• 28 اپریل, 2024

’’یہ امام جو خدا کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجددِ صدی بھی ہے اور مجدد اَلْفِ آخِر بھی‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’اس میں کس کو کلام ہو سکتا ہے کہ مہدی کا زمانہ تجدید کا زمانہ ہے اور خسوف کسوف اُس کی تائید کے لئے ایک نشان ہے۔ سو وہ نشان اب ظاہر ہو گیا جس کو قبول کرنا ہو قبول کرے‘‘۔

(حجۃاللہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ160)

اور یہ خسوف و کسوف کا نشان، چاند گرہن اور سورج گرہن کا نشان جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سے کہ زمین و آسمان بنے ہیں یہ نشان کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوا۔

(سنن الدارقطنی جزو دوم صفحہ 51 کتاب العیدین باب صفۃ صلاۃ الخسوف والکسوف وھیئتھما حدیث نمبر 1778 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

یہ صرف ہمارے مہدی کا نشان ہے اُس مہدی کا جس کا مقام بہت بلند ہے، صرف مجددیت کا مقام نہیں ہے بلکہ بہت بلند مقام ہے۔ اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف چودھویں صدی کے مجدد نہیں بلکہ مسیح و مہدی بھی ہیں۔ باوجود اس کے کہ آپ کو تجدیدِ دین کے کام کے لئے بھیجا گیا ہے اور ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن مقام آپ کا بہت بلند ہے اور مجددیت سے بہت بالا مقام ہے۔ گو آپ نے یہ فرمایا کہ چودھویں صدی کا مجدد مَیں ہوں لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس مقام کی وجہ سے آپ کو نبوت کا درجہ بھی ملا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جاننا چاہئے کہ اگرچہ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ حدیث صحیح ثابت ہو چکی ہے کہ خدائے تعالیٰ اس امت کی اصلاح کے لئے ہر ایک صدی پر ایسا مجدد مبعوث کرتا رہے گا جو اُس کے دین کو نیا کرے گا۔ لیکن چودھویں (صدی) کے لئے یعنی اس بشارت کے بارہ میں جو ایک عظیم الشان مہدی چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہو گا، اس قدر اشاراتِ نبویہ پائے جاتے ہیں جو اِن سے کوئی طالب منکر نہیں ہو سکتا‘‘

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد4 صفحہ378)

پھر فرمایا:
’’خدا نے اس رسول کو یعنی کامل مجدد کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا اس زمانے میں یہ ثابت کر کے دکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں ہیچ ہیں‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ266)

پس ایک تو آپ کا یہ مقام ہے کہ آپ عظیم الشان مجدد ہیں اور کامل مجدد ہیں۔ آپ علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ کی خلافت یا مجددیت تو حضرت عیسیٰ پر آ کر ختم ہو گئی تھی لیکن اسلام کی تعلیم کو تروتازہ رکھنے کے لئے ہر صدی میں مجددین کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے تاکہ بدعات جو سو سال کے عرصے میں دین میں داخل ہوئی ہوں یا برائیاں جو شامل ہوئی ہوں، دین کی اصلاح کی ضرورت ہو، اُن کی اصلاح کر سکے۔ جو کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں وہ دور ہوتی رہیں۔ اور اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ اسلام میں اس خوبصورت تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے اس کو اصلی حالت میں رکھنے کے لئے مجددین آتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعویٰ پیش فرمایا کہ جب پہلے مجددین آتے رہے تو اس صدی میں کیوں نہیں؟ اس صدی میں بھی مجدد آنا چاہئے۔ اور فرمایا کہ میرے علاوہ کسی کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں اس زمانے کا مجدد ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود بھی ہوں اور مسیح موعود کو کیونکہ نبی کا درجہ ملا ہے اس لئے کامل مجدد ہوں۔ اور چودھویں صدی کا مجدد ہونے کی حیثیت سے، مسیح و مہدی ہونے کی حیثیت سے عظیم الشان مجدد تھے جس کی پیشگوئیاں پہلے نبیوں نے بھی کی ہیں۔ یہ بات اپنی صداقت کے طور پر آپ اُن مخالفین کو فرمارہے ہیں جو کہتے تھے کہ آپ کا دعویٰ غلط ہے۔ پس یہ آپ کی شان ہے اور اس حوالے سے ہمیں ان سارے حوالوں کو پڑھنا چاہئے۔ اب آپ کی اس شان کو اگر سامنے رکھا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خلافت کے قیام کے بارے میں حدیث پیش کی جاتی ہے اُس کو سامنے رکھا جائے تو آئندہ آنے والے مجددین کا معاملہ حل ہو جاتا ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور واضح ارشاد ہے۔ آپ نے لیکچر سیالکوٹ میں ایک جگہ فرمایا کہ ’’یہ امام جو خدا کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجددِ صدی بھی ہے اور مجدد اَلْفِ آخِر بھی۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد20 صفحہ208)

اَلْفِ آخِرکا مطلب ہے کہ آخری ہزار سال۔ اس کی وضاحت آپ نے یہ فرمائی کہ ہمارے آدم کا زمانہ سات ہزار سال ہے اور ہم اس وقت آخری ہزار سال سے گزر رہے ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے کے ایک ہزار سال کو اندھیرا سال فرمایا تھا، اندھیرا زمانہ ہو گا اور پھر مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا چودھویں صدی میں، اور پھر مسیح و مہدی کے ظہور کے ساتھ اسلام کی نشأۃ ثانیہ ہو گی۔ اُس اندھیرے ایک ہزار سال میں کئی مجددین پیدا ہوتے رہے۔ مختلف علاقوں میں مجددین پیدا ہوتے رہے۔ لیکن اُن کی حیثیت چھوٹے چھوٹے لیمپوں کی تھی جو اپنے علاقے کو روشن کرتے رہے، اپنے وقت اور صدی تک محدود رہے، بلکہ ایک ایک وقت میں کئی کئی آتے رہے۔ لیکن یہ اعزاز اس عظیم الشان مجدد کو ہی حاصل ہوا کہ اُس کو آخری ہزار سال کا مجدد کہا گیا۔ آپ کا اعزاز صرف ایک صدی کا مجدد ہونے کا نہیں بلکہ آخری ہزار سال کا مجدد ہونے کا ہے، کیونکہ دنیا کی زندگی کا یہ آخری ہزار سال تھا۔ تو آپ نے ایک جگہ پر فرمایا کہ ’’چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے یہ ضرور تھا کہ امامِ آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اُس کے لئے بطور ظل کے ہو۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد20 صفحہ208)

اُس کے زیرِ نگین ہو گا، اُس کے تابع ہو گا۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صدی میں مجدد آ سکتے ہیں آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آ سکتے ہیں لیکن آپ کے ظل کے طور پر۔ اور جس ظل کی آپ نے بڑے واضح طور پر نشاندہی فرمائی ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ہے اور وہ حدیث یہ ہے:
حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا نبوت قائم رہے گی، پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا اور پھر جب تک اللہ چاہے گا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم رہے گی۔ پھر وہ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر ایذا رساں بادشاہت جب تک اللہ چاہے گا قائم ہو گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی، جب تک اللہ چاہے وہ رہے گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ اُس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی، پھر آپ خاموش ہو گئے۔

(مسند احمد بن حنبل جلدنمبر6مسند النعمان بن بشیرصفحہ285حدیث نمبر18596عالم الکتب بیروت1998)

(خطبہ جمعہ 10؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2021