کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط اول
ادارتی نوٹ
’’کتاب، تعلیم کی تیاری‘‘ کا مبارک سلسلہ قسط وار حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت، دعا اور رہنمائی میں شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ منگل وار کو صفحہ3 کی زینت بنا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ان آرٹیکلز کو قارئین کرام کے لئے مفید بنائے اور بھرپور استفادہ کی توفیق دے۔ یہ مائدہ مکرم محمداظہرمنگلہ استاذ جامعہ احمدیہ غانا کمپوز کررہے ہیں۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ۔ (ادارہ)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 10دسمبر 1899ء کو صبح سیر کے دوران اس خواہش کا اظہار فرمایا:
’’میں چاہتا ہوں کہ ایک کتاب تعلیم کی لکھوں ……… اس کتاب کے تین حصے ہوں گے:
ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہمارے کیا فرائض ہیں اور دوسرے یہ کہ اپنے نفس کے کیا کیا حقوق ہم پر ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ بنی نوع کے ہم پر کیاکیاحقوق ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ354 ایڈیشن 2016ء)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تصانیف، ملفوظات، اشتہارات اور مکتوبات کا احاطہ کیا جائے تو قرآن کریم، احادیث میں بیان اسلامی تعلیمات اور سنت رسول ؐ سے ان تعلیمات کے اظہار سے آپؑ کی تحریرات گوندھی پڑی ہیں۔ اور ان کو دیکھ اور پڑھ کر اوپر بیان فرمودہ خواہش کے تینوں پہلو نہ صرف واضح اور روشن و تابناک ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ عمل کے لئے اپنی طرف کھینچتے ہیں اس ناطے آپؑ کو اس آخری دَور کا اسلامی تعلیمات کا مفسّر اعظم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ آپؑ مفسّر قرآن بھی تھے، محدث بھی، محقق اور فقیہ بھی تھے۔
“کتاب تعلیم” کےمحولا بالا تینوں امور کو اسلامی تعلیم کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔ آئندہ کبھی کبھار ان تینوں عناوین کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور ملفوظات سے ارشادات‘‘کتاب تعلیم” عنوان کے تحت قسط وار قارئین الفضل کے افادہ کے لئے پیش کئے جایا کریں گے۔ تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان عناوین کے تحت اقتباسات جمع ہو سکیں اور آپؑ کی خواہش بھی بھر آئے۔قارئین سے اس اہم کام کی تکمیل کے لئے جہاں دُعا کی درخواست ہے وہاں یہ بھی مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ کی نظروں سے اگر ان عناوین کے تحت جب بھی کوئی ارشاد گزرے وہ ایڈیٹر کے نام بھجوا کر ممنون فرمائیں۔
آج قسط نمبر 1میں ان تین عناوین کے تحت اقتباسات لانے سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ بالا تحریر میں سے اہم الفاظ پرغورضروری ہے۔جیسے:‘‘تعلیم، اللہ تعالیٰ، ہمارے، فرائض، نفس، حقوق اور بنی نوع”
تعلیم
علم سے ہے جس سے ہر انسان کی آگا ہی ضروری ہے۔ ہر انسان کو اپنی ذات میں ایک دانش گاہ ہونا چاہیے جہاں سے وہ خود بھی ادب سیکھے اور دوسروں کو بھی علم و فن اور ہنر سکھلانے کا موجب ہو۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہو سکتا ہے کہ ایک رات آنحضور ﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے جہاں دو قسم کے گروہ پائے۔ ایک تلاوت اور دعاؤں میں مصروف تھا۔ دوسرا پڑھنے پڑھانے میں مشغول تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر آپؐ یہ فرماتے ہوئے کہ دونوں گروہ نیک کام کر رہے ہیں آپؐ پڑھنے اور پڑھانے والے صحابہ میں جا بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے معلم اور استاد بنایا ہے۔
(ابن ماجہ باب فضل العلماء)
اسی لیے آپﷺ نے فرمایا:
خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَهٗ
(صحيح البخاري، كِتَاب فَضَآئِلِ الْقُرْاٰنِ)
لہٰذا تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم دینا بہت اہم ہے۔
اللہ تعالیٰ
