• 29 اپریل, 2024

مکرم محمد شمس الدین صاحب بھاگلپوری اور مکرمہ سیدہ صدیقہ بیگم صاحبہ

میرا سسرال
مکرم محمد شمس الدین صاحب بھاگلپوری اور مکرمہ سیدہ صدیقہ بیگم صاحبہ کا ذکرِ خیر

ایم اے فائنل کا امتحان دے کر لاہور ہوسٹل سے ربوہ اپنے گھر آئی تو چند دن کے بعد امی جان نے رسمی سی تمہید کے بعد خطوط کا ایک پلندہ میر ی طرف بڑھا کر کہا۔ یہ خطوط تمہارے رشتے کے بارے میں آئے ہو ئے ہیں پہلے اس لیے ذکر نہیں کیا کہ تم یکسوئی سے اپنی تعلیم مکمل کرلو اب یہ پڑھ لواورپھر دعا کرکے کوئی فیصلہ کرو۔امی جان کا انداز بتارہا تھا کہ وہ مطمئن ہیں میں نے خطوط لے کر ایک طرف رکھے اور عرض کیا کہ امی جان مجھے آپ پر بھروسہ ہے ۔آپ کا فرمانا سر آنکھوں پر مگراتنی جلدی کیا ہے دو تین سال ٹھہر جائیں میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہوں۔

ٹھیک ہے تم یہ خطوط پڑھ لو پھر بات کریں گے۔ خطوط پر درج تاریخوں سے اندازہ ہوا کہ قریباً دو سال سے بات چل رہی تھی اور میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ یہ امی جان کا مجھ پر بہت بڑا احسان تھا۔ اس دوران وہ قادیان میں اباجان سے مشورہ کرتی رہی تھیں اور ضروری معلومات حاصل کرچکی تھیں۔ اس زمانے میں رشتے اسی طرح ہوتے تھے۔ والدین اطمینان کرکے بیٹی کو بتاتے ہیں اور اُمید رکھتے کہ بیٹیاں والدین کے فیصلہ پر بلا چون وچرا عمل کریں گی۔ میں نے پہلے سے یہی فیصلہ کیا ہوا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ جب میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا تو بعض مہربانوں نے امی جان کو ڈرایا تھا کہ لڑکی کو لاہور نہ بھیجیں باہر کی ہوا لگی اور ہاتھ سے گئی۔ اپنی مرضی کرنے کی عادت ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ مگر میں نے اسی وقت یہ سوچا تھا کہ بفضلِ الٰہی تعلیم حاصل کروں گی اور عاجزانہ فرماں برداری بھی کروں گی۔ تاکہ میرے بعد تعلیم کا شوق رکھنے والی لڑکیوں کے راستہ میں رکاوٹ نہ ہو۔ امی کے شرح صدر کے انداز ے کے بعد میں نے کوئی سوال پوچھے بغیر ، خطوط پڑھنے سے پہلے ان کو وہی جواب دیا جو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد محترمؑ کو دیا تھا۔ اور معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔۔۔

ناصر صاحب کے خاندان سے ہمارے خاندان کے تعلقات بہت پرانے تھے جب ان کے والد صاحب بہار سے ہجرت کرکے قادیان آئے تو محلہ دارالفضل میں میرے دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحب رضی اللہ عنہ کے پڑوس میں رہائش اختیار کی۔ دادا جانؓ کو ان سے حسنِ سلوک کے بہت سے مواقع ملے ۔ جس سے قریبی تعلقات کا آغاز ہوا پھر ان کی دو بہنیں مکرمہ کلثوم صاحبہ اور مکرمہ بشری صاحبہ جامعہ نصرت قادیان میں میری بہن مکرمہ امتہ اللطیف صاحبہ کی کلاس فیلو تھیں۔ پڑوسی ،کلاس فیلو، سہیلیاں، گھریلو مراسم بن گئے۔ تقسیم بر صغیر کے بعد یہ خاندان کراچی منتقل ہوگیا۔ جلسہ سالانہ پر ربوہ آ تے توآپا لطیف صاحبہ کے گھر ہی ٹھہرتے۔ امی جان بھی بہت پیارسے ملتیں اس کے علاوہ یہ ہوا کہ ناصر صاحب کے بڑے بھائی مکرم قریشی محمود صاحب نے ربوہ میں ہماری گلی میں ہمارے گھر کے سامنے مکان تعمیر کروایا۔ اس سلسلے میں ان کا ربوہ میں قیام رہتا۔ امی جان کو چاچی جی کہتے تھے اور بلاتکلف مشورے وغیرہ کے لیے آجاتے۔ اس دوران ان کی نظر انتخاب مجھ پر پڑی اور چھوٹے بھائی کے رشتے کی تحریک کردی۔ جس پر خطوط کا تبادلہ ہوتا رہا۔

میرا نتیجہ اچھا آیا جامعہ نصرت میں جاب کرنے لگی۔ 1962ء میں جلسہ سالانہ پر کراچی سے آنے والے مہمانوں میں ناصر صاحب بھی تھے ۔ امی جان سے ملنے آئے اور کہا کہ اب تو تعلیم مکمل ہوگئی ہے بہتر ہے کوئی فیصلہ ہو جائے۔ امی جان نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر لڑکی چاہتی ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے کچھ وقت مل جائے۔ ناصر صاحب نے کہا وہ تو بعد میں بھی کرسکتی ہے۔ امی جان نے کہا کہ میں سوچتی ہوں ابھی تک پڑھنے پڑھانے میں رہی ہے گھرداری اور کھانا پکانے کا تجربہ نہیں ہے ۔کچھ سیکھ لے تو اچھا ہو ناصر صاحب نے فوراً وعدہ کیا کہ یہ بھی کوئی بات نہیں ہم مل کر پکالیا کریں گے (یہ دونوں وعدے ہوا کے ساتھ اُڑ گئے)۔ ناصرصاحب نے امی جان کی باتوں میں آمادگی دیکھی تو بہت خوش ہوئے۔ جلدی جلدی انتظامات کرکے آگئے مارچ میں نکاح ہوا۔ میں نے نکاح سے پہلے ناصر صاحب کو دیکھا نہیں تھا۔ نکاح فارم پر زاروقطار روتے ہوئے جہاں بھائی جان نے انگلی رکھ کر کہا دستخط کردو۔ اللہ کا نام لے کر کر دیئے۔ دسمبر میں شادی طے ہوئی۔ میرے ابا جان قادیان سے شادی پر تشریف نہیں لاسکتے تھے۔ میں خود اباجان سے ملاقات کے لیے قادیان گئی اور اس نئے تعلق کے بابرکت ہونے کے لیے بیت الدعا میں ماتھا رگڑا۔ وہاں سے واپسی کے دو دن بعد رخصت ہو کر میکے سے سسرال آگئی۔

