خلاصہ خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍ جون 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
صلح حدیبیہ کے موقعے پر مسلما نوں اور قریش میں جو معاہدہ ہوا اس پر حضرت عمرؓ کے بھی دستخط تھے۔
جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو حضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو بلوایا اور فرمایا کہ مجھ پر ابھی ایسی سورت نازل ہوئی ہے جومجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔
حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ صلح کیا واقعی اسلام کی فتح ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! یقیناً یہ ہماری فتح ہے
پانچ مرحومین : مکرم ملک محمد یوسف سلیم صاحب انچارج شعبہ زود نویسی، مکرم شعیب احمد صاحب واقفِ زندگی قادیان، مکرم مقصود احمد صاحب بھٹی مبلغ سلسلہ قادیان،
مکرم جاوید اقبال صاحب فیصل آباد اور مکرمہ مدیحہ نواز صاحبہ اہلیہ نواز احمد صاحب مربی سلسلہ گھانا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 04؍جون 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت عدیل طیب صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد، تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گذشتہ خطبات میں حضرت عمرؓ کا ذکر ہو رہا تھا اور غزوات و سرایا کاذکرتھا۔ غزوہ حمراء الاسد کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ غزوۂ احد کے بعد جب قریش نےمکّے کی راہ لی تو راستے میں ان کے درمیان یہ گرماگرم بحث چھڑ گئی کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینے پر حملہ کردیا جائے۔ جوشیلے لوگوں کی ترغیب کے تابع لشکرِ قریش مدینے کی طرف لوٹنے کےلیے تیار ہوگیا۔جب یہ خبر رسول اللہﷺ کو موصول ہوئی توآپؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو مشورے کےلیے بلایا، دونوں نے لشکرِ قریش کے تعاقب کا مشورہ دیا۔ آنحضورﷺ نے فوراً اعلان فرمایا کہ احد میں شریک ہونے والے مسلمان تیار ہوجائیں چنانچہ احد کے زخمی مجاہدین نہایت خوشی کے ساتھ اپنے آقا کی سربراہی میں روانہ ہوئے۔ آٹھ میل کا فاصلہ طے کرکے آپؐ حمراء الاسد پہنچے اور مختلف مقامات پر آگ روشن کرنے کا حکم دیا۔ رات کے اندھیرے میں روشن ہونے والی پانچ سَو آگیں دُور سے دیکھنے والوں کے دلوں کو مرعوب کرتی تھیں۔ اسی موقعے پر قبیلہ خزاعہ کا معبد نامی مشرک رئیس آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مقتولینِ احد کےمتعلق اظہارِ ہمدردی کی۔دوسرے دن وہ ابوسفیان سے ملا اور اسے مسلمانوں کے بلند حوصلے سے آگاہ کیا۔ معبد کی باتوں کا ابوسفیان اور دیگر قریش پر ایسا رعب پڑا کہ انہوں نے مکّہ واپس لوٹنے میں ہی عافیت جانی۔
غزوۂ بنو مصطلق شعبان پانچ ہجری میں ہوا۔ اس کے متعلق حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں کہ قریش کی فتنہ انگیزی کے سبب قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنومصطلق نے مدینے پر چڑھائی کی تیاری شروع کردی۔ یہ خبر ملنے پر حضورﷺ نے ایک صحابی بریدہ بن حصیب کو دریافتِ حال کے لیے بھجوایا جنہوں نے واپس آکراس خبر کی تصدیق کی۔ آنحضورﷺ نے یہ خبر ملنے پر لشکر کو تیاری کا حکم دیا چنانچہ بہت سے صحابہ اور بڑی تعداد میں منافقین بھی حضورﷺ کے ساتھ شامل ہوگئے۔راستے میں کفار کا ایک جاسوس ملا جس سے حالات وغیرہ دریافت کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس نے بتانے سے انکار کیا تو جنگی قوانین کے تحت حضرت عمرؓ نے اس کو قتل کردیا۔ بنو مصطلق کا ارادہ تومدینے پر اچانک حملے کا تھا چنانچہ جب انہیں مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملی تووہ بہت خائف ہوئے، اسی طرح خدائی تصرف کےتحت اُن کے حلیف قبائل بھی اُن کا ساتھ چھوڑ گئے۔ لیکن بنومصطلق کو قریش نے مسلمانوں کی دشمنی کا ایسا نشہ پلارکھا تھا کہ وہ پھر بھی جنگ سے باز نہ آئے۔ جنگ شروع ہوئی تو آنحضورﷺکی حسنِ تدبیر کے نتیجے میں دس کفار اورایک مسلمان کے قتل پربنومصطلق محصور ہوکر ہتھیار ڈالنے پر مجبورہوگئے۔
غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر مہاجروں میں سے کسی آدمی نے ایک انصاری کی پیٹھ پر مارا۔ جس پر دونوں افراد نے اپنے اپنےگروہ کو مدد کےلیے پکارا۔ جب آنحضورﷺ تک یہ معاملہ پہنچا تو آپؐ نے اسے فضول اور گندی بات قرار دے کر معاملہ ختم کرادیا۔ لیکن عبداللہ بن ابی نے یہ کہہ کر کہ انہوں نے تو ایسا کرلیا یعنی مہاجر نے تو انصار کو مار لیا لیکن ہم مدینہ لوٹے تو ضرورمعزز ترین شخص (نعوذباللہ) ذلیل ترین شخص کو وہاں سے نکال دے گا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے عبداللہ بن ابی کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تاہم آنحضور ﷺ نے اجازت نہ دی۔ بعد میں جب عبداللہ بن ابی کا نفاق اور اسلام سے عداوت کھل گئی تو آنحضور ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ اگر اس وقت مَیں اس کو قتل کرادیتا تو لوگ ناک منہ چڑھاتے لیکن اب اگر انہی لوگوں کو میں اس کے قتل کا حکم کروں تو وہ خود اس کو قتل کر دیں گے۔
جب رسول خداﷺ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی نمازِ جنازہ پڑھانے لگے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نےآپؐ کو منافقین کی نمازِ جنازہ سے منع کیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ مَیں استغفار کروں یا نہ کروں۔ پس آپؐ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تاہم بعد میں اللہ تعالیٰ کے کلیۃً منع فرمادینے کے بعد آپؐ نے منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھانا ترک کردیا۔
غزوۂ خندق کے روز نبی کریمﷺ اور صحابہ کتنی نمازیں نہیں پڑھ سکے تھے اس بارے میں متفرق روایات ملتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے تمام روایات کو ضعیف قرار دیتے ہوئے صرف ایک روایت کو درست قرار دیا ہے۔ چنانچہ پادری فتح مسیح کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ ایک نماز یعنی صلوٰة العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی تھی۔‘‘
صلح حدیبیہ کے موقعے پر آنحضورﷺ نے سفارت کےلیے حضرت عمرؓ کو اشرافِ قریش کے پاس بھجوانا چاہا تو آپؓ نے حضرت عثمانؓ کا نام تجویز کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ قریش کے نزدیک مجھ سے زیادہ معزز ہے چنانچہ آنحضورﷺ نے حضرت عمرؓ کی تجویز کو قبول فرمایا۔
جب صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جارہی تھیں تو قریشِ مکہ کے سفیر سہیل کا لڑکا ابوجندل بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا وہاں پہنچا۔ اس و قت سہیل یہ شرط لکھا رہا تھا کہ ہر شخص جو مکہ والوں میں سے مسلمانوں کی طرف آئے گا اسے واپس لوٹا دیا جائے گا۔ آنحضورﷺ نےسہیل سے کہا کہ ابھی تو معاہدہ تکمیل کو نہیں پہنچا لیکن سہیل نہ مانا، پھر آپؐ نے فرمایا کہ مروّت اور احسان کے طورپر ہی ابوجندل کو ہمیں دے دو لیکن سہیل نے صاف انکار کردیا۔ آنحضرتﷺ نے ابوجندل کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کی طرف نظر رکھو۔ مسلمانوں کے لیے یہ نظارہ بڑا تکلیف دہ تھا آخر حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا اور آپؓ نے کانپتی ہوئی آواز میں رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ کیا آپؐ خدا کے برحق رسول نہیں؟