اللہ، خالق حقیقی کا ذاتی نام ہے۔ اس نے ہمیں پیدا کیا اور اشرف المخلوقات بنایا۔ وہ سنتا ہے اور بولتا ہے۔ وہ اَلصَّمَدُ ہے اور لَمۡ یَلِدۡ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم‘‘اللہ” کو قرار دیا ہے۔ وہ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ہےاور تاابد ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے ……… کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں۔”
(ملفوظات جلد 1صفحہ86 ایڈیشن 2016ء)
نیز فرمایا:
“اللہ کے لفظ میں بڑی بڑی برکات اور خوبیاں ہیں بشرطیکہ کوئی اس کو اپنے دل میں جگہ دے اور اس کی ماہیت پر کان دھرے”
(ملفوظات جلد 1صفحہ86 ایڈیشن 2016ء)
حقوق و فرائض
گو اس کے معانی obligations ، rights اورduties کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن اردو، ہندی اور عربی کی لغات میں حقوق کے تحت بھی فرض، ذمہ داریاں اور واجب کے معانی درج ہیں۔ جو کسی کے حقوق ہیں تو وہ پہلے انسان کے فرائض میں شامل ہیں۔اردو زبان میں استعمال کےلحاظ سے حقوق کو فرائض پر سبقت حاصل ہے اسی لئے ہمیشہ ایسے ہی استعمال ہوتا ہے یعنی “حقوق و فرائض”۔ انگریزی میں اِسے‘‘give and take’’ کہتے ہیں کہ اپنے حقوق لینے کے لئے پہلے کچھ فرائض سرانجام بھی دینے پڑتے ہیں۔ جبکہ ہمارے معاشرہ میں حقوق لینے کی تو بات کی جاتی ہے فرائض کی ادائیگی کی نہیں کی جاتی۔ بلکہ اپنے حقوق لینے کا مطالبہ کرتے کرتے دوسروں کے حقوق کو بعض اوقات سلب یا غصب بھی کرلیا جاتا ہے۔
سادہ زبان میں‘‘حقوق و فرائض” کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ کے “حقوق ’’ہیں وہ لازمی طور پر کسی کے‘‘فرائض” ہیں اور جو آپ کے”فرائض” ہیں وہ لازمی طور پر کسی اور کے “حقوق” ہیں اور ان کا باہم توازن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک دونوں فریق اعتدال کے ساتھ اپنے اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری نہ کریں۔
بنی نوع
یہ الفاظ دنیا کے کل انسانوں کے لئے استعمال ہو تے ہیں۔ بنین کا یہ مخفف ہے۔ بنی آدم، بنی نوع انسان یعنی آدم کی اولاد۔ انسان اور اس کی اولاد۔ آنحضور ﷺ نے اِسے اللہ کا خاندان قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
اَلْخَلقُ عَیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عِیَالِہٖ
(بیہقی فی شعب الایمان)
یعنی تمام مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے۔ اللہ کو اپنی مخلوق میں سے وہ بہت پیارا ہے جو اس کے عیال کے ساتھ حسن سلوک کرے۔
نفس
اس ارشاد میں ایک اہم لفظ‘‘نَفْسْ” “فاء” اور “سین” پر جزم کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ جس کی جمع نُفُوْسٌ آئی ہے۔ اسے فاء پر زبر کے ساتھ اگر پڑھا جائے تو اس کی جمع‘‘ اَنْفَاسٌ” ہے جبکہ فاء پر جزم کے ساتھ نفس کے معانی ذات، جان اور وجود کے ہیں۔انسان کا نفس ہی انسان کے لئے اجر یا سزا کا موجب بنتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:
؎ نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامان دیمار
کہتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر ایک اور انسان (نفس) چھپا ہوتا ہے۔ انسان اپنے ظاہر کو جتنا بھی خوبصورت بنائے اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک انسان کے اندر کا نفس بااخلاق نہ ہو اور اُسے اس کی غلطیوں پر ٹوک سکے۔ اس کی رہنمائی کرسکے۔ اِسے ضمیر بھی کہا جا تا ہے۔
ہمارے/ہم
لغوی معنو ں کے اعتبار سے دو اہم ضمائر‘‘ ہمارے” یا “ہم”پر بھی غور کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ جاننا کہ ہم کون ہیں؟ضروری ہے۔ تا کتاب تعلیم کے تحت تینوں عناوین پر بیان فرمودہ تعلیم سے ہم مخاطب کیوں ہیں۔ ہم وہ ہیں جنہوں نے اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے مبارک “سلام” کو اس آخری دو رکے مسیح و مہدی کو پہنچانے کی توفیق پائی۔ اس پر ایمان لائے اور یوں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مرز ا غلام احمد قادیانی مسیح و مہدی علیہ السلام تک اللہ کے تمام فرستادوں پر ایمان لانے کی توفیق پاکر دنیا بھر میں منفرد قوم کہلائے۔ جس کی وجہ سے اپنی اور غیروں کی تعلیم و تربیت کی تمام تر ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے لہٰذا اس تعلیم کو جاننا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