شادی کا بندھن بظاہر دو افراد کے درمیان ہوتا ہے مگر دراصل دو خاندان آپس میں بندھ جاتے ہیں۔ والدین کی آغوش سے نکل کر جس گھر میں قدم رکھتے ہیں وہاں بہت مختلف قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرے معاملے میں تو پنجابن، بہاری کے گھر گئی تھی۔ ربوہ کا ماحول چھوڑ کر کراچی کی فضاؤں کو اپنانا تھا۔ معاملہ دشوار لگ رہا تھا خود بھی دعائیں کررہی تھی محترم والدین کی دعائیں اور نصائح ساتھ لائی تھی۔ دعا کے لیے اپنی روحانی ماں حضرت مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنھا کو بھی درخواست کی۔ جواب میں آپ نے تحریر فرمایا
’’تمہاری سسرال سے ہمارے گھر کا تعلق ہے اب دوری کی وجہ سے یہ لوگ کم ملتے ہیں لیکن میرے دل میں ان سب کی بہت قدر ہے ۔ اور میں ان سب کے لیے ہی دعا کرتی ہوں تمہارے خُسر میرے اباجان کے پاس ہی رہتے تھے بڑے مخلص تھے ۔ اباجان کو ان پر بڑا اعتما د تھا۔ ہم اُس وقت لڑکیاں تھیں اور اباجان لڑکیوں کی تربیت کے بارے میں بڑے سخت تھے لیکن کہیں آنا جانا ہوتا تو ہم بہنوں کو شمس الدین صاحب کے ساتھ بھجوادیتے تھے اور وہ بھی بڑا خیال رکھتے تھے ذرا کہیں راستے میں بے احتیاطی ہوئی نقاب وغیرہ اُٹھائی تو فوراً ٹوک دینا کہ ٹھیک سے پردہ کرو‘‘

حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کے والد مکرم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیلؓ کے اعتماد نے میرے دل میں ’ابا‘ کی قدر میں بے حد اضافہ کیا۔ میں نے ان کے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے ’اماں‘ سے عرض کی کہ آپ کو جو باتیں یاد ہیں مجھے بتائیں۔ اماں تصورات میں کھو گئیں چہرے پر سال خوردگی کی تحریر، آنکھوں میں یاد ماضی کی جھلک، یادوں کے ساتھ جذبات کا اُتار چڑھاؤ، کہیں دبی دبی سی مسکراہٹ کہیں آہوں کا دھواں۔ اس پر مخصوص بہاری زبان اور منفرد لب و لہجہ یہ سب کچھ جو تصویر بنارہے تھے وہ تو کاغذ پر نہیں اُتارسکتی۔ البتہ اُن کی معلو مات کو قدرے ترتیب دے کر پیش کر رہی ہوں۔

مکرم محمد شمس الدین صاحب کے قبول احمدیت کا واقعہ بڑا ایمان افروز ہے۔ ایک دفعہ برہ پورہ بھاگل پور میں گلیوں میں اعلان ہورہا تھا کہ احمدیوں کا جلسہ ہے۔ اعلان کی صورت یہ تھی کہ گلی میں پہلے دَف بجا کر متوجہ کیا جاتا پھر جلسہ کا اعلان کرتے جگہ اور وقت وغیرہ بتاتے۔ یہ اعلان ابا نے سنا تو سوچا کہ اچھا تماشا رہے گا ہم بھی چلتے ہیں۔ جلسہ میں پہنچے تو سب سے پہلے تلاوتِ قرآنِ پاک ہوئی۔ جو ان کو بہت اچھی لگی اچانک بعض لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ اس کے باوجود جلسہ جاری رہا۔ مقررین نے قرآنِ پاک اور احادیث مبارکہ سے دلائل پیش کرکے مجدّد کی آمد اور چودھویں صدی میں موعود مسیحا کے بارے میں پیش گوئیاں پیش کرکے اعلان کیا کہ موعود مجدد ’مہدی ء دوران‘ مسیحائے زمان علیہ السلام قادیان میں تشریف لاچکے ہیں۔ لوگ تو شور مچاتے رہے لیکن ابا کی سعید روح حق کی طرف مائل ہوگئی۔ ہجوم سے رستہ بنا کر سٹیج پر گئے اور ایک مقرر سے گزارش کی کہ مجھے مسیح وقت کی آمد کے متعلق مزید معلومات دیجئے ۔ یہ مقرر مکرم محترم مولوی عبدالماجد صاحب تھے (والد صاحب حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ) آں محترم نے کچھ سمجھا نے کے بعد لٹریچر دیا۔ احمدیت کے بارے میں یہ کتابیں ابا اور ان کے بڑے بھائی مکرم قریشی محمد عامل صاحب نے مل کر پڑھیں۔ کتابیںپڑھ کر اور کتب لے آئے حق کھلتا گیا۔ احمدیوں کے ساتھ نمازیں ادا کرنے لگے اور نمازوں میں خشوع خضوع تضرع سے حقیقی اسلام کی اصلی راہیں ملنے کی دعا کرنے لگے ۔ دعاؤں کا جواب ایک خواب سے ملا۔ ابا نے دیکھا کہ بڑا خوفناک جنگل ہے ۔ جس کے بیچوں بیچ دیوار ہے ۔ وہ دیوار پر کھڑے ہیں ایک طرف خوفناک درندے ہیں دوسری طرف مہیب اندھیرا ہے خوف زدہ ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارا ’اے اللہ تو ہی رہنمائی کر‘ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بزرگ نمودار ہوئے جبّہ عمامہ پہنے ہوئے ہاتھ میں عصا تھا۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر ہاتھ پکڑا اور فرمایا۔

