• 27 اپریل, 2024

عبد جب صحیح طور پر عبودیت کے رنگ سے رنگین ہوتا ہے تو اُس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں پڑ کر آگ کا انگارہ ہو جاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کی وفات کے متعلق الہامات ہو رہے تھے اُنہی دنوں کا واقعہ ہے کہ جلسہ سالانہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا۔ حضور نے اس جلسہ میں نماز کے بعد متعلق تقریر فرماتے ہوئے سورۃ فاتحہ کی تشریح فرمائی اور عبودیت کے معنی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عبد جب صحیح طور پر عبودیت کے رنگ سے رنگین ہوتا ہے تو اُس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں پڑ کر آگ کا انگارہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صفاتِ الٰہیہ سے عبد متصف ہو جاتا ہے جس طرح کہ وہ لوہا کا ٹکڑا آگ نہیں ہوتا بلکہ اپنی ماہیت میں لوہا ہوتا ہے اور عارضی طور پر آگ کی کیفیت اُس میں سرایت کرتی ہے۔ اسی طرح عبد اپنی حقیقت میں انسان ہوتا ہے لیکن اس میں صفاتِ الٰہیہ کام کر رہی ہوتی ہیں ایسے عبد کا ارادہ اپنا نہیں ہوتا بلکہ الٰہی ارادے کے ساتھ اُس کی تمام حرکات و سکنات وابستہ ہوتی ہیں۔

(روایات حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد4 1 صفحہ50)

پس ایسی عبودیت کی تلاش کی کوشش ہر احمدی کو کرنی چاہئے اور یہی حقیقی مومن ہونے کی نشانی ہے اور یہی چیزیں پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے۔

حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری روایت کرتے ہیں کہ غالباً 1906ء کے سالانہ جلسہ کے موقع پر آپ نے اپنی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میری موت اب قریب ہے اور مَیں جب اپنی جماعت کی حالت دیکھتا ہوں تو مجھے اُس ماں کی طرح غم ہوتا ہے جس کا دو تین دن کا بچہ ہے اور وہ مرنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر مجھے کامل یقین ہے کہ وہ میری جماعت کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ یہ ایک دل کا اطمینان ہے۔

(روایات حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 8صفحہ 68)

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کو پورا فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت روزانہ بڑھ رہی ہے اور بڑھتی چلی جا رہی ہے لیکن صرف تعداد میں بڑھنا ہی کافی نہیں، ہمیں اپنے ایمانوں کی بھی فکر کرنی چاہئے، اپنی روحانیت کی بھی فکر کرنی چاہئے اور اس میں بھی بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اور اپنے ایمانوں کو اور اپنی نسلوں کے ایمانوں کو بچانے کے لئے ہر وقت اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ نہ صرف یہ ایمان ہمارے تک ہی محدود رہیں بلکہ اپنی اگلی نسلوں میں بھی ہم یہ ایمان پیدا کرنے والے بنیں اور اس کے لئے نیک نمونے قائم کریں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے ہمیشہ فیض پانے والے بنتے چلے جائیں اور آپ کی فکروں کو دور کرنے والے بنتے چلے جائیں۔ اور یہی چیزیں ہیں جو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھائیں گی اور یہ جو صحابہ کے واقعات میں نے بیان کئے ہیں یہ اصل میں تو اس لئے کئے ہیں تا کہ ہمارے سامنے کچھ نمونے ہوں اور ہمیں مختلف ذریعوں سے پتہ لگے کہ کس طرح صحابہ اپنے عشق و محبت کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کرتے تھے، کس طرح کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے ساتھ تھا اور کیا وہ روحانی انقلاب تھا جس کے لئے وہ پروانے ہر وقت شمع کے گرد اکٹھے رہتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے ایمانوں میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور کبھی کسی بھی قسم کی ایسی حرکت ہم سے سرزدنہ ہو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنے۔

(خطبہ جمعہ 24؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جون 2021