• 29 اپریل, 2024

یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
(حضرت مسیح موعودؑ نے۔ناقل) فرمایا: ’’پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کے جو انسان سچا مؤحّد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے‘‘۔ (جب آپ نے اس بات پر یقین قائم کر لیا کہ مَیں ایک خدا کی عبادت کرنے والا ہوں تو پھر اپنے اخلاق کو بھی درست کرو)۔ فرمایا ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے‘‘۔ (حالانکہ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے، اخلاقی حالت کے معیار بہت اعلیٰ تھے۔ آپ اُن سے بھی اونچا دیکھنا چاہتے تھے۔ آج ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری کیا حالت ہے)۔

فرماتے ہیں کہ ’’اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف‘‘ (یعنی یہ باتیں کرنے والے کی طرف) ’’منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔ اس لیے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے، کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور اُنس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ، بغض، حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے‘‘۔ (مخالفین کی حسد کی آگ تو ویسے ہی ہمارے خلاف بڑھ رہی ہے۔ اگر آپس میں بھی ہم اس قسم کی حرکتیں کریں تو پھر اُس جماعت میں رہنے کا کیا فائدہ)۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’پھر مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی اَور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیاہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربازیادہ کر لو تا کہ اسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں، لیکن اس کی کچھ پروا نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر ہوں‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ214-215 ایڈیشن 2003ء)

پس جب ہم اپنی حالتوں کی اصلاح کر لیں گے تو یقیناً ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کا صحیح حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ کرے کہ نومبائعین بھی اپنی حالتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور پرانے احمدی اور وہ سست احمدی جو اپنے معیاروں کی بلندی کے حصول کو بھول گئے ہیں وہ بھی آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اور ہم بھی آپ کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں۔ اپنی بعثت کا مقصد اور مخالفین کی مخالفت اور سلسلے کی ترقی کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’میرے ان مقاصد کو دیکھ کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں‘‘۔ یعنی یہ مخالفین جو خاص طورپر مسلمانوں میں سے ہیں۔ یہ دو مقصد ہیں تقویٰ قائم کرنا اور توحید کو قائم کرنا، اس کو دیکھ کر بھی یہ لوگ میری مخالفت کرتے ہیں۔ ’’انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جوکام نفاقِ طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے‘‘۔ یہ مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو مَیں کام کر رہا ہوں اگرنفاق ہے میری طبیعت میں اور اس دنیا کی خواہشات اور گندی زندگی کے لئے ہیں تو اس زہر سے انسان خود ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔ ’’کیا کاذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟‘‘۔ فرمایا: ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ کَذَّابٌ (المؤمن: 29)‘‘ (کہ یقینا اللہ اُسے ہدایت نہیں دیا کرتا جو حد سے بڑھا ہوا اور سخت جھوٹا ہو) ’’کذّاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے۔ لیکن جوکام اﷲ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں اور خود اﷲ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے اور یقینا ًاسی کی طرف سے ہے تو خواہ ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔ فرمایا ’’اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مددنہ دے۔ تب بھی مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ472-473۔ ایڈیشن2003ء)

اب یہ دیکھیں کہ جو واقعات ہم نے سنے ان میں کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں خود یہ بات پیدا کر رہا ہے۔ ایک شخص کو بچپن سے اللہ تعالیٰ دل میں ڈال رہا ہے کہ تم امام مہدی کے سپاہی ہو اور سالوں بعدبڑے ہو کرجبکہ نوجوانی بھی گزر رہی ہے تب جا کے اُس کو پتہ لگتا ہے کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے۔ پس اس طرح اللہ تعالیٰ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مددگار پیدا فرما رہا ہے۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ جب کوئی بھی مددنہیں کرے گا تو تب بھی اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور یہ سلسلہ قائم ہو گا۔ پس ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مخالفت کی مَیں پروا نہیں کرتا۔ مَیں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چُپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی تو عجیب حالت ہے۔ انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے سلسلہ کی ترقی فوق العادت ہو رہی ہے۔ بعض اوقات چار چار پانچ پانچ سو کی فہرستیں آتی ہیں اور دس دس پندرہ تو روزانہ درخواستیں بیعت کی آتی رہتی ہیں اور وہ لوگ علیحدہ ہیں جو خود یہاں آکر داخلِ سلسلہ ہوتے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ473۔ ایڈیشن 2003ء)

اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں ہیں اور جیسا کہ میں نے واقعات میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں اب یہ رَو چلائی ہے کہ آپ کی بیعت میں آنے والوں کی تعداد روزانہ بعض اوقات پانچ پانچ سو سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے، ہزاروں میں بھی چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنا کام کئے چلے جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ اپنی بیعت کا اور اس سلسلے میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک نہایت عارفانہ دعا پیش کرتا ہوں جس سے آپ کے دلی درد کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ کی مجلس میں کثرتِ زلازل اور تباہیوں کا ذکر تھا، اور آج کل بھی آپ دیکھیں اسی طرح تباہیاں آ رہی ہیں تو آپ نے فرمایا:
’’ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا جماعت کو محفوظ رکھے اور دنیا پر یہ ظاہر ہو جائے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم برحق رسول تھے اور خدا کی ہستی پر لوگوں کو ایمان پیدا ہو جائے۔ خواہ کیسے ہی زلزلے پڑیں پر خدا کا چہرہ لوگوں کو ایک دفعہ نظر آجائے اور اس ہستی پر ایمان قائم ہو جائے‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ261۔ ایڈیشن 2003ء)

آجکل کی بھی جیسا کہ مَیں نے کہاکثرت سے جو آفات اور تباہیاں ہیں، خدا کرے کہ ان کو دیکھ کر دنیا اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کو پہچان لے اور مسلمان بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو شناخت کر کے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنے والے بن جائیں اور توحید کے قیام کا باعث بن جائیں۔

(خطبہ جمعہ 16؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جولائی 2021