میرے پیچھے پیچھے آؤ میں تمہیں جنگل سے نکالتا ہوں، صبح اُٹھے تو مکرم مولوی عبدالماجد صاحب کے پاس جا کر خواب سنایا۔ وہ ایک تصویر اُٹھالائے اور دکھا کرپوچھا ۔پہچانو کیا وہ بزرگ ایسے ہی تھے۔ ابا نے لپک کر تصویر لی اور سینے سے لگالی اور زاروقطار رونا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے سیدھا راستہ دکھا دیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ یہ اندازاً 1913ء کا واقعہ ہے بیعت کی خبر کو مصلحتًا عام نہ کیا کیونکہ برہ پورہ میں مخالفت زوروں پر تھی۔ مگر جلد ہی اعلان بھی کردیا۔ اس اعلان کی بنا بھی ایک خواب تھا۔ آپ نے دیکھا کہ غیر احمدیوں نے بازار میں گھیر لیا ہے اور شور مچارہے ہیں کہ یہ قادیانی ہوگیا ہے اس کو گولی ماردو۔ ایک کہتا ہے اس کو تختہ کے ساتھ کھڑا کرو اور تین گولیاں مارو اگر اس کو کوئی گولی لگ گئی تو قصہ ختم اگر نہ لگی تو مرزا سچا۔ چنانچہ اسی طرح کیا گیا پہلے بائیں ہاتھ کو پھر دائیں ہاتھ کو پھر سر کو نشانہ لے کر گولیاں ماری گئیں جو تختے پر لگیں۔ جب تیسری گولی سے بھی بچ گئے تو نعرہ مارا۔

مرزا سچا ہے ‘ مرزا سچا ہے

خواب میں یہ الفاظ اتنے جوش سے ادا ہوئے کہ بے قابو ہو کر چارپائی سے گر گئے ۔ اماں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے آپ سوتے جاتے مرزا سچا مرزا سچا بولتے رہتے ہیں ابا نے کہا ابھی آکر بتاتا ہوں۔ وضو کیا نفل پڑھے اورسیدھے مولوی صاحب کو جا کر خواب سنایا مولوی صاحب نے کہا، شمس الدین اب مخالفت کچھ نہیں بگاڑے گی احمدیت کا اعلان کردو‘

گھر آکر بڑے بڑے کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ گئے اور جلی حروف میں بہت سے پرچے لکھے۔

’’میں مسمٰی محمد شمس الدین ولد قدرت اللہ اعلان کرتا ہوں کہ میں احمدی ہوں اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مہدی اور مسیح تسلیم کرتا ہوں۔‘‘

یہ پرچے گلی محلے میں دیواروں پر چسپاں کردیئے بس پھر کیا تھا اللہ دے اور بندہ لے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حقہ پانی بند۔ ماشکی بھنگی کو ممانعت ، بچے نکلیں تو غنڈے ستائیں۔ زندگی دو بھر ہوگئی۔ کسی نے جاکر ابا کے خسر مولوی سید عبداللطیف صاحب کو خبر کردی کہ تمہارا داماد کافر ہوگیا ہے۔ وہ دارالعلوم کے اُستاد تھے۔ غیرت نے زیادہ ہی جوش مارا غصے سے کھولتے ہوئے بڑا سا ڈنڈا لے کر جس پر لوہے کا سم بھی چڑھا ہوا تھا۔ آدھمکے ۔ دروازہ کھٹکھٹا یا۔ ابا تو ادھر ادھر ہوگئے اماں نے دروازہ کھولا وہیں سے اماں کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر باہر لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ غصہ سے آواز بھی بہت اونچی ہوگئی تھی بولے صدیقن ابھی چل تیرا نکاح توٹ گیا ہے شمسو مسلمان نہیں رہا ہے۔ تجھے ہمارے ساتھ جانا ہوگا اماں نے بڑے ادب سے عرض کیا آپ بیٹھیں تو سہی پانی پئیں سانس لیں پھر بات کریں مگر ان کے اُبال میں فرق نہ آیا ہم نہیں بیٹھیں گے، نہ پانی پئیں گے، تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ ساتھ لے کر جائیں گے۔ اماں نے کہا
میں تو قادیانی نہیں ہوئی۔ آپ ہی کے دین پر ہوں۔ میری شادی بھی آپ نے ہی کی تھی میں خود یہاں نہیں آئی تھی۔ آپ نے میرا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا تھا جس وقت آپ نے ان کو میرا ہاتھ دیا تھا اس وقت نہ ان کو کلمہ آتا تھا نہ قرآن نماز جانتے تھے۔ مار پیٹ کرتے تھے یار دوستوں کے ساتھ بے مقصد گھومتے تھے تھیئٹر جاتے ناچ گانا سنتے۔ سالن میں نمک تیز ہوتا تو برتن اُٹھا کر پھینک دیتے تھے اُس وقت آپ کو مسلمان لگتے تھے۔ اب سارا وقت قرآن پاک پڑھتے ترجمہ سیکھتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں تہجد کے پابند ہیں۔ مجھ سے معافیاں مانگتے ہیں کہ اگر کبھی کوئی زیادتی ہوتو معاف کردو۔ یہ سب تبدیلیاں قادیانی ہوکر آئی ہیں۔ اگر آپ اس کو کفر سمجھتے ہیں تو یہ کفر پہلی حالت سے لاکھ گنا بہتر ہے۔

یہ سب سن کر وہ خاموش ہوگئے پھر سمجھا نے لگے کہ تم اپنا مذہب نہ چھوڑنا۔ اماں کے والد صاحب کا غصہ کم نہیں ہوا۔ اماں کے دو بھائی تھے انیس اورجلیس نام تھا۔ پولیس میں کام کرتے تھے۔ وہ بھی طیش میں آکر مخالفت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ برہ پورہ میں رہنا مشکل ہوگیا۔ ابا کے بڑے بھائی مکرم قریشی محمد عامل صاحب بیوی بچوں کے ساتھ ہجرت کرکے قادیان جا چکے تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ تم بھی ہجرت کرلو۔ ابا نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ کسی مناسب وقت پر وہاں سے نکل جائیں گے اپنا مکان بیچنا چاہا تو مخالفین نے شہر میں ڈھول بجا کر اعلان کیا کہ شمس الدین کا مکان کوئی نہ خریدے وہ قادیانی ہوگیا ہے۔ آپ نے مکان بیچنے کا خیال بھی چھوڑا اور ایک رات ایک بیل گاڑی پر بیوی بچوں کواور کچھ سامان لے کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے ۔جس شہر سے ابا یوں خالی ہاتھ نکل رہے تھے اس میں بڑی فراخی کے دن دیکھے تھے ان کے باپ دادا کا بڑا مکان تھا زمینیں جائدادیں تھیں۔ بے شمار آمد تھی بڑوں سے سُنا تھا کہ روپیہ گن کر رکھنا ان کے بس میں نہ رہا تھا تو چھاج سے پھٹکتے تھے۔ اور کوٹھی میں ڈالتے تھے جو گر جاتا وہ غریب غرباء چن لیتے تھے ۔ بازار سے صرف نمک آتا تھا۔ باقی سب ضروریات کاسامان گھر کی زمینوں سے حاصل ہوجاتا۔ اتنی کشائش کے بعد صرف مذہب کے لیے سب چیزوں سے ہاتھ اُٹھالینا ان کے جذبہ ٔایمانی کا ثبوت ہے۔

