی یہی اطمِنان تھا مگر اچانک اس نے یہ بتایا کہ اسے جلسے کے پہلے دن کے لیے چھٹی نہیں ملی ہے۔ تو کیا ہم جمعہ کو جلسہ پر نہ جا سکیں گے؟ یہ تصور ہی دردناک تھا۔ اور کسی صورت قابل قبول نہ تھا۔ اپنے پاس ایک ہی حربہ ہے خوب دعا کی کہ عمر کو چھٹی مل جائے ناصر صاحب نے سمجھایا کہ ایم ٹی اے پر دیکھ لیں گے مگر دل نہ مانا۔ اسی سوچ بچار میں بیت الفتوح والا اعلان یاد آیا۔ اپنے بھتیجے رشید احمد سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا کہ اس انتظام کے تحت جانا آپ کے لیے مشکل ہوگا خود ا س کی وین میں دو افراد کی جگہ بن سکتی تھی۔ صبور اور خاکسار اس کے ساتھ جا سکتے تھے۔ مگر یہ پروگرام کچھ مناسب نہ لگا کہ عمر ڈیوٹی پر، ناصر صاحب اور بچے گھر پر اور ہم جلسے میں۔ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کریں تو کیا کریں اتنے میں اللہ کے کرم سے عمر کو اپنے باس کا ٹیکسٹ ملا آپ چھٹی کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے نئے حوصلے سے صبح صبح جلسے کے لیے جانے کی تیاری ہونے لگی۔ جلسہ گاہ میں بارش کا سن رہے تھے اس لیے اپنے جوڑوں کے ہم رنگ سینڈلیں الماری میں رکھ کر سردیوں کے شوز نکال لیے۔ گھر سے حدیقۃ المہدی تک کا سفر اپنے نواسوں ثمر، نصر کو جلسہ سالانہ کی اہمیت، ثمرات ، برکات اور روایات کے بارے میں بتاتی رہی۔ جلسہ گاہ قریب آئی تو سڑک پر راہ نمائی کے لیے لگے ہوئے بورڈز اور ڈیوٹی پر کھڑے خدام کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ان کے لیے دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھے تو ایک خادم نے گاڑی کا رخ پارکنگ ایریا کی طرف موڑنے کا اشارہ کیا۔ یہ ایک وسیع و عریض پار کنگ لاٹ تھی جو جلسہ کے مہمانوں کی گاڑیوں کے لیے کرایہ پر لی گئی تھی۔ گاڑی کھڑی کی تو ایک خادم نے ہدایت دی کہ آپ قطاروں میں کھڑے ہوجائیں جلسہ گاہ پندرہ میل کی مسافت پرہے شٹل سروس آپ کو جلسہ گاہ لے جائے گی اور واپسی پر پھر اس پارکنگ ایریا میں لے آئے گی۔ ہم قطار میں کھڑے ہوگئے ہم سے آگے بھی لمبی قطار تھی اور پیچھے تو دور تک بنتی چلی گئی۔ کافی وقت گزرنے پر ایک انگریز پولیس والے نے ہمیں سمجھایا کہ کچھ مسائل ہوگئے ہیں آپ صبر سے کام لیں۔ بہت جلد بسوں کا انتظام ہوجائے گا۔ ناکافی بسوں اور جوق در جوق آنے والے ریلے کو دیکھ کر اسے تشویش ہوئی ہوگی کہ کوئی بدمزگی نہ ہو۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ہم صبر اور نظم و ضبط کے تربیت یافتہ ہیں اطاعت کرنا جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکلیفوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ تاہم اس کے صبر کی تلقین سے یہ اندازہ ہوگیا کہ صبر کی غیر معمولی مقدار درکار ہوگی ۔ خدا خدا کر کے ایک بس آئی ڈیوٹی والے خادم یہ اعلان کرتے رہ گئے کہ پہلے ضعیف لوگ اور بچوں والی خواتین بیٹھ جائیں مگر اس پر عمل نہ ہو سکا۔ بس کے اندر ایک سیٹ پر ایک خاتون کو بیٹھنے کی اجازت تھی اور کوئی کھڑی نہ ہو سکتی تھی ۔