• 29 اپریل, 2024

دیس کا سندیسہ

پچھلے سو سال سے زائد عرصے سے اخبار الفضل جماعت احمدیہ کے احباب کے لئے معلومات اور خبریں پہنچانے کا ایک پسندیدہ ذریعہ ہے۔ ہمارے گھر میں بھی ہر صبح کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت کے بعد الفضل کے مطالعہ سے ہوا کرتا تھا۔ میں صبح اٹھ کر جب والدین کو سلام کرنے جاتی تھی تو وہ مجھے بھی الفضل کا تازہ شمارہ پکڑا دیتے تھے۔ اور میرےوالدمحترم سلطان محمود انور صاحب مرحوم اکثر کسی مضمون کی طرف اشارہ کرکے کہتے تھے کہ یہ مضمون ضرور پڑھنا اس میں بہت معلومات ہیں۔ اس طرح بچپن سے ہی الفضل کے مطالعے کی عادت پختہ ہوگئی تھی۔ وقت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ کتابیں پڑھنے کا موقع نہ بھی ملے تو روزانہ صرف الفضل کا مطالعہ ہی علم میں اضافے کا باعث ہوجاتا ہے دوسروں کے مضامین پڑھ پڑھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میرا بھی کوئی مضمون کبھی الفضل میں چھپ جائے۔ جن لکھاریوں کے مضامین اخبار میں چھپتے تھے ان پہ بہت رشک آتا تھا اور ان میں شامل ہونا ایک خواب ہی لگتا تھا۔ مجھے لکھنا تو کوئی خاص آتا نہیں تھا اس لئے یہ خواب ادھورا ہی رہ جاتا ۔ ایک دن اپنے ابوجان سے اس خواہش کا اظہار کیا تو کہنے لگے یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تم لکھو میں مدد کر دوں گا۔ ان کی حوصلہ افزائی پہ ناصرات کے امتحان کی تیاری کے دوران قرآن کریم کے بارے میں کچھ حقائق معلوم ہوئے تو اچھا موضوع ہاتھ آگیا ’فضائل قرآن کریم‘ ابو جان کو بتایا تو انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب شہادت القرآن اور کچھ دوسرے مضامین پڑھنے کے لئے دئے۔ جن کو میں نےشوق شوق میں جلدی پڑھ لیا ۔ اس مطالعہ سے لکھنے میں بہت مدد ملی ۔ مجھے یہ نہیں یاد کہ میں نے کیسا لکھا تھا لیکن ابوجان نے بہت حوصلہ افزائی کی جس سے اندازہ ہؤا کہ اچھا ہی لکھا گیا ہوگا۔ کافی عرصے کے بعد جب خود بچوں کی ماں بنی تو احساس ہوا کہ تربیت کے لئے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں یہ بھی ایک انداز تربیت ہے کہ وہ بچوں کے دلوں میں علم سے محبت پیدا کرنے کے لئے ایک تیر سے دو بلکہ کئی شکار کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ابوجان نے بھی اس موقع کو غنیمت جان کر پہلے کتاب پڑھنے کے لئے دی پھر مضمون لکھوایا اور اصلاح کرکے مجھ سے کہا کہ اب چھپنے کے لئے بھیج دوں۔ اس وقت کے ایڈیٹر صاحب نے ازراہ شفقت اس کو چھاپ بھی دیا۔ اس دن میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا میں نے دنیا فتح کر لی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ بچپن میں الفضل کے مطالعے کی عادت نے اتنا فائدہ دیا کہ پڑھنے کے ساتھ لکھنے کی طرف بھی توجہ ہوگئی۔