اس زمانہ کی بڑی عبادت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام “اس زمانہ کی بڑی عبادت” کے تحت فرماتے ہیں:
“ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس زمانہ کے درمیان جو فتنہ اسلام پر پڑا ہوا ہے اس کے دُور کرنے میں کچھ حصہ لے جاوے۔ بڑی عباد ت یہی ہے کہ اس فتنہ کے دور کرنے میں ہر ایک حصہ لے۔ اس وقت جو بدیاں اور گستاخیاں پھیلی ہوئی ہیں،چاہیے کہ اپنی تقریر اور علم کے ساتھ اور ہر ایک قوت کے ساتھ جو اس کو دی گئی ہے۔ مخلصانہ کوشش کے ساتھ ان باتوں کو دنیا سے اُٹھاوے۔ اگر اسی دنیا میں کسی کو آرام اور لذت مل گئی تو کیا فائدہ۔ اگر دنیا میں ہی اجر پا لیا تو کیا حاصل۔ عقبیٰ کا ثواب لو، جس کا انتہا نہیں۔ ہر ایک کو خدا کی توحید و تفرید کے لئے ایسا جو ش ہونا چاہیے۔ جیسا خود خدا کو اپنی توحید کا جوش ہے۔ غور کرو کہ دنیا میں اس طرح کا مظلوم کہاں ملے گا جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ ہیں۔ کوئی گند اور گالی اور دشنام نہیں جو آپ ؐ کی طرف نہ پھینکی گئی ہو۔ کیا یہ وقت ہے کہ مسلمان خاموش ہو کر بیٹھ رہیں؟ اگر اس وقت میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا اور حق کی گواہی دے کر جھوٹے کے منہ کو بند نہیں کرتا اور جائز رکھتا ہے کہ کافر بے حیائی سے ہمارے نبی پر اتہام لگائے جائے اور لوگوں کو گمراہ کرتا جائے۔ تو یاد رکھو کہ وہ بے شک بڑی باز پُرس کے نیچے ہے۔ چاہیے کہ جو کچھ علم اور واقفیت تم کو حاصل ہے وہ اس راہ میں خرچ کرو۔ اور لوگوں کو اس مصیبت سے بچاؤ ……… ہر ایک کا فرض ہے کہ جہانتک ہو سکے پوری کوشش کرے۔ نور اور روشنی لوگوں کو دکھائے۔”
(ملفوظات جلد1 صفحہ356-357 ایڈیشن 2016ء)
اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے فرائض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 3اپریل 1903ء کو چند احباب کی بیعت لینے کے بعد فرمایا:
“اس وقت تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے بیعت کا اقرار کیا ہے اور تمام گناہوں سے توبہ کی ہے اور خدا سے اقرار کیا ہے کہ کسی قسم کا گناہ نہ کریں گے۔ اس اقرار کی دو تاثیریں ہوتی ہیں۔ یا تو اس کے ذریعہ انسان خدا تعالی کے بڑے فضل کا وارث ہو جاتا ہے کہ اگر اس پر قائم رہے تو اس سے خدا راضی ہو جائے گا اورو عدہ کے مواقف رحمت نازل کرے گا اور یا اس کے ذریعے سے خدا کا سخت مجرم بنے گا کیونکہ اگر اقرارکو توڑے گا تو گویا اس نے خدا کی توہین کی اور اہانت کی۔ جس طرح سے ایک انسان سے اقرار کیا جاتا ہے اور اسے بجا نہ لایا جاوے تو توڑنے والا مجرم ہوتا ہے ایسے ہی خدا کے سامنے گناہ نہ کرنے کا اقرار کر کے پھر توڑنا خدا کے روبروسخت مجرم بنا دیتا ہے۔ آج کے اقرار اور بیعت سے یا تو رحمت کی ترقی کی بنیاد پڑگئی یا عذاب کی ترقی کی۔”
(ملفوظات جلد 5صفحہ4ایڈیشن 2016ء)
اپنے نفس کے حقوق
آپؑ نے فرمایا:
“تقویٰ تو صرف نفس امّارہ کے برتن کو صاف کرنے کا نام ہے اور نیکی وہ کھانا ہے جو اس میں پڑنا ہے اور جس کے اعضاء کو قوت دے کر انسان کو اس کے قابل بنانا ہے کہ اس سے نیک اعمال صادر ہوں اور وہ بلند مراتب قرب الہٰی کے حاصل کر سکے۔”
(البدر جلد 3نمبر 3مورخہ 16جنوری 1904ء)
مندرجہ بالا حوالہ اچھی طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ نفس امارہ کسے کہتے ہیں؟ اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“نفسِ امارہ کی وہ حالت ہےجب انسان شیطان اورنفس کا بندہ ہوتا ہے اور نفسانی خواہشوں کا غلام اور اسیر ہو جاتا ہے جو حکم نفس کرتا ہے اس کی تعمیل کے واسطے اس طرح طیار ہوجاتا ہے جیسے ایک غلام دست بستہ اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے لئے مستعد ہوتا ہے اس وقت یہ نفس کا غلام ہو کر جو وہ کہے یہ کرتا ہے”
(ملفوظات جلد 5صفحہ367 ایڈیشن 2016ء)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
فرمایا:
‘‘جو شخص اپنے وجود کو نافع الناس بنا ویں گے ان کی عمریں خدا زیادہ کرے گا خدا تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت بہت کرو اور حقوق العباد کی بجا آوری پورے طور پر بجا لانی چاہیے۔”
(ملفوظات جلد 5صفحہ124 ایڈیشن 2016ء)
اللہ تعالیٰ کتاب تعلیم میں بیان تمام امور پر کما حقہ عمل کرنے والا بنائے۔ آمین