اس پابندی پر کراچی کی بسیں یاد آئیں جن کی سیٹوں پر سواریوں کی گودوں میں بھی سواریاں بیٹھ سکتی ہیں اور جتنے چاہیں کھڑے ہو جائیں، یہی نہیں، چھت پر اور دروازوں سے لٹک کر بھی سفر کر سکتے ہیں آزاد ملک ہے آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بس چلی تو ہم نے پیچھے لگی لمبی قطاروں پر فاتحانہ نظر ڈالی۔ اب ہماری منزل حدیقۃالمہدی تھا ہماری بس پُر پیچ الف لیلوی گلیوں کےکچے پکے راستوں پر بڑی شان دلربائی سے رینگنے لگی۔
بس میں موجود خادم جو ٹریفک کے کوئی ذمہ دار عہدے دار تھے بیک وقت رواں انگلش اور ٹھیٹھ پنجابی میں احکامات صادر کر رہے تھے۔ بہت وقت لگا پھر بس نے ہمیںایک وسیع کیچڑ زار میں یہ کہہ کر اُتار دیا
’’یہاں صبر کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘
ہم حدیقۃالمہدی پہنچ گئے تھے ۔سرسبز درخت ،ابرآلود آسمان اور بڑی بڑی مارکیز نظر آرہی تھیں ۔مگر مارکیز تک پہنچیں کیسے؟ ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا ۔رجسٹریشن کاؤنٹرز پر خواتین مستعدی سے کام میں مصروف تھیں۔ کارکنات نے لمبے لمبے بوٹ پہن رکھے تھے وہیں یہ علم ہوا کہ ان کو ولنگٹن کہتے ہیں (وجہ تسمیہ پر غور نہیں کیا) باقی خواتین اپنے معمول کے جوتوں میں چَھپ چَھپ کیچڑ میں چلتے ہوئے سب کام کر رہی تھیں ۔کیچڑ سے بچانے اور راستہ بنانے کے لیے پلاسٹک اور ربڑ کے میٹس سے جو پگڈنڈیاں بنائی گئی تھیں وہ بھی کیچڑ میں ڈوب گئی تھیں۔ کئی جگہ توازن قائم رکھنا مشکل ہوگیا تو صبور کا ہاتھ پکڑا ۔اس کا بھی میرے والا ہی حال تھا ہاتھ زور سے پکڑ لیا
’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘
کئی جگہ چپلیں اور سینڈلیں کیچڑ میں لاوارث پڑی نظر آئیں یقینًاان کو ساتھ لے کر چلنا اتنا مشکل ہو گیاہو گاکہ تعلق توڑنا بہتر لگا ہوگا۔ ایک خاتون اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی یہ اپنا تھیلا سنبھالو میں گر گئی تو کہو گی میری شال گندی کر دی ہے
’’تھیلے کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلی میں‘‘
اور اس کے ساتھ ہی وہ پھسل گئیں مگر بیٹی کی شال بچ گئی۔
اس دن ایک اور نئی چیز کاتعارف ہوا وہ رکشے نما ایک گاڑی تھی جسے بگھی کہا جا رہا تھا اسے لڑکیاں چلا رہی تھیں اور جہاں کوئی عمر رسیدہ یا مشکل سے چلتی ہوئی خاتون نظرآتیں وہ اسے بگھی میں بٹھا لیتیں۔ اور منزل پر پہنچا دیتیں۔ عام حالات میں تو کوئی خاتون کم ہی یہ تسلیم کرتی ہے کہ عمر زیادہ ہوگئی مگر اس دن تو یہ حال تھا کہ کم عمر بھی یہ سوچ رہی تھیں کہ کاش ہم اس میں بیٹھ سکتے۔زیادہ مشکل میں پُش چیئر والی مائیں تھیں بچوں کے ساتھ ان کے بیگ اور پرس وغیرہ سنبھال کر چلنا مشکل ہو رہا تھا۔جوں توں جلسہ کی مارکی تک پہنچے یہاں یہ اچھا انتظام تھا کہ جوتوں کے لیے پولیتھین کے بیگ تھما دیے گئے۔ جلسہ گاہ پر نظر پڑتے ہی دل خوش ہو گیا اسی منظر کے لیے تو آنکھیں ترستی تھیں شناسا مسکراتے چہرے، کھلی باہیں، السلام علیکم کے تحفے سب کچھ موجود تھا۔ فوراً ہی اذان ہوگئی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی روح پرور امامت میں نماز جمعہ ادا کی اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ وقفہ ہوا تو زوروں کی بھوک لگ چکی تھی۔ کھانے کی مارکی کچھ فاصلے پر تھی اور حال وہی تھا۔
