• 19 مئی, 2024

اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجدیں بنانا اور اس کی حقیقی شکرگزاری

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اُس کی نعمتوں کو اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے بیان کرو تا کہ اس شکر گزاری کے نتیجے میں جو ایک مومن کے دل سے اللہ تعالیٰ کے لئے پیدا ہو رہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ مزید فضلوں اور انعاموں کا وارث بنائے۔ ایک شکر گزاری تو ہماری یہاں نمازیں پڑھ کر اس مسجد کو آباد کر کے ہو گی۔ اور ایک شکر گزاری افتتاح کے اعلان سے یا اس ظاہری اظہار کے ذریعہ سے بھی ہے جو مہمانوں کے لئے reception یا اُن کا آنا ہے۔ لیکن حقیقی شکر گزاری مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے سے ہی ہے۔ پس یہ اہم بات ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اس ادائیگی حق کو بدلے کے بغیر نہیں چھوڑتا۔ بدلہ بھی اتنا زیادہ ہے کہ اس دنیا میں انسان اُس کا تصور اور احاطہ بھی نہیں کر سکتا۔ ایک حدیث میں ایسے لوگوں کا ذکر اس طرح آیا ہے، جو مسجد کو آباد رکھنے کے لئے، مسجد کا حق ادا کرنے کے لئے اُس میں جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسجد کو صبح شام جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت میں اپنی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے۔

(بخاری کتاب الاذان باب فضل من غدا الی المسجد ومن راح حدیث نمبر662)

پس اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجد میں آنے والوں کے لئے جنت میں مہمان نوازی کے سامان تیار ہو رہے ہیں۔ روزانہ پانچ مرتبہ یہ مہمان نوازی کے سامان تیار ہو رہے ہیں۔ اور پھر جو چالیس، پچاس، ساٹھ سال زندہ رہتا ہے یا اس سے بھی زیادہ لمبی عمر زندہ رہتاہے اور نمازیں ادا کرتاہے تو اُس مہمان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کس قدر سامان تیار کئے ہوں گے، یہ تو ایک انسان کے تصور سے بھی باہر ہے۔ دنیا میں ہمارا کوئی پیارا مہمان آئے تو ہم مہمان کے آنے کا پتہ چلتے ہی انتظامات شروع کر دیتے ہیں اور اس مہمان سے جتنا جتنا پیار اور تعلق ہو اُس کے مطابق اپنی مہمان نوازی کی انتہا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس تو وسائل بھی محدود ہوتے ہیں لیکن خدا جس کے وسائل کی بھی کوئی حدنہیں، جس کی رحمت کی بھی کوئی حدنہیں، جس کی مہمان نوازی کی بھی کوئی حدنہیں ہے وہ کس طرح اپنے عابد بندے کے لئے مہمان نوازی کے سامان کرتا ہوگا۔ یہ چیز انسانی سوچ سے بھی بالا ہے۔ پس ہمیں ایسی مہمان نوازی کے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ یہاں رہنے والا ہر احمدی اس مسجد کا ان شاء اللہ اس سوچ کے ساتھ حق ادا کرنے والا ہو گا کہ حق کی یہ ادائیگی جہاں اللہ تعالیٰ سے اس کے تعلق کو مضبوط کرنے والی اور اُس کا پیارا بنانے والی ہووہاں اپنوں اور غیروں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے والی ہو۔ گویا ایک مومن اگلے جہان کی جنت کے لئے اور اُس کی مہمان نوازی کے حصول کے لئے اس دنیا کو بھی جنت بنانے کی کوشش کرتا ہے یا کر رہا ہوتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا، اس کے لئے ظاہری شکر گزاری بھی ہونی چاہئے۔ یہ ظاہری شکر گزاری اُس حسین معاشرے کے قیام کے لئے بھی ایک کوشش ہے جو اس دنیا کو بھی جنت نظیر بنانے والا ہو۔