یہ بھی مشاہدہ میں آیا کہ ربوہ کے باسیوں اور اخبار الفضل کا قدم قدم کا ساتھ تھا لوگ ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے مضامین اور نظموں کے حوالے دیا کرتے تھے۔ پہلے صفحے پر حدیث نبویﷺ اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ کے علاوہ ضروری جماعتی اعلانات بھی ہوتے تھے۔ مضامین میں دینی معلومات کے علاوہ روزمرہ زندگی میں کام آنے والے نسخے، نظمیں، وفات و ولادت کی خبریں اور نکاح و شادی کے اور دعا کےاعلانات بھی ہوتے تھے۔ دعا تو سب ایک دوسرے کے لئے کرتے تھے خاص طور پر جب الفضل میں اعلان پڑھتے دعا کرتے ۔ بعض خواتین یہ اعلانات پڑھ کر ایک دوسرے کے گھر جانے کا پروگرام بنا لیتی تھیں تاکہ کسی کی عیادت، بیمار پرسی، اور مبارکباد کا موقع ہاتھ سے نہ جائے۔ اسی طرح احمدی تاجروں کی طرف سے بعض اشتہارات بھی الفضل کا مستقل حصہ ہوتے تھے جن میں ہومیوپیتھی ادویات اور حکیموں کے نسخے بھی شامل ہوتے تھے۔ مثلاً مشہور زمانہ ہاضمون ، نور کاجل، اکسیر اپھارہ اور اولاد نرینہ کے حصول کے نسخے وغیرہ۔ اخبار کی پیشانی پر تو صرف ’’احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے‘‘ لکھا ہوتا تھا لیکن اس کی افادیت پڑھنے والوں میں باہمی رابطہ بھی تھا ۔

مجھے ہر صبح اخبارالفضل پڑھنے کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ شادی کے بعد امریکہ آنے کے بعد ایک خلا سا محسوس ہوتا تھا۔ ابوجان سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بھی الفضل منگوایا جا سکتا ہے۔ میرے شوق کو دیکھ کر میرے شوہر نے فوراً ہی الفضل جاری کر وادیا۔ اور یوں اللہ کے فضل سے یہاں رہتے ہوئے بھی ربوہ سے الفضل ملتے رہے جو نہ صرف علم میں اضافے کا باعث بنتے رہے بلکہ پردیس میں الفضل میں چھپنے والی خبریں بھی ملتی رہیں الحمدللہ۔ الفضل کے اس وقت کے شمارے اب بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ ان کو موضوعات کے حساب سے ترتیب سے فائلوں میں لگا کر رکھا ہے، جب کبھی ہمیں کسی موضوع پہ کچھ مواد یا حوالہ درکار ہوتا ہے توان فائلوں سے بہت مدد مل جاتی ہے۔

جب پاکستان میں الفضل کی اشاعت پر پابندی لگی تو یوں معلوم ہوتا تھا ایک رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ ربوہ کے رہنے والوں کو خاص طور پہ اس کی کمی کا بہت احساس ہوتا ہوگا۔ ندن سے چھپنے والے روزنامہ الفضل آن لائن اور الفضل انٹرنیشنل نے اللہ کے فضل سے جماعت کو ایک دوسرے کے ساتھ روابط میں رکھنے کا کام جاری رکھا ہے۔ پاکستان میں رہنے والے تو اب بھی اس سے محروم ہیں لیکن باقی پوری دنیا میں الفضل احمدی احباب کے لئے ایک نعمت ہے ہر مضمون اور سلسلہ مفید ہوتا ہے خاص طور پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئے گئے سوالات کے جوابات چھاپنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ بہت ہی اچھا ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ سے لوگ مختلف مسائل ذاتی خطوط کے ذریعے پوچھتے رہتے ہیں۔ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے جواب سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ الفضل میں چھپنے سے اب زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں الحمد للہ۔

آخر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ ہم پاکستان سے باہر رہنے والے شائد اس نعمت سے پورا فائدہ نہ اٹھا رہے ہوں لیکن اس کی قدر ان احمدیوں سے پوچھئے جن کو کسی قسم کے جماعتی رسائل اور کتب پہ رسائی حاصل نہیں۔ ربوہ کے پریس تو اب بند پڑے ہیں لیکن لندن سے چھپنے والے آن لائن الفضل بھی وہاں نہیں پڑھے جا سکتے۔ اسلئے اس مذہبی آزادی کی قدر کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کو کما حقہ اہمیت دی جائے اور اس کے باقاعدہ مطالعہ کی عادت بنائی جائے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تیاری اور اشاعت کے کارِ خیر میں حصہ لینے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (آمین)

(فوزیہ منصور۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جون 2021