مؤرخہ 29جون 2021ء کے شمارہ کے لئے مکرمہ مریم رحمان نے ’’آ ج کی دعا‘‘ کے تحت جو دعا بھجوائی ہے۔ وہ دعاؤں کی کتب میں ’’انجام بخیر کی دُعا‘‘ کہلاتی ہے۔ حضرت بُسر ؓبن ارطاۃ نے آنحضور ﷺ کو یہ دُعا پڑھتے ہوئے سُنا:
اَللّٰهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُوْرِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْاٰخِرَةِ
کہ اے اللہ! سب کاموں میں ہمارا انجام بخیر کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔
(مستدرک حاکم جلد3 صفحہ591)
جب خاکسار کی نظر 29جون کے شمارہ میں اس دُعا پر پڑی تو خاکسار اپنے آپ کو زندگی کے اس دَور میں لے گیا جو گو ہمارے بچپنے کا دور تھا مگر اس دور میں صحابہ ؓ اور تابعین میں وہ جلیل القدر ہستیاں موجود تھیں جو علم و تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ یہ ہستیاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو میں اپنے انجام بخیر ہونے کے لئے ایک دوسرے کو دُعا کی درخواست کر تی دکھائی دیتی تھیں اور ہم گو بچے تھے مگر ہمارے کانوں میں اس دعا کی درخواست نے اپنی ایک جگہ بنا لی تھی۔ اور 1990ء سے جب سے قادیان جلسہ سالانہ میں شمولیت کی سعادت حصّہ میں آنے لگی۔ تو وہاں ہر شخص سے علیک سلیک میں یہ فقرہ سننے کو ملتا رہا کہ ’’میرے انجام بخیر کی دعا کریں۔‘‘ بیسیوں درویشان سے اس شوق سے ملاقاتیں کیں کہ یہ وہ پیارے ہیں جنہوں نے اسلام اور احمدیت کی خاطر جان، مال اور وقت کی قربانی کی۔ اپنے عزیز و اقارب سے جدائیاں برداشت کیں۔ ان سے بھی انجام بخیر ہونے کی دُعا کی درخواست سنتے رہے۔ بالخصوص صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ آپ نے ہمیشہ ہی اس دُعا کی درخواست کی کہ
’’میرے خاتمہ بالخیر کے لئے دُعا ضرور کریں۔‘‘
آج اس جیسی دُعا کی درخواست بہت کم سننے کو ملتی ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیم اس جیسی دعاؤں سے بھری پڑی ہے۔ قرآن کریم میں درج دعاؤں کا جائزہ لیں یا آنحضور ﷺ کی دعاؤں کا مطالعہ کریں اور اس دور کے مامور حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعودؑ کی دعاؤں کو دیکھیں تو انجام بخیر اور خاتمہ بالخیر کی دعائیں کثرت سے ملتی ہیں یا بعض دُعاؤں سے عاقبت اچھی ہونے کا پہلو نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل میں جہاں دن اور رات کی عبادتوں کا ذکر فرمایا ہے تو ساتھ ہی رَبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا (بنی اسرائیل:81) کہ رات دن میں داخلے اور ان میں عبادات کے نیک انجام کے لئے یہ دُعا کرنی چاہیے۔ جسے ہر کام کے نیک آغاز اور انجام کے لئے مجرّب نسخہ کہا جاتا ہے۔ اسے دن کا آغاز کرنے، سال نو کے آغاز پر، رمضان کے آغاز پر پڑھنے کی تاکید ملتی ہے وہاں زندگی کے انجام بخیر کے لئے مجرب کہا گیا ہے۔
٭ حالت ِ اسلام پر موت اور انجام بخیر کی دُعا حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ۔ (یوسف:102) کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ اے میرے رب! مجھے اپنی کامل فرمانبرداری کی حالت میں وفات دینا اور صالحین کی جماعت کے ساتھ رکھنا۔ یہ دُعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوئی۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ111)
٭آنحضور ﷺ کی راتوں کی اللہ کے حضور مناجات اور دعاؤں کو دیکھیں تو بہت سی دعاؤں سے خاتمہ بالخیر کا عندیہ ملتا ہے۔ آنحضور ﷺ سے صبح شام کی دعائیں مروی ہیں اس میں رَبِّ اَسْاَلُکَ خَیْرَ مَافِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ وَ خَیْرَ مَا بَعْدَہٗ اور پھر اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِیْ ھٰذَاالْیَوْمِ وَ شَرِّ مَا بَعْدَہٗ میں دن کے خیر چاہنے اور دن کے شرور سے بچنے کے بعد ’’بَعْدَہٗ‘‘ کے الفاظ غور طلب ہیں۔ان الفاظ کی طوالت انسان کی آخری سانسوں تک جاتی ہے۔ جس میں آخری لمحات میں بھی خیر چاہنے اور شرور سے بچنے کی دُعا کی گئی ہے۔ یہی الفاظ جب شام کی دُعا کرتے وقت ’’اَللَّیْلَۃِ‘‘ کے بعد ’’بَعْدَھَا‘‘ کے الفاظ میں انجام بخیر اورشر سے بچنے کی دُعا سکھلائی گئی ہے۔ اسی لئے تو ہم بزرگوں سے یہ دُعا سنتے آئے ہیں کہ اے اللہ! چلتے پھرتے، صحت کی حالت میں اپنی طرف بُلا لینا۔ کسی کے لیے بوجھ نہ بنانا اور نہ کسی تکلیف دہ بیماری میں مبتلا کرنا۔