ابھی شہر سے زیادہ دُور نہیں گئے تھے کہ کسی طرح اماں کے بھائیوں انیس اور جلیس نے آلیا اور کہا کہ شمس الدین تم کو جہاں جانا ہے جاؤ مگر ہماری بہن نہیں جائے گی۔ ابا نے کہا ٹھیک ہے میری طرف سے زبردستی نہیں ہے تمہاری بہن جاتی ہے تو لے جاؤ۔ بھائیوں نے جب اماں سے ساتھ جانے کا اصرار کیا تو تینوں بچے محمود احمد’ نور احمد اور زینب ماں کو لپٹ گئے۔ بھائیوں کی تکرار بڑھی تو اماں بیل گاڑی سے اُتر آئیں۔ بھائیوں کی طرف دیکھ کر للکارکر کہ۔

ہم اپنی مرضی سے جاتے ہیں۔ ہماری شادی ہوئی ہے۔ ہمارے بچے ہیں تم ہمیں نہیں روک سکتے۔ اب ہم اپنے شوہر کے ساتھ رہیں گے۔ جو بھی حالات ہوں۔درخت کے نیچے رہنا پڑا تو وہیں رہ لیں گے ۔

یہ اماں کی وفاداری کا امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ٹھہریں اور سفر جاری رہا۔ اس وقت ریل کے ٹکٹ پانچ روپے میں آئے تھے اور تین دن میں قادیان پہنچے تھے ۔ اماں قادیان میں آنے کے بعد صرف ایک دفعہ وطن واپس جاسکیں پھر کبھی رابطہ نہیں ہوا اماں نے پہلے تحریری بیعت کی تھی پھر قادیان آکر بیعت کی۔

قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک خاندان اور اڑوس پڑوس کے احمدی حضرات نے بڑی دلداری کی۔ اس طرح سگے رشتہ داروں سے زیادہ پیار کرنے والا ایک وسیع تر خاندان مل گیا۔ اماں کی حسین یادوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت آپا سارہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی میں آپ کو مدعو کیا گیا تھا۔ جس سے سب کو بہت خوشی ہوئی تھی۔ قادیان میں محلہ دارالفضل میں بی ٹی صاحب کے گھر کے پاس رہائش تھی۔ ابا فوج کے ملازم تھے1941ء کی جنگ میں خدمات سرانجام دی تھیں۔ قادیان آئے تو فکر معاش شروع ہوئی۔ قادیان اور بٹالہ کے درمیان بسیں چلانے لگے ۔ پھر یہ سلسلہ چھوڑ کر گاڑیاں مرمت کرنے کا کام کیا۔ پھر سلسلے کی کار ڈرائیو کرنے کا کام کیا۔

یہ کام اس لیے بڑا بابرکت ثابت ہوا کہ آپ کوحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’ اور حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی گاڑیاں چلانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ محترم ہستیاں ابا کو ملازم نہیں گھر کا فرد سمجھتیں اور سارے خاندان سے حسن سلوک کرتیں جس کے بہت سے میٹھے میٹھے واقعات سب کو یاد تھے (بعد میں آپ کے بھتیجے اورشاگرد قریشی نذیر احمد صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کار لمبے عرصہ تک چلاتے رہے)

ابا کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ اس کے لیے وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا کرتے ۔ جب بس چلاتے تھے تو سواریوں سے الفضل یا کوئی دینی کتاب سنانے کی فرمائش کرتے ۔ بات سے بات نکلتی اور رُخ پیغامِ حق کی طرف مُڑ جاتا۔ بے خوف ہوکر دھڑلے سے بات کرتے ایک دفعہ بٹالہ کے لاری اڈہ پر کھڑے تھے۔ ساتھی ڈرائیوروں سے اپنے عقائد کی بات شروع کی تو مخالفین نے کہا کہ تم ہر وقت دعویٰ کرتے ہو کہ مرزا صاحب سچے ہیں اُن کی صداقت کا کوئی ثبوت بھی دو۔ بے ساختہ جواب دیا۔ مرزا صاحب کی سچائی کا ثبوت تو میں خودبھی ہوں۔ تم سب بھی ڈرائیور ہو اور میں بھی ڈرائیور ہوں۔ آؤ علمی بحث کرلیتے ہیں۔ صاف کھل جائے گا کہ سچائی کس کا ساتھ دیتی ہے ۔وہ کھسیانے سے ہو گئے بات وہیں ختم ہوگئی گھر میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے اور بچوں کی تربیت میں کوشاں رہتے قادیان آکر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بچے کلثوم، بشریٰ اور ناصر دئے۔ آپ ہر نماز میں اور تہجد میں لمبی لمبی دعائیں کرتے خاص طورپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی اولاد کی خاطر دعاؤں والی نظمیں بلند آواز سے پڑھتے بچوں کو تعلیم دلانے کا بھی شوق تھا۔ ایک بیٹی زینب تو شادی کے بعد ایک بیٹا یادگار چھوڑ کر فوت ہوگئی تھیں باقی دونوں بیٹیوں کو قادیان کے جامعہ نصرت میں داخل کروایا۔ چھوٹے بیٹے ناصر کو ساتھ ساتھ رکھتے۔ اپنے ابا کی یادوں کے سلسلے میں ناصر صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ کسی سفر میں گاڑی آنے میں کچھ دیر تھی ابا اسٹیشن پر بیٹھ کر اونچی آواز میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب پڑھنے لگے۔ سُن کر لوگ جمع ہونے لگے جمع ہونے والے لوگ یہ جان کر کہ یہ احمدی ہے مذاق اڑانے لگے تضحیک آمیز جملوں سے ناصر صاحب شرمندہ ہورہے تھے کہ ابا آخر ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس اثناء میں گاڑی آگئی تو کسی نے سیٹ پر بیٹھنے نہیں دیا کھڑے کھڑے سفر کیا۔