گزشتہ دو دنوں میں ریڈیو، ٹی وی اور اخباری نمائندوں نے مختلف وقتوں میں میرے انٹرویو لئے ہیں۔ اُس میں ہر ایک متفرق سوالوں کے علاوہ اس بات میں بھی دلچسپی رکھتا تھا کہ مسجد کا مقصد کیا ہو گا اور اس میں بھی کہ مسجد بنائی ہے تو یہاں کیا ہو گا؟ آپ کے احساس و جذبات کیا ہیں؟ تو میرا یہی جواب تھا کہ ماحول کو پُر امن اور ایک دوسرے کے لئے محبت بھرے جذبات سے بھر کر اس دنیا کو جنت نظیر بنانا، ایک خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا اپنی زندگیوں میں اظہار کر کے دنیا کو امن، صلح اور آشتی کا گہوارہ بنانا، یہ اس کا مقصد ہے۔ پس اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اس مسجد کے ماحول میں، اس شہر میں، اس ملک میں محبت اور پیار کو فروغ دینے کا کام یہاں کے احمدیوں کی پہلے سے بڑھ کر ذمہ داری بن گئی ہے۔ یہ میڈیا کا آنا، انٹرویو لینا، اخبار، ریڈیو، ٹی وی وغیرہ کا مثبت انداز میں اس مسجد کی تعمیر کا ذکر کرنا پھر ہمیں، جیسا کہ مَیں نے کہا، مزید شکر گزاری کی طرف مائل کرتا ہے اور اس طرف ہی لے جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانیوں کا بدلہ اس صورت میں بھی عطا فرمایا ہے کہ میڈیا کو توجہ پیدا ہوئی اور عموماً اچھے رنگ میں جماعت کا اور مسجد کا ذکر ہوا ہے۔

پس یہ دنیاوی سطح پر بھی جماعت کے مخلصین کی قربانیوں کا ذکر انہیں دوبارہ شکر گزاری کے مضمون کی طرف لوٹاتا ہے۔ اور پھر اس شکر گزاری کا حق ادا کر کے انسان اللہ تعالیٰ کے مزید انعامات سے فیض پاتا ہے۔ گویا یہ ایک ایسا فیض کا دائرہ ہے جو اپنے دائرے کے اندر ہی نہیں رہتا بلکہ لہروں کے دائرے کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے۔ آپ پانی میں کنکر پھینکیں یا کوئی چیز پھینکیں تو دائرہ بنتا ہے۔ چھوٹا دائرہ، بڑا دائرہ، بڑا دائرہ اور پھر وہ دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اِس دائرے کی یہ بھی خوبی ہے کہ جب یہ دائرہ انتہا کو پہنچتا ہے تو ختم نہیں ہو جاتا بلکہ انسان کی زندگی میں اگر نیکیاں جاری ہیں تو دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور جب انسان کی زندگی ختم ہوتی ہے تو اگلے جہان میں خدا تعالیٰ اس میں مزید وسعت پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ پس یہ مسجد اس کو آباد کرنے والوں کے لئے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کے سامان لے کر آئی ہے۔ اور ہر مسجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں اُس کا یہی مقصد ہے۔ اُسے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کے سامان لے کر آنا چاہئے۔ اب ان فضلوں اور برکتوں کو سمیٹنا یہاں کے رہنے والوں کا کام ہے۔ جتنی محنت سے اس کو سمیٹنے کی کوشش کریں گے اسی قدر فیض پاتے چلے جائیں گے، یہاں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ قرآنِ کریم میں مسجد کو آباد کرنے والوں کا ذکر اُس آیت میں ایک جگہ آیا ہے جو مَیں نے تلاوت کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔ اب اللہ پر ایمان کی شرط سب سے ضروری ہے جو پہلے رکھی گئی ہے۔ یہ ایمان صرف منہ سے کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کی اور مومن کی بعض نشانیاں بتائی ہیں۔ صرف اسلام میں شامل ہونا مومن نہیں بنا دیتا، جب تک مومنانہ اعمال بجا لانے کی بھی کوشش نہ ہو۔ جب عرب کے دیہاتی آتے تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے تو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا (الحجرات: 15) یہ نہ کہو کہ تم ایمان لے آئے ہو بلکہ یہ کہو کہ ہم نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لیا ہے، فرمانبرداری اختیار کر لی ہے۔ اور ایمان کی یہ نشانی بتائی کہ تم اللہ اور اُس کے رسول کی سچی اطاعت کرو۔

(خطبہ جمعہ30 ؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2021