٭ ایک دفعہ اعلیٰ روحانی مدارج کے حصول کی دُعا جو حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے میں بھی خواتمہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں میرے ایمان کو صاف کر، میرے درجے بلند کر، میری نماز قبول کر، میرے گناہ بخش دے اور میں تجھ سے جنت میں بلند درجات کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے ہر قسم کی خیر کے آغاز اور انجام اور جامع کلمات اور اس کے اول و آخر اور ظاہر و باطن اور جنت کے بلند درجات کا طلبگار ہوں۔
(مستدرک حاکم جلد اول صفحہ520)
حضرت مسیح موعودؑ کی دعائیں
خاتمہ بالخیر کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور دعائیں بھی ملتی ہیں۔ آپؑ نے اپنے ایک منظوم کلام میں اپنی جسمانی اولاد کے حوالے سے بیان فرمایا:
؎ یہ ہومیں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آوے وقت میری واپسی کا
اولاد کا نیک اور خادم دین ہونا بھی ایک طور پر خاتمہ بالخیر ہے۔ انبیاء کی ایک اولاد روحانی اولاد بھی ہے۔ جو نیک نامی کا موجب ہوتی ہے۔ یہ مضمون سورۃ الکوثر میں بیان ہوا ہے جب کفاراور مشرکین نے آنحضور ﷺ پر نرینہ اولاد نہ ہونے کا الزام لگا یا تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں سورۃ الکوثر نازل فرماکر یہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو روحانی اولاد عطا کی ہے وہ دراصل الکوثر ہے۔ اس انعام پر اللہ کی عبادت کرنے اور قربانی کرنے کا حکم ہے اگر ایسا ہوگا تو دشمن ابتر ٹھہرے گا۔ یہی وجہ ہے آج مسلمانوں میں صحابہؓ کے نام زندہ ہیں جبکہ دشمن اسلام خائب و خاسر ٹھہرا۔
٭ پھر آپ ؑ نے جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے ایک دُعا یوں تحریر فرمائی:
’’میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اُٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خدا تعالیٰ قبول کرے گا ور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں۔‘‘
(تبلیغِ رسالت جلد دہم صفحہ61)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کے نام ایک مکتوب میں جو دُعا عربی زبان میں لکھ کر دی۔ اس میں تَوَفَّنَا فِیْٓ اُمَّۃٍ اور فَاکْتُبْنَا فِیْ عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (مکتوبات احمدیہ جلد1 صفحہ108) کہ ہمیں امتی ہونے کی حالت میں موت دے اور ہمیں اپنے مومن بندوں میں لکھ لے۔ پھر آپ ؑ کے یہ الفاظ ’’اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل محبین میں اُٹھا‘‘ (مکتوب احمدیہ جلد پنجم حصہ پنجم صفحہ18) بھی اس مضمون کی تائید کرتے ہیں۔
پس اوپر بیان شدہ تعلیم کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کو اوّل اپنے اعمال کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اپنا محاسبہ کریں اور اعمال میں سدھار اور بہتری لائیں۔ اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے دعائیں بھی کریں جن کا کچھ حصہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ دعا بھی ملحوظ خاطر رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کے حق میں یہ دعا قبول فرمائے۔
ایک دفعہ کچھ صحابہ ؓنے رسول کریم ﷺ سے عرض کی کہ آپ ؐ نے ڈھیر ساری دعائیں کی ہیں جو ہمیں یاد بھی نہیں رہتیں آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک جامع دعا سکھاتا ہوں۔ تم یہ یاد کرو۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے۔
’’اے اللہ! ہم تجھ سے وہ تمام خیر و بھلائی مانگتے ہیں جو تیرے نبی محمدؐ نے تجھ سے مانگی اور ہم تجھ سے اُن باتوں سے پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمدؐ نے پناہ چاہی۔ تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے۔ پس تیرے تک دُعا کا پہنچانا لازم ہے اور کوئی طاقت یا قوت حاصل نہیں مگر اللہ کو۔‘‘
(ترمذی کتاب الدعوات)
(ابوسعید)