؎اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے لنگر خانہ کی دال روٹی کی خوشبو آرہی تھی۔ یہ کھانا ساری عمر بڑے شوق سے کھایا ہے مگر کیچڑ میں کھڑے ہو کر پہلی دفعہ کھایا آنے جانے والی خواتین کے جوتوں سے اُڑنے والا کیچڑ کپڑوں کے نقش ونگار میں اضافہ کر رہا تھا۔ اس کے بعد ہاتھ دھونے گئے تو دیکھا کہ واش بیسن مٹی سے بھرے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ خواتین نے ان میں جوتے دھوئے ہیں۔ ہم نے لاہور اور فیصل آباد میں بارش کے بعد کے مناظر دیکھے ہوئے ہیں اس لیے یہ غنیمت لگا کہ یہ کیچڑ کالا اور بدبو دار نہ تھا بلکہ اپنے حدیقہ کی مٹی تھی۔ ہم خوش نصیب تھے کہ اس مٹی میں لت پت تھے۔
جلسہ کی کاروائی کے بعد یہ طے تھا کہ ہم بس سٹینڈ پر آجائیں ناصر صاحب، عمر اور بچے بھی وہیں ملیں گے۔ چلتے چلتے ایک نظر سٹالز پر ڈالی سامان تو چمک رہا تھا مگر اس کو خریدنے والے یہاں پہنچ نہ سکتے تھے۔ پتہ نہیں خاطر خواہ خریدوفروخت بھی ہوئی ہوگی یا نہیں۔ راستے میں گرتے پڑتے بہت سی خواتین سے ملاقات ہوئی بس سٹاپ پر بھی ایک جم غفیر تھا۔ بسیں بھی کافی تھیں انتظامیہ مصروف عمل تھی یہاں بھی خواتین کو پہلے سوار کرنے کا انتظام تھا۔ جلدی ہی ایک بس میں صبور کا ہاتھ پکڑے سوار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ خیال تھا کہ ہم پارکنگ لاٹ میں پہلے پہنچ کر اپنی گاڑی تلاش کریں گے اتنے میں مرد حضرات بھی آجائیں گے مگر بعد کے واقعات ان توقعات سے بہت مختلف تھے۔ ایک غلطی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑایہ ہوئی کہ گاڑی کی چابی لینے کا خیال نہ آیا۔ اگر ہمارے پاس چابی ہوتی تو ہم گاڑی کھول کر بیٹھ جاتے مگر اب تو غلطی ہو چکی تھی۔ اب سنئے پارکنگ لاٹ میں کیا گزری۔ گاڑی کے پاس کھڑے کھڑے بارش شروع ہو گئی بھیگنے لگے تو درختوں کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ آہستہ آہستہ بارش تیز ہو گئی۔ بچپن میں بارش میں نہانے کا بڑامزا آتا تھا مگرپکی عمر میں پھر لندن کی ہلکی ہلکی خنکی میں بارش میں بھیگنے کا تجربہ بالکل اچھا نہیں تھا ۔نظریں اس طرف لگی ہوئی تھیں جہاں بسوں کو رُک کر سواریوں کو اتارا جاتا تھا ۔کئی گھنٹے گزر گئے ۔کھڑے کھڑے بھیگتے بھیگتے تھک گئے۔ شام کا ملگجی اندھیرا گہرا ہونے لگا۔ رات نے اپنی زلفیں کھول دیں۔ بھیگے موسم میں پیا کا انتظار، انتظار، انتظار یہ سب باتیں شاعری میں اچھی لگتی ہیں مگر ہوتی بہت دشوار ہیں۔ رابطہ کرنے کے لیے فون کرتے تو جواب میں ٹیپ چلتی کہ لائینیں مصروف ہیں۔ساری پارکنگ لاٹ میں کبھی کبھار کوئی نظر آتا۔ وہاں روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا اور وہ جو ایک مشغلہ تھا کہ بس کھڑی ہو تو اپنا جیون ساتھی تلاش کریں وہ بھی ہاتھ سے گیا۔