• 28 اپریل, 2024

سورتوں کا تعارف

سورۃالبلد (90 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ،تسمیہ سمیت اس سورۃکی21آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003ء)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ ابتدائی مکی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ عیسائی محققین کے مطابق یہ نبوت کے پہلے سال میں نازل ہوئی تھی۔ اگر اتنے ابتدائی دور میں نازل نہ بھی ہوئی ہو تو نبوت کے تیسرے سال کے اختتام پر یا چوتھے سال سےقبل نازل ہوئی۔ سورۃ الفجر میں آپ ﷺ کو اپنی نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں جس طنز، استہزاء اور طعن و تشنیع کا اور جس مسلسل اور باقاعدہ مخالفت اور ظلم و تعدی کا سامنا ہوا تھا کا ذکر کیا گیاتھا اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ ظلم ابھی مزید دس سال اور چلے گا جس کی طرف دس راتوں میں اشارہ کیا گیاہے۔

موجودہ سورۃ میں آپ ﷺ کو بتایا گیا ہے کہ مکہ کی بستی میں ہی جو آپ ﷺ کا آبائی وطن ہے اور اپنے عزیز و اقارب اور پیروکاروں کی بستی ہے، آپ ﷺ کو ظلم و تعدی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صدیوں قبل، الٰہی حکم کے تابع ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے نیک بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مکہ کے مقدس شہر کی بناء رکھی تھی ان دعاؤں کے ساتھ کہ یہ جگہ روشنی کا ایک ایسا مرکز بن جائے جہاں سے ساری دنیا منور ہو۔ دونوں بزرگ باپ اور بیٹا نے خدائی احکامات کی تکمیل میں بہت مشقت اور تکلیف اٹھائی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں قبول ہوئیں اور آپ ﷺ عین وقت کی ضرورت کے مطابق مبعوث ہوئے اور ساری دنیا کو قرآن کریم جیسی کامل کتاب سے نوازا گیا۔

اس سورۃ میں مزید بتایا گیاہے کہ انسان آسان راستہ اپناتا ہے اور اس راستے پر چڑھنے سے کتراتا ہے جو اس کے بلند اہداف کے حصول کی طرف لے جاتا ہے۔ اس سورۃ کا اختتام اس بیان پر ہواہے کہ جو لوگ اپنے سامنے بڑے خیالات رکھتے ہیں اور انہیں حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوجاتی ہے جبکہ وہ جن کے پاس کوئی اچھے خیالات نہیں ہوتے اور اچھے مقاصد کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے وہ قابلِ مذمت ہو کر ناکامی اور بے چینی کی زندگی گزارتے ہیں۔

سورۃالشمس (91 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ،تسمیہ سمیت اس سورۃکی16آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ متفقہ رائے کے مطابق ابتدائی مکی دور کی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ سورۃ نبوت کے پہلے سال میں نازل ہوئی جبکہ بعض کے نزدیک دوسرے یا تیسرے سال میں نازل ہوئی۔ سورۃ نمبر 89 تا 93 یعنی سورۃ الفجر، سورۃ البلد، سورۃ الشمس، سورۃ اللیل اور سورۃ الضحیٰ کے مضامین میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ ان سب سورتوں میں اخلاقیات کی ترویج پر بہت زور دیا گیاہے خاص طور پر ایسے اخلاق جو کسی معاشرے کی ترقی اور کامیابی کے لئے بے حد ضروری ہیں۔

مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ ایسا ماحول تیار کریں کہ غریبوں کے معیار اور مقام کو بلند کیا جا سکے جو کہ مسلمان معاشرے کا دبا ہوا اور کمزور طبقہ ہے اور انہیں اس قابل بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ معاشرے کی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لے سکیں۔ سابقہ سورۃ میں ایک اشارہ دیا گیا تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام نے کس عظیم مقصد کی خاطر خانہ کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ اس مقصد کا بیان سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 130 میں ہے۔ اس عظیم الشان نبی یعنی حضرت محمد ﷺ اور آپ کے اخلاق فاضلہ کے متعلق موجودہ سورۃ روشنی ڈالتی ہے۔ اپنے اختتام پر یہ سورۃ بتاتی ہے کہ اچھے اخلاق کو ہر کوئی اپنا سکتا ہے جو بدی سے بچے اور نیکی کی راہ اختیار کرے۔ اس سورۃ کا اختتام اس بیان پر ہوا ہے کہ جو لوگ خدائی قوانین کی تردید کرتے ہیں اور بدی کی راہ اختیار کرتے ہیں وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی تباہی کا سامان کرتے ہیں۔