آپا کلثوم صاحبہ نے سنایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک دفعہ ڈلہوزی تشریف لے گئے ۔ابا ساتھ تھے رات کو نیند نہ آئی تو کھلی ہوا میں ٹہلنے لگے موسم اچھا تھا۔ رات کی تنہائی میں من پسند کام کرنے لگے۔ خود ہی سوال کرتے اور خود ہی اس سوال کا بادلائل جواب دیتے۔ جوش میں آواز بلند ہوگئی۔ حضرت صاحبؓ نے یہ انوکھا مباحثہ سُن لیا دریافت فرمایا یہ کون صاحب ہیں۔ یہ علم ہونے پر کہ محمد شمس الدین صاحب بھاگلپوری ہیں آپؓ نے فرمایا
’اگر احمدیت کو اس طرح کے جوشیلے لوگ مل جائیں تو احمدیت بہت جلد اور تیزی سے پھیل سکتی ہے۔‘

ابا دعوت الی اللہ کو اپنی مشکلات کے حل کا نسخہ بتاتے تھے کہا کرتے تھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے میں باہر نکل جاتا ہوں اور کسی کو بھی پکڑ کر تبلیغ کرنے لگتا ہوں میری مشکل مولا کریم آسان فرمادیتا ہے۔ صدقہ حیرات سے ردّ بلا پر یقین رکھتے تھے۔ بہت دعا گو بزرگ تھے

بارگاہِ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو
مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے
حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر
کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ابا پر اعتماد اور ابا کے اس پر پورا اُترنے کا ایک واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ حضورؓ نے کسی امر کے متعلق مکمل رازداری رکھنے کا ارشاد فرمایا۔ ابا کچھ دن تو گھر ہی نہ آئے اس ڈر سے کہ گھر گیا تو بیوی بچوں کے سامنے کوئی بات منہ سے نہ نکل جائے۔ جھوٹ بول نہیں سکتے تھے۔ ایک ترکیب سوجھی سارا منہ سر پٹیوں سے اچھی طرح جکڑوالیا جیسے چوٹیں لگی ہوں۔ اس طرح منہ بندھے گھر گئے سب سے مل بھی آئے اور رازداری بھی رہی۔ حضورؓ نے تقسیم بر صغیر کے وقت بھی آپ پر اہم ذمہ داریاں ڈالی تھیں۔ جن سے آپ کماحقہ عہدہ برآ ہوئے۔

تقسیم کے بعد کچھ عرصہ لاہور میں رہے پھر بڑے بیٹے محمود احمد قریشی صاحب کے پاس کوئٹہ چلے گئے جو فوج میں ملازم تھے ۔ دوسرے بیٹے نور احمد قریشی صاحب کراچی میں تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ کراچی میں بچوں کی پڑھائی وغیرہ کے زیادہ مواقع ہیں بڑا شہر ہے آپ کراچی آجائیں۔ بھائی نور احمد صاحب بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر جامع کلاتھ مارکیٹ کے سامنے عید گاہ میدان میں رنچھوڑ لائن کی ایک متروکہ بلڈنگ میں ایک فلیٹ میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے ۔ابا کے آنے سے گھر میں نو افراد کا اضافہ ہوا۔ ابا، ان کی والدہ صاحبہ ، والدہ صاحبہ کی دو بہنیں، بیوی، تین بچے اور مرحومہ بیٹی کا ایک بیٹا معین۔ ایک کمرے کے فلیٹ میں رہنا مشکل تھا اس لیے اس بلڈنگ کی چھت پر سونے لگے۔ کچھ مسئلہ حل ہوا۔ بعد میں اسی چھت پر پانی کے ٹینک کے ساتھ لکڑی کے تختوں کی دیواروں اور ٹین کی چھت ڈال کر ایک رہائشی کمرہ بھی بنالیا۔ مسئلہ صرف ایک نہیں تھا۔ ناواقفیت ’اجنبی شہر› بے سروسامان، بچوں کی تعلیم کا فکر، کوئی ذریعہ آمد نہیں تھا۔ سب سے زیادہ فکر ناصر کو سکول میں داخل کرانے کا تھا۔ ابا نے اپنا ہمیشہ والا حربہ استعمال کیا یعنی دعا ’دعا‘ دعا۔ اس وقت اس علاقے کے احمدی ریڈیو پاکستان کی عمارت کے قریب احمدیہ لائبریری میں نماز پڑھتے تھے۔ ابا نے نماز میں بیٹے کے داخلے کے لیے خوب دعا کی۔ سلام پھیرا تو دائیں طرف کے نمازی سے دعا سلام ہوئی۔ باتوں باتوں میں اپنا مسئلہ بتایا ان صاحب نے کہا میں محکمہ تعلیم میں ملازم ہوں۔ آپ فکر نہ کریں میں اس بچے کا داخلہ خود کرادوں گا اس محسن نے نہ صرف بیٹے کا داخلہ کروایا بلکہ فیس بھی معاف کروادی۔ یہ دستِ غیب سے مدد تھی جو اس غریب الوطنی میں بڑا سہارا بنی۔ اللہ بہترین کارساز ہے۔

چھت پر رات کو ٹھنڈ ہوجاتی بدلتا موسم ابا کو راس نہ آیا۔ ایکصبح سو کر اُٹھے تو اُٹھا نہ گیا ان پر فالج کا حملہ ہوگیا تھا۔ پھر ابا زیادہ دیرنہ جئے کچھ بہتر ہونے پر لاٹھی لے کر چلنے لگے تھے لیکن مناسب علاج کے لیے وسائل نہ تھے ۔ کبوتر کا شوربہ اور حکمت کی دوا بمشکل مہیا کرتے رہے ۔یکم اگست 1994ء کو داعیء اجل کو لبیک کہا۔

اس فنا فی اللہ وجود سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی مگر سب کی باتیں سُن کر ان سے عقیدت ہوگئی ۔ خاص طورپر خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی محبت سے بہت متاثر ہوئی۔ مولا کریم نے ان کا اخلاص دیکھ کر ان کو اپنے پیاروں کی خدمت کے لیے چُن لیا تھا۔ وہاں بھی اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے پیاروں کے ساتھ رکھے ، آمین۔

