• 29 اپریل, 2024

بعض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض روایات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو رجسٹر روایات صحابہ سے مَیں نے لی ہیں جن میں مختلف قسم کے مضامین بھی ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ اس جماعت میں شمولیت اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے قومیں تیار ہو رہی ہیں تو اس بات کو پرانے احمدیوں کو بھی ایک فکر کے ساتھ لینا چاہئے۔ اس جلسے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی نئے شامل ہونے والے احمدی مختلف ممالک سے شامل ہو رہے ہیں۔ اُن کی نظروں میں، اُن کی حرکات میں ایک اخلاص اور وفا ٹپک رہا ہوتا ہے۔ پس جو پرانے احمدی ہیں اُن کو ایک فکر اپنے ایمان کے لئے بھی کرنی چاہئے اور اُن کے لئے بھی نمونے قائم کرنے چاہئیں۔ یہ نہ ہو کہ نئی قومیں آ کر اور حقیقی مسلمان بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائیں اور پرانے احمدی خاندان دنیا میں ڈوب کر، اپنی اَناؤں میں ڈوب کر، اُن فضلوں سے محروم ہو جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس اس سوچ کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ یہ دن گزاریں۔ اس اہم بات کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب مَیں بعض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض روایات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو رجسٹر روایات صحابہ سے مَیں نے لی ہیں جن میں مختلف قسم کے مضامین بھی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ عشق و محبت کے واقعات، آپ کی نصائح، صحابہ کے آپ کی نصائح کو سمجھنے کے طریق، آپ کی مہمان نوازی، اس کے جواب میں صحابہ کا ردّ عمل۔ اِن باتوں نے صحابہ کی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا کر دیا جس نے اُن کی روحانی تربیت بھی کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق اور محبت کو مزیدنکھارا بھی اور بڑھایا بھی۔ توجیسا کہ مَیں نے کہا بعض واقعات آپ کی بے تکلف مہمان نوازی کے ہیں۔ بعض مہمانوں کے صبر اور حوصلے کے ہیں، باتوں باتوں میں ہی بعض علمی مضامین بیان ہوئے ہیں، بعض نصائح بھی ہیں۔ پس ان کو غور سے سنیں اور یہ جوڈیوٹی والے کارکنان ہیں اُن کو بھی اِن چیزوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔

ایک روایت ہے۔ حضرت خان صاحب ضیاء الحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم تین احمدی اشخاص، یعنی یہ خاکسار(ضیاء الحق صاحب) اور اُن کے خالہ زاد بھائی سید اکرام الدین صاحب اور اُن کے بہنوئی سیدنیاز حسین صاحب مرحوم سونگڑہ سے روانہ ہو کر کلکتہ ہوتے ہوئے ہم قادیان پہنچے۔ یہ غالباً 1900ء کا واقعہ ہے۔ قریباً دس گیارہ بجے دن کا وقت ہو گیا جب قادیان پہنچے۔ اُسی دن نماز ظہر کے وقت مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مسجد میں ملاقات ہوئی اور اُسی دن بعدنماز مغرب مسجد مبارک میں، یہ کہتے ہیں کہ، ہم تینوں نے مع دیگر نو وارد حاضرین بیعت کی۔ ملاقات کے وقت حضور نے جب میرا نام دریافت فرمایا تو میں نے اپنا نام ضیاء الحق، ق ؔ کو بولتے ہیں جس طرح خاص انداز میں ادا کیا۔ تو حضور نے فرمایا ضیاء الحق۔ (’ق‘ کے تلفظ کو چھوٹی ’ک‘ سے بیان فرمایا) تو کہتے ہیں اُس دن یہ سننے کا میراپہلا موقع تھا کہ پنجاب میں عام بول چال میں ’ق‘ کو ’ک‘ کی طرح بول دیا جاتا ہے۔ بہر حال کہتے ہیں حضور نے مولوی محمد احسن صاحب کو فرمایا کہ اِن تینوں کو سلسلہ کی کچھ کتابیں پڑھنے کی دی جاویں تو مَیں نے عرض کیا کہ فتح اسلام اور توضیح مرام اور ازالہ اوہام کتابیں مَیں نے پڑھ لی ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ پھر تاکید کر دی کہ لنگر خانہ میں ہم تینوں اُڑیسہ کے مہمانوں کے لئے چاولوں کا بندوبست کر دیا جائے۔ کہتے ہیں ہم قریباً سات دن قادیان میں ٹھہرے اور ہر روز بعد نماز مغرب حضور کے پیر دبانے والوں میں شریک ہوتے تھے، مگر خدام کی کثرت کی وجہ سے پَیر کا کوئی حصہ ملنا دشوار ہو جاتا تھا۔ حضور کاپَیر خوب مضبوط معلوم ہوتا تھا۔ ہر روز صبح شام، صبح بعدناشتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ سیر میں ہم شریک ہوتے تھے۔ حضور خوب تیز چلتے تھے، حتی کہ بعض ہمراہیوں کو دوڑنا پڑتا تھا۔ حضور کی چھتری برداری کا فخر ایک عرب غالباً مولوی ابو سعید صاحب کو ملتا تھا۔