ناصر صاحب کے لیے اس قدر بے چینی سے انتظارکرنے کا اتفاق کم ہی ہوا تھا وہ بھی دیکھ لیتے تو خوش ہوتے۔ ہمیں یہ بھی خبر نہ تھی کہ دیر ہونے کی وجہ کیا ہے، خیر تو ہے؟ وہاں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا ۔بارش نے برقع اور لباس کی حدوں کو پھلانگ لیا تو ہلکی سی کپکپی مسلسل ساتھ لگ گئی ۔چاند تارے بادلوں کی اوٹ میں بے بس تھے۔ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ٹیکسٹ میسج ملنے لگے ۔پتہ چلا کہ ادھر بھی وہی حال ہے۔ بسوں کی کمی کی وجہ سے باری باری سوار کروا رہے ہیں۔میں نے اپنے بھتیجے رشید کو پوچھا کہ آپ کہاں ہیں اس نے بتایا کہ گرم کمرے میں ایم ٹی اے لگا کر سارا منظر دیکھ رہے ہیں اور کھانا کھا رہے ہیں اور یہ کہ وہ جلسہ گاہ پہنچ ہی نہیں سکے تھے۔ پارکنگ لاٹ تک پہنچنے میں اتنا وقت لگ گیا تھا کہ وہ وہاں سے واپسی پر گاڑی نکالنے کا حشر سوچ کر واپس چلا گیا تھا۔ میں نے اس بات کا شکر کیا کہ اس کا مشورہ مان کر بیت الفتوح والی بسوں میں نہیں آئی اور اس پر بھی کہ اس کے ساتھ نہیں آئی پھر اتنا جلسہ بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔ اس کے کھانا کھانے کے ذکر سے اپنی بھوک چمک اُٹھی مگر اس وقت ماہ رمضان کی مشق یاد آگئی۔ ہم نے دیکھا کہ اندھیرے میں کچھ بچے ہر گاڑی کے قریب جا کر اپنے امی ابو کو تلاش کر رہے تھے اسی طرح ایک ماں زور زورسے اپنے بچوں کو آوازیں دے رہی تھی۔ اتنے میں دیکھا تو دو اجنبی مرد ہماری طرف چلتے ہوئے آرہے تھے ہم کراچی والوں کو بڑا ڈر لگا مگر وہ بچارے ہماری خیریت پوچھنے آئے تھے۔ اُن کا بھی ہمارے والا حال تھا پہلے آگئے تھے اور اب اپنی خواتین کے انتظار میں کھڑے تھے۔ جب اچھا خاصا بھیگ گئے تو خیال آیا کہ ہم نے صرف ایک غلطی نہیں کی کہ چابی نہیں لائے چھتریاں بھی گاڑی میں تھیں۔ صبور اشاروں کی زبان سے بات سمجھاتی ہے بار بار اپنے بچوں کو ٹھنڈ لگ جانے کا فکر کر رہی تھی کیونکہ ان کی جیکٹیں بھی گاڑی میں تھیں۔ یہ سب فکر کیا کم تھے کہ جنگل سے عجیب عجیب آوازیں آنے لگیں ہمیں وہاں کھڑے پانچ گھنٹے ہوگئے ہوں گے۔ قریب ہی ایک گاڑی کی لائٹیں آن ہوئیں۔ اس میں دو خواتین آ کر بیٹھیں اور اپنے مردوں کا انتظار کرنے لگیں۔ اُن پر بہت رشک آیا۔ تھوڑی دیر جھجکنے کے بعد میں نے اُن سے پوچھا کیا ہم کچھ دیر آپ کی گاڑی میں بیٹھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کا بھلا کرے ہمیں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ اُس وقت گرم گاڑی میں بیٹھنا بہت نعمت لگا۔
