میرے نہایت قابل ِصد احترام سُسرمکرم چوہدری محمد انور صاحب بھٹی 8؍فروری 2012ء کو حرکت قلب بند ہونے سے 81سال کی عمر میں چک 166/مرادضلع بہاولنگر میں وفات پاگئے۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
؎ بلانے والا ہے سب سے پیارا
اْسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
آپ 1931ء میں مکرم چوہدری غلام قادر صا حب اور مکرمہ نور بیگم صاحبہ کے گھر بکھوبھٹی ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آپ کی پیدائش سے اٹھارہ دن پہلے 55سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ آپ صغر سنی میں ہی تھے کہ والدہ کے سایۂ عاطفت سے بھی محروم ہوگئے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے آپ کی پھوپھی جان مکرمہ غلام فاطمہ صاحبہ اور پھوپھا میاں مکرم محمد سلطان خان صاحب کو۔ اس نیک سیرت جوڑے نے آپ کی پرورش کے ساتھ ساتھ آپ کی تعلیم و تربیت کا بھی خیال رکھا۔ اِسی طرح آپ کے بہن بھائیوں نے بھی آپ کا بہت خیال رکھا اور آپ کو والدین کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ آپ سات بہن بھائیوں میں جن میں مکرم چوہدری محمد شفیع صاحب، مکرم چوہدری محمد اکبر صاحب، مکرمہ زینب بی بی صاحبہ، مکرمہ صغریٰ بی بی صاحبہ، مکرم اقبال بیگم صاحبہ اور مکرمہ رحمت بی بی صاحبہ شامل ہیں، سب سے چھوٹے تھے ۔
خاندان میں احمدیت
آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والدمحترم چوہدری غلام قادرصاحب کے چچا زاد بھائی مکرم چوہدری لاب دین صاحب کے ذریعہ آئی۔ مکرم چوہدری لاب دین صاحب کے سُسر مکرم حاجی کریم بخش صاحب احمدی ہوچکے تھے۔اُن کی تبلیغ کے نتیجے میں مکرم چوہدری لاب دین صاحب نے 1914ء میں احمدیت قبول کی۔ مکرم چوہدری لاب دین صاحب نے بیعت کے بعداپنی برادری میں تبلیغ شروع کر دی۔ اِن کی کوششیں ثمرآور ثابت ہوئیں۔ غالباً 1915ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر اُن کے خاندان کے چند افراد جن میں محترم غلام قادر صاحب، محترم غلام نبی صاحب منہاس ،محترم قاضی نور محمد صاحب اور چند دیگر افراد جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دستِ مبارک پر شرفِ بیعت کی سعادت پائی۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک
آپ کے والد مکرم چوہدری غلام قادر صاحب بکھو بھٹی (سیالکوٹ) کے نمبردار تھے۔ اسی طرح آپ چک 166/مراد کے بھی پہلے نمبردار رہے۔ مکرم چوہدری غلام قادر صاحب بڑے معاملہ فہم، زیرک اور بہت اثرورسوخ والے انسان تھے۔ سارے علاقے میں آپ کی بڑی عزّت تھی۔ آپ بڑے صائب الرائے انسان تھے۔ لوگ اپنے فیصلے کروانے کے لئے آپکے پاس آیا کرتے تھے۔ آپ بہت دعا گو اور متقی انسان تھے۔ آپ خشوع وخضوع سے نمازیں ادا کرنے والے، تہجد گزار اور عالم باعمل تھے۔ قرانِ کریم سے والہانہ عشق تھا۔خلیفۂ وقت کیساتھ صدق و وفا کا تعلق تھا۔ باقاعدگی سے جلسہ سالانہ پر قادیان جاتے۔ انہیں 1930ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان دارالامان میں شامل ہونے کی بھی توفیق ملی۔ جلسہ سالانہ سے واپسی پر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث نمونیہ کی شکایت ہوگئی جو جان لیواثابت ہوئی۔ اس طرح چند ماہ کی علالت کے بعد 7؍مارچ 1931ء کو وفات پاگئے۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مکرم چوہدری غلام قادر صاحب اور ان کی برادری کے افراد کوقبولِ احمدیت کی وجہ سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالفین گاہےبگاہے ایک مولوی محمد شفیع صاحب سنگھروتی کو گاؤں میں لے آتے جوافراد جماعت کےخلافت نفرت آمیز باتیں کرتا اور گاؤں کے لوگوں کو مخالفت پر ابھارتا۔ مکرم چوہدری غلام قادر صاحب ان مولوی صاحب کے زہریلے اثر کو دُور کرنے کے لیے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو بارہا قادیان سے بکھو بھٹی لیکر آتے، مولانا موصوف گاؤں میں لوگوں سے خطاب کرتے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرتےنیز لوگوں کے اعتراضات کےکافی و شافی جوابات دیتے۔ مکرم چوہدری غلام قادر صاحب کی وفات کے بعد آپ کے بھائی مکرم چوہدری غلام نبی صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ’’غلام قادر کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا جس کا نام محمد انور ہو گا اور وہ تیرے بھائی کی کمی کو پورا کرے گا۔‘‘ اس خواب کے عین مطابق میرے سُسر اپنے والد صاحب کی وفات کے اٹھارہ دن بعد پیدا ہوئے اور اُن کا نام محمد انور رکھا گیا۔