سورۃاللیل (92 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃکی 22آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

مستند مسلم علماء جن میں حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ شامل ہیں کایہ مؤقف ہےکہ یہ سورۃ نہایت ابتدائی مکی دور کی ہے۔ ولیم میور نے بھی ان کی رائے کی تائید کی ہے۔ اس سورۃ کی اپنی سابقہ سورتوں سے خوب مشابہت ہے، خاص طور پر الفجر اور البلد سے۔ سابقہ سورۃ، الشمس میں یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ تعمیر کعبہ کا بنیادی مقصد، جو سورۃ البلد کا بھی مرکزی مضمون تھا، کا حصول بغیر ایک الٰہی پیغمبر کی بعثت کے ممکن نہ تھا۔ موجودہ سورۃ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ایک عظیم معلمِ اخلاق جیسا کہ آپ ﷺ ہیں کو ایسے عظیم الشان پیروکار بطور صحابہ میسر آتے ہیں تو حق کی ترقی کی رفتار دو گنا ہو جاتی ہے۔ اس سورۃ میں آپ ﷺ کے صحابہ کی چند اعلیٰ اخلاقی خوبیوں کا ذکر بھی ہے۔ دوسری طرف دو ایسی بدیوں کا بھی ذکر ہے جو ایک قوم کی نیکیوں کو ضائع کر دینے کا سبب بنتی ہیں۔

سورۃ الضحیٰ (93 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 12آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

ابتدائی دو یا تین سورتوں کے نزول کے بعد کچھ دیر تک آپ ﷺ پر وحی کا نزول نہیں ہوا (جس کو فترۃ الوحی کہتے ہیں)۔ موجودہ سورۃ ان سورتوں میں سے ہے جو وحی کے دوبارہ اجرا پر سب سے پہلے نازل ہوئی۔ اس لئے اس سورۃ کو نہایت ابتدائی دور کی سمجھنا چاہیئے۔ نوڈلکے نے اس سورۃ کو سورۃ البلد کے بعد رکھا ہے اور میور نے اس سورۃ کو سورۃ الانشراح کے بعد رکھا ہے، زمانی ترتیب کے اعتبار سے اس سورۃ میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے کہ آپ ﷺ کا آنے والا ہر لمحہ گزشتہ لمحہ سے بہتر ثابت ہوگا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آپ ﷺ کے آنے کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ یہ پیشگوئی آپ ﷺ کی پے در پے فتوحات سے خوب اچھی طرح پوری ہوئی۔ مضمون کے اعتبار سے یہ سورۃ سابقہ چند سورتوں سے ملتی جلتی ہے۔ سابقہ سورتوں کی طرح یہ عربوں کی چند برائیوں کا ذکر کرتی ہےجس کے وہ عادی تھے، یہ فرق ضرور ہے کہ موجودہ سورۃ میں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کا اپنا مال و دولت کےدرست اور بجا استعمال کا ذکر ہے جبکہ سابقہ سورۃ میں مومنوں اور کفار کے درمیان ما بہ الامتیاز یوں بیان کیا گیا تھا کہ مومن اپنے مالوں سے یتیموں اور ناداروں کا خیال رکھتے ہیں۔ مزید براں سابقہ سورۃ میں یہ بتایا گیا تھا کہ حقیقی متقی اپنی دولت خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، موجودہ سورۃ میں خدا کی ان نعماء کا ذکر ہے جو وہ اپنے چنیدہ بندوں پر کرتا ہے اور خاص طور پر آپ ﷺ کا ذکر کیا گیاہے۔ یوں موجودہ سورۃ اپنی سابقہ سورۃ کے مضمون کا ہی تسلسل ہے۔

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جولائی 2021