دل سے ایک بے ساختہ دعا نکلی کہ ناصر اور عمر ان کے مردوں سے پہلے آجائیں تاکہ ایک دفعہ پھر ہمیں بارش میں نہ کھڑا ہونا پڑے اور یہ دعا فوراً قبول ہوگئی ہماری گاڑی کی بتیاں روشن ہوگئیں ہم نے اُن خواتین کا شکریہ ادا کیا اور تیزی سے اپنی گاڑی میں آگئے۔ بچے بری طرح بھیگے ہوئے تھے بلکہ کانپ رہے تھے خیال تھا کہ بیٹھتے ہی تھکن، بوریت، کوفت، موسم اور انتظام میں خامیوں کا شکوہ شروع ہوجائے گا۔ مگر یہ تو سب بہت خوش تھے اور خوشی کی وجہ جو بتائی وہ ساری عمر خوش رہنے کے قابل تھی۔ ناصر صاحب نے بتایا کہ جب وہ سر پر رومال رکھے بارش میں کھڑے تھے تو پیارے حضور کیچڑ میں چلتے ہوئے تشریف لے آئے۔ اُن کو اپنے درمیان دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ نے سب کو تسلّی دی اور ناصر صاحب کی طرف دیکھا کہ سر پر رومال رکھ کر بارش سے بچنے کی کوشش میں ہیں فرمایا
آپ چھتری کیوں نہیں لائے تھے۔
انہوں نے عرض کیا صبح فورکاسٹ میں بارش نہیں تھی
حضور نے فرمایا:
یہاں کا موسم بہت بے اعتبار ہے۔
پیارے حضور کو جب علم ہوا ہوگا کہ لوگ بارش میں بھیگ رہے ہیں تو اپنا آرام چھوڑ کر باہر آگئے سب کا حوصلہ بڑھایا خود بھی بارش میں کھڑے رہے۔ حضور انور کو اپنے درمیان پاکر ساری توجہ آپ کی طرف ہوگئی پھر تو بسیں لیٹ ہونے کی کسے پرواہ تھی۔
گھر پہنچ کر ایم ٹی اے آن کیا تو اعلان ہو رہا تھا کہ لندن میں رہنے والے کل جلسہ اپنے گھر یا مساجد میں دیکھیں۔ بہت بڑے طوفان کی پیشگوئی ہے۔ ہم نے ہفتے کا جلسہ گھر پہ اور اتوارکا بیت الفتوح میں سُنا۔ اس کے بعد جہاں بھی گئے جس سے بھی ملے جلسہ کی باتیں ہوتی رہیں۔ سب کی کہانی الگ تھی۔ وہ بھی تھے جو سارا دن گاڑیوں میں ٹریفک میں پھنسے رہے آدھی رات کو واپس آئے جلسہ گاہ تک پہنچ بھی نہ سکے۔ خیر ہماری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ بے حد اہم بات یہ ہے کہ ہم حضرت صاحب کی دعا کی قبولیت کے چشم دید گواہ بن گئے۔ وہ اس طرح کہ ہمارے گھر کے افراد کی عمریں آٹھ سے ستر سال تک تھیں اور ہم گھنٹوں بارش میں بھیگتے اور سردی میں ٹھٹھرتے رہے تھے، ڈر تھا کہ سب بیمار پڑیں گے مگر کسی کو ایک چھینک بھی نہ آئی کیونکہ جب ہم گھر آکر گرم کمروں میں سوگئے تھے ہمارے آقا اللہ تعالی سے ہماری صحت و عافیت کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ہماری سلامتی کی دعائیں کر رہے تھے۔
؎ بے خبر نہیں تھا وہ چاہتوں کی شدت سے
چاند نے بھی ساری رات جاگ کر گزاری ہے
یہ ہیں خلافت کی برکات۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس برکت سے متمتع ہونے اور ان نعماء پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین
اگست ۲۰۰۷ء کے خطبہ جمعہ میں پیارے آقا نے بھیگنے والوں کو یاد فرمایا :۔
’’عورتیں بچے بسوں کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے بارش میں بھیگتے رہے اور بڑے آرام سے کھڑے رہے معمولی سا کہیں کوئی واقعہ پیش آیا ہوگا لیکن عمومی طور پر بڑے آرام سے کھڑے رہے بعض چار پانچ گھنٹے تک کھڑے رہے بلکہ اکثر نے شاید رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تو ان کو یوں کھڑا دیکھ کر کچھ دیر کے لئے میں بھی ان کے پاس گیا تو یوں کھڑے ہنس رہے تھے اور خوش تھے جیسے انتہائی آرام دہ موسم میں کھڑے ہوں حالانکہ اس وقت بارش ہورہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ جماعت بھی عجیب جماعت ہے پیار آتا ہے اس جماعت پر۔ بچوں کو، بوڑھوں کو ،عورتوں کو بھیگتے دیکھ کر مجھے بے چینی شروع ہوگئی تھی بلکہ پوری رات ہی بے چینی رہی میں استغفار بھی کرتا رہا، اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت و سلامتی کی بھیک بھی مانگتا رہا کہ اس موسم کی وجہ سے ان کو کوئی تکلیف نہ ہو‘‘