خدا کے ہیں خدا کے پاس ہم کو لوٹ جانا ہے
یہ دنیا عارضی ہے مستقل عقبی ٹھکانا ہے

اماں سے میرا ساتھ قریباً تین سال رہا۔ سادہ مزاج کی نیک خاتون تھیں۔ ہر ایک کا بھلا چاہنے والی۔ دین العجائز پر عمل کرنے والی صابرہ شاکرہ خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنا وطن چھوڑ کر بڑی قربانی کی تھی۔ بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر ثابت قدم رہیں۔اور بچوں کی تعلیم اور تربیت پر توجہ مرکوز رکھی۔ قادیان کے ماحول کو اپنا لیا اور اسی میں خوش رہتیں کراچی آکر بھی بے وطنی اور بے سروسامانی کا عالم دیکھنا پڑا۔ ان کو دو ہجرتیں کرنی پڑیں پہلے برہ پورہ میں سب کچھ چھوڑا پھر قادیان سے خالی ہاتھ نکلے۔ کراچی میں ابا کوئی کام نہ کرسکے تنگ دستی مزید بڑھ گئی۔ پھر ابا کا انتقال ہوگیا۔ بڑا کنبہ تھا۔ کمانے والے ایک بھائی نور احمد یا بھائی محمود کچھ خرچ بھیج دیتے ۔ آپا کلثوم صاحبہ کی شادی ابا کی زندگی میں ہوگئی تھی۔ آپا بشریٰ صاحبہ کی ابا کی وفات کے بعد قریشی نذیر احمد صاحب ابن حضرت قریشی عبدالعزیز صاحب دہلوی سے ہوئی۔ یہ خود بے ٹھکانا تھے چھت پر آرہے ۔ اس طرح چھت پر رہنے والوں میں اضافہ ہوگیا۔ مگر ان کی آمد ایک اچھا اضافہ تھا ملنسار مزاج کے محنتی آدمی تھے ۔ ٹینک کے ساتھ والے کمرے کے ساتھ ویسے ہی لکڑی کے تختوں اور ٹین کی چھت والے کمرے بنالیے ۔ اسی گھر میں ناصر صاحب نے تعلیم حاصل کی۔ فیس تو معاف ہوگئی مگر کتابوں کاپیوں کا حصول بھی مشکل تھا۔ محنت سے پرھائی کی میٹرک میں فرسٹ ڈویژن لی تو سب نے مشورہ دیا کہ کافی پڑھائی ہوگئی کوئی نوکری کرلو مگر ناصر صاحب کو پڑھنے کا شوق تھا۔ ڈی جے سائنس کالج سے انٹر سائنس کرکے این ای ڈ ی انجینئیرنگ کالج میں داخلہ لیا۔ اخراجات کے لیے مولا کریم نے ایک ٹیوشن کا انتظام کردیا۔ کافی زیادہ پڑھنا پڑتا ناصر صاحب بتاتے ہیں کہ گھر میں کوئی کرسی میز نہ تھا کسی کونے میں بوریا بچھا کر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں پڑھتے۔ لڑکوں سے کتابیں مانگ کر لے آتے اور جلدی جلدی پڑھ کر واپس کرکے دوسری لے آتے ۔کالج آنے جانے کے لئے بھائی نے ایک سیکنڈ ہینڈ سائیکل لے دی تھی جو اتنی قیمتی متاع تھی کہ ہر روز اسے کندھے پراٹھا کر پانچویں منزل پر چڑھا تے اور اتارتے تاکہ چوری نہ ہوجائے بعض دفعہ تو ایک سے زیادہ دفعہ بھی یوں ہی سائیکل کی حفاظت ہوتی ۔ محنت کرتے رہے پڑھنے کی لگن تھی۔کامیاب ہوتے گئے اورآخر کار بی ای الیکٹریکل میکینیکل پاس کرلیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے کرم اور والدین کی دعاؤں سے ممکن ہوا۔ بہن بھائیوں نے بھی خوب ساتھ دیا۔ ہر ایک کے لیے جزائے خیر کی دعا ہے۔

تعلیم کے بعد اچھا جاب مل گیا۔ حالات کچھ بہتر ہوئے تو شادی کی سوجھی اس طرح میں ان کی زندگی میں داخل ہوگئی۔کراچی آنے پر مجھے ٹاپ فلور پر بنا ہوا ٹینک کے ساتھ والا کمرہ ملا جس میں دوچارپائیوں کے بعد بمشکل چلنے کی جگہ رہ جاتی۔غسلخانہ بھی لکڑی کے تختے جوڑ کر ٹین کی چھت ڈال کر بنایا گیا تھا۔سورج نکلنے کے ساتھ ٹین کی چھتیں گرم ہونا شروع ہوجاتیں۔ تپش حد سے زیادہ ہوتی۔ پانی کا انتظام بھی خاصا دشوار تھا۔ چھوٹے سے کچن میں مٹی کے تیل کے چولھے پر کھانا پکانا ہوتا جو ہم مل کے استعمال کرتے۔ مجھے مٹی کے تیل کے چولھے کی بالکل عادت نہیں تھی۔ بہت بدبو محسوس ہوتی۔

اپنی ڈریسنگ ٹیبل، کا بھی بتادوں۔ ایک دیوار پرکیل لگا کر لکڑی کا ریک لٹکادیا گیا تھا۔ میری ضرورت کی ساری چیزیں اسی ریک پر رکھی رہتیں۔ بارش کا پانی اندر آتا تھا چھت بھی ٹپکتی تھی۔ بستر گیلا ہوجاتا ماحول بھی بہت مختلف تھا قریباً ہر گھر سے انڈین فلموں کے گانوں کی آواز آتی خاص طورپر رات کے وقت تو بڑے زور سے میوزک کی دھمک ہوتی۔ پاس کی بلڈنگوںمیں اور نیچے سڑک کے ساتھ بنی ہوئی جھگیوں میں سے بے شمار بچے صبح ہوتے ہی سڑکوں پر کھلی ہوا میں پلنے کے لیے چھوڑ دیئے جاتے اور عورتیں آپس میں لڑنے لگتیں گالم گلوچ الزام تراشی حتّٰی کہ ہاتھا پائی تک نوبت آجاتی۔ ایک بے ہنگم شور دن رات مچا رہتا۔ پتہ نہیں چلتا تھا کراچی والے سوتے کب ہیں اور جاگتے کب ہیں۔