کہتے ہیں ایک روز کا ذکر ہے کہ مَیں نے حضور سے دریافت کیا کہ ہمارے محلے کی مسجد میں ہم کس طرح نماز ادا کریں۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا غیر احمدی نماز ادا کرنے کی اجازت دیں گے؟ تو مَیں نے عرض کیا کہ ہمارے محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے ہم کو کون روک سکتا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی روک نہیں تو علیحدہ نماز ادا کر لی جاوے ورنہ نہیں۔ شروع میں ہم کو خبر نہ تھی کہ مخالفت اس قدر ہو گی کہ محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا تودرکنار، اس کے اندر جانے کی بھی اجازت نہ ہو گی اور برادری سے قطع تعلق ہو گا۔ ہم کو کافر، ضالّ اور مضلّ کا خطاب دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

(مأخوذ ازروایات حضرت ضیاء الحق صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 56، 57)

تو شروع شروع میں بعض دفعہ جب لوگ بیعت کرنے آتے تھے، تو یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ مخالفت اس قدر بڑھی ہوئی ہے اور یہ مخالفت تو آج بھی ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے بعد میں وہاں بھی مسجدیں بنانے کی توفیق دی اور دنیا میں آج ہر جگہ مسجدیں بن رہی ہیں۔ جرمنی میں اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو چھ مسجدیں یا چار مساجد باقاعدہ اور دو کو مسجد میں بدلنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔

پھر ایک بے تکلف مجلس کا ذکر ہے، حضرت نظام الدین صاحب معرفت نظام ایم کو شہر سیالکوٹ۔ یہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ سے رخصت ہو کر گھر واپس جانے کے لئے حضرت اقدس کے حضور اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے تو حضورؑ رخصت دے کر اندرون کی کھڑکی سے اندر جانے لگے۔ تو میرے ہمراہ ایک صاحب ملتان کے رہنے والے بھی تھے، انہوں نے اجازت حاصل کر لینے کے بعد اپنی ملتانی زبان میں کہا، (ملتانی زبان پنجابی اپنا طرز ہے اُن کا) کہا کہ حضرت! ’’مَیں کُو کوئی وظیفہ ڈسّو‘‘ یعنی مجھے کوئی وظیفہ بتائیں۔ تو حضور مسکرا پڑے اور فرمانے لگے کہ درود شریف کثرت سے پڑھا کرو یہی وظیفہ ہے۔

(ماخوذ از روایات حضرت نظام الدین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 103)

پس یہ آج بھی ہمارے لئے ان دنوں میں خاص طور پر یہی وظیفہ ہے اس کو بہت زیادہ پڑھنا چاہئے۔

پھر کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہار کے موسم میں دوستوں کو ساتھ لے کر باغ میں گئے اور خادموں سے کہا کہ توت کی ٹوکریاں بھر کے لاؤ۔ چنانچہ دو ٹوکریاں یا پراتیں توت اور شہتوت سامنے رکھ دیں۔ خود بھی حضورؑ کچھ کھانے لگے۔ اس پارٹی میں بہت صحابی نہ تھے، غالباً پندرہ بیس ہوں گے۔

(مأخوذ ازروایات حضرت نظام الدین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 103)

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈھاب کا کنارہ بھر کر اس جگہ ایک پلیٹ فارم سا بنوایا گیا تھا اور مٹی ڈلوائی گئی تھی، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں آج کل (اُس زمانے کی جو بات کر رہے ہیں ) مرزا مہتاب بیگ صاحب درزی کی دکان ہوتی تھی اور کچھ بُک ڈپو اور گلی والی زمین بھی شامل ہو گی۔ کہتے ہیں یہاں جلسہ سالانہ ہوا تو مولوی برہان الدین صاحب مرحوم مغفور دوستوں کو اپنے لوہے کے لوٹے سے جو اِن دنوں اپنے کندھے پر اُٹھایا کرتے تھے (سماوار ٹائپ چیز ہو گی کوئی) اُس میں پانی پلاتے رہے تھے۔ اب دیکھیں ان کا انداز بھی کیسا پیارا ہے۔ کہتے ہیں مولوی صاحب مرحوم پانی پلاتے پلاتے ناچنے لگ گئے اور دوستوں سے کہا کہ پوچھو مَیں کون ہوں اور کیوں ناچ رہا ہوں؟ دوستوں میں سے کسی نے کہا حضرت خود ہی فرمائیے۔ تو فرمانے لگے کہ میں مسیح دا چپڑاسی ہوں۔ میں اس خوشی میں آ کر ناچ رہا ہوں کہ مَیں مسیح کا چپڑاسی ہوں۔

(مأخوذ ازروایات حضرت نظام الدین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ 103، 104)

(خطبہ جمعہ 24؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2021