(الفضل انٹر نیشنل ۲۴ ۔اگست ۲۰۰۷ تا ۳۰ ۔اگست ۲۰۰۷)
قارئین کرام! آپ نے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کے جماعت سے پیار کا یہ واقعہ پڑھا۔ اب جو بات لکھ رہی ہوں وہ آپ کی طلسماتی یاد داشت اور حاضر دماغی کا محیر العقول واقعہ ہے۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے
ذہن میں یہ رکھ کر پڑھئے کہ بارش میں بھیگنے والا واقعہ جولائی 2007ء کا ہے۔ اور اب بات ہو گی جولائی 2015ء کی۔ یعنی دونوں باتوں میں آٹھ سال کا فاصلہ ہے۔
جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۵ء میں شمولیت کی سعادت پانے والوں میں خاکسار کا بڑا بیٹا، بہو اور بچے بھی شامل تھے۔
جلسے کے بعد ۲۷ ؍ اگست کو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز سے ملاقات کی نعمت میسر آئی۔ ملاقات کے دوران ڈیوٹی دینے والوں کی حسن کارکردگی کا ذکر ہؤا تو بہو مکرمہ فوزیہ منصور صاحبہ نے انتظامات کے عمدہ ہونے کے ذکر میں اپنا ایک اچھا تجربہ عرض کیا کہ ’حضو ر میں ابھی گیٹ سے کچھ فاصلے پر تھی کہ بارش شروع ہو گئی ایک ڈیوٹی دینے والے لڑکے نے جومجھے جانتا بھی نہیں تھا اپنی چھتری مجھے تھما دی اور کہا کہ آپ گیٹ تک پہنچیں گی تو میں بھاگ کر آپ سے چھتری لے لوں گا۔ اس طرح میرا بارش سے بچاؤ ہوگیا اور اس نے گیٹ پر آکر اپنی چھتری لے لی، حضور نے مسکرا کر فرمایا:
اس نے سوچا ہوگا آپ کے سسر بارش میں بھیگے تھے آپ بھی نہ بھیگیں
ملاقات کے بعد وہ بہت حیران ہوئے کہ حضور نے یہ کیا فرمایا۔ ایسا کیا ہوا تھا اور کب کی بات ہے؟ پھر مجھے بھی ساری بات بتا کر پوچھا کہ یہ حضور نے کیا ارشاد فرمایا تھا؟
بات تو مجھے فوراً یاد آگئی مگر حیرت کے سمندر میں ڈوبی کہ بولا ہی نہ جارہا تھا۔ سچ ہے۔ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اور پھر حضرت مسرور کے ساتھ تو انی معک یا مسرور کاوعدہ بھی ہے۔ ناصر صاحب بھی حیران ہو کر باربار کہہ رہے تھے۔ ہم جیسے حقیر فقیر بھی حضور کو یاد رہے۔ تھا تو یہ ایک چھوٹا سا جملہ مگر اس ایک جملے میں شکر کے کئی پہلو ہیں۔ جو ہمارے خاندان کے لئے نعمت عظمیٰ ہیں۔
؎ اگر ہر بال ہوجائے سخن ور
تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر
آپ کی دعا کی قبولیت، تبحر علمی، یاد داشت، قیافہ شناسی، ذرہ نوازی اور حسن سلوک کے نادر ونایاب واقعات زبان زدِعام ہیں۔ جنہیں سن کر دل حمدو ثنا سے بھر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے حضور کو خیروعافیت کے ساتھ بابرکت با مراد طویل زندگی سے نوازے اور ہم پہلے سے بڑھ کر آپ سے فیض پاتے رہیں آمین اللھم آمین
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)