ربوہ کے کھلے کھلے پرسکون گھروں اور صحنوں کی عادت کے بعد محدود جگہ پر رہنا خاصا امتحان تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے میری تربیت ایسی ہوئی تھی کہ ہر حال میں صبروشکر کی عادت تھی۔ درویش کی بیٹی اسی ماحول میں ڈھل گئی۔میں ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار تھی کہ مختلف حالات کا مقابلہ کرنا پڑے گا اس لئے حرف شکایت منہ پہ نہ آتا اگر کوئی ربوہ کا جاننے والا ملنے آتا اور جا کر امی کو گھر کا حال بتاتا تو امی کہتیں باری نے تو ایسی کوئی شکایت نہیں کی اللہ تعالی سبٹھیک کردے گا ۔اور میری امی کے توکل کو اللہ تعالی نے قبول فرمایا گھر کی سادگی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا ۔کیوں کہ سسرال والوں کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا رہا۔ اماں کے ساتھ کبھی روایتی ساس بہو والا تناؤ نہیں ہوا۔ میں اُنہیں ماں کی سی عزت دیتی اور ان کے کام کرکے خوشی محسوس کرتی اسی طرح نندوں نے بھی نند بھابی والا کھیل نہیں کھیلا۔ یہ اُن سب کا احسان ہے کبھی تلخی کی نوبت نہیں آئی۔ چھوٹے بھائی کی بیوی ہونے کے ناتے وہ مجھ سے شفقت سے پیش آتیں۔ ان کے بچے بھی بہت محبت سے رہتے ۔دوستانہ سا ماحول تھا۔ اسی گھر میں پہلی بیٹی پیدا ہوئی۔ جھولا رکھنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے چھت سے ایک ہُک لگا کر جھولا لٹکا لیا۔ ہرضرورت کا کوئی حل نکل آتا ہے۔ اماں نے بیٹی پیدا ہونے پر میرا بہت خیال رکھا مگر ان کی صحت کافی کمزور ہوگئی تھی۔بیمار رہنے لگی تھیں۔ ناصر صاحب کی ٹرانسفر لاہور ہوئی تو اماں بھی ہمارے ساتھ لاہور آگئیں۔ 4 میکلورڈ روڈ پر کرائے کا مکان لیا۔ اس کے بعد گڑھی شاہو میں مسجد کے پاس بھی رہے۔ اماں کی وفات اسی گڑھی شاہو والے مکان میں ہوئی تھی۔ آخری بیماری اور وفات کے وقت وہ ہمارے پاس لاہور میں تھیںبیمار رہنے لگی تھیں۔ کمزوری بہت ہوگئی تھی۔ہم ان کی خوراک اور پرہیز کا خیال رکھتے۔ ایک دن نہ جانے میرے دل میں کیا آیا کہ اماں سے پوچھا۔ اماں کوئی ایسی خواہش بتائیں جو میں پوری کرسکوں مجھے خوشی ہوگی۔ اماں نے کہا کہ مجھے چاول دال اور آلو کی بھجیا بنادو اور دوسرے میرا دل کرتا ہے کہ میں اپنے پوتے کو گود میں لے کر پیار کروں۔ پہلی فرمائش پوری کرنے کا بہت مناسب موقعہ تھا ناصر صاحب جمعہ پڑھنے گئے ہوئے تھے۔ ورنہ وہ اماں کے پرہیز کا بہت خیال رکھتے۔ ان کے ذوق کے مطابق چاول دال آلوبنا کر پیش کئے۔ اماں نے خوشی سے پیٹ کر کھانا کھایا۔ پھر میں منصور کو لے کر ان کے بیڈ پر بیٹھ گئی وہ اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتی رہیں اور دعائیں دیتی رہیں۔ اُسی دن اماں کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور آدھی رات کو 16 اپریل 1976ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ اماں موصیہ تھیں۔جب ہم جنازہ لے کر ربوہ پہنچے تو خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک خواتین نے آکر ہمیں تسلی دی اور اما ں کی خوبیاں اور قربانیاں بیان کرکے ان کے لیے دعائے مغفرت کی جس سے ہمیں بڑا حوصلہ ملا۔

بڑے جیٹھ قریشی محمود احمد صاحب فوج میں لیفٹیننٹ تھے قادیان کے بعد کوئٹہ اور پھر لاہور رہے ۔ شوقیہ فوٹو گرافی کرتے تھے جو بعد میں آمد کا ذریعہ بھی بن گیا۔ آپ نے بڑی محنت سے بچوں کو اعلیٰ تعیم دلائی بڑے خوش مزاج تھے ۔ خاکسار کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے ۔ پروفیسر صاحبہ کہہ کر مخاطب کرتے ۔ 1986ء میں لاہور میں وفات پائی۔ ان کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بیٹی امتہ القدوس احمد صاحبہ آف لندن کو جو خط لکھا بہت خوبصورت خراجِ تحسین ہے:
’’آپ کے والد صاحب کی وفات کا بہت گہرا صدمہ ہوا ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے میں تو آپ کے والد صاحب کو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔ ان کا ہمیشہ سلسلہ سے اخلاص کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے آپ کے دادا جان کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں۔ قادیان میں جماعت کی کار چلایا کرتے تھے اور اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے بچوں اور بڑوں میں ہر دلعزیز تھے ۔ میر ی طرف سے تعزیت اور ہمدردی کے جذبات قبول کریں۔ اللہ تعالیٰ صبر جمیل کی توفیق بخشے آمین‘‘

آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ فوج کی ملازمت نے ان کو سردوگرم حالات سے سامنا کرنا سکھایا تھا اپنی ذات میں ایک تاریخ تھے ۔ ہر موضوع پر گفتگو کرتے سب انہیں بابوجی کہتے ۔ ناصر صاحب سے بائیس سال بڑے تھے اس لیے باپ کی جگہ تھے ۔ میری بڑی جیٹھانی مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ بھی بہت ملنسار خاتون تھیں۔ کھلے دل کی صاف گو اور بہت مہمان نواز ، ہم جلسے پر ربوہ کے بعد لاہور ان سے ملنے جاتے تو خوب خاطر داری کرتیں۔ 1973ء میں اچانک وفات پاگئیں۔