سیرت اورخدمتِ خلق
میرے سُسردرس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ تھے نیز اپنی زمینوں کی نگہداشت بھی کرتے تھے۔ آپ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ صلح کاری اورخداپرستی آپ کا شِعار تھا۔ پنجوقتہ نماز کے عادی، پرہیزگار، مہمان نواز، غریب پروراور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار تھے۔ چندوں میں باقاعدہ اور ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ۔نظامِ جماعت کی اطاعت کرنے والے اور خلیفۂ وقت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والے وجود تھے۔یہی خوبیاں آپ نے اپنی ساری اولاد میں بھی پیدا کیں۔ آپ نے بچوں کی تربیت کے لئے جما عتی اخبار و رسائل لگوائے ہوئے تھے۔ خود بھی باقاعدگی سے اُن کامطالعہ کرتے اور بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتےرہتے۔ آپ کے گاؤں 166/مراد میں جب غیر احمدیوں نے مسجد بنانا شروع کی تو آپ نےدل کھول کر اُن کی مالی معا ونت کی۔ جب چھت ڈالنے کا وقت آیاتو انہوں نے پھرمالی مدد کی درخواست کی جس پر میرے سُسر صاحب نے چھت کا تمام خرچہ اُٹھا لیا اور اِس طرح ا س حدیث کے مصداق ٹھہرے کہ جوبھی اس دنیا میں اللہ تعا لیٰ کا گھر بناتا ہے اللہ تعالیٰ جنّت میں اُس کا گھر بنائے گا۔
آپ کو متعدد بار جرمنی اور انگلینڈ جانے کی توفیق ملی۔ ان مما لک کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے علاوہ آپ کو حضرت خلیفۃالمسیح الرّابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخا مس ایّدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ شرفِ ملاقات بھی نصیب ہوا۔ آپ کو جو بھی جماعتی ذمّہ داری ملی اُسے بڑے احسن رنگ میں نبھایا۔
مثا لی سُسر
آپ ایک مثالی سُسر تھے۔ آپ نےاپنی چھ کی چھ بہوؤں کے ساتھ مثالی برتاؤ کیا۔ سب بہوؤں کو بیٹیاں بنا کر رکھا تھا۔ آپ کی ساری بہوئیں بھی آپکی دل سے عزّت کرتیں۔ 2000ء میں جب آپ آخری بارجرمنی گئے تو جرمنی میں مقیم آپکے پانچوں بیٹوں اور بہوؤں مکرمہ طیّبہ احمدصاحبہ، مکرمہ بشارت قدیر صاحبہ، مکرمہ امتہ العزیز صاحبہ ،مکرمہ نادیہ شاہین صاحبہ اور آپکے داماد اور بیٹی مکرمہ قیصریٰ بیگم صاحبہ کوآپ کی خدمت کرنے اور آپ سے دعائیں لینے کی توفیق ملی۔ جرمنی میں اپنے اس قیام کے دوران جب بھی ہماری طرف آتے تو میری بڑی بیٹی عزیزہ نائلہ کو پارک میں کھلانے کے لئے لے جاتے۔ بچی بھی دادا کی صحبت سے خوب لطف اُٹھاتی اور مزے کرتی۔ میری چھوٹی بہن عزیزہ صادقہ منّورہ شادی کے بعد کافی سال آپ ہی کے ساتھ رہتی رہی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ اِس تمام عرصے میں اسے بالکل اپنی بیٹی کی طرح پیار کیا اور اُسے کبھی والدین کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
آپ نے اپنی زندگی میں کئی صدمے دیکھے۔ آپ کے بھائی مکرم محمد اکبر صاحب عین جوانی میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مگر آپ نے اس صدمے کامقابلہ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوے بڑے صبروتحمل سے کیا۔ آپ نے اپنے بھائی کے بیوی بچوں کا بہت خیال رکھا ۔آپ کی بھتیجیاں بھی باپ کی طرح آپ کی عزّت کرتی تھیں (مکرم چوہدری محمد اکبر صاحب کی بیوی اور آپ کی بھابھی مکرمہ فرّخ تاج صاحبہ چند ماہ پہلے اس دارِفانی کو خیربادکہہ چکی ہیں۔ آپ بڑی صابرو شاکر خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے) اِسی طرح آپکے سب سے بڑے بھائی مکرم چوہدری محمد شفیع صاحب کےبڑے بیٹے مکرم محمد امین صاحب جو محکمہ پولیس میں جاب کرتے تھے اور آپ کوبہت عزیز تھے، عین جوانی میں پانچ چھوٹے بچے اور اہلیہ کو چھوڑ کر اپنے مالکِ حقیقی کے حضور حاضرہو گئے۔ آپ نے اس سانحہ کو بھی اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے بڑے صبر سے برداشت کیا۔ رحیم و کریم خدا سے دعا ہے کہ وہ محترم امین بھائی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اِنکے بچوں کو اپنے گھروں میں شادوآباد رکھے۔ آمین۔ میری نند مکرمہ قیصریٰ بیگم صاحبہ کا چھوٹا بیٹا عزیزم لقمان احمد برین ٹیومر کی تشخیص کے چندماہ کے اندر اندر جرمنی میں وفات پاگیاتھا۔ اس ناقابلِ برداشت صدمہ پر آپ نے نہ صرف خود نہایت صبر کا نمونہ دکھایا بلکہ اپنی بیٹی کی بھی بہت ڈھارس بندھائی۔
