• 28 اپریل, 2024

تین باتوں میں ہمارے واعظ کامل ہونے چاہئیں

یہ امر بہت ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے واعظ تیار ہوں لیکن اگر دوسرے واعظوں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو فضول ہے۔ یہ واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کر کے دکھائیں۔ تاکہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے۔ جو لوگ صرف وعظ کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے وہ دوسروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتے۔ بلکہ اُن کا وعظ بعض اوقات اباحت پھیلانے والا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سننے والے جب دیکھتے ہیں کہ وعظ کہنے والا خود عمل نہیں کرتا تو وہ ان باتوں کو بالکل خیالی سمجھتے ہیں۔ اس لیے سب سے اوّل جس چیز کی ضرورت واعظ کو ہے وہ اُس کی عملی حالت ہے۔ دوسری بات جو اُن واعظوں کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کو صحیح علم اور واقفیت ہمارے عقائد اور مسائل کی ہو۔ جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اس کو انہوں نے پہلے خود اچھی طرح پر سمجھ لیا ہو اور ناقص اور ادھورا علم نہ رکھتے ہوں کہ مخالفوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ اور جب کسی نے کوئی اعتراض کیا تو گھبرا گئے کہ اب اس کا کیا جواب دیں۔ غرض علم صحیح ہونا ضروری ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسی قوت اور شجاعت پیدا ہو کہ حق کے طالبوں کے واسطے ان میں زبان اور دل ہو۔ یعنی پوری دلیری اور شجاعت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے خوف و ہراس کے اظہار حق کے لیے بول سکیں اور حق گوئی کے لیے ان کے دل پر کسی دولتمند کا تمول یا بہادر کی شجاعت یا حاکم کی حکومت کوئی اثر پیدا نہ کر سکے۔ یہ تین چیزیں جب حاصل ہوجائیں تب ہماری جماعت کے واعظ مفید ہو سکتے ہیں۔

یہ شجاعت اور ہمت ایک کشش پیدا کرے گی کہ جس سے دل اس سلسلہ کی طرف کھچے چلے آئیں گے۔ مگر یہ کشش اور جذب دو چیزوں کو چاہتی ہے جن کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ اوّل پورا علم ہو۔ دوم تقویٰ ہو۔ کوئی علم بدُوں تقویٰ کے کام نہیں دیتا ہے۔ اور تقویٰ بدوں علم کے نہیں ہو سکتا۔ سنّت اللہ یہی ہے جب انسان پورا علم حاصل کرتا ہے تو اسے حیا اور شرم بھی دامنگیر ہو جاتی ہے۔ پس ان تینوں باتوں میں ہمارے واعظ کامل ہونے چاہئیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ369 تا 370۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جون 2021