میرے دوسرے جیٹھ مکرم قریشی نور احمد صاحب 15 مئی 1951ء کو بھاگلپور میں پیدا ہوئے پانچ سال کے تھے جب والدین کے ساتھ قادیان آگئے ۔ یہیں تعلیم حاصل کی۔ قادیان کے نوجوانوں کی ایک تنظیم نیشنل گارڈز کے نام سے بنی تھی جس کے سالار حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد رضی اللہ عنہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدؒ تھے ۔ اس کا مقصد ورزشی کھیلیں کروانا اور مدافعتی، خود حفاظتی طریقے سکھانا تھے ۔ بھائی نور اس تنظیم کے سرگرم رکن تھے ۔ جوش و خروش سے سب مشقوں اور ٹورنامنٹس میں حصہ لیتے ۔ مکرمہ امیر بیگم صاحبہ سے شادی ہوئی۔ دہلی اور کراچی میں ریڈیو ٹی وی کا کام کرتے تھے ۔ جماعت کی خدمت کے لیے اسی کام سے واقفیت کو استعمال کیا جلسوں اور اجتماعوں میں لاؤڈ سپیکر اور آڈیو کیسٹس سنوانے کا کام کرتے ۔ مشہور شخصیات کو خطوط کے ذریعے تبلیغ کرتے ۔ انہوں نے دعوت الی اللہ کے لیے اپنی مساعی وقف کررکھی تھیں۔ بھابی امیر بیگم صاحبہ 1992ء میں اور بھائی نور نے 1993ء میں داعء اجل کو لبیک کہا ۔مجھے ان دونوں نے بہت عزت اور پیار دیا۔ مولا کریم اجرِ عظیم سے نوازے ۔آ پ کا ایک پوتا عزیزم فضل عمر مربی سلسلہ ہے ۔بڑی نند محترمہ کلثوم صاحبہ 25 نومبر 1972ء کو قادیان میں پیدا ہوئیں ۔ قادیان سے میٹرک کیا۔ پھر جامعہ نصرت قادیان میں تعلیم حاصل کی۔ نو عمری سے لجنہ کا کام شروع کردیا۔ 1984ء میں مکرم عبدالرحیم صاحب مدہوش رحمانی سے شادی کے بعد حلقہ سعید منزل سے حلقہ مارٹن روڈ میں منتقل ہوگئیں۔ وہاں بھی لجنہ کا کام جاری رکھا۔ آپ بے حد متوکل، مشکلات پر صبر کرنے والی سادہ مزاج خاتون تھیں۔ جماعت سے وابستگی خلفائے کرام سے محبت ہر تحریک پر لبیک کہنے والی تھیں مطالعہ کی شوقین تھیں بڑی عمر تک دینی معلومات اور بیت بازی میں حصہ لیتی رہیں۔ ان گنت بچوں کو قرآن پاک پڑھایا۔ بہت دعاگو تھیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھا سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ دو بیٹیاں یونیورسٹی کی پروفیسر ایک ڈاکٹر اور ایک ٹیچر رہیں۔

مجھے آپا کلثوم سے بہت پیار ملا۔ ان کا گھر مارٹن روڈ پر تھا۔ جب بھی ان کے گھر جاتے بہت خاطر تواضع کرتیں۔ بچوں کو بھی بہت محبت پیار دیتیں۔77 سال کی عمر میں 2004ء میں مختصر علالت کے بعد وفات پاگئیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جنازہ غائب پڑھایا آپ کا ذکرِ خیر ان الفاظ میں ہوا ’’مرحومہ لجنہ اماء اللہ کی نہایت محنتی فرض شناس اور انتھک کارکنہ تھیں نماز روزہ روزانہ تلاوت اور نماز تہجد کی سختی سے پابندی کرنے والی اور مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی مخلص خاتون تھیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 26 نومبر 2004ء)

ان کا ایک جملہ میرے لئے اعزاز ہے ’باری تم نے ہمارے خاندان کا نام روشن کیا ہے‘ الحمدللہ۔ یہ جملہ ایک نند نے بھابی کے لئے کہاتھا اسی لئے ذکر بھی کیا ہے ورنہ مجھے اپنی کم مائگی کا پورا احساس ہے۔

میری دوسری نند مکرمہ آپا بشریٰ صاحبہ ٹاپ فلور پر رہتی تھیں ہم نے بہت سال وقفے وقفے سے ایک ہی گھر میں گزارے ۔ جب میں شادی ہوکر آئی تھی آپا کے پانچ بچے تھے ایک بعد میں ہوا تھا۔ پھرہمارے بچے ہوئے سب مل جل کر رہتے تھے میں نے آپا بشریٰ کو انتہائی صابر شاکر محنتی خاتون دیکھا گھر میں دینداری کا ماحول تھا۔ بچوں کو سب جماعتی پروگراموں میں لے کر جاتیں۔ اپنے اور محلے کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتیں بھائی نذیر صاحب کی قلیل تنخواہ میں کفایت اور قناعت سے گزارا کیا خود بھی ٹیوشن پڑھاتیں۔ ایک مثالی عورت تھیں۔ بچوں کو بہت قربانی کرکے اعلی تعلیم دلائی۔

مجھے کراچی کے رہن سہن، راستوں ، بازاروں وغیرہ سے آپا نے متعارف کروایا۔ بالکل چھوٹی بہن سمجھ کے رہنمائی کرتیں۔ مسجد لے جاتیں اور بڑے شوق سے سب کو بتاتیں کہ یہ ہماری بھابی ہے ۔ میرے ساتھ حسن سلوک کی ان گنت مثالیں ہیں جنہیں یاد کرکے ان کو دعائیں دیتی ہوں۔۔ مجھے یاد رہتا ہے کہ وہ گرم اور تنگ کچن میں کام کرتے ہوئے کہہ دیتیں باری تم اندر جاؤ میں تمہارے لیے روٹی پکا کر رکھ دوں گی۔

فجزاھم اللّٰہ احسن الجزا۔ اللہ غفورالرحیم سب سے پیار کا سلوک فرمائے آمین

سسرال کے ذکر میں شوہر کا ذکر لازمی تھا مگر کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتی ہوں جس میں ان شاء اللہ قدرے تفصیل سے ذکر کروں گی کہ اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے انسان کی تنگی کو فراخی میں بدل دیتاہے ۔ ناصر صاحب دعا اور محنت سے ترقی کرتے گئے نہ صرف اپنی زندگی سنواری بلکہ دوسروں کے لیے مثال بنے ۔ہم اور ہمارے بچے ساری عمر لکڑی کے تختوں کے درو دیوار اور ٹین کی چھت والے کمرے میں نہیں رہے۔اللہ تبارک تعالی کے احسانات کا شکر ادا کرنا ممکن نہیں

کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں
کہ میں نا چیز ہوں اور رحم فراواں تیرا

(امتہ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جون 2021