آپ دوستی نبھانا بھی خوب جانتے تھے۔ ویسے تو آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھامگر مکرم میاں محمد احمد صاحب منہاس اورمکرم میاں بشیر احمد صاحب تو گویا آپ کے جگری دوست تھے ۔فراغت کے لمحات میں انہی کے ساتھ گپ شپ ہوتی اورخوب محفل سجتی۔آپ کے یہ دونوں دوست بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اِن تینوں دوستوں کے ساتھ اپنی مغفرت کا سلوک فرمائے اور اِن کو نعمتوں والی جنت میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ نصیب کرے ۔آمین
عزیزو اقارب سے حسنِ سلوک
میرے سسرصاحب بڑے جی دار انسان تھے۔ ہر رشتے کو خوب نبھاتے تھے۔ سارے بچوں کے سسرال کی بڑی عزّت کرتےتھے۔جب بھی ان میں سےکوئی آپ سےملنےآتاتوان کی خوب خاطرمدارت کرتے اور ہرطرح سےخیال رکھتے اور ان کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کابھی تذکرہ کرتے۔ 1997ء میںآپ سخت بیمار ہوگئے اور بہاولپور ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ میرے والد صاحب آپ کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو اپنے ساتھ ہومیوپیتھی ادویات بھی لےگئے۔ آپ نے 18اکتوبر 1997ء کو مجھے اور میرے میاں کو ایک خط میں مخاطب کرتے ہوئے لکھا :
’’جو بیماری ڈاکٹرز نے لاعلاج قراردے دی تھی، محترم نذیر احمد خادم صاحب کی دوائی جو انہوں نے بتایا تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرّابعؒ کا نسخہ ہے اُس سے اللہ کے فضل سے بہت افاقہ ہے۔ خادم صاحب میرے لئے بہت دعا کرتے اور میرا بہت خیال بھی رکھتے ہیں۔ اب میں چک آگیا ہوں۔ یہاں بھی ہر دوسرے دن میری خبرگیری کے لئے آتے ہیں۔ یہ اللہ کا مجھ پر بڑا احسان ہےکہ اُسنے مجھے دیندار رشتےدار اور دیندار بہوئیں دی ہیں۔‘‘
لواحقین
آپ نے پسماندگان میں اپنی بیوہ محترمہ نسیم اختر صاحبہ (مقیم جرمنی) کے علاوہ چھ بیٹے اور ایک بیٹی یاد گارچھوڑ ے ہیں: مکرم مظفر احمد صاحب بھٹی (ریجنل امیرواسسٹنٹ نیشنل سیکریٹری تربیت جرمنی)، مکرمہ قیصریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم رانا طاہر احمد صاحب (مقیم جرمنی) ،مکرم تنویر انور صاحب (مقیم جرمنی)، مکرم قدیر انور صاحب (مقیم جرمنی)، مکرم آفتاب انور صاحب (مقیم کینیڈا)، مکرم محمود انور صاحب (مقیم لندن، انگلینڈ)، مکرم ناصر محمود صاحب بھٹی (مقیم کینیڈا، سیکریٹری وصایا امارت سسکاٹون، و قائمقام زعیم سسکاٹون)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد پوتے پوتیوں اور دونواسوں سے نوازا تھا۔ الحمدللہ سب جماعتی کاموں اور تعلیمی میدان میں پیش پیش ہیں۔ ان میں کچھ پیارے آقا سیّدنا و امامنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے تعلیمی ایوارڈ بھی لے چکے ہیں۔ آپ کا ایک پوتا عزیزم ماحد شریف جامعہ احمدیہ کینیڈا میں درجہ ثانیہ کا طالبِ علم ہے۔ اسی طرح آپ کی پوتی عزیزہ نائلہ انور (واقفہ نو) ساسکیچوان یونیورسٹی میں میڈیسن کی طالبہ ہے۔
میرے سسر صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔
ربِّ رحیم و کریم سے دعا ہے کہ وہ آپ کےساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور آپ کو اپنے پیاروں کے قرب میں اعلیٰ علّیّین میں جگہ دے اور آپ کی اولاد کے حق میں آپ کی ساری دعائیں قبول فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین
؎ جو پھول اُس نے اگائے ہیں اپنے آنگن میں
اسی کی خو شبو سے وہ مہکیں سارے شام و سحر
(بشریٰ نذیر آفتاب بنت نذیر احمد خادم ، سسکا ٹون،کینیڈا)