کیا ہمارا دشمن باطل پرنہیں؟ پھر ہم یہ ذلت کیوں برداشت کر رہے ہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مَیں خدا کا رسول ہوں اور اس کی منشا کو جانتا ہوں اور اس کے خلاف نہیں چل سکتا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عمرؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ عمر! سنبھل کر رہو اور رسول اللہﷺ کی رکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ خلافت سے قبل اپنی جلسہ سالانہ کی تقریر میں فرماتے ہیں کہ درد وکرب کی وہ چیخ جو سوال بن کر حضرت عمرؓ کے دل سے نکلی، دوسرے بہت سے سینوں میں گھٹی ہوئی تھی۔ حضرت عمرؓ سے اظہار کی جرأت کی ایسی چوک ہوگئی کہ بعدازاں عمر بھر آپؓ اس سے پشیمان رہے۔ بہت روزے رکھے، بہت عبادتیں کیں، بہت صدقات دیے اور استغفار کرتے رہے۔ آپؓ ہمیشہ حسرت سے یہی کہا کرتے کہ کاش مَیں نے آنحضورﷺ سے وہ سوال نہ کیا ہوتا۔
صلح حدیبیہ کے موقعے پر مسلما نوں اور قریش میں جو معاہدہ ہوا اس پر حضرت عمرؓ کے بھی دستخط تھے۔ حدیبیہ سے واپسی پر جب سورة الفتح کی آیات نازل ہوئیں تو مسلمان حیران ہوئے کہ ہم بظاہر ناکام ہوکر واپس جارہے ہیں اور خداتعالیٰ ہمیں فتح کی مبارک باد دے رہا ہے۔ جب یہ باتیں رسول اللہﷺ تک پہنچیں تو آپؐ نے فرمایا کہ غور کیا جائے تو واقعی حدیبیہ کی صلح بڑی بھاری فتح ہے۔ وہ قریش جو ہمارے خلاف میدانِ جنگ میں اترے ہوئے تھےانہوں نے خود جنگ کو ترک کرکے امن کا معاہدہ کرلیا ہے اور آئندہ سال ہمارے لیے مکّہ کے دروازےکھول دینے کا وعدہ کیا ہے۔ آنحضورﷺ کی تقریر سے قبل حضرت عمرؓ بھی بڑے پیچ و تاب میں تھے چنانچہ کئی باراس بارے میں حضورﷺ سے سوال کرنا چاہا مگر آپؐ خاموش رہے۔ جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو حضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو بلوایا اور فرمایا کہ مجھ پر ابھی ایسی سورت نازل ہوئی ہے جومجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ صلح کیا واقعی اسلام کی فتح ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! یقیناً یہ ہماری فتح ہے۔
حضرت عمرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:
1۔ مکرم ملک محمد یوسف سلیم صاحب انچارج شعبہ زود نویسی جو 86 برس کی عمر میں وفات پاگئےتھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کو کسرِ صلیب کانفرنس 1978ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اور 1983ءمیں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ہم راہ آسٹریلیا،فجی اور سنگاپور کے دورے کا موقع ملا۔
2۔ مکرم شعیب احمد صاحب واقفِ زندگی قادیان جو 56سال کی عمرمیں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کو بطور انچارج دفتر علیا، ناظربیت المال خرچ، ناظم وقفِ جدیدمال، افسر جلسہ سالانہ اور صدر خدام الاحمدیہ بھارت کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔
3۔ مکرم مقصود احمد صاحب بھٹی مبلغ سلسلہ قادیان جو 18؍مئی کو باون سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ 2017ء سے وفات تک مرحوم کو بطور مرکزی قاضی خدمت کی بھی توفیق ملی۔
4۔مکرم جاوید اقبال صاحب فیصل آباد جو چھیاسٹھ برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کو خدمتِ دین کا جنون کی حد تک شوق تھا۔
5۔ مکرمہ مدیحہ نواز صاحبہ اہلیہ نواز احمد صاحب مربی سلسلہ گھانا جو 16؍اپریل کو 36برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ بےحد حوصلہ مند، صابرہ اور جذبۂ ایثار سے سرشار خاتون تھیں۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭
(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)