• 28 اپریل, 2024

حضرت اقدسؑ نے فرمایا رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تیرا لنگر خانہ ناخن کی پشت برابر بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ لنگر خانے میں رات کو ریا کیا گیا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر چوہدری عبدالعزیز صاحب احمدی پنشنر نوشہرہ ککے زئیاں لکھتے ہیں کہ دسمبر 1907ء کے سالانہ جلسے پر جو آخری جلسہ حضرت صاحب کی حیاتِ طیبہ کا تھا، مَیں حاضر ہوا تھا۔ نو بجے حضرت صاحب گھر سے اُن سیڑھیوں کے ذریعے نیچے تشریف لائے جو مسجد مبارک سے چھتی ہوئی گلی میں دفتر محاسب کے کونے کے عین مقابل اترتی ہیں۔ حضور دوسری سیڑھی پر کھڑے ہو گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خاص طور پر بلوا کر فرمایا کہ ’’رات جو مہمان دیر سے آئے ہیں اُن کو کھانا نہیں ملا اور وہ بالکل بھوکے رہے ہیں۔ اُن کی فریاد عرشِ معلّٰی تک پہنچی ہے۔‘‘ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور درست ہے۔ واقعی اُن کو کھانا پہنچانے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ فرمایا ’’ایک کمیٹی چار پانچ آدمیوں کی بنائی جائے جو رات بھر مہمانوں کی آمد و رفت کی نگہداشت اور اُن کے کھانے کا بندوبست کرے تاکہ آئندہ دوستوں کو تکلیف نہ ہو۔‘‘

(ازروایات حضرت چوہدری عبدالعزیز صاحب احمدیؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ217)

میاں اللہ دتہ صاحب ولد میاں خیر محمد صاحب سہرانی احمدی سکنہ بستی رِنداں ڈیرہ غازی خان کہتے ہیں کہ 1902ء یا 1903ء کا واقعہ ہے کہ مَیں قادیان شریف گیا۔ موقع عید کا تھا اور لنگر خانے میں لنگر چلا تو عام و خاص کی تجویز ہونے لگی۔ (لنگر چلا تو عام اور خاص کی تجویز ہونے لگی کہ یہ لوگ خاص مہمان ہیں یہ عام مہمان ہیں )۔ کھانے کی تقسیم کے لئے، تو میری نیت میں فرق آنے لگا۔ فوراً مجھے یہ بد ظنی پیدا ہوئی کہ جو مہدی معہود ہو گا وہ حکماً عدل ہو گا مگر اس لنگر خانے میں رِیا ہونے لگا ہے، مساوات نہیں ہے۔ پھر صبح کو مسجد مبارک میں گیا تو حضرت مسیح موعود اذان سے پہلے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا: مولوی نورالدین صاحب کہاں ہیں؟ حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور! مَیں حاضر ہوں۔ حضرت اقدس نے فرمایا رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تیرا لنگر خانہ ناخن کی پشت برابر بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ لنگر خانے میں رات کو ریا کیا گیا ہے اور اب جو لنگر خانے میں کام کر رہے ہیں اُن کو علیحدہ کر کے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں۔ (اتنی سختی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی کہ جنہوں نے مہمانوں کے درمیان امتیاز کیا تھا، اُن کو نہ صرف فارغ کرو کام سے بلکہ چھ ماہ کے لئے قادیان سے نکال دو) اور ایسے شخص مقرر کئے جائیں جو نیک فطرت ہوں اور صالح ہوں اور فرمایا کہ فجر کی روٹی (یعنی صبح کا کھانا جو ہے ناشتہ) میرے مکان کے نیچے چلایا جائے اور مَیں اور میاں محمود احمد اوپر سے دیکھیں گے۔

اِن کوجو بد ظنی پیدا ہوئی تھی کہ یہ ریاہونے لگ گیا ہے، کہتے ہیں مَیں نے فجر کی نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار پڑھی کہ مَیں نے بدگمانی کی، یا اللہ مجھے معاف کر دے۔ یہ کرامات حضرت اقدس کی مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔

(مأخوذ ازروایات حضرت میاں اللہ دتہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ194، 195)

پس یہ بدظنیاں ہیں جو بعض دفعہ بہت دور لے جاتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت پر رکھنا چاہے اُس کے لئے فوراً وہ سامان پیدا کر دیتا ہے تا کہ بد ظنیاں دور ہو جائیں، اس سے بچنا چاہئے اور انسان عمومی طور پر استغفار اگر کرتا رہے تو بدظنیوں سے بچتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص کی غلطی سے پوری انتظامیہ کو غلط قرار نہیں دینا چاہئے۔

پھر ایک روایت ہے جناب حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے بارہ میں ہے۔ مولوی مہر دین شاگرد مولوی صاحب نے بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نے براہینِ احمدیہ کتاب لکھی (مولوی صاحب نے ان کو بتایا، اِنہوں نے آگے یہ روایت لکھی ہے)۔ تو مَیں نے اس کتاب کو پڑھا تو مَیں نے خیال کیا کہ یہ شخص آئندہ کچھ ہونے والا ہے یعنی اس کو بڑا رُتبہ اور مقام ملنے والا ہے اس لئے مَیں اُن کو دیکھ آؤں۔ مَیں اُن کو دیکھنے کے لئے قادیان پہنچا تو مجھے علم ہوا کہ آپ ہوشیار پور تشریف لے گئے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ بار بار آنا مشکل ہے اس لئے ہوشیار پور جا کر دیکھ آؤں۔ مَیں نے اُن کا پتہ پوچھا تو کسی نے بتلایا کہ اُن کی بہلی کے بیل سفید ہیں (بیل گاڑی جو ہے اُس کے بیل سفید ہیں) وہ اب واپس آ رہی ہو گی، آپ راستے میں سے پتہ پوچھ لیں۔ جب ہم دریا پر پہنچے تو ہماری کشتی نے بہلی والے کی کشتی سے کچھ فاصلے پر تھی اس لئے کچھ دریافت نہ کر سکا۔ جب مَیں ہوشیار پور پہنچا تو مرزا اسماعیل بیگ حضور کے ہمراہ بطور خادم تھے۔ حضور کو انگریزی میں الہام ہوا تھا، اُس کا ترجمہ کرانے کے لئے وہ جا رہے تھے کہ مجھے راستے میں ملے۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں اُنہوں نے کہا کہ شہر میں تلاش کر لیں، بتایا نہیں۔ معلوم نہیں حضرت صاحب نے منع کیا ہوا تھا یا کوئی اور بات تھی۔ آخر مَیں پوچھ کر آپ کے مکان پر پہنچا اور دستک دی۔ خادم آیا اور پوچھا کون ہے؟ مَیں نے کہا برہان الدین جہلم سے حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے آیا ہے۔ اُس نے کہا کہ ٹھہرو مَیں اجازت لے لوں۔ جب وہ پوچھنے گیا تو مجھے اُسی وقت فارسی میں الہام ہوا کہ جہاں تم نے پہنچنا تھا، پہنچ گیا ہے۔ اب یہاں سے نہیں ہٹنا۔ خادم کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ابھی مجھے فرصت نہیں ہے اُن کو کہہ دیں کہ پھر آئیں۔ خادم نے جب یہ مجھے بتلایا تو مَیں نے کہا کہ میرا گھر دور ہے مَیں یہاں ہی بیٹھتا ہوں جب فرصت ملے گی، تب ہی سہی۔ (جب حضرت مسیح موعود کو فرصت ہو گی تب مل لوں گا۔) جب خادم یہ کہنے کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت صاحب کو الہام ہوا کہ مہمان آوے تو مہمان نوازی کرنی چاہئے۔ اس پر حضرت صاحب نے خادم کو حکم دیا کہ جاؤ جلدی سے دروازہ کھول دو۔ میں جب حاضر ہوا تو حضورؑ بہت خندہ پیشانی سے مجھے ملے اور فرمایا کہ ابھی مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مجھے فارسی میں یہ الہام ہوا ہے کہ اس جگہ سے جانا نہیں۔

(مأخوذ ازروایات حضرت مولوی مہر دین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ222تا224)

اور اللہ تعالیٰ نے پھر آپ کو بیعت میں آنے کے بعد بہت بڑا مقام عطا فرمایا۔

حضرت مستری اللہ دتہ صاحب ولد صدر دین صاحب سکنہ بھانبڑی ضلع گورداسپور کہتے ہیں کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا دوست اگر تمہارے پاس آیا کرے تو اس کی خاطر تواضع کیا کرو۔ ذمہ دار مہمان قادیان میں آ گئے تھے، گرمیوں کے دن تھے اُس وقت صبح آٹھ بجے کا وقت ہو گا۔ حضرت صاحب نے باورچی سے پوچھا کچھ کھانا اِن کو کھلایا جائے۔ باورچی نے کہا کہ حضور! رات کی بچی ہوئی باسی روٹیاں ہیں۔ حضور نے فرمایا کچھ حرج نہیں لے آؤ۔ یعنی جب بھی کوئی دوست آئیں، اُن کو کھانا کھلایا کرو۔ روٹیاں اگر فوری تیار نہیں ہو سکتیں وہی باسی لے آؤ۔ چنانچہ باسی روٹیاں لائی گئیں۔ حضور نے بھی کھائیں اور ہم سب مہمانان نے بھی کھا لیں۔ غالباً وہ مہمان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اٹھوال جانے والے تھے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ باسی کھا لینا سنت ہے۔

(ماخوذ از روایات حضرت مستری اللہ دتہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد4 صفحہ106)

اب بعض دفعہ بعض لوگ ناراض ہو جاتے ہیں یہاں تو خیر Pita Bread یا جو بڑی بنی بنائی روٹی ملتی ہے وہ ویسے بھی مشینوں کی بنی ہوئی بازاروں میں ہوتی ہے اور باسی ہوتی ہے لیکن پھر بھی سالن وغیرہ کے لئے بعض دفعہ ہوتا ہے لیکن باسی سالن کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انتظامیہ باسی سالن سڑا کر ان کو کھلانا شروع کر دے۔ روایات حضرت محمد علی اظہر صاحب جالندھر، مولوی غلام قادر صاحب کے بیٹے ہیں، کہتے ہیں کہ 1906ء کا جلسہ سالانہ مسجد اقصیٰ میں ہوا تھا جس کا صحن بھرتی ڈال کر بہت وسیع کر لیا گیا تھا۔ اس کے جنوب مشرقی کونے پر اس محلّہ کے ساتھ جس میں آج کل سلسلہ کے دفاتر ہیں کسی ہندو برہمن کا ایک کچا مکان تھا۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے کچھ دوست اس مکان کی چھت پر بھی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے تھے۔ اُس پر صاحبِ مکان نے حضرت اقدس کو اور جماعت کو گالیاں دینی شروع کیں۔ ہندو تھا گالیاں دینی شروع کر دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز سے فارغ ہوتے ہی جماعت کو صبر کی تلقین کی اور اس چھت پر جانے سے منع فرمایا۔ مزید احتیاط کے لئے منڈیر پر اونچی دیوار بنوا دی گئی۔ کچھ عرصے کے بعد تار کا جنگلہ لگوا دیا گیا تا کہ کوئی دوست اس چھت پر بھول کر بھی نہ جائے۔ آخر وہ مکان برباد ہوا، وہ بھی ایک الہام تھا اور مالکوں کو اس کو فروخت کرنا پڑا اور جماعت نے وہ خریدا اور اب وہ مسجد اقصیٰ کا ایک جزو ہے۔

(ماخوذ از روایات حضرت محمد علی اظہر صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد5 صفحہ13)

پہلے تو وہ ایک حصہ تھا صحن کے ساتھ دفاتر تھے۔ اب دو سال پہلے اللہ کے فضل سے وہاں جب مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی ہے وہ سارا حصہ اس میں آ گیا ہے اب مسجد کے اُس حصے میں ہی تقریباً دو اڑھائی ہزار آدمی نماز پڑھ لیتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 24؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جون 2021