نا ترا ہے یہ جور و جفا مختلف
نا مرا ہے یہ صبر و رضا مختلف
چودہ سو سال پہلے ہوا تھا یہی
تو بتا کیا تجھے ہے لگا مختلف
ہم پہ جاری ہے مدت سے ظلم و ستم
کیسے کہدوں کہ ہے کربلا مختلف
کوئی حرص و ہوس کی کہانی نہیں
داستاں اپنی ہے باخدا مختلف
جو بھی کہنا تھا سجدوں میں اس سے کہا
مانگنے کی ہے میری ادا مختلف
خوف سارے جہاں کے ہوا ہو گئے
اس کو مانا تو دل یہ ہوا مختلف
اوروں کے جیسی زاہد لکھے کیوں غزل
اس لیے جب لکھا ہے لکھا مختلف
(ط